tag:blogger.com,1999:blog-78343844780814087422024-02-20T11:08:19.495-08:00صدائے قلندرحالات کے قدموں میں قلندر نہیں گرتا ۔۔۔۔ ٹوٹے بھی ستارہ تو زمین پر نہیں گرتا ۔۔۔ بڑے شوق سے گرتے ہیں سمندر میں دریا ۔۔۔ سمندر کسی دریا میں مگر نہیں گرتاالیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.comBlogger29125tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-28875330531827127462012-08-21T00:19:00.000-07:002013-11-22T07:11:55.236-08:00ماں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="color: purple; font-size: large;">ماں</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;"><br /></span>
<span style="color: purple; font-size: large;">رب سوہنے نے بہت سے رشتے بنائے ہیں اور بہت ہی خوبصورت بنائے ہیں مگر '' ماں '' جیسا رشتہ کوئی اور نہیں ہے</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;">میری امی فروری 2012 میں بیمار ہوئیں ٹیسٹ وغیرہ کرونے سے پتہ چلا کہ وہ کینسر کی مریضہ ہیں ۔ ۔ 1 قیامت تھی جو یہ بات سن کر ٹوٹ پڑی</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;">فروری سے جولائی تک میری ماں نے بہت تکالیف برداشت کیں آپریشن بھی ہوا</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;">مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;">کچھ دن صحت ٹھیک بھی رہی مگر شفا تو رب سوہنے کے پاس ہے جسے چاہے دے جسے چاہے نہ دے ۔ پھر آہستہ آہستہ صحت گرتی چلی گئی 14 جولائی سے بول چال کھاا پینا بھی بند ہو گیا ۔ ۔ یہ سب کچھ تھا ماں نہ بولتی تھی نہ کچھ کہہ پاتی تھی مگر پھر بھی دل کو سکون تھا کہ ماں پاس تو ہے ناں ۔ ۔ ۔</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;">میں گھر میں سب سے چھوٹا ہوں زیادہ وقت اپنی ماں کے پاس گزرا ہے چارپائی سے لگی ہوئی اماں جان کو دیکھتا دکھ تو ہوتا ماں کی حالت پر مگر ماں کے پاس ہونے کا احساس دکھ ختم کردیتا تھا ۔ ۔ </span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;">پھ 19 جولائی آن پنہچی صبح سے ہی طبیعت کافی خراب تھی ۔ ۔ ۔ شام کو مغرب کے قریب سانس اکھڑنے لگی خواتین سورۃ یٰسین کی تلاوت کر رہی تھیں مغرب کی نماز کے 15 منٹ بعد اماں جان اپنے خالق حقیقی سے جاملیں</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;">بس وہی وقت ہے جب ہمارے سروں سے ٹھنڈی ور گھنے چھاؤں چھن گئی ۔ ۔ </span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;">دل تھا شدت غم سے پھٹآ جا رہا تھا ۔ ۔ ہائے آج ہماری دعائیں چلی گئیں</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;">وہ حفاظتی حصار جو میںہر لمحہ اپنے اردگرد محسوس کیا کرتا تھا آج وہ حصار حتم ہو گیا ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;">20</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;"> جولائی کو 9 بجے صبح ماں جی کا جنازہ ہوا ۔ ۔ ۔ 1 بہت بڑا جنازہ ۔ ۔ علماء طلباء کی 1 بہت بڑی تعداد شریک تھی ۔ ۔</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;">میں نے بہت علماء کو روتے ہووئے دیکھا کہ آج ہماری ماں چلی گئی ۔ ۔</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;">اپنی بات نہیں لوگ کہتے ہیں کہ جتنا سکون اس '' ماں '' کا جنازہ پڑھ کر ملا اتنا کبھی زندگی میں نہیں ملا ۔ ۔ ۔</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;">جب قبر میں رکھا تو آسمان پہ بادل چھا گئے اور ٹحنڈی ہوا کے جھونکوں نے میری ماں جی کا استقبال کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;"><br /></span>
<span style="color: purple; font-size: large;">پہلی عید ماں کے بغیر ۔ ۔ ۔ سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ بھی نہیں تھا ہمارے پاس ۔ ۔ گھر بار سب اداس تھا اس ایک ہستی کے بغیر ۔ ۔ ۔</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;">ماں کی قبر پہ 2 بار گیا وہاں سکون ملا ۔ ۔ ۔ ۔ </span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;">کسی نے سچ کہا کہ حقیقت میں یتیم وہ ہوتا ہے جس کی ماں نہیں ہوتی</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;"><br /></span>
<span style="color: purple; font-size: large;">یا اللہ ۔ ۔ میری ماں کے ساتھ اسی طرح پیار محبت اور رحم والا معاملہ کر جس طرح میری ماں میرے ساتھ کیا کرتی تھی</span><br />
<span style="color: purple; font-size: large;">آمین ثم آمین</span><br />
<div>
<br /></div>
</div>
</div>
الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-26025218277165087602012-01-24T02:59:00.000-08:002013-11-22T07:05:18.399-08:00شاہ اسماعیل شہید اکابر اہل علم کی نظر میں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<b><span style="font-size: large;"><br /></span></b>
<b><span style="font-size: large;">حجة الاسلام ،فخرالمحدثین حضرت مولانا شاہ محمد اسماعیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ21 ربیع الآخر 1193ھ (اپریل1797ء)کو اپنی ننھیال پھلت ضلع مظفر نگر میں پیدا ہوئے۔آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی محترمہ فاطمہ بتایا گیا ہے۔ وہ مولوی علاﺅ الدین پھلتی کی صاحبزادی تھیں اور آپ کے والد مولانا شاہ عبدالغنی صاحب حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے دوسری بیوی سے سب سے چھوٹے بیٹے اورشاہ عبدالعزیز،شاہ رفیع الدین اورشاہ عبدالقادررحمہم اللہ کے چھوٹے بھائی تھے۔</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">شاہ اسماعیل شہیدصاحب ایک جید عالم ،دینی مفکر،قاطع بدعت،بلند پایہ مبلغ اور عظیم مجاہد تھے ۔ وہ غیر معمولی علمی وسعت کے مالک ،ذہین وفریس ،دین سے انتہائی محبت رکھنے والے اور متقی وپرہیز گار تھے۔ اسلام کی تبلیغ کے لیے حیرت انگیز شجاعت،قلبی واخلاقی بلندی اور بے پناہ بصیرت کے مالک تھے۔آپ کے ان اعلیٰ اخلاق واوصاف اوربلندپایہ صفات وکمالات کاخودآپ کے یگانہ روزگارچچااورخاتم المحدثین شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی اوردیگراکابراہل علم اورتذکرہ نگاروں نے بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیاہے۔ذیل کی چندعبارات سے اس حقیقت کابخوبی اندازہ ہوسکتاہے۔</span></b><br />
<b><br /></b>
<h2 style="text-align: center;">
<b>شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی کاارشاد:</b></h2>
<div style="text-align: center;">
<b><span style="font-size: large;"><br /></span></b></div>
<b><span style="font-size: large;">حضرت شاہ اسماعیل جب اپنے بعض رفقاءکے ساتھ وعظ ونصیحت کے لیے لکھنو ¿ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے ان کی بعض باتوں کواجنبی سمجھا اس پرا یک بزرگ مولوی خیر الدین صاحب نے جناب شاہ عبدالعزیز صاحب کے حضور ایک فتویٰ بھیجا جس کے آخر میں اصلی مقصد بھی تحریر کیا کہ مولانا اسماعیل وغیرہ جس سفر پر نکلے ہیں کیا انہوں نے یہ سفر آپ کی اجازت سے شروع کیا ہے یا اپنے ارادے سے نیز حج کی فرضیت سے متعلق جوموقف انہوں نے پیش کیاہے آپ اس سے متفق ہیں یانہیں؟اس کے جواب میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے یہ الفاظ لکھے:</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">”دوسرے جواب کا مضمون تاج المفسرین، فخر المحدثین ،سرآمد علمائے محققین، مولوی عبدالحئ صاحب ومولوی اسماعیل صاحب کا لکھا ہوا ہے اور احادیثِ قویہ اور اصول و فقہ کی معتبر کتابوں کے موافق ہے چنانچہ ان کی مہر اور دستخط کے مقابل میں نے بھی اپنی مہر تصدیق ثبت کردی ہے ملاحظہ فرمالیں تاکہ اطمینان کلی ہو جائے۔</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">ایسی صورت میں کہ عزیزانِ موصوف کی مہر اور دستخط موجود تھے اِس استفتاءکے میرے پاس بھیجنے کی ضرورت نہ تھی اس لئے کہ یہ دونوں علم تفسیر وحدیث وفقہ واصول و منطق میں مجھ سے کم نہیں ،ان کی مہر اور دستخط گویا میری مہر اور دستخط ہیں ،اللہ تبارک وتعالیٰ کی جو عنایت اِن دونوں عزیز فاضلوں کے شاملِ حال ہے ،اس نعمتِ عظمیٰ کا شکر مجھ سے ادا نہیں ہو سکتا، حق تعالیٰ ان کو اس سے بھی بلند مراتب پر فائز فرمائے، ان لوگوں کے حق میں جو اصل شریعت کے واضح کرنے والے ہیں تمام مومنین کا حق تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنا خود ان کے لئے نجات اخروی کا باعث ہے۔ میرے دوست! مولوی عبدالحی اور مولوی اسمعیل کو علمائے ربانی میں شمار کرنا چاہئے،میرے کرم فرما! اگرچہ ان کلمات سے بظاہر اپنی تعریف نکلتی ہے لیکن امرِ حق کا اظہار واقفوں پر واجب ولازم ہے لہٰذا حق کے معاملے میں چشم پوشی مناسب معلوم نہ ہوئی ،دونوں استفتا ءخط کے ساتھ پہنچیں گے ان کے رسید سے مطلع فرمایا جائے اس وقت ضعف کی وجہ سے اتنے ہی پراکتفا کی گئی اور دونوں کے مجمل کلام کی موجودگی میں میری تفصیل کی چنداں ضرورت بھی نہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے معاش ومعاد میں برکت عطا فرمائے“۔</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">(تاریخ دعوت وعزیمت)</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;"><br /></span></b>
<b><span style="font-size: large;">اس کے علاوہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے یہ الفاظ بھی شاہ اسماعیل شہید کی وسعتِ علم اور فراوانی معلومات پر دلالت کناں ہیں،حضرت شاہ عبدالعزیز آپ کی اورحضرت شاہ محمداسحاق کی مساعی ¿ جمیلہ سے خوش ہو کر اللہ کے حضور ہاتھ اٹھاتے اور فرماتے:</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">”الحمدللّٰہ الذی وہب لی علی الکبر اسمعیل واسحق“(تاریخ دعوت وعزیمت)</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">مولوی رحمان علی مولف تذکرہ علمائے ہند:</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">مولوی رحمان علی صاحب جن کی کتاب تذکرہ علمائے ہند،اہل علم کے حالات وواقعات کاایک معروف اوروقیع مجموعہ ہے ،اس میں انہوں نے حضرت شاہ اسماعیل شیہد کی علمی بلندی کے متعلق درج ذیل الفاظ لکھے ہیں:</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">”ابن مولوی عبدالغنی ،بن مولانا شاہ ولی اللہ درریاضت ورسائی فکر یگانہ روزگار ومشارالیہ علمائے کباربود“</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">یعنی شاہ عبدالغنی کے یہ فرزند اور شاہ ولی اللہ کے پوتے دیانت اور فہم وفکر میں یگانہ روزگار تھے، حلقہ علمائے کبار میں مشار الیہ تھے۔</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">نواب صدیق حسن خان مرحوم:</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">نواب صدیق حسن خان مولانا اسماعیل شہید کی عظیم شخصیت کا اِن الفاظ میں اعتراف کرتے ہیں:</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">”درعلوم معقول ومنقول یاد پیشینیاں از خاطر می برد۔درعلم فروع واصول ائمہ آں را دور ترمی نشاند درہر علم کہ با او سخن رانی،دانی کہ وے امامِ ایں فن است ودر ہر فن کہ باوے مناظرہ کنی شناسی کہ وے حافظ ایں علم است۔ اصول فقہ برنوک زبان داشت وعلم حساب درانگشتاں ،قرآن وحدیث خودمحفوظ سینہ ¿ اوبودوفقہ ومنقول مشق دیرینہ....تمام عمر خود رادر اعلائے کلمة اللہ واحیاءسنن رسول اللہ وجہاد فی سبیل اللہ وہدایت خلق اللہ گزرا نیدودمے باآرام درجائے ازبلاد اسلام نیا سود“۔</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">ترجمہ:علوم معقول ومنقول میں پہلوں کی یاد بھلا دیتے تھے۔ فروغ واصول میں ائمہ کو پرے بٹھا دیتے تھے ۔ جس علم میں ان سے بات کرو گے جان لو گے کہ وہ اس فن کے امام ہیں اور جس فن میں ان سے مناظرہ کی نوبت آئے گی پہچان لو گے کہ وہ اس کے حافظ ہیں۔اصول فقہ نوک زبان تھااورقواعد حساب کوچٹکیوں میں حل کردیتے تھے علوم قرآن وحدیث ان کے سینے میں محفوظ تھے اورفقہ ومنقول میں انہیں پوری مشق حاصل تھی .... ساری عمر خدا کے کلمے کی بلندی رسول اللہ ﷺکی سنتوں کے احیاء، خدا کی راہ میں جہاد اور خلق خدا کی ہدایت میں گزار دی، کسی مقام پر ایک لمحے کے لیے بھی آرام نہ فرمایا“</span></b><br />
<b><br /></b>
<h2 style="text-align: center;">
<b>شاعراسلام علامہ اقبال کافرمان:</b></h2>
<b><br /></b>
<b><br /></b>
<b><span style="font-size: large;"><br /></span></b>
<b><span style="font-size: large;">شاہ محمد اسماعیل کے بعد ہندوستان میں ان کے مرتبے کا کوئی شخص پیدا نہیں ہوا۔ علامہ اقبال مرحوم کا فرمان ہے:</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">”ہندوستان نے ایک مولوی پیدا کیا اور وہ مولوی شاہ محمد اسمعیل کی ذات تھی“</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">(Abdullah Butt,Aspects of Shah Ismail Shadeed.)</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">مولوی عبدالقادررام پوری کااعتراف:</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">شاہ صاحب کی عظیم المرتبت شخصیت بے شمار اوصاف کی حامل تھی ۔ آپ اعلیٰ مرتبے کے فقیہ ،بہترین مقرر اور عمدہ عادات کے مالک تھے۔ ان کے متعلق علم وعمل میں مولوی عبدالقادر رام پوری نے یوں نقل کیا ہے:</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">”دادا اور چچاﺅں کی یاد گار مولوی محمد اسماعیل ہیں جو ذہن کی جودت اور قوت توجیہ میں بے مثل ہیں۔ خدااِن کا نگہبان رہے“۔(وقائع عبدالقادر خانی ،علم وعمل )</span></b><br />
<b><br /></b>
<h2 style="text-align: center;">
<b>مولانافضل حق خیرآبادی کا خراج تحسین:</b></h2>
<b><span style="font-size: large;"><br /></span></b>
<b><span style="font-size: large;"><br /></span></b>
<b><span style="font-size: large;">مولانا فضل حق خیر آبادی اختلاف افکار کے باوجود شاہ اسمعیل کے علم وخلوص اور بلندی اخلاق کے انتہائی قائل تھے ۔”امیر الروایات“ میں ہے:</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">”مولوی عبدالرشید صاحب غازی پوری ،رام پور میں مولوی فضل حق سے پڑھتے تھے۔ یہ( عبدالرشید) ایک مرتبہ کہیں جا رہے تھے اتفاق سے ان کے ایک دوست مل گئے ۔ ان دوست نے ان سے کہا کہ چلو مولوی فضل حق صاحب کے یہاں چلیں تم ان (مولانا اسمعیل صاحب) کے معتقد ہو۔ آج تمہیں تمہارے استاد سے ان پر تبرے سنوائیں گے۔ انہوں نے کہا چلو۔ یہ دونوں وہاں جا کر بیٹھے تو مولوی عبدالرشید صاحب نے کہا حضرت !یہ مجھے یہ کہہ کر لائے ہیں کہ مولوی صاحب سے تمہیں مولوی اسمعیل پر تبرّے سنواﺅں گا ۔ مولوی فضل حق صاحب نے کہا”اچھا!اس غرض سے لائے ہیں،یہ کہہ کر ان پر بہت ناخوش ہوئے اور فرمایا :میں اور مولوی اسمعیل پر تبرّا کروں؟یہ نہیں ہو سکتا اور یہ کہہ کر ان کو اپنی مجلس سے اٹھو ا دیا اور فرمایا کہ میرے یہاں کبھی نہ آنا“۔(امیر الروایات ،ص ۶۲۱)</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">اسی طرح جب شاہ اسماعیل شہیدکی شہادت کی خبرہندوستان پہنچی تواس وقت مولانافضل حق صاحب نے ان کی عظمت وبلندی اورعلم وعمل کے متعلق جو الفاظ فرمائے وہ بھی اعتراف عظمت اوراظہارحقیقت کااعلی نمونہ ہیں۔فضل حسین بہاری تحریرفرماتے ہیں:</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">مولانا فضل حق خیر آبادی علم منطق میں اتنی مہارت رکھتے تھے کہ افلاطون اورسقراط وبقراط کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ۔ وہ مولوی شہید کے معاصر اور بعض مسائل کی تعبیر میں ان کے مخالف تھے۔ جب دہلی میں ان کی بالاکوٹ میں شہادت کی خبر ان کے پاس پہنچی تو طلباءکو درس دے رہے تھے اور مولوی غلام یحییٰ ان سے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے شاہ صاحب کی شہادت کی خبر سنتے ہی انہوں نے کتاب بند کردی ۔ سناٹے میں آگئے اور دیر تک خاموش بیٹھے روتے رہے ۔ اس کے بعد ان کے یہ تاریخی الفاظ ہمیشہ کے لیے لوح قرطاس پر نقش ہو گئے:</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">”اسمعیل کو ہم مولوی نہیں جانتے تھے بلکہ وہ امت محمدیہ کا حکیم تھا۔کوئی شے نہ تھی جس کی اِنِّیّت اور لِمِّیّت اس کے ذہن میں نہ ہو ۔امام رازی نے اگر علم حاصل کیا تو دودچراغ کھا کر اور اسماعیل نے محض اپنی قابلیت اور استعداد خداداد سے“(الحیاة بعد المماة )</span></b><br />
<b><br /></b>
<h2 style="text-align: center;">
<b>حضرت شاہ عبدالغنی محدث دہلوی رحمہ اللہ:</b></h2>
<b><br /></b>
<b><span style="font-size: large;"><br /></span></b>
<b><span style="font-size: large;">حضرت شاہ عبدالغنی محدث دہلوی کا نام نامی کس صاحب علم سے مخفی ہوگا؟خاندان مجددیہ کے چشم و چراغ ، شاہ ابو سعید مجددی کے صاحبزادے اور خاندان شاہ ولی اللہ کے علمی وارث ہیں ۔ علماء دیوبند کا سلسلہ علمی انہی کے واسطے سے شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی سے جڑتا ہے ۔ انہوں نے حضرت شاہ غلام علی مجددی دہلوی کے حالات میں ایک مختصر رسالہ تحریر کیا ہے اور چوں کہ آپ کے والد حضرت شاہ ابوسعید مجددی ان کے ممتاز ترین خلیفہ تھے اس لئے ان کے خلفاء کے تذکرے میں ان کا تذکرہ کیا ہے ۔ اس تذکرے میں اپنے دادا حضرت شاہ صفی القدر مجددی کے بارے میں لکھتے ہیں:</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">ان (حضرت شاہ صفی القدر( کی وفات دو شنبہ 29 شعبان 1236 ھجری کو بلدہ لکھنو میں ہوئی ان کی تاریخ وفات ’’فاز رضوان المودود‘‘ ہے ۔ سیداحمد صاحب اور مولوی اسماعیل شہید اور دوسرے عزیزوں نے خود ان کی تجہیز و تکفین کی۔(مقامات مظہری ، ص543(</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">اس پورے اقتباس سے ان حضرات کے حضرت سیداحمدشہید اور شاہ اسماعیل شہید کے تعلقات کی جو قربت اور اپنائیت واضح ہورہی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہو سکتی ۔</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;"><br /></span></b>
<b><span style="font-size: large;">آخر میں بارگاہ الہی سے یہ التجاء ہے کہ:</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">احب الصالحین و لست منہم</span></b><br />
<b><span style="font-size: large;">لعل اللہ یرزقنی صلاحا</span></b><br />
<div>
<br /></div>
</div>
<span style="color: magenta; font-size: large;"><b><span style="background-color: #e9e9e9; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma, Monaco, Consolas, Courier, monospace, Verdana, Arial, sans-serif; line-height: 25px;">
</span></b></span>
<div style="text-align: center;">
<span style="color: magenta; font-size: large;"><b><span style="background-color: #e9e9e9; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma, Monaco, Consolas, Courier, monospace, Verdana, Arial, sans-serif; line-height: 25px;"><a href="http://www.algazali.org/gazali/showthread.php?tid=3776">یہاں سے لیا گیا</a></span></b></span></div>
<span style="color: magenta; font-size: large;"><b><span style="background-color: #e9e9e9; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma, Monaco, Consolas, Courier, monospace, Verdana, Arial, sans-serif; line-height: 25px;">
</span></b></span></div>
الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-4531722451522042912012-01-24T02:46:00.000-08:002012-01-24T02:46:39.154-08:00گلستان دیوبند کے چند پھولوں کی خوشبو<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<center style="background-color: #ded2ae; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px; text-align: right;"><b><span style="color: black; font-size: x-large;">گلستان دیوبند کے چند پھولوں کی خوشبو</span></b></center><div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><br /></span></div>
<div id="post_message_491546" style="background-color: #ded2ae; text-align: -webkit-auto;">
<div style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px; text-align: right;">
الله رب العزت کے دربار اقدس میں عزت ومرتبہ دلانے والی صفت، صفت عبدیت ہے، جو خاصہ ہے تو اضع کا اور اسی دربار میں ذلیل ورسوا کرنے والی چیز تکبر ہے، اسی خصلت رذیلہ کی وجہ سے ابلیس لعین راندہٴ درگاہ ہوا اور ہمیشہ کے لیے لعنت خداوندی کا مستحق ٹھہرا، اعاذنا الله منہ․</div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><br /></span></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
اگر اخلاص، تواضع او رعبدیت کے کمالات حسنہ سے اپنے کو مزین کر لیا جائے تو پھر ایسے شخص کے لیے اطاعت خداوندی اور تقرب عندالله کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں، اس کی تھوڑی سی خدمت بھی حق تعالیٰ شانہ کے یہاں بہت زیادہ وزنی او رمقبول ہوتی ہے اور دنیا میں بھی اس کے دور رس اور گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
افضل البشر، خدائے بزرگ وبرتر کے بعد سب سے بزرگ ہستی، خاتم الرسل، حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں : </div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
”<span style="color: navy;">آپ صلی الله علیہ وسلم زمین پر بیٹھ جاتے، بکری کا دودھ دوہ لیتے اور غلام کی دعوت بھی قبول فرمالیتے او رارشاد فرماتے: اگر مجھے ایک دست گوشت کی طرف دعوت دی جائے تو اسے بھی قبول کر لوں گا او راگر بکری کا ایک پایہ ہدیہ کیا جائے تو وہ بھی قبول کر لوں گا۔</span>“ (شرح السنة للبغوی)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="color: darkgreen; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
<span style="color: darkgreen;">ایک مرتبہ کسی سفر میں چند صحابہ نے ایک بکری ذبح کرنے کا ارادہ فرمایا او راس کا کام تقسیم فرمایا، ایک نے اپنے ذمہ ذبح کرنا لیا ، دوسرے نے کھال نکالنا، کسی نے پکانا، حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ پکانے کے لیے لکڑی اکٹھی کرنا میرے ذمہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا ،یا رسول الله! یہ کام ہم خود کر لیں گے ، حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو میں بھی سمجھتا ہوں کہ تم لوگ اس کو بہ خوشی کر لو گے، لیکن مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میں مجمع میں ممتاز رہوں اور الله جل شانہ بھی اس کو پسند نہیں فرماتے۔ </span>(الرحیق المختوم)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="color: darkred; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
<span style="color: darkred;">حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے سوال کیا گیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم گھر میں کیا کرتے تھے ؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا ”رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی انسانوں میں ایک انسان تھے، اپنے کپڑے میں خود جوں تلاش کر لیتے ( کہ کسی کے کپڑوں سے نہ آگئی ہو ) بکری کا دودھ دوہ لیتے تھے ، اپنا کپڑا سی لیتے اپنا کام خود کرتے ، اپنا جوتا گانٹھ لیتے اور وہ تمام کام سر انجام دیتے جو مرد اپنے گھروں میں انجام دیتے ہیں او رگھر والوں کی خدمت کرتے ، جب مؤذن کی آواز سنتے تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔</span>“ ( سنن الترمذی)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
یہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کی ایک ادنی سی جھلک ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کی ایک ایک ادا سے تواضع، عاجزی اور عبدیت کا ظہور ہوتا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ مبارک ادائیں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہوئی ساڑھے تیرہ سو سال کے بعددیوبند کے فرزندوں میں پوری طرح روشن چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح دمکتی ہوئی نظر آتی ہیں،</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
سنت نبوی صلی الله علیہ وسلم کا پورے کا پورا نمونہ ان قدسی صفات سے منور نفوس میں پوری طرح نظر آتا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کی ہر خصلت کو ان حضرات نے سینے سے لگایا اور ثابت کر دکھایا کہ عاشق رسول کون ہے اور گستاخ رسول کون ہے۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
دیوبند کے پروانوں میں سے جس پر بھی انگلی رکھ دی جائے وہی بے مثال نظر آتا ہے ، جب حضرت العلام مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیری <img alt="" border="0" class="inlineimg" src="http://pak.net/images/smilies/rahma.gif" style="vertical-align: middle;" title="رحمت اللہ علیہ" /> کی وفات ہوئی تو لاہور میں ان کی یاد میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیا، جس میں خطاب کرتے ہوئے شاعر مشرق نے کیا خوب کہا #</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px; text-align: center;">
<div style="text-align: right;">
<span style="color: navy; text-align: -webkit-auto;">ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے</span></div>
<span style="color: navy;"><div style="text-align: right;">
<span style="text-align: -webkit-auto;">بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا</span></div>
</span></div>
<span style="color: red; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
پھر کہا کہ اسلام کی آخری پانچ سو سالہ تاریخ علامہ انور شاہ کشمیری کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، ایسا بلندپایہ عالم او رفاضل جلیل اب پیدا نہ ہو گا۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شاعر مشرق کی اس بات کا مصداق صرف حضرت کشمیری ہی نہ تھے، بلکہ حضرت کے اساتذہ ، تلامذہ، ہم عصر سب ہی دُریکتا تھے۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="color: red; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
ذیل میں گلستان دیوبند کے چند پھولوں کی تھوڑی تھوڑی خوش بو بطور نمونہ پیش کی جائے گی، ضرورت ہے کہ ان حضرات کی سوانح کا مستقل مطالعہ کرتے ہوئے اپنے لیے راہ عمل کو منتخب کیا جائے کہ ان نفوس قدسیہ کی قوت عمل سامنے ہونے کے بعد ہمارے لیے راہ عمل سے فرار ممکن نہیں رہ جاتا۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px; text-align: center;">
<span style="color: darkred;">حضرت مولانا مملوک علی صاحب نانوتوی رحمہ الله</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
حضرت اقدس، مولانا محمدیعقوب نانوتوی کے والد ماجد اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی وحضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہم الله کے استاذ تھے، بڑے ہی منکسر مزاج، صاحب مروت، خوش اخلاق، متقی، عبادت گزار اور سادہ طبیعت انسان تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نفسانیت ان کے قریب بھی نہیں پھٹکی، ان کا ایک واقعہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ الله نے ”قصص الاکابر“ میں لکھا ہے کہ ” مولانا مملوک علی ہمیشہ دہلی آتے اورجاتے، جب کاندھلہ سے گزرتے تو باہر سڑک پر گاڑی چھوڑ کر ملنے آتے، مولانا مظفر حسین صاحب اول یہ پوچھتے کہ کھانا کھا چکے یا کھاؤ گے؟ اگر کہتے ”کھا چکا“ تو پھر کچھ نہیں او راگر نہ کھائے ہوئے ہوتے تو کہہ دیتے کہ میں کھاؤں گا ۔تو مولانا پوچھتے کہ رکھا ہوا لا دوں یاتازہ پکوا دوں؟ چناں چہ ایک مرتبہ یہ فرمایا کہ رکھا ہوا لادو اس وقت صرف کھچڑی کی کھرچن تھی اسی کو لے آئے اور فرمایا کہ رکھی ہوئی تو یہی تھی انہوں نے کہا بس! یہی کافی ہے۔ پھر جب رخصت ہوتے تو مولانا مظفر حسین صاحب ان کو گاڑی تک پہنچانے جاتے تھے، یہی ہمیشہ کا معمول تھا۔“ ( سیرت یعقوب ومملوک ص:35,34)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="color: sienna; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
<span style="color: sienna;">سبحان الله!</span> سادگی، بے تکلفی، حسن معاشرت کی کیسی جیتی جاگتی تصویر ہے، مولانا مظفر حسین کاندھلوی کا خلوص اور بغیر کسی تصنع کے کھرچن کا پیش کرنا او رمولانا مملوک علی صاحب کا اسے بغیر کسی ناگواری کے بے حد خندہ پیشانی سے قبول کرنا، کتنی بہترین زندگی کی طرف راہ دکھاتا ہے، جس میں سکون ہی سکون ہے۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px; text-align: center;">
<span style="color: red;">حضرت مولانا مظفر حسین صاحب کاندھلوی رحمہ الل</span>ه</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
آپ حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب رحمہ الله کے شاگرد اورحضرت شاہ عبدالغنی صاحب محدث دہلوی رحمہ الله کے ہم سبق تھے۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
”آپ ایک مرتبہ تشریف لے جارہے تھے کہ راستہ میں ایک بوڑھا ملا، جو بوجھ لیے جارہا تھا، بوجھ زیادہ تھا او روہ بمشکل چل رہا تھا، حضرت مولانا مظفر حسین صاحب نے یہ حال دیکھا تو اس سے وہ بوجھ لے لیا اور جہاں وہ لے جانا چاہتا تھا وہاں پہنچا دیا ، اس بوڑھے نے اس سے پوچھا، اجی ! تم کہاں رہتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ بھائی میں کاندھلہ میں رہتا ہوں ، اس نے کہا ” وہاں مولوی مظفر حسین بڑے ولی ہیں“ اور یہ کہہ کر ان کی بڑی تعریفین کیں، مگر مولانا نے فرمایا”[COLOR="rgb(160, 82, 45)"] اور تو اس میں کوئی بات نہیں ہے ، ہاں! نماز تو پڑھ لیتا ہے[/COLOR] “ اس نے کہا واہ میاں ! تم ایسے بزرگ کو ایسا کہو؟ مولانا نے فرمایا میں ٹھیک کہتا ہوں، وہ بوڑھا ان کے سر ہو گیا، اتنے میں ایک اور شخص آیا، جو مولانا کو جانتا تھا، اس نے بوڑھے سے کہا، بھلے مانس ! مولوی مظفر حسین یہی ہیں، اس پر وہ بوڑھا مولانا سے لپٹ کر رونے لگا۔“ (اکابر دیوبند کیا تھے؟ :100 ارواح ثلاثہ:14<img alt="" border="0" class="inlineimg" src="http://pak.net/images/smilies/cool.gif" style="vertical-align: middle;" title="Cool" /></div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px; text-align: center;">
<span style="color: red;">حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ الله</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="color: red; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
آپ بہت خوش مزاج او رعمدہ اخلاق تھے، مزاج تنہائی پسند تھا، اکثر خاموش رہتے، اس لیے ہر کسی کو کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوتا تھا، تعظیم سے نہایت گھبراتے تھے، بے تکلف ہر کسی کے ساتھ رہتے، اپنے کو مولوی کہلانے سے خوش نہیں ہوتے تھے، کوئی نام لے کر پکارتا تو خوش ہوتے۔( بیس بڑے مسلمان:117)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="color: navy; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
<span style="color: navy;">ایک بار حضرت نانوتوی جارہے تھے، ایک جولا ہے نے بوجہ سادگی کے، اپنا ہم قوم سمجھ کر آپ سے پوچھا” صوفی جی! آج کل سوت کا کیا بھاؤ ہے؟“ حضرت نے ذرا بھی ناگواری کا اظہار کیے بغیر فرمایاکہ ”بھائی! آج بازار جانا نہیں ہوا، اس لیے معلوم نہیں کہ کیا بھاؤ ہے</span>۔“ (اصلاحی مضامین:52)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
مولوی امیر الدین صاحب نے فرمایا کہ ایک مرتبہ بھوپال سے مولانا کی طلبی آئی اور پانچ سو روپیہ ماہوار تنخواہ مقرر کی ، میں نے کہا ” اے قاسم! تو کیوں نہیں جاتا“؟ تو فرمایا کہ ” وہ مجھے صاحب کمال سمجھ کر بلاتے ہیں او راسی بنا پر وہ پانچ سو روپے دیتے ہیں، مگر اپنے اندر میں کوئی کمال نہیں پاتا، پھر کس بنا پر جاؤں؟“ میں نے بہت اصرار کیا مگر نہیں مانے۔ ( اصلاحی مضامین:159)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px; text-align: center;">
<span style="color: red;">حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی <img alt="" border="0" class="inlineimg" src="http://pak.net/images/smilies/rahma.gif" style="vertical-align: middle;" title="رحمت اللہ علیہ" /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
حضرت کا ایک واقعہ ہے</div>
</span><span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
کہ ایک صاحب نے آپ کو کھانے کی دعوت دی، آپ نے قبول فرمالی، اس شخص کا گاؤں فاصلے پر تھا، لیکن اس نے سواری کا کوئی انتظام نہیں کیا، جب کھانے کا وقت آیا تو آپ پیدل ہی روانہ ہو گئے،</div>
</span><span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
دل میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ ان صاحب نے سواری کا کوئی انتظام نہیں کیا، سواری کا انتظام کرنا چاہیے تھا،</div>
</span><span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
بہرحال اس کے گھر پہنچے، کھانا کھایا، کچھ آم بھی کھائے، اس کے بعد جب واپس چلنے لگے تو اس وقت بھی اس نے سواری کا کوئی انتظام نہیں کیا، بلکہ الٹا یہ غضب کیا کہ بہت سارے آموں کی گٹھڑی بنا کر حضرت کے حوالے کر دی کہ حضرت! یہ کچھ آ م گھر کے لیے لیتے جائیں۔ اس الله کے بندے نے یہ نہ سوچا کہ اتنی دور جانا ہے اور سواری کا کوئی انتظام بھی نہیں ہے، کیسے اتنی بڑی گٹھڑی لے کر جائیں گے؟ مگر اس نے وہ گٹھڑی مولانا کو دے دی اور مولانا نے وہ قبول کر لی اور اٹھا کر چل دیے۔ اب ساری عمر مولانا نے کبھی اتنا بوجھ اٹھایا نہیں، شہزادوں جیسی زندگی گزاری، اب اس گٹھڑی کو کبھی ایک ہاتھ میں اٹھاتے، کبھی دوسرے ہاتھ میں اٹھاتے ، چلے جارہے ہیں ، یہاں تک کہ جب دیوبند قریب آنے لگا تو دونوں ہاتھ تھک کر چور ہو گئے، نہ اس ہاتھ میں چین، نہ اس ہاتھ میں چین، آخر کار اس گٹھڑی کو اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لیا، جب سر پرر کھا تو ہاتھوں کو کچھ آرام ملا تو فرمانے لگے، ہم بھی عجیب آدمی ہیں، پہلے خیال نہیں آیا کہ اس گٹھڑی کو سر پر رکھ دیں، ورنہ اتنی تکلیف نہ اٹھانی پڑتی۔ او راب مولانا اس حالت میں دیوبند میں داخل ہو رہے ہیں کہ سر پر آموں کی گٹھڑی ہے اب راستے میں جو لوگ ملتے وہ آپ کو سلام کر رہے ہیں، آپ سے مصافحہ کر رہے ہیں، آپ نے ایک ہاتھ سے گٹھڑی سنبھال لی اور دوسرے ہاتھ سے مصافحہ کرتے رہے ، اسی حالت میں آپ اپنے گھر پہنچ گئے اور آپ کو ذرا برابر بھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ کام میرے مرتبے کے خلاف ہے اور میرے مرتبے سے فروتر ہے، بہرحال! انسان کسی بھی کام کو اپنے مرتبے سے فروتر نہ سمجھے، یہ ہے تواضع کی علامت۔ (اصلاحی خطبات:43/3)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px; text-align: center;">
<span style="color: red;">حضرت حاجی امداد الله مہاجر مکی رحمہ الله</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله نے ارشاد فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت حاجی صاحب رحمہ الله کے پاس ایک شخص آئے اور عرض کیا ایسا وظیفہ بتلا دیجیے کہ خواب میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہو جائے، حضرت نے فرمایا کہ آپ کا بڑا حوصلہ ہے! ہم تو اس قابل بھی نہیں کہ روضہ مبارک کے گنبد شریف ہی کی زیارت نصیب ہو جائے۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="color: red; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
<span style="color: red;">الله اکبر!</span> کس قدر شکستگی وتواضع کا غلبہ تھا، اس پر حضرت والا (تھانوی صاحب رحمہ الله) نے فرمایا کہ یہ سن کر ہماری آنکھیں کھل گئیں، حضرت کی عجیب شان تھی، اس فن کے امام تھے ہر بات میں شانِ محققیت وحکمت ٹپکتی تھی، یہی وجہ ہے کہ حضرت کے خادموں میں سے کوئی محروم نہیں رہا، ہر شخص کی اصلاح وتربیت اس کی حالت کے مطابق فرماتے تھے۔ (ملفوظات حکیم الامت:92/1)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
ایک سلسلہ گفت گو میں ( حضرت تھانوی رحمہ الله) نے فرمایا کہ مولانا محمد حسین صاحب الہ آبادی سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ نے حاجی صاحب رحمة الله علیہ میں کیا دیکھا کہ جس کی وجہ سے خادمانہ تعلق رکھ لیا؟ فرمایا اسی وجہ سے تو تعلق قائم کیا کہ وہاں کچھ نہیں دیکھا، مطلب یہ تھا کہ کوئی تصنع کی بات نہیں دیکھی تھی، خوب ہی جواب دیا، واقعی بات تو یہ ہے کہ اپنے بزرگوں میں ایسی باتوں کا نام ونشان نہ تھا، بہت سادہ وضع اور متبع سنت تھے، دوسروں کی کسی قسم کا ڈھونگ نہ تھا، پس یہی طرز قابل پسند ہے۔ ( ملفوظات حکیم الامت:336/2)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px; text-align: center;">
<span style="color: red;">امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں:”حضرت گنگوہی نورا لله مرقدہ کے متعلق مولانا عاشق الہی صاحب لکھتے ہیں کہ سچی تواضع او رانکسار نفس جتنا امام ربانی میں دیکھا گیا دوسری جگہ کم نظر سے گزرے گا، حقیقت میں آپ اپنے آپ کو سب سے کم تر سمجھتے تھے، بحیثیت تبلیغ جو خدمات عالیہ آپ کے سپرد کی گئیں تھیں یعنی ہدایت وراہ بری، اس کو آپ انجام دیتے، بیعت فرماتے، ذکر وشغل بتلاتے، نفس کے مفاسد وقبائح بیان فرماتے او رمعالجہ فرماتے تھے،مگر بایں ہمہ اس کا کبھی وسوسہ بھی آپ کے قلب پر نہ گذرتا تھا کہ میں عالم ہوں او ریہ جاہل، میں پیر ہوں اور یہمرید، میں مطلوب ہوں اور یہ طالب، مجھے ان پر فوقیت ہے ، میرا درجہ ان کے اوپر ہے ، کبھی کسی نے نہ سنا ہو گا کہ آپ نے اپنے خدام کو خادم یا مستوسل یا منتسب کے نام سے یاد فرمایا ہو، ہمیشہ اپنے لوگوں سے تعبیر فرماتے اور دعا میں یاد رکھنے کی اپنے لیے طالبین سے بھی زیادہ ظاہر فرماتے تھے </div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
، ایک مرتبہ تین شخص بیعت کے لیے حاضر آستانہ ہوئے، آپ نے ان کو بیعت فرمایا اور یوں ارشاد فرمایا کہ :” تم میرے لیے دعا کرو، میں تمہارے لیے دعا کروں گا، اس لیے کہ بعض مرید بھی پیر کو تیرا لیتے ہیں۔“۔ ( آپ بیتی:241/2، بحوالہ تذکرہ الرشید:2/174)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
بریلی کے مولوی احمد رضا خان صاحب نے اکابر دیوبند کی تکفیر اور ان پرسب وشتم کا جو طریقہ اختیار کیا تھا وہ ہر پڑھے لکھے انسان کو معلوم ہے، ان فرشتہ صفت اکابر پر گالیوں کی بوچھاڑ کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، لیکن حضرت گنگوہی رحمہ الله نے جو اس دشنام طرازی کا سب سے بڑا نشانہ تھے، <span style="color: red;">ایک روز اپنے شاگرد رشید حضرت مولانا محمدیحییٰ کاندھلوی صاحب سے فرمایا:” اجی! دور کی گالیوں کا کیا ہے ؟ پڑی ( یعنی بلا سے ) گالیاں ہوں، تم سناؤ، آخر اس کے دلائل تو دیکھیں، شاید کوئی معقول بات ہی لکھی ہو تو ہم ہی رجوع کریں۔</span>“ (ارواح ثلاثہ:211)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="color: navy; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
<span style="color: navy;">الله اکبر! حق پرستوں کا شیوہ کہ مخالفین، بلکہ دشمنوں کی باتیں بھی ان کی دشنام طرازیوں سے قطع نظر، اس نیت سے سنی جائیں کہ اگر اس سے اپنی کوئی غلطی معلوم ہو تو اس سے رجوع کر لیا جائے۔ </span>( اکابر دیوبند کیا تھے؟114)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px; text-align: center;">
<span style="color: red;">شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی صاحب <img alt="" border="0" class="inlineimg" src="http://pak.net/images/smilies/rahma.gif" style="vertical-align: middle;" title="رحمت اللہ علیہ" /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله لکھتے ہیں:</div>
</span><span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
”میری عمر پندرہ سولہ سال کی ہو گی کہ دارالعلوم کی قدیم عمارت نودرہ کے عقب میں ایک عظیم الشان دارالحدیثتعمیر کرنے کی تجویز ہوئی ، اس کے لیے بڑی گہری بنیادیں نودرہ کی عمارت سے متصل کھودی گئیں، اتفاقِ وقت سے بڑی تیز بارش ہوئی او رکافی دیر تک رہی ، یہ زمین کچھ نشیب میں تھی ، بارش کے پانی سے ساری بنیادیں لبریز ہو گئیں، دارالعلوم کی قدیم عمارت کو خطرہ لاحق ہو گیا، فائز بریگیڈئیر انجنوں کا زمانہ نہیں تھا اور ہوتا بھی تو ایک قصبہ میں کہاں؟</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
حضرت شیخ الہند رحمہ الله کو اس صورت حال کی اطلاع ملی تو اپنے گھر میں جتنی بالٹیاں اور ایسے برتن تھے، جن سے پانی نکالا جاسکے، سب جمع کرکے حضرت کے مکان پر جو طالب علم او ردوسرے مریدین جمع رہتے تھے، ان کو ساتھ لے کر ان پانی سے بھری گہری بنیادوں پر پہنچے اور بدست خود بالٹی سے پانی نکال کر باہر پھینکنا شروع کیا، شیخ الہند رحمہ الله کے اس معاملہ کی خبر پورے دارالعلوم میں بجلی کی طرح پھیل گئی، پھر کیا پوچھنا، ہر مدرس اور ہر طالب علم اور ہر آنے جانے والا اپنے اپنے برتن لے کر اس جگہ پہنچ گیا اور بنیادوں کا پانی نکالنا شروع کیا، احقر بھی اپنی قوت وحیثیت کے مطابق اس میں شریک تھا، میں نے دیکھا کہ چند گھنٹوں میں یہ سارا پانی بنیادوں سے نکل کر کیچڑ رہ گیا تو اس کو بھی بالٹیوں سے صاف کیا گیا۔ اس کے بعد ایک قریبی تالاب پر تشریف لے گئے اور طلبہ سے کہا کہ اس میں غسل کریں گے ، حضرت رحمہ الله اول عمر سے سپاہیانہ زندگی رکھتے تھے، پانی میں تیراکی کی بڑی مشق تھی، حضرت کے ساتھ طلبہ بھی جو تیرنا جانتے تھے وہ درمیان میں پہنچ گئے، مجھ جیسے آدمی جو تیرنے والے نہ تھے کنارے پر کھڑے ہو کر نہانے لگے ، یہ واقعہ تو خود احقر نے دیکھا او ر سیرو شکار میں طلبہ کے ساتھ بے تکلف دوڑنا بھاگنا، تالابوں میں تیرنا یہ عام معمول زندگی تھا، جس کے بہت سے واقعات دوستوں اور بزرگوں سے سنے ہیں، دیکھنے والے یہ نہ پہچان سکتے تھے کہ ان میں کون استاد اور کون شاگرد؟ “( چند عظیم شخصیات:11)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px; text-align: center;">
<div style="text-align: right;">
<span style="color: red; text-align: -webkit-auto;">مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمان صاحب رح</span></div>
<span style="color: red;"><div style="text-align: right;">
<span style="text-align: -webkit-auto;">:</span></div>
</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانی صاحب <img alt="" border="0" class="inlineimg" src="http://pak.net/images/smilies/rahma.gif" style="vertical-align: middle;" title="رحمت اللہ علیہ" /> تحریر فرماتے ہیں:</div>
</span><span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
”حضرت مفتی صاحب منصب اور عہدہ کے لحاظ سے دارالعلوم دیوبند کے مفتی اکبر ( بعد کی اصطلاح میں صدر مفتی) تھے، تفسیر یا حدیث کا کوئی سبق بھی پڑھا دیتے تھے، اس کے ساتھ وہ نقش بندی مجددی طریقہ کے صاحب ارشاد شیخ بھی تھے، حضرت شاہ عبدالغنی مجددی رحمہ الله کے خلیفہ حضرت مولانا شاہ رفیع الدین <img alt="" border="0" class="inlineimg" src="http://pak.net/images/smilies/rahma.gif" style="vertical-align: middle;" title="رحمت اللہ علیہ" /> کی راہ نمائی اور تربیت میں راہ سلوک طے کی تھی اوران ہی کے مجاز تھے،</div>
</span><span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
وہ دارالعلوم کے اس وقت کے اکابر واساتذہ میں سب سے بڑے، بلکہ سب کے بڑے تھے اور سب ہی ان کا بڑا احترام کرتے ہیں، حضرت مفتی صاحب میں جو کمال بہت ہی نمایاں تھا، جس کو ہم جیسے صرف ظاہری آنکھیں رکھنے والے بھی دیکھتے تھے، وہ ان کی انتہائی بے نفسی تھی، معلوم ہوتا تھا کہ الله کے اس بندہ کے اندر وہ چیز ہے ہی نہیں جس کا نام نفس ہے، یہ بات عام طور پر مشہور تھی کہ گھروں کے جو کام نوکروں اور نوکرانیوں کے کرنے کے ہوتے ہیں، حضرت مفتی صاحب عند الضرورت وہ سب کام ( جیسے گھر میں جھاڑو دینا، برتنوں کا دھونا، مانجھنا وغیرہ) یہ سب بے تکلف، بلکہ بشاشت اور خوشی کے ساتھ کر لیتے ہیں ، آس پاس کے غریب گھرانوں کے پیسے پیسے ، دو دو پیسے کا سودا بھی خرید کے بازار سے لادیتے ہیں، دوسروں کے پھٹے جوتے لے جاکر ان کی مرمت کرالیتے ہیں۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
راقم سطور شہادت دے سکتا ہے کہ بے نفسی کا ایسا کوئی دوسرا نمونہ اس عاجز نے نہیں دیکھا۔“( تحدیث نعمت:ص127)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px; text-align: center;">
<span style="color: red;">امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری <img alt="" border="0" class="inlineimg" src="http://pak.net/images/smilies/rahma.gif" style="vertical-align: middle;" title="رحمت اللہ علیہ" /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
حضرت مولانا محمد یوسف بنوری فرماتے ہیں کہ طلاق کے ایک مسئلہ میں کشمیر کے علماء میں اختلاف ہو گیا، فریقین نے حضرت شاہ صاحب کو حَکَم بنایا، حضرت شاہ صاحب نے دونوں کے دلائل غور سے سنے، ان میں سے ایک فریق اپنے موقف پر ”فتاویٰ عمادیة“ کی ایک عبارت سے استدلال کر رہا تھا، حضرت شاہ صاحب نے فرمایا:” میں نے دارالعلوم کے کتب خانہ میں فتاوی عمادیہ کے ایک صحیح قلمی نسخے کا مطالعہ کیا ہے ، اس میں یہ عبارت ہر گز نہیں ہے ، لہٰذا یا توان کا نسخہ غلط ہے، یا یہ لوگ کوئی مغالطہ انگیزی کر رہے ہیں۔“</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
ایسے علم وفضل اور ایسے حافظے کا شخص اگر بلند بانگ دعوے کرنے لگے تو کسی درجہ میں اس کو حق پہنچ سکتا ہے ، لیکن حضرت شاہ صاحب اس قافلہٴ رشدوہدایت کے فرد تھے جس نے”من تواضع لله“ کی حدیث کا عملی پیکر بن کر دکھایا تھا، چنا ں چہ اسی واقعہ میں جب انہوں نے حضرت بنوری کو اپنا فیصلہ لکھنے کا حکم دیا تو انہوں نے حضرت شاہ صاحب الحبر البحر(عالم متبحر) کے دو تعظیمی لفظ لکھ دیے، حضرت شاہ صاحب نے دیکھا تو قلم ہاتھ سے لے کر زبردستی خود یہ الفاظ مٹائے اور غصہ کے لہجے میں مولانا بنوری سے فرمایا:</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
”آپ کو صرف مولانا محمد انور شاہ لکھنے کی اجازت ہے۔“</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
پھر ایسا شخص جو ہمہ وقت کتابوں ہی میں مستغرق رہتا ہو ، اس کا یہ جملہ ادب وتعظیم کتب کے کس مقام کی نشان دہی کرتا ہے کہ:</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
” میں مطالعہ میں کتاب کو اپنا تابع کبھی نہیں کرتا، بلکہ ہمیشہ خود کتاب کے تابع ہو کر مطالعہ کرتاہوں“۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
چناں چہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں کہ:</div>
</span><span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
” سفر وحضر میں ہم لوگوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ لیٹ کر مطالعہ کر رہے ہوں یا کتاب پر کہنی ٹیک کر مطالعہ میں مشغول ہوں، بلکہ کتاب کو سامنے رکھ کر مؤدب انداز سے بیٹھتے ، گویا کسی شیخ کے آگے بیٹھے ہوئے استفادہ کر رہے ہوں۔“</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
اور یہ بھی فرمایا کہ:</div>
</span><span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
” میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد اب تک دینیات کی کسی کتاب کا مطالعہ بے وضونہیں کیا۔“( اکابر دیوبند کیا تھے:97)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px; text-align: center;">
<span style="color: red;">حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب <img alt="" border="0" class="inlineimg" src="http://pak.net/images/smilies/rahma.gif" style="vertical-align: middle;" title="رحمت اللہ علیہ" /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں کہ : </div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
”حقیقت یہ ہے کہ علمائے دیوبند کا جو خاص امتیاز ہے وہ یہ تھا کہ اپنے آپ کو مٹانا، اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھتا، جب میں تھانہ بھون میں حاضر ہوا، حضرت رحمة الله علیہ کو الله تعالیٰ نے ایک شان جلال او رایک رعب اور وجاہت عطا فرمائی تھی، چہرہ مبارک بڑا وجیہ تھا، اگر وہ اپنی وجاہت کو چھپانا بھی چاہیں تو نہیں چھپا سکتے، لیکن ان سب باتوں کے باوجود طالب علموں اور دوسرے لوگوں میں ملے جلے رہتے تھے، ایک مرتبہ میں نے مغرب کے بعد آپ کو دیکھا کہ ایک صاحب کرتا اتار ے ہوئے، صرف پائجامہٴ پہنے ہوئے، حوض کے پاس چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں، میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا او رمجھے پتہ بھی نہیں کہ یہ حضرت والا لیٹے ہوئے ہیں او رپاس میں طلبہ بھی تھے، بعد میں پتہ چلا کہ حضرت والا لیٹے ہوئے ہیں۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
اس طرح ان حضرات کی خاص شان تھی، یہ چیز دنیا میں شاذونادر ہی ملتی ہے ،یہ خصوصی وصف الله تعالیٰ نے ان بزرگوں کو دیا تھا، افسوس! اب ہمیں پاس بزرگوں کی صحبت حاصل نہیں رہی، صرف مدارس اورکتابیں رہ گئی ہیں ، الله تعالیٰ ہمارے اندر بھی یہ وصف پیدا فرما دے، آمین۔“ ( مجالس مفتی اعظم:526)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
حضرت تھانوی رحمہ الله کے معمولات میں یہ بات لکھی ہے کہ آپ نے یہ عام اعلان کر رکھا تھا کہ کوئی شخص میرے پیچھے نہ چلے، میرے ساتھ نہ چلے، جب میں تنہا کہیں جار ہاہوں تو مجھے تنہا جانے دیا کرو، حضرت فرماتے کہ یہمقتدا کی شان بنانا کہ جب آدمی چلے تو دو آدمی اس کے دائیں طرف اور دو آدمی اس کے بائیں طرف چلیں، میں اس کو بالکل پسند نہیں کرتا، جس طرح ایک عام انسان چلتا ہے ، اسی طرح چلنا چاہیے۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="color: red; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
<span style="color: red;">ایک مرتبہ یہ اعلان فرمایا کہ اگر میں اپنے ہاتھ میں کوئی سامان اٹھا کر جارہا ہوں تو کوئی شخص آکر میرے ہاتھ سے سامان نہ لے ، مجھے اسی طرح جانے دے، تاکہ آدمی کی کوئی امتیازی شان نہ ہو اور جس طرح ایک عام آدمی رہتا ہے اس طریقے سے رہے</span>۔ ( اصلاحی خطبات:32/5)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px; text-align: center;">
<span style="color: red;">شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحب <img alt="" border="0" class="inlineimg" src="http://pak.net/images/smilies/rahma.gif" style="vertical-align: middle;" title="رحمت اللہ علیہ" /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
مولانا سید عطاء الله شاہ بخاری <img alt="" border="0" class="inlineimg" src="http://pak.net/images/smilies/rahma.gif" style="vertical-align: middle;" title="رحمت اللہ علیہ" /> سے روایت ہے کہ یوپی کی ایک جگہ میری تقریر تھی ، رات کو تین بجے تقریر سے فارغ ہو کر لیٹ گیا، نیند اور بیداری کے درمیان تھاکہ مجھ کو محسوس ہوا کہ کوئی میرے پاؤں دبا رہا ہے ، میں نے کہا کہ لوگ اس طرح دباتے رہتے ہیں، کوئی مخلص ہو گا۔ مگر اس کے ساتھ یہ معلوم ہورہا تھا کہ یہ مُٹھی تو عجیب قسم کی ہے باوجود راحت کے نیند رخصت ہوتی جارہی تھی، سر اٹھایا تو دیکھا کہ حضرت مدنی ہیں! فوراً پھڑک کر چار پائی سے اتر پڑا اور ندامت سے عرض کیا، حضرت! کیاہم نے اپنے لیے جہنم جانے کا خود سامان پہلے سے کم کر رکھا ہے کہ آپ بھی ہم کو دھکا دے کر جہنم بھیج رہے ہیں ؟! شیخ نے جواب دیا کہ آپ نے دیر تک تقریر کی تھی، آرام کی ضرورت تھی اور آپ کی عادت بھی تھی اور مجھ کو سعادت کی ضرورت۔ ساتھ ہی نماز کا وقت بھی قریب تھا میں نے خیال کیا کہ آپ کی نماز ہی نہ چلی جائے، تو بتائیے حضرت میں نے کیا غلط کیا ہے؟ ( بیس بڑے مسلمان:515)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
مولانا عبدالله فاروقی حضرت رائے پوری رحمہ الله سے بیعت تھے، لاہور دہلی مسلم ہوٹل میں برسہا برس خطیب رہے ، ان کا بیان ہے کہ میں مدینہ منورہ حاضر ہوا اور مولانا مدنی رحمہ الله کے ہاں قیام کیا، ایک روز جب مولانا کے ساتھ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے گیا تو میں نے مولانا کا جوتا اٹھالیا، مولانا اس وقت تو خاموش رہے، دوسرے وقت جب ہم نماز پڑھنے کے لیے گئے، تو مولانا نے میرا جوتا اٹھاکر سر پر رکھ لیا، میں پیچھے بھاگا، مولانا نے تیز چلنا شروع کر دیا، میں نے کوشش کی کہ جوتالے لوں، نہیں لینے دیا، میں نے کہا کہ خدا کے لیے سر پر تونہ رکھیے، فرمایا! عہد کرو کر آئندہ حسین احمد کا جوتا نہ اٹھاؤ گے۔ میں نے عہد کر لیا، تب جوتا سر سے نیچے اتار کر رکھا۔ ( بیس بڑے مسلمان:516)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="color: navy; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
یہ چند شخصیات کا ادنیٰ سا او رمختصر سا نمونہ پیش کیا گیا ہے ورنہ اکابر علماء دیوبند کا چمنستان ایسا وسیع، خوش بو دار اور پھل دار ہے کہ پوری دنیا اس سے فیض حاصل کر رہی ہے اور کرتی رہے گی، یہ حضرات نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے علوم واعمال کو اپنے سینوں میں اتارنے والے، شب وروز میں انجام پانے والے ہر ہر عمل سے متعلق سنت نبوی صلی الله علیہ وسلم کو اپنانے والے اور ہر ہر فرد تک اسے پہنچانے والے تھے۔ اس گلستان کے ہر ہر پھول کی تاریخ پر کتب تک لکھی جاسکتی ہیں اور لکھی گئیں، ضرورت ہے کہ ان حضرات کی سوانح کو مستقل مطالعہ میں رکھ کر ان کی صفات قدسیہ کو اپنایا جائے۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Tahoma; font-size: 24px; line-height: 36px;"><div style="text-align: right;">
الله رب العزت ہم سب کو ان اکابرین کی صفات کو اپنانے کی اور ان کو پھیلانے کی </div>
<div style="text-align: right;">
توفیق عطا فرمائے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<a href="http://www.algazali.org/gazali/showthread.php?mode=linear&tid=3745&pid=25922#pid25922">یہاں سے نقل کیا گیا</a></div>
</span></div>
</div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-38195200150283255172011-11-30T04:07:00.001-08:002011-11-30T04:08:53.532-08:00محرم کی بدعات اور رسوم<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<div align="center" style="border-color: initial; border-style: initial; direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span class="Apple-style-span" style="color: red; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: x-large;"><span class="Apple-style-span" style="line-height: 36px;"><b><br /></b></span></span></div>
<div align="center" style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 24pt; line-height: 36px;"><b><span color="#0f5987" style="color: #0f5987;"><span class="Apple-style-span" style="border-color: initial; border-style: initial;">محرم کوفضلیت کس لئے حاصل ہوئی؟</span></span><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 24pt;"></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><b>کسی وقت، کسی دن یا مہینہ کو عظمت وفضلیت حاصل ہونے کی اصل وجہ اﷲ تعالی کی خاص تجلیات، انوار و برکات اور رحمتوں میں متوجہ اورظاہر ہوناہے، (لیکن بعض اہم واقعات کا اس وقت میں واقع ہوجانا بھی دوسرے درجہ میں فضلیت کا باعث ہو جاتا ہے جیسا کہ رمضان میں قرآن مجید کا نازل ہونا اور شب قدر وغیرہ کا واقع ہونا وغیرہ) اور فضلیت حاصل کرنے کا طریقہ(اصولی یا جزوی طریقہ پر) وحی کے ذریعہ سے ہی معلوم ہوسکتا ہے، اپنی طرف سے کسی دن یا تاریخ میں خاص فضلیت کی بنیاد اپنی طرف سے کسی اور چیز کو قرار دے دینا یا فضلیت حاصل کرنے کاکوئی خاص طریقہ اپنی طرف سے متعین کر لینا يہ تمام چیزیں ناجائز، گناہ اور شریعت پر زیادتی ہیں۔ لہٰذا جو لوگ يہ سمجھتے ہیں کہ محرم کے مہینے یا دس محرم کے دن کی فضلیت حضرت حسینؓ کی شہادت کی وجہ سے حاصل ہو ئی وہ لوگ غلطی میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ اس مہینہ کی فضلیت تو کربلا کے واقعہ سے بہت پہلے آسمان وزمین کی پیدائش سے ہی چلی آرہی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس وقت کربلا کے واقعہ کا نام ونشان بھی نہیں تھا۔ اسی طرح دس محرم کے دن کی فضلیت بھی بہت پہلے سے چلی آرہی ہے۔ يہاں تک کہ يہودونصاریٰ اور قریش مکہ بھی اس دن کی عظمت و فضلیت کے قائل تھے۔ حضور ﷺنے دس محرم کے روزے کے فضائل بیان فرمائے اور ظاہر ہے کہ اسو قت تک کربلا کا واقعہ پیش نہیں آیا تھا،البتہ يہ کہا جائے گا کہ خود حضرت حسینؓ کی شہادت اس مہینے اور اس دن میں اسلئے واقع ہوئی کہ يہ مہینہ اور دن فضلیت کا تھا ، اﷲ تعالیٰ نے اس مقدس مہینے کے اس مبارک دن کواپنے مقبول بندے حضرت حسینؓ کی شہادت کے واسطے منتخب فرما دیا غرضیکہ اس دن کو حضرت حسینؓ کی شہادت کی وجہ سے کوئی فضلیت حاصل نہیں ہوئی بلکہ خود حضرت حسینؓ کو دن شہید ہونے سے فضلیت حاصل ہوئی۔</b></span></span></span></div>
<div align="center" style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 24pt; line-height: 36px;"><b>کیا محرم غم کا مہینہ ہے؟<a href="http://www.ownislam.com/articles/urdu-articles/1386-2010-12-14-10-35-11"><span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #0070c0; font-size: 24pt;"></span></a></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><b>بعض نا واقف لوگ ایسے بھی ہیں محرم کے مہینے کو رنج وغم کا مہینہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مہینہ میں کربلا کا سانحہ پیش آیا تھا جس میں حضرت حسین ؓاور دوسری عظیم ہستیوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا تھا لہٰذا يہ مہینہ غم کا ہے اور اسی وجہ سے يہ لوگ اس مہینے میں خوشی کے کام (شادی بیاہ وغیرہ) انجام دينے سے پرہیز کرتے ہیں اور بعض لوگ خوشی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہوئے مختلف قسم کے سوگ کرتے ہیں (مثلاً کالا لباس پہننا، عورتوں کا زیب وزینت اور بنا<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: Arial, sans-serif; font-size: 16pt;">ﺅ<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt;"> سنگھار چھوڑ دینا، میاں بیوی کے خصوصی تعلقات سے رکے رہنا، مرثيے پڑھنا، نوحہ ، ماتم کرنا وغیرہ وغیرہ) اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو يہ سمجھ لینا چاہیے کہ يہ خیال بالکل غلط ہے کہ يہ مہینہ غمی کا ہے کیونکہ يہ مہینہ تو بہت محترم اور فضلیت بلکہ عبادت والا مہینہ ہے اور دس محرم کے دن، تاریخ اسلام کے بہت بڑے عظیم اور خوشگوار واقعات رونما ہوئے ہیں اور دوسری بات يہ ہے کہ غمی کا واقعہ پیش آنے سے وہ مہینہ یا دن غم کےلئے مخصوص نہیں ہو جاتا کہ اس میں ہمیشہ غم کیاجاتا رہے اور صدییاں گزرنے کے باوجود اس کو غم کا مہینہ بنائے رکھنا تو بہت بڑی حماقت ہے ۔۔</span></span></b></span></span></span></div>
<div align="center" style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 24pt; line-height: 36px;"><b>کیا محرم نحوست کا مہینہ ہے ؟؟؟</b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><b>بعض لوگ اس مہینہ کو نحوست کا مہینہ سمجھتے ہیں۔زمانہ جاہلیت میں لوگ بعض دنوں بعض تاریخوں اوربعض جانوروں یا انسانوں میں نحوست سمجھتے تھے خاص کر عورت، گھوڑے اور مکان میں نحوست کا زیادہ اعتقاد رکھتے تھے اور آج کل بعض مہینوں (مثلاً محرم ،صفر وغیرہ) اور بعض دنوں، تاریخوں اور جگہوں میں نحوست سمجھی جاتی ہے خاص طور پر جس تاریخ یا جس جگہ میں کوئی حادثہ ، ہلاکت یا کوئی نقصان اورغمی کا واقعہ پیش آجائے اس کو منحوس سمجھاجاتا ہے ،اور واقعہ کربلا کے محرم کے مہینہ میں پیش آجانے کی وجہ سے اسی بنیاد پر محرم کے مہینہ کو بہت سے لوگ منحوس خیال کرتے ہیں يہاں تک کہ جو بچہ محرم کے مہینہ میں پیدا ہوجائے اس کو بھی منحوس خیال کیا جاتا ہے ۔ جبکہ اسلام کے اصولوں اور رسول اﷲ ﷺ کی احادیث سے ثابت ہے کہ کوئی زمانہ یا دن تاریخ اپنی ذات میں منحوس نہیں ہے،غمی کا واقعہ پیش آنے سے زمانہ منحوس نہیں بن جاتا ، اور زمانہ تو اﷲ تعالیٰ کی مخلوق ہے اس کی طرف نحوست یا برائی منسوب کرنا گناہ ہے احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: red;">۔ ايک حدیث قدسی میں ہے :۔<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"></span></span></span></b></span></span></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #c00000; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18pt; line-height: 27px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;"><b>نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ اﷲ تعالی فرماتے ہیں کہ بنی آدم مجھے ایذاء دیتا ہے ( یعنی میری شان کے خلاف بات کہتا ہے اور وہ اس طرح) کہ وہ زمانہ و برا بھلا کہتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہوں (یعنی زمانہ ميرے تابع اور ماتحت ہے) میرے قبضہ قدرت میں تمام حالات اور زمانے ہیں میں ہی رات ودن کو پلٹتا(کم زیادہ کرتا) ہوں ۔</b></span></span></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #7030a0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>(بخاری، مسلم، ابو داود، موطا امام مالک، مشکوة ص13<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">)</span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>فائدہ<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">:</span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><b>زمانہ بذات خودکوئی چیز نہیں وہ تو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آیا ہے اوراسی کے حکم سے چلتا ہے، نحوست اگر ہے تو انسان کی بد اعمالیوں یا اپنے خیالات کی بنیاد پر ہے ۔ اول محرم کا مہینہ خود فضلیت والا مہینہ ہےاوراس میں کوئی نحوست نہیں ہے دوسرے حضر حسین ؓ کی شہادت کی وجہ سے اس مہینہ کو غمی یا نحوست کا مہینہ سمجھنے سے يہ لازم آتا ہے کہ نعوذ باﷲ شہادت کوئی بری یا منحوس چیز ہے جبکہ شرعی اعتبار سے شہادت ايک عظیم سعادت والا عمل ہے جو ہرکس وناکس کو بآسانی میسر نہیں آتا، اور شہادت ایسی عظیم سعادت اور دولت ہے جس کی تمنا خود اپنے لئے محمد<em style="border-color: initial; border-style: initial;"> مصطفےٰ</em>ﷺ نے بھی کی ہے اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی ہے اور شہید کے لئے بڑے اجروانعام ، اعزاز و اکرام اور بےشمار نعمتوں کی خوشخبری سنائی ہے ۔</b></span></span></span></div>
<div align="center" style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #00b0f0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 26pt; line-height: 40px;"><b>شہادت کے فضائل</b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #7030a0; font-family: _PDMS_Saleem_QuranFont; font-size: 18pt; line-height: 27px;"><b>آیت: <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات، بل احیاءولکن لا تشعرون (البقرہ<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">)<span style="border-color: initial; border-style: initial;"></span></span></span></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>ترجمہ:<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">اور جو لوگ اس کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کی نسبت یوں بھی مت کہو کہ وہ (معمولی مردوں کی طرح) مردے ہیں بلکہ وہ تو (ايک ممتار حیات کے ساتھ) زندہ ہے لیکن تم (ان) حواس سے (اس حیات کا) ادارک نہیں کر سکتے۔</span></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #7030a0; font-family: _PDMS_Saleem_QuranFont; font-size: 18pt; line-height: 27px;"><b>آیت:<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اﷲ امواتا، بل احیاءعند ربھم یرزقون۔ فرحین بما اتا ہم اﷲ من فضلہ۔(آل عمران<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">)</span></span></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>ترجمہ:<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">اور جو اﷲ کے راستے میں شہید ہو جائیں ان کو مردے مت خیال کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے مقرب ہیں ان کو رزق ملتا ہے وہ اﷲ کے فضل میں سے دئيے ہوئے پر خوش ہوتے ہیں۔</span></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><b>ان آیات میں اﷲ تعالی نے شہیدوں کی کئی فضلتیں ذکر فرمائی ہيں۔ ايک يہ کہ شہیدوں کو شہادت کے بعد برزخ میں ہمیشہ کی امتیازی زندگی عطا ہوتی ہے تم ان کو عام مردوں کی طرح مردہ نہ خیا ل کرو دوسری فضلیت يہ ذکر ہوئی کہ شہید اپنے رب کے مقرب ہیں ان کو خصوصی قرب حاصل ہوتا ہے۔تیسری فضلیت يہ ذکر ہوئی کہ شہیدوں کو رزق عطا ہوتا ہے اس پر خوش ہوتے ہیں يہ روحانی رزق يہ یعنی جسمانی و روحانی دونوں قسم کا رزق ملتے ہیں۔ یاد رہے شہید کو شہادت کے بعد جو زندگی عطا ہوتی ہے يہ صرف روح کی زندگی نہیں ہے بلکہ روح کا تعلق جسم کے ساتھ بھی خاص درجہ کا دوسروں سے امتیازی ہوتا ہے ورنہ تو ان کو مردہ کہنے کی ممانعت کو کائی مطلب نہیں کیونکہ روح تو تمام مردوں ہی کی زندہ ہے۔</b></span></span></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #7030a0; font-family: _PDMS_Saleem_QuranFont; font-size: 18pt; line-height: 27px;"><b>آیت:<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">ولئن قتلتم فی سبیل اﷲ اومتم لمغفرة من اﷲ ورحمة خیر مما یجمعون (آلعمران<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">)</span></span></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>ترجمہ:<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">اور اگر تم اﷲ کے رساتے میں شہید ہو گئے یا طبعی موت کا شکار ہوئے بہر صورت اﷲ تعالی کی طرف سے حاصل ہونے والی مغفرت اور رحمت (جو اﷲ کے راستے میں حاصل ہوتی ہے) وہ ان چیزوں سے بہتر ہے جو لوگ جمع کرتے ہیں۔</span></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><b>اس آیت میں شہیدوں کو مغفرت اور رحمت حاصل ہونے کی خوشخبری ہے اور اس کا ثبوت ہے کہ دنیا کی مال ودولت اور دوسری چیزوں سے بہتر نعمتیں ان کو حاصل ہوتی ہیں۔</b></span></span></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #7030a0; font-family: _PDMS_Saleem_QuranFont; font-size: 18pt; line-height: 27px;"><b>آیت:<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;">والذین ھاجروا سبیل اﷲ ثم قتلوا اوماتو الیرزقنہم اﷲ رزقا حسنا، وان اﷲ لھو خیر الرازقین۔ لیدخلنھم مدخلا یرضونہ (الحج<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">)</span></span></span></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>ترجمہ:<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">اور جنہوں نے اﷲ کے راستے میں ہجرت کی پھر شہید ہوگئے یا طبعی موت کا شکار ہوئے اﷲ تعالیٰ نے ان کو بہترین رزق عطا فرمائے گا اور بیشک اﷲ بہترین رزق دينے والے ہیں۔ اور ان کو ایسی جگہ داخل کرےگا جس کو وہ خود پسند کریں گے۔</span></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><b>اس آیت میں شہید سے دو چیزوں کا وعدہ ہوا ہے ايک بہترین رزق کا دوسرا اپنی پسند کی جگہ یعنی جنت میں داخلہ کا يہ دونوں بہت بڑے اعزاز ہیں۔</b></span></span></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #7030a0; font-family: _PDMS_Saleem_QuranFont; font-size: 18pt; line-height: 27px;"><b>آیت:<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">ومن یطع اﷲ والرسول فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیھم من النبین والصدیقین والشھداءوالصالحین(نسائ<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">)</span></span></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>ترجمہ:<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">اور جو اﷲاور رسول کی اطاعت کرے گا تو ایسے آدمی ان لوگوں کے ساتھ ہوں کے جن پر اﷲ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء، صدیقین، شہدااور صالحین۔</span></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><b>اس آیت میں اﷲ تعالی نے شہيدوں کی يہ فضلیت بیان فرمائی ہے کہ وہ اﷲ تعالی کے انعام یافتہ لوگوں میں سے ہیں، اور يہ کہ انبیا ءصدیقین کے بعد سب سے بڑھ کر شہیدوں کا مقام و مرتبہ ہے۔</b></span></span></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: red; font-family: _PDMS_Saleem_QuranFont; font-size: 18pt; line-height: 27px;"><b>حدیث:<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #7030a0; font-size: 18pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">لوددت انی اعزوفی سبیل اﷲ فاقتل ثم اغزو فاقتل ثم اغرو فاقتل (بخاری فی الجہاد، مسلم فی الا مارة، نسائی فی الجھاد، ابن ماجہ فی الجہاد، مسند احمد ، دارمی فی الجہادو موطا امام مالک فی الجہاد<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">)</span></span></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; color: red; font-size: 16pt;"><b>ترجمہ:<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;">حضور ﷺ نے فرمایامیںپسند کرتا ہوں کہ میں اﷲ کے راستے میں جہاد کروں اور شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کی جاؤں پھر شہید کیا جاؤں۔</span></span></span></span></b></span></span></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #7030a0; font-family: _PDMS_Saleem_QuranFont; font-size: 18pt; line-height: 27px;"><b>حدیث:<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">ما احد یدخل یحب ان یرجع الی الدنیا، ولہ ما علی الارض من شیئی الا الشہیدیتمنی ان یرجع الی الدنیا فیقتل عشر مرات لما یری من الکرامة (البخاری فی الجہاد، مسلم فی الامارة، ترمذی فی الجہاد، نسائی فی الجہاد ومسند احمد<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">)</span></span></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><b>ترجمہ: کوئی شخص جنت میں داخل ہونے کے بعد يہ تمنا نہیں کرے گا کہ اس دنیا میں لوٹایا جائے یا دنیا کی کوئی چیز دی جائے سوائے شہید کے کہ وہ تمنا کرےگا کہ وہ دنیا میں لوٹایا جائے اور دس مرتبہ شہید کیا جائے، يہ تمنا وہ (شہید) اپنی تعظیم(اور مقام) ديکھنے کی وجہ سے کرے گا۔</b></span></span></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #7030a0; font-family: _PDMS_Saleem_QuranFont; font-size: 18pt; line-height: 27px;"><b>حدیث:<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">من سال اﷲ الشہادة بصدق بلغہ اﷲ منازل الشہدآ ءو ان ما ت علی فراشہ۔(مسلم فی الا مارة ترمذی فی الجہاد، نسائی فی الجہاد، ابو ادؤد فی الصلوة، ابن ماجہ فی الجہاد، دارمی فی الجہاد<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">)</span></span></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>ترجمہ:<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">جس نے سچے دل کے ساتھ اﷲتعالی سے شہادة مانگی اﷲ تعالی اسے شہیدوں کے مقام تک پہنچا دے گا اگرچہ وہ بستر پر مرے ۔</span></span></span></b></span></div>
<div align="center" style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #7030a0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 20pt; line-height: 31px;"><b>اس کے علاوہ شہید کے بارے میں فضائل بھی احادیث میں آئے ہیں مثلاً<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 20pt;">:</span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>(1)<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">شہید کے قرض کے علاوہ تمام گناہ بخشش ديئے جاتے ہیں(مسلم<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">)</span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>(2)<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">شہید پر فرشتوں کے پروں کے سايہ ہوتا ہے (بخاری ومسلم<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">)</span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>(3)<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">شہادت پر جنت میں داخلہ کی ضمانت(ایضاً<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">)</span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>(4)<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">شہید سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں سے ہے(ترمذی<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">)</span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>(5)<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں میں داخل کر دی جاتی ہیں وہ جنت کی نہروں پر اترتے ہیں جنت کے میوے کھات ہیں، عرش کے سائے کے نيچے سونے کی قندیلوں پر بيٹھتے ہیں(صحیح مسلم، ابوداؤد و مستدرک<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">)</span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>(6)<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">قبر کے فتنے اور قیامت کے دن کی بے ہوشی سے نجات دی جاتی ہے(نسائی<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"> )</span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>(7)<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">اپنے گھر والوں میں سے ستر(70) کی شفاعت کا حق عطا کیا جاتا ہے(ابو داود، بیہقی<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">)</span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>(8)<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">شہید کے پہلے قطرے کے ساتھ بخشش کر دی جاتی ہے ،جنت میں اس کا مقام دکھا دیا جاتا ہے قیامت کے دن کی گھبراہٹ سے امن ديدے جاتا ہے، اس کے سر پروقار کا تاج رکھا جاتا ہے جس کا ايک یاقوت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے،72حورعین سے اس کی شادی کر دی جاتی ہیں(مسند احمد، ترمذی، مصنف عبدالرزاق، ابن ماجہ<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">)</span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>(9)<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">خون خشک ہونے سے پہلے حور عین کی زیارت کرادی جاتی ہے (ابن ماجہ، ابن ابی شبیہ، مصنف عبدالرزاق<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">)</span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><b>يہاں شہادت کے چند فضائل ذکر کيے گئے ہیں ورنہ شہید کہ بارے میں بے شمار فضائل آئے ہیں اور جب محرم الحرام عبادت اور عظمت والا مہینہ ہے تو اس مہینہ میں شہادت کی عظمت اس مہینے کی وجہ سےاور بھی زیادہ ہوجاتی ہے، لہٰذا حضرت حسینؓ کی شہادت کی وجہ سے اس مہینہ کو نحوست یا غم کا مہینہ سمجھنا سراسر غلط ہے۔ اگر کوئی شبہ کرے کہ يہ فضائل تو شہید کے لئے ہیں لیکن ہمارے اعتبار سے اس طرح کی شہادت رنج وغم کا باعث ہے لہٰذا ہمیں اس پر سوگ اور ماتم کرنا چاہيے اس کا جواب آگے آرہا ہے۔</b></span></span></span></div>
<div align="center" style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #00b0f0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 24pt; line-height: 36px;"><b>محرم میں سوگ اور ماتم</b></span></div>
<div align="center" style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: red; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18pt; line-height: 27px;"><b>شرعی اعتبار سے سو گ کرنا صرف چند صورتوں میں عورتوں کے حق میں ثابت ہے اور وہ يہ ہیں<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">:</span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>(1)<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">جس عورت کو اس کے شوہر نے طلاق بائن (ایسی طلاق جس میں نکاح ختم ہوجاتا ہے) دیدی ہو اس پرعدت کے زمانہ میں سوگ کرنا واجب ہے ۔عدت ختم ہونے کے بعد واجب نہیں بلکہ جائز بھی نہیں۔</span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>(2)<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">جس عورت کا خاوند فوت ہوگیا ہو اس پر عدت کے زمانہ میں سوگ کرنا واجب ہے عدت کے بعد واجب نہیں بلکہ جائز بھی ۔</span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>(3)<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">شوہر کے علاوہ کسی قریبی رشتہ دار(باپ بيٹے وغیرہ) کے فوت ہونے پر صرف تین دن تک عورت کو سوگ کرنے کی اجازت ہے واجب اور ضروری نہیں تین دن کے بعد يہ اجازت بھی نہیں۔</span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><b>اس کے علاوہ اورکسی موقعہ پر عورت کو سوگ کرنے کی اجازت نہیں اورمرد کو تو سوگ کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں اور شرعی سوگ کاطریقہ يہ ہے کہ عورت اتنے عرصہ میں ایسے کپڑے نہ پہننے اور ایسا رنگ ڈھنگ اختیار نہ کرے جس سے مردوں کو کشش اور میلان ہوتا ہو۔ خوشبو ، سرمہ، مہندی اور دوسری زیب و زینت اور بناؤ<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">سنگھار کی چیزیں چھوڑدے۔ اس کے علاوہ اپنی طرف سے سوگ کے طریقے اختیار کرنا جائز نہیں مثلاً غم کے اظہار کےلئے مخصوص رنگوں کے (مثلا کالے) کپڑے پہننا وغیرہ۔</span></span></b></span></span></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: red; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18pt; line-height: 27px;"><b>حدیث:<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #00b050; font-size: 18pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">حضرت ام سلمہؓ حضور اکرم ﷺ نے نقل کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جس عورت کا شوہر وفات پاگیا وہ عدت گزرنے تک عصفر سے رنگا ہوا اور خوشبو والی مٹی سے رنگا ہوا کپڑا اور خضاب بھی نہ لگائے اور سرمہ نہ لگائے۔ (مشکوة ص289بحوالہ ابوداود، نسائی<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;"> )</span></span></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: red; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18pt; line-height: 27px;"><b>حدیث:<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #00b050; font-size: 18pt;">حضرت ابو سلمہؓ کی صاحبزادی حضرت زینت ؓ نے بیان فرمایا کہ جب ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کو(ان کے والد) حضرت ابو سفیانؓ کی موت کی خبر پہنچی تو انہوں نے تیسرے دن خوشبو منگائی جو زردرنگ کی تھی اور اپنے بازروں اور رخساروں پر ملی اور فرمایاکہ مجھے اس کی ضرورت نہ تھی (لیکن اس ڈر سے کہ کہیں میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنے والی عورتوں میں شمار نہ ہو جا<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: Arial, sans-serif; font-size: 18pt;">ﺅ<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18pt;"> میں خوشبو لگائی ) میں نبی کریمﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا ہے کہ ” ایسی عورت کے لئے جو اﷲ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو يہ حلال نہیں ہے (کسی کے فوت ہونے پر) تین دن رات سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کے کہ اس (کی موت ہو جانے) پر چار مہینہ دس دن سوگ کرے ( صحيح مسلم<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;">)</span></span></span></span></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 24pt; line-height: 36px;"><b>فائدہ<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 24pt;">:<span style="border-color: initial; border-style: initial;"></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: red; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18pt; line-height: 27px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 18pt;"><b>حضر ت حسن وحسینؓ کے نانا جان اور حضرت فاطمہؓ کے والد ماجد حضورﷺ نے تو فرمایا کہ جو عورت اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو اس کےلئے حلال نہیں کہ شوہر کے علاوہ کسی بھی شخص کی وفات پر (خواہ کتنا بڑا بزرگ ہی کیوں نہ ہو) تین دن سے زیادہ سوگ کرے، پھر تعجب کی بات ہے کہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت حسن و حسینؓ سے محبت کے دعوی ہوتے ہوئے 1400 سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی سوگ ہو رہا ہے کہ حضرت حسن و حسین اپنے نانا جان ﷺ کے ارشادات اور احکام کے خلا ف چلنے والوں سے کيسے خوش ہوں گے؟</b></span></span></span></div>
<div align="center" style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 22pt; line-height: 33px;"><span color="#0f5987" style="color: #0f5987;"><span class="Apple-style-span" style="border-color: initial; border-style: initial;"><b>ذرا سوچئے اور غور کيجئے يہ کیسا سوگ ہے</b></span></span></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: red; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18pt; line-height: 27px;"><b>کہ جس میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت ہو اور اس میں اتنی وعید ہو کہ اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھنے کے عقیدہ کو (جو کہ ایمان کی بنیاد ہے ) اس کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا ہو؟</b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><b>اس تفصیل کی روسنی میں وہ حضرات اپنا جائزہ لیں جو محرم میں حضرت حسین ؓ کی شہادت کے غم میں مختلف من گھڑت رسمیں اور سوگ کرتے ہیں اور يہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ہم تو حضرت حسینؓ کی یاد میں يہ سوگ کرتے ہیں جبکہ شریعت مطہرہ نےکسی ايسے دن یا مہینہ کے منانے کے اجازت نہیں دی جو اس طرح کے رنج وغم کے اظہار یا رونے دھونے کے مظاہرہ کے لئے مخصوص ہو، بلکہ اسلام میں کسی بڑے سے بڑے آدمی کی موت و حیات یا شخص حالات کو مقصود و بنیاد بنا کر غمی وخوشی کو کوئی دن منانے کا تصور نہیں ہے۔ حضرت حسینؓ کی شہادت کا واقعہ اگرچہ انتہائی المناک ہے مگر لوگوں کے ذہنوں میں يہ غلط بات بیٹھی ہوئی ہے کہ دنیا میں حضرت حسین ؓ کی شہادت اور کوئی سانحہ پیش نہیں آیا حالانکہ دنیا میں اس سے بدرجہا زیادہ مظلومیت کے بے شمار انوہناک واقعات ہیں۔ اور اسلام میں اگر يہ غم کے دن منانے کی رسم چلے تو ايک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ انبیاءکرام ؑ ہیں جن کی پیدائش سے لیکر شہادت اور وفات تک دنیا میں پیش آنے والے مصائب وتکالیف کی ايک لمبی فہرست ہے، قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں سینکڑوں واقعات انبیا ؑ کے مصايب و تکالیف سے متعلق موجود ہیں۔<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"></span></b></span></span></span></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><b>نوحؑ کا قصہ ہو یا ابراہیم ؑ کا،یعقوبؑ کا ہو یا موسیؑ کا ، یونس ؑ کا ہو یا لوط ؑ کا، ہر ايک واقعہ تکلیفوں کے بے شمار انبار نظر آئیں گے۔انبیاء کے بعد خاتم الانبیائﷺ کی حیا ت طیبہ کو ديکھا جائے تو آپ کی زندگی کاکوئی دن نہیں ہر گھنٹہ اور ہر ساعت ولمحہ دنیا کی خاطر تکلیفوں، امت کے دوروغم اور آخرت کی فکر میں مصروف نظر آئے گا۔ آنحضرت ﷺ کے بعد تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ کرام ؓ وہ ہیں جن میں سے ہر ايک در حقیقت رسول اﷲ ﷺ کا زندہ معجزہ ہے ۔ اور يہ سلسلہ چل پڑے تو پھر صحابہ کرام ؓ کے بعد امت کے اکابر ،اولیاءاﷲ، علما و مشائخؒ پر نظر ڈالی جائے جو کروڑوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہےں۔ ان حضرات کو دین کی خاطر پیش آنے والے مصائب ، تکالیف اور مشقتوں کا ايک طویل باب ہے جن کو سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔اوراگر يہ طے کر لیا جائے کہ سبھی کے یاد گاری دن منائے جائیں تو سال بھر میں ايک دن بھی یاد گار منانے سے خالی نہیں رہے گا بلکہ ہر دن کے ہر گھنٹہ میں کئی کئی یادگاریں منانی پڑیں گی ؟ ان کی یا دگار اصل يہی ہے کہ ان سے عبرت اور سبق حاصل کرکے اپنی آخرت کی تیاری کی جائے ۔</b></span></span></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><b><br /></b></span></span></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><a href="http://www.jmmpak.org/index.php/videos/tv-videos/75-hazrat-molana-muhammad-ahmed-ludhianvi-sb/index.php?option=com_content&view=article&id=1609:2011-11-10-10-35-06&catid=195:urdu-article--&Itemid=644"><b>محرم کی بدعات اور رسوم</b></a></span></span></span></div>
</div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-78864093118447858492011-11-30T03:37:00.001-08:002011-11-30T03:39:22.677-08:00صحابہ سے حسنِ ظن - حنفی موقف<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br />
<div style="border-color: initial; border-style: initial; direction: rtl; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span class="Apple-style-span" style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: x-large;"><span class="Apple-style-span" style="line-height: 36px;"><b><br /></b></span></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف میں ایک کتاب "الفقہ الاکبر" کو بھی شمار کیا جاتا ہے۔<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>اس کتاب میں آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں<span style="border-color: initial; border-style: initial;"> <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial;">:</span></span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #c00000; font-family: 'Arabic Typesetting'; font-size: 20pt; line-height: 31px;"><b>نتولاهم جميعا ولا نذكر الصحابة<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 20pt;"></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں آخری الفاظ یوں ہیں<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"> :</span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #c00000; font-family: 'Arabic Typesetting'; font-size: 20pt; line-height: 31px;"><b>ولا نذكر أحداً من اصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم إلالخير<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 20pt;"></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<b><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;">ہم سب صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی کا ذکر بھلائی کے علاوہ نہیں کرتے۔</span></span><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"></span></span></b></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس کی شرح میں مزید لکھتے ہیں<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"> :</span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>یعنی گو کہ بعض صحابہ سے صورۃ شر صادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بنا پر ایسا ہوا اور ان کا شر سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ، ان سے حسن ظن کا یہی تقاضا ہے۔</b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #c00000; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>بحوالہ<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"> : <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">شرح الفقہ الاکبر ، ص:71</span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>الفقہ الاکبر کے ایک اور شارح علامہ ابوالمنتہی احمد بن محمد المغنی ساوی لکھتے ہیں<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"> :</span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<b><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><span style="color: #0f5987;"><span class="Apple-style-span" style="border-color: initial; border-style: initial;">اہل السنۃ و الجماعۃ </span></span>کا <a href="http://www.ownislam.com/books/english-books/other-english-books/1231-the-maslak-of-the-ulema-of-deoband" style="border-color: initial; border-style: initial; color: #0f5987;">عقیدہ</a> یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ان کی اسی طرح تعریف کی جائے جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔</span></span><span style="border-color: initial; border-style: initial;"></span></b></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #c00000; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>بحوالہ<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"> : <span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">شرح الفقہ الاکبر ، مطبوعہ مجموعۃ الرسائل السبعۃ حیدرآباد دکن - 1948ء</span></span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b>امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے <a href="http://www.ownislam.com/books/english-books/other-english-books/1231-the-maslak-of-the-ulema-of-deoband" style="border-color: initial; border-style: initial; color: #0f5987;">عقیدہ</a> و عمل کے ترجمان امام ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب <span style="color: #0f5987;"><span class="Apple-style-span" style="border-color: initial; border-style: initial;">"العقیدہ الطحاویۃ"</span></span> میں لکھا ہے<span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"> :</span></b></span></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<b><span style="border-color: initial; border-style: initial;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;">ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں، ان میں سے نہ کسی ایک کی محبت میں افراط کا شکار ہیں اور نہ ہی کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔ اور جو ان سے بغض رکھتا ہے اور خیر کے علاوہ ان کا ذکر کرتا ہے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں اور ہم ان کا ذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں۔ ان سے محبت دین و ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر و نفاق اور سرکشی ہے۔</span></span><span style="border-color: initial; border-style: initial;"></span></b></div>
<div style="border-color: initial; border-style: initial; color: #555555; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 12px; line-height: 19px; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #c00000; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b><a href="http://www.ownislam.com/articles/english-articles/1402-aqidah-al-tahawiyya">بحوالہ</a><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><a href="http://www.ownislam.com/articles/english-articles/1402-aqidah-al-tahawiyya"> : </a><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;">شرح العقیدہ الطحاویۃ ، ص:467</span></span></b></span><br />
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #c00000; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><br /></span></span></b></span><br />
<span style="border-color: initial; border-style: initial; color: #c00000; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt; line-height: 24px;"><b><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><span style="border-color: initial; border-style: initial; font-size: 16pt;"><a href="http://www.jmmpak.org/index.php/videos/tv-videos/75-hazrat-molana-muhammad-ahmed-ludhianvi-sb/index.php?option=com_content&view=article&id=1616:2011-11-10-11-07-59&catid=195:urdu-article--&Itemid=644">صحابہ سے حسن ظن</a></span></span></b></span></div>
</div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-40474446846134821992011-11-26T19:02:00.001-08:002011-11-29T09:12:48.170-08:00اور دل ہے کہ اداس بہت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">نیٹو کا حملہ 24 مسلمان پاکستانی فوجی شہید ۔ ۔ ۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اٰمین</span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">پاکستان کی سر زمین پر ایک عرصہ سے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ۔ ۔ کچھ غیروں کا ستم کچھ اپنوں کا کرم ۔ ۔ ۔ ۔ </span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br /></span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">کل شام کو جب یہ خبر سنی یقین مانئیے دل بجھ سا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ یوں لگا جیسے کسی نے دل کو مٹھی میں جکڑ لیا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ میرے خدا یہ کیا معاملہ ہے ۔ ۔ ۔ آج مسلمان کا خون اتنا سستا کیوں ہو گیا ہے ۔ ۔ ۔ کبھی ڈرون آتے ہیں اور معصوم وبے گناہ مسلمانوں کو شہید کرتے ہیں اور کبھی یہ امریکی بے غیرت آتے ہیں ہمارے ملک کی خود مختاری کو تہس نہس کرتے چلے جاتے ہیں ۔ ۔ </span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اپنے ملک سے محبت کسے نہیں ہوتی اگرچہ جو بندہ یہاں اسلام یا جہاد کی بات کرے اسے دہشت گرد کا لقب مل جاتا ہے ۔ ۔ ۔ میں بھی یہاں اسلام چاہتا ہوں کفار سے جہاد کا حامی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر پاکستا ن کے ہر زخم پر میں تڑپ کے رہ جاتا ہوں ۔ ۔ ۔ میں کبھی پاکستان کا پرچم نیچا نہیں دیکھنا چاہتا مجھے یہ پرچم اونچا فضا میں لہراتا بہت ہی پیارا لگتا ہے ۔ ۔ ۔</span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کل شام سے یوں لگ رہا ہے کہ میرا یہ پرچم گر گیا ہے ۔ ۔ ۔ میری دھرتی تڑپ رہی ہے ۔ ۔ ۔ کہ میرے محافظ کہاں گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ </span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">ایسے میں میرے موبائل سے جنید جمشید کی آواز ابھرتی ہے ۔ ۔ طارق بن زیاد کی دعا ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ طارق بن زیاد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اپنے شاندار ماضی کی حسین یادوں میں کھو جاتا ہوں ۔ ۔ ۔ جہاں مجھے جرات اور بہادری اور غیرت نظر آتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں سوچ میں پڑگیا ہم کیا سے کیا ہو گئے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ بہادر سے بزدل ۔ ۔ ۔۔ ۔ غیرت مند سے بے غیرت ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں ہوا یہ سب ۔ ۔ ۔ کیسے ہوا یہ سب ۔ ۔ </span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">تصور پرواز کرتا ہوا ۔ ۔ ۔ اپنے آقا و مولا محمد رسول اللہ صل: کے روضہ انور </span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">پر جا پنہچا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے خودی میں ہاتھوں نے حلقہ بنا لیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آنکھیں برسنے لگیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پلکیں قدمین شریفین کے بوسے لینے لگیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔</span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اس تصور میں ہی ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آنکھیں برسنے لگیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ساون کی جھڑی لگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ </span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">عرض کی کہ آقا صل: ۔ ۔ ۔ آپ کے غلام بہت پریشان ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ہم غلاموں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیٹیاں لٹ گئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسجدیں گرا دی گئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمان کاٹ دئیے گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلامی ممالک تباہ ہو گئے ۔ ۔ </span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">یہ سب کیوں ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔آقا صل: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم بہت پریشان ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کا رب ہم سے ناراض ہو گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم ذلتوں میں گر گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔</span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">آواز آئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان ذلتوں کا انتخاب تم نے خود کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس غلام کو پسند تم نے خود کیا ہے ۔ ۔ مسلمان کے خون کو بے قیمت تم نے خود کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ </span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">میں نے تو تمہیں بتایا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عزت کی راہ دکھائی تھی ۔ ۔ ۔ غیرت کی زندگی بتائی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ مگر تم روگردانی کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غیروں کی بات کو مانا مجھے چھوڑ دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ کہ 2 چیزوں کو اپنے اندر نہ آنے دینا ۔ ۔ حب الدنیا و کراہیۃ الموت ۔ ۔ ۔ دنیا کی محبت اور موت کی نفرت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں کہ یہ دونوں تمہیں غیرت کی زندگی سے دور کردین گی ۔ ۔ ۔</span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">غیرت کی زندگی کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔</span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">آواز آئی جہاد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں غیرت کی زندگی جہا د ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔</span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">تم دنیا سے محبت اور موت سے نفرت کروگے تو وَھَن جیسے مرض کا شکار ہو جاوگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ </span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم غیرت کی راہ یعنی جہاد کو چھوڑ دو گے ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کیا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ذلت تمہارا مقدر بن جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ </span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br /></span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">میں تصور کی دنیا سے نکلا ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں کہ میں سمجھ گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ کہ یہ ذلت ہمارا مقدر کیوں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ </span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br /></span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اور دل ہے کہ اداس بہت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ </span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br /></span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br /></span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br /></span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br /></span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br /></span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br /></span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br /></span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br /></span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br /></span></b></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-14367577189519394892011-11-23T04:02:00.001-08:002011-11-23T04:06:09.445-08:00ثانی اثنین کون ( حصہ سوم و آخری)<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<div id="pid_18012" style="background-color: #ece9e3; padding-bottom: 5px; padding-left: 0px; padding-right: 0px; padding-top: 5px;">
<br />
<div style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: 16px; line-height: 22px; text-align: right;">
<span style="color: red; font-size: large;">قارئین کرام</span><span class="Apple-style-span" style="color: navy; font-size: large;"> !</span></div>
<span style="font-size: large;"><div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; line-height: 22px;"><br /></span></div>
<span style="color: navy; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: 16px; font-weight: bold; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="color: deeppink;">حصہ دوم میں آپ شیعہ کابرین کے بیانات پڑھ رہے تھے اس کا کچھ حصہ اور ملاحظہ فرمائیں ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد اس مضمون کا تتمہ ہو گا ۔ ۔ ان شاء اللہ</span></div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span class="Apple-style-span" style="color: navy; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: 16px; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
امام حس عسکری کے شاگرد اور کلینی کے استاد شیعہ کے مشہور مفسر شیخ علی بن ابراہیم القم نے اپنی تفسیر قُمی میں آیت غار کے تحت امام جعفر صادق کی ایک روایت ذکر کی ہے کہ</div>
</span><span class="Apple-style-span" style="color: navy; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: 16px; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
لام <span style="color: red;">کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الغار قال لابی بکر </span>کا ن انظر الی سفینہ جعفر واصحابہ تقوم فی البحر وانظر الی الانصار مختبین فی افنیتھم فقال ابوبکر تراھم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ قال نعم ۔ قال فارنیھم فمسح علی عینیہ فراھم فقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم <span style="color: red;">انت الصدیق </span>۔ ۔ ۔ الخ</div>
</span><span class="Apple-style-span" style="color: navy; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: 16px; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
یعنی جب <span style="color: red;">رسول صلی اللہ علیہ وسلم غار میں تشریف فرما تھے تو آپ نے ابوبکر</span> کو فرمایا : گویا کہ میں جعفر بن ابی طالب اور اس کے ساتھیوں کی کشتی کو سمندر میں کھڑے دیکھ رہا ہوں اور انصار کی طرف نظر کر رہا ہوں جو اپنے مکانوں کے صحنوں میں چھپے بیٹھے ہیں ۔ تو ابوبکررض نے عرض کی یا رسول اللہ آپ ان کو دیکھ رہے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں دیکھ رہا ہوں ۔ اس کے بعد ابو بکر رض نے کہا کہ مجھے بھی یہ منظر دکھائیں ، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رض کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا پس ابو بکر رض نے ان کو دیکھ لیا ۔ تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ <span style="color: red;">اے ابوبکر تم صدیق ہو </span>( تم نبوت کے معجزات کی تصدیق کرنے والے ہو)</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span class="Apple-style-span" style="color: navy; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: 16px; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
تفسیر قمی تحت آیت غار پ 10 سورۃ توبہ طبع قدیم ایران</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
</span><br />
<div style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: 16px; line-height: 22px; text-align: center;">
<div style="text-align: right;">
<span style="color: navy;"><span style="font-size: large;"><span style="color: red;">اس روایت سے مندرجہ ذیل چیزیں معلوم ہوئیں</span></span></span></div>
</div>
<span style="color: navy;"><div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 22px;"><br /></span></div>
<div style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: 16px; line-height: 22px; text-align: right;">
(1) حضرت ابوبکر رض کو غار ثور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل ہے</div>
<div style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: 16px; line-height: 22px; text-align: right;">
(2) معجزہ نبوی کی حضرت ابوبکر صدیق نے تصدیق کی</div>
<div style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: 16px; line-height: 22px; text-align: right;">
(3) اس موقعہ پر حضرت ابوبکر کو صیق کا لقب زبان نبوت سے حاصل ہوا</div>
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; line-height: 22px;"><br /></span></div>
<span style="color: red; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: 16px; line-height: 22px;"><div style="text-align: center;">
<div style="text-align: right;">
تنبیہ</div>
</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span class="Apple-style-span" style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
ایک بات یہاں قابل ذکر ہے کہ تفسیر قمی کی مندرجہ بالا روایت کو تفسیر قمی کی حالیہ طبع ( طبع جدید ایران) سے طابعین اور ناشرین نے خارج کر دیا ہے ۔ اس کی وجہ اور کوئی نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ اس میں فضیلت صدیق اور آپ کا ثانی اثنین ہونا بطریق اتم ثابت ہوتا ہے</div>
</span><span class="Apple-style-span" style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
(2) دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ سفینہ والی روایت جو آیت غار کے تحت ان کے آئمہ سے مروی ہےوہ شیعہ کے متعدد مصنفین نے ذکر کی ہے ۔ ان میں یہاں صرف 2 حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں</div>
</span><span class="Apple-style-span" style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
(الف) روضہ کافی ص 123 ۔ طبع قدیم نولکشو لکھنئو</div>
</span><span class="Apple-style-span" style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
(ب) تفسیر صافی لمحمد بن مرتضیٰ ملقب بہ فیض کا شانی سورۃ توبہ تحت آیت غار ص 702</div>
</span><span class="Apple-style-span" style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
ان مقامات میں حضرت جعفر کی سفینہ والی روایت ان کے آئمہ سے مفصل منقول ہے جو حضرات تسلی کرنا چاہیں ان کی طرف رجوع کرلیں</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="color: red; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: 16px; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
قارئین کرام !</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span class="Apple-style-span" style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
اس تمام بحث سے ثابت ہوتا ہے ثانی اثنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کا لقب ہے ۔ اور ہجرت میں آپ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔</div>
</span><span class="Apple-style-span" style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
اور صحابہ کرام کے جو اقوال میں نے یہاں نقل کیے ہیں وہ بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ ثانی اثنین کا مصداق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں نہ کہ کوئی اور ۔ ۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span class="Apple-style-span" style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
باقی بغض ، حسد ، عناد اور نا ماننے کا علاج نہ تو میرے بس میں ہے اور نہ ہی آپ کے ۔ ۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span class="Apple-style-span" style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
دعاؤں کی درخواست کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span class="Apple-style-span" style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
والسلام علیکم</div>
</span><span class="Apple-style-span" style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; line-height: 22px;"><div style="text-align: right;">
خاکپائے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ سیفی خان ۔ ۔ ۔ ۔</div>
</span></span><div style="font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: 16px; line-height: 22px;">
</div>
</div>
<div>
<div style="text-align: right;">
<span style="color: navy;"><span style="font-size: large;"><br /></span></span></div>
</div>
</div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-39271519291699919642011-11-21T05:33:00.001-08:002011-11-21T05:35:26.966-08:00حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عملی تفسیر!<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<div id="pid_16685" style="background-color: #ece9e3; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; line-height: 22px; padding-bottom: 5px; padding-left: 0px; padding-right: 0px; padding-top: 5px;">
<span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جس دور میں قرآنی تفسیر کی خدمت کے لئے اٹھایا گیا تھا آپ کو معلوم ہے کہ وہ ”عملی دور“ تھا، اور حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اپنے وقت میں اس دور کے امام تھے۔ اس لئے تلاش کرنے والوں کو ان کی عملی زندگی میں ڈوب کر ”تفسیری سرمایہ“ تلاش کرنا چاہئے، اس نقطہٴ نظر سے اگر غور کیا جائے گا تو یہ واقعہ کھل کر سامنے آئے گا کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے سیکڑوں آیات قرآنیہ کی عملی تشریح فرمائی، اور بے شمار اشکالات کو اپنے ”طرز عمل“ سے حل فرمایا۔ وصال نبوی کے موقع پر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی بے خودی اور بے چینی، سیرت کا معروف واقعہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے قوی عزم حضرات ” از خود رفتہ“ ہوکر اعلان کررہے تھے کہ جو شخص کہے گا کہ آنحضرت ا کا وصال ہوگیا ہے، اس کی گردن اڑا دوں گا۔<br />اس موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آیت:<br />” وَ مَا مُحَمَّدٌ إلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الْرُّسُل، أفَإن مَّاتَ أوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی أعْقَابِکُمْ“<br />کی منبر نبوی پر تلاوت فرمائی اور اس کی تشریح فرماتے ہوئے اعلان فرمایا:<br />”الا من کان یعبد محمدا ا فإن محمدا ا قد مات۔ ومن کان یعبد اللہ فإن اللہ حی لا یموت۔“ (بخاری ج:۱ ص:۵۱۷)<br />ترجمہ:…” سنو جو شخص محمد ا کی عبادت کرتا تھا (اسے معلوم ہونا چاہئے کہ) آنحضرت ا انتقال فرماچکے ہیں، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا (اس کا معبود) اللہ تعالیٰ زندہ ہیں کبھی نہ مریں گے۔“<br />اس واقعہ کا تذکرہ عام طور پر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی ثابت قدمی، قوت قلبی اور حسن تدبر کے ذیل میں کیا جاتا ہے، لیکن حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہی کا بیان جو کتابوں میں نقل کیا گیا ہے، یعنی وہ فرمایا کرتے تھے کہ خدا کی قسم ہمیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی ہے۔ اس فاروقی بیان کو سامنے رکھ کر اگر دعویٰ کیا جائے کہ آنحضرت ا کے بعد یہ پہلی آیت تھی جس کا مفہوم ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے ”عملی اندازتشریح“ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے واضح کیا گیا تھا تو کیا یہ دعویٰ بے جا ہوگا؟ بہرحال اس کی مزید مثالیں ذکر کرنے کی گنجائش نہیں، اس نکتہ کو سامنے رکھ کر ”صدیقی سیرت“کا مطالعہ کرنے والوں کو اچھی خاصی مقدار میں صدیقی تفسیر کے جواہر پارے ملیں گے:<br />”اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَیٰ السَّمْعَ وَ ھُوَ شَھِیْدٌ “۔ (ق:۳۷)<br />ترجمہ:…”اس میں اس شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جس کے پاس (فہیم) دل ہو یا وہ (کم از کم دل سے ) متوجہ ہوکر (بات کی طرف) کان ہی لگا دیتا ہو۔“ (ترجمہ حضرت تھانوی)<br /><br /><span style="color: red;"><div style="text-align: center;">
متأخرین صحابہ کے علوم میں بہت بڑا حصہ صدیقی علوم کا تھا:</div>
</span><br />یہاں اس نکتہ کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے جس پر حکیم الامت لسان الحکمت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے تنبیہ فرمائی ہے، یعنی حضرات شیخین کے علوم صرف اسی قدر نہیں کہ جو اُن کے نام سے کتابوں میں نقل کئے گئے ہیں بلکہ ان کا بیشتر حصہ وہ ہے جو متأخرین صحابہ نے ان سے اخذ کیا ہے اور نقل کرنے والے ان متأخرین ہی کے نام سے ان کو نقل کرتے ہیں، اس کو ایک توضیحی مثال سے سمجھئے: مثلاً ایک نادر روزگار استاذ کے سیکڑوں شاگرد ہوں، جنہوں نے تمام علوم کا استفادہ اپنے استاذ محترم سے کیا ہو، پھر ان تمام تلامذہ نے تصنیف و تالیف کے ذریعہ سے ان تمام علوم کو مدون کردیا ہو، تو اس صورت میں یہ تمام تصنیفات شاگردوں ہی کی طرف بظاہر منسوب کی جاتی ہیں، لیکن حقیقت شناس جانتے ہیں کہ یہ تمام، استاذ محترم ہی کے علوم ہیں جو شاگردوں کی زبان قلم سے ظاہر ہورہے ہیں۔ اسی طرح یہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر کو ان صحابہٴ کرام کے لئے بمنزلہٴ استاذ تصور کرو، جن کو تأخر اسلام یا صغر سنی کی وجہ سے آنحضرت اسے استفادہ کا موقع کم میسر آیا، لیکن اکابر صحابہ بالخصوص حضرات شیخین کی صحبت اور تعلیم و تربیت کی وجہ سے ان کو اپنے وقت کی امامت نصیب ہوئی۔ ان حضرات کے تفسیری اور حدیثی علوم دراصل حضرات شیخین ہی کے علوم ہیں، اگرچہ نقل و روایت کے اعتبار سے نسبت خود ان کی طرف نہ کی جائے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت ابن عباس، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم اور ان کے ہمعصر صحابہ سے جو روایاتِ تفسیر و حدیث،کتابوں میں منقول ہیں وہ درحقیقت حضرات شیخین سے مستفاد ہیں۔<br /><br /><span style="color: red;"><div style="text-align: center;">
شاہ صاحب رحمہ اللہ کے الفاظ میں اس نکتہ کو ملاحظہ فرمائیے:</div>
</span><br /><br />”نہ پنداری !کہ شیخین ہمیں قدر روایت کردہ اندکہ در کتب مسانید بایشاں نسبت کردہ می شود، بلکہ بسیارے از احادیث مرفوعہ کہ در مسانید بکثیرین از صحابہ مذکور است بحقیقت روایت شیخین است کہ عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن عباس و ابوہریرہ آن را ارسال نمودہ اند،و بہ آں حضرت ا رفع کردہ واھل مسانید ظاہر آں را اعتبار کردہ در مسانید ایشاناں درج نمودہ اند، چنانکہ بر شخصے کہ متتبع جزئیات و کلیات علم حدیث مخفی نخواہد بود۔“ (قرة العینین ص:۵۵ طبع مجتبائی)<br />ترجمہ:…” یہ نہ سمجھا جائے کہ شیخین کی روایات صرف اسی قدر ہیں جو کتب مسانید میں ان کی طرف نسبت کی گئی ہیں، بلکہ بہت سی احادیث مرفوعہ ایسی ہیں کہ مکثرین صحابہ کی مسانید میں ذکر کی گئی ہیں، لیکن درحقیقت وہ شیخین رضی اللہ عنہما کی روایات ہیں جن کو عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ (رضی اللہ عنہم) نے ارسال کرتے ہوئے آنحضرت ا سے مرفوعاً نقل کیا ہے، اور اصحاب مسانید نے ان روایات کے ظاہر کا اعتبار کرتے ہوئے ان حضرات کی مسانید میں درج کردیا ہے۔ چنانچہ جو شخص علم حدیث کی جزئیات و کلیات کا تتبع کرے گا، اس پر یہ نکتہ مخفی نہ رہے گا۔“<br /><span style="color: red;"><div style="text-align: center;">
تفسیری کلیات صدیقی سیرت کی روشنی میں</div>
</span><br /><br />مندرجہ بالا وجوہ اور حضرت صدیق کی بے حد مصروفیت کے علاوہ یہ امر بھی خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ آنحضرت ا کے بعد تابعین کی بلا واسطہ تربیت کا موقع ان کو بہت کم ملا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان سے روایت کرنے والوں میں، صحابہ بلکہ اکابر صحابہ کے نام زیادہ اور تابعین کے نام کم ملتے ہیں۔<br />چنانچہ علامہ شیخ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:<br />”و سبب ذٰلک مع تقدم صحبتہ و ملازمتہ للنبیا انہ تقدمت وفاتہ قبل الانتشار الاحادیث و اعتناء التابعین بسماعھا و تحصیلھما و حفظھما۔“<br />ترجمہ:…” آپ کی روایات میں کمی کا باعث، باوجودیکہ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ کے ساتھ دیرینہ رفاقت اور ملازمت حاصل تھی، یہ ہے کہ احادیث کے پھیلنے اور تابعین کے حفظ و تحصیل میں مشغول ہونے سے قبل ہی ان کا وصال ہوگیا۔“<br />اسی کے ساتھ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی طبعی افتاد کا بھی دخل تھا، مطلب یہ کہ ان کی سیرت کے مطالعہ کرنے سے آدمی جو سب سے پہلے تأثر لیتا ہے، وہ یہی ہے کہ ان پر خشیت کی نسبت غالب تھی، دین کے ہر معاملہ میں ہر پہلو سے احتیاط در احتیاط ان کی طبیعت ثانیہ تھی، کسی کام کے کرنے یا کسی بات کے کہنے سے پہلے وہ پوری طرح جائزہ لیا کرتے تھے کہ خدانخواستہ اس میں، سبب بعید کے طور پر ہی سہی، کوئی شر کا پہلو تو نہیں پایا جاتا؟ مجدد قرن ثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کا یہ فقرہ کس قدر حکیمانہ ہے؟ وہ فرمایا کرتے تھے:<br />”مَنْ عَدَّ کَلامَہُ مِنْ عَمَلِہِ، قَلَّ کَلامُہ“ (تاریخ الخلفأ)<br />ترجمہ:…” جو شخص اپنے کلام کو بھی عمل میں شمار کرے گا ، اس کی باتیں کم ہوں گی۔“<br />حضرت صدیق کی خدا ترسی اور خوف محاسبہ کی کیفیت کتنی بلند تھی! کتابوں میں جو کچھ اس سلسلہ میں نقل کیا گیا ہے آج کل کے چھچھورے مزاج کے انسانوں کے لئے اس کا تصور بھی دشوار ہے۔<br />اس واقعہ کا تذکرہ تقریباً سب ہی سیرت نگاروں نے کیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ اپنی زبان پکڑ کر کھینچ رہے ہیں، عرض کیا کہ ” کیا قصہ ہے؟“ جواب میں ”صدیقی زبان“ جس پر صدق و تصدیق کے سوا شاید دوسرا لفظ کبھی نہ آیا ہوگا، کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جارہا تھا:<br />”ھذہ اوردتنی الموارد“۔ (نسائی بحوالہٴ تاریخ الخلفأ)<br />ترجمہ: ”اسی نے مجھے بہت سی گھاٹیوں میں لا اتارا ہے۔“<br />اس سرتاج صدیقین کو کبھی کبھی یہ تمنا کرتے سنا اور دیکھا جاتا:<br />”لعددت انی شعرة فی جنب مؤمن“۔<br />ترجمہ: ”میری یہ تمنا رہتی ہے کہ میں کسی موٴمن کے پہلو کا بال ہوتا۔“<br />ان کی خدمت میں اگر ایک حادثہ عرض کیا جاتا، جس کا صریح حکم نہ کتاب اللہ میں موجود ہوتا اور نہ سنت نبوی میں اس کی تصریح ہوتی، تو وہی رئیس المجتہدین، کہ ابو حنیفہ و شافعی (رحمہما اللہ) کی فقاہت جن کی دریوزہ گر تھی، ابن سینا اور ابن رشد کا فلسفہ جن کے گھر کا دربان تھا، فضیل اور جنید کا تقویٰ جن کا خانہ زاد تھا، انہیں کو بار بار فرماتے ہوئے سنا جاتا:<br />”اجتھد رأیا فإن یکن صوابا فمن اللہ و إن یکن خطاء فمنی و استغفر اللہ۔“(ابن سعد)<br />ترجمہ:…” میں اس معاملہ میں کتاب و سنت کی روشنی میں اجتہاد کروں گا، اگر درست ہوا تو اللہ کی جانب سے، اور غلط ہوا تو میری طرف سے، اور میں اللہ سے معافی کی التجا ٴ کرتا ہوں۔“<br />کہاں تک نقل کرتا جاؤں؟ جن کے احتیاط اور تثبیت کا یہ عالم ہو، ان کے لئے اللہ کی کتاب میں لب کشائی کیا آسان کام ہوگا؟ قرآن کی شرح و تفسیر تو خیر بعد کی بات ہے، قرآن کی تدوین سے بڑھ کر اور ضروری عمل، اور اس سے بڑی سعادت عظمیٰ کا کام کیا ہوسکتا ہے! لیکن ”صدیقی احتیاط“ اس معاملہ میں بھی کس طرح دامن گیر رہی؟ اس کی خبر سب ہی کو ہے۔ اگر ”حکمت ازلیہ“ نے صدیقی احتیاط کے ساتھ فاروقی فراست کا حسین امتزاج نہ کردیا ہوتا تو نہیں کہا جاسکتا کہ صورت حال کیا ہوتی؟<br />علوم اسلامیہ کے ارتقائی مزاج سے ناآشنا اور اردو تراجم پڑھ پڑھ کر چہاردہ صد سالہ امت کے علی الرغم ”قرآنی بصیرت“ کی ”غلط پنداری“ کے مریضوں کے لئے کیا اس واقعہ میں عبرت کا کوئی سامان نہیں؟ جس دور میں خود قرآن کی جمع و ترتیب ہی پر بمشکل آمادگی ظاہر ہوتی ہے، انہیں سوچنا چاہئے کہ وہ تدوین حدیث کا دور ہوسکتا ہے؟ جن اصحاب بصیرت کو ابھی تک قرآن کے یکجا کردینے میں تأمل ہو، اگر وہ حدیث کا کوئی مجموعہ مرتب نہ کریں، یا کئے ہوئے کو غایت احتیاط کی بنا پر تلف کردیں، ان کے اس طرز عمل سے کیا حدیث کا ناقابل قدر ہونا کوئی عقل مند تسلیم کرسکتا ہے؟ اور کیا تدوین قرآن کی بھی قریب قریب وہی نوعیت نہیں ہوجاتی جو تدوین حدیث کی ہے؟ اندریں صورت کیا انکار حدیث سے انکار قرآن ہی کا راستہ تیار نہیں ہوتا؟<br />الیس منکم رجل رشید۔ نعوذ باللہ من الزیغ ومن ان نُضِلَّ او نُضَلَّ۔<br />بخاری شریف میں کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے، وہ فرماتے ہیں:<br />”یمامہ میں قرا ٴ صحابہ رضی اللہ عنہم کے شہید ہوجانے پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے پیغام بھیج کر بلایا، میں حاضر ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے، حضرت ابوبکر فرمانے لگے: عمر میرے پاس آئے اور کہا: ” جنگ یمامہ میں بکثرت قرا ٴ قرآن شہید ہوگئے ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر دوسرے مواقع میں بھی قرآن کے حافظ اسی طرح شہید ہوتے رہے، تو قرآن کا بہت سا حصہ ان کے ساتھ ہی نہ جاتا رہے۔ میری رائے ہے کہ آپ قرآن کی یکجا تدوین کا حکم دیں“۔ میں نے (ابوبکر رضی اللہ عنہ نے) عمر سے کہا :<br />”کیف تفعل شیئاً لم یفعلہ رسول اللہ ا“<br />ترجمہ:…”تم ایسا کام کیسے کرسکتے ہوجو آنحضرت ا نے نہیں کیا۔“<br />اس کے جواب میں عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بخدا یہ کام سراپا خیر ہے (منشا ٴ نبی کے خلاف نہیں)“ پس عمر رضی اللہ عنہ بار بار مجھ سے اس مسئلہ میں گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی اس کے لئے شرح صدر نصیب فرمایا اور مجھے بھی اسی میں خیر نظر آنے لگی، جس طرح عمر کی رائے تھی…“ الی آخر القصہ۔<br />الغرض حضرت ابوبکر ہر معاملہ میں کامل حزم اور نہایت احتیاط کے ساتھ منشا ٴ خداوندی کے پورا کرنے کی سعی فرماتے، لیکن باایں ہمہ اپنی ذات کے لئے یا اپنے نفس پر ایک لمحہ کے لئے بھی اعتماد نہ فرماتے، گویا نفس کے بارے میں ان کا نظریہ ٹھیک وہی نظریہ تھا جسے قرآن کریم نے یوسف صدیق علیہ السلام کی زبانی نقل کیا ہے :<br />”وَمَا اُبَرِّیٴُ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارُةٌ م بِالسُّوْءِ“ (یوسف:۵۳)<br />ترجمہ:…” میں اپنے نفس کو بری نہیں کہتا، اس میں کیا شک ہے کہ نفس کا کام برائی ہی کا مشورہ دینا ہے۔<br />“<br />اس لئے تفسیر قرآن کے معاملہ میں بھی ان کا یہی احتیاطی جذبہ ممکن ہے کہ تعلیل کا باعث ہوا ہو؟ تاہم جتنا ذخیرہ بھی تفسیری روایات کا ان سے منقول ہے، اگر گہری بصیرت کو کام میں لایا جائے تو جزئیاتی حیثیت سے اگرچہ قلیل ہے، لیکن کلیاتی رنگ میں وہ بیش بہا ہے۔<br /><br /><span style="color: red;"><div style="text-align: center;">
حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے تفسیری اصول</div>
</span><br /><br />شرح اس اجمال کی یہ ہے کہ علم تفسیر کے جزئیات اگرچہ درجہٴ شمار سے خارج ہیں، لیکن یہ تمام جزئیات چند کلیات کی طرف راجع ہیں جن کو علم تفسیر کے اصول موضوعہ کہنا چاہئے۔ حضرت صدیق سے جو چند تفسیری روایات نقل کی گئی ہیں ان میں علم تفسیر کے ان ہی اہم اصول کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، کاش ان ”صدیقی اصول“ کے ساتھ اس ”صدیقی ذوق“ کو اگر ملحوظ رکھا جاتا تو کم از کم تفسیر قرآن کے سلسلہ میں وہ جرأتیں ظاہر نہ ہوتیں جو مدت سے غیر ذمہ دار طبقات کی طرف سے ظاہر ہورہی ہیں۔<br /><br /><span style="color: red;"><div style="text-align: center;">
تفسیر بالرائے سے اجتناب</div>
</span><br /><br />پہلا تفسیری اصول یہی ہے کہ قرآن کی شرح و تفسیر کرنے والا اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی اہلیت رکھتا ہو کہ کسی مقام پر بھی وہ اپنی خواہش اور ہوا کے ساتھ کتاب اللہ کو ملوث کرنے کی جرأت نہ کرے، کسی بھی آیت پر بحث کرتے ہوئے وہ حق تعالیٰ کی مراد واضح کرنے کے بجائے اپنے ذاتی رجحانات و اوہام کی ترجمانی شروع نہ کردے، اس میں کم از کم اتنی اہلیت اور امانت موجود ہو کہ قرآن جو کچھ سمجھانا چاہتا ہے اسے بیان کرنے کی جگہ ”جہاں تک میں سمجھا ہوں“ کی منطق استعمال نہ کرنے لگے، قرآن کی جس آیت پر وہ کلام کرنا چاہتا ہے، اسے معلوم ہو کہ مجھ سے پہلے اس کا کیا مفہوم لیا گیاہے؟ لغت عرب سے اس کے کیا معنی متعین ہوتے ہیں؟ اس کے سیاق و سباق سے کیا مطلب واضح ہوتا ہے؟ قرآن مجید میں یہ مضمون کس کس جگہ آیا ہے؟ اور اسے کن کن عنوانات سے بیان فرمایا گیاہے؟ اس آیت کا جو مفہوم میں نے سمجھا ہے وہ کسی شرعی قاعدہ سے تو نہیں ٹکراتا؟ اس سے کسی نص کی تکذیب تو نہیں ہوجاتی؟ الغرض جب تک کسی آیت کے اطراف و جوانب، شریعت کے قواعد و ضوابط اور امت کے عقائد و اجماعات پر اس کی نظر نہ ہو ، محض ظن و تخمین اور ہوا و ہوس سے کسی آیت کو خود ساختہ معنی پہناکر نامہٴ عمل سیاہ کرتے چلے جانا، قرآنی خدمت نہیں بلکہ ”دروغ بافی“ ہے۔<br /><br />کون نہیں جانتا کہ اگر کسی وقت صدر مملکت کی ترجمانی کے فرائض پر کسی کو مأمور کردیا جائے، تو اس پر کس قدر نازک ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے؟ اس کو زبان و لغت پر کتنا عبور درکار ہوگا؟اسے ”شاہی محاورات“ پر کتنی گہری نظر رکھنی ہوگی؟ اسے فصاحت و بلاغت کی کن کن نزاکتوں کا لحاظ رکھناہوگا؟ اسے صدر مملکت کے ذاتی احساسات و رجحانات، لب و لہجہ، طرز خطاب کو کس حد تک نبھانا ہوگا؟ پھر ذرا سی غلط بیانی اور ”الٹی تعبیر“ پر کتنا خطرہ درپیش ہوگا؟ اگر ایک معمولی حاکم کی ترجمانی میں ان امور کا لحاظ رکھنا باتفاق عقلأ مسلم ہے، تو سوچنا چاہئے کہ ”شہنشاہ مطلق“ اور احکم الحاکمین کی ترجمانی کن کن نزاکتوں کی حامل ہوگی؟ اگر آپ غور کریں گے تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد میں اسی اصول کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے جس کو سورہٴ عبس کی تفسیر میں تقریباً سب ہی مفسرین نے ذکر کیا ہے یعنی اس سورت میں” ابًا “ کا لفظ جو آیا ہے۔ پوچھنے والوں نے حضرت صدیق سے اس کے معنی دریافت کئے، سننے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیس سالہ شاگرد سے سن رہے تھے:<br />”ای سماء تظلنی و ای ارض تقلنی ان قلت فی کتاب اللہ ما لا اعلم۔“<br />(تفسیر ابن کثیر ج:۱ ص:۵)<br />ترجمہ:…” مجھے کون سا آسمان سایہ دے گا؟ اور مجھے کون سی زمین اٹھائے گی؟ اگر میں اللہ کی کتاب میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں۔“<br />میں اسی کو حضرت صدیق کے ”پہلے تفسیر اصول“ سے تعبیر کررہا ہوں جس کا حاصل یہی ہے کہ کتاب اللہ کی تفسیر کے لئے جس قدر ذرائع علم درکار ہیں، جب تک ان کی اہلیت پیدا نہ کرلی جائے اس وقت تک قرآن کی کسی آیت کے معنی اور مفہوم کو متعین کرنے کی جرأت کرنا”تفسیر بالرائے“بلکہ اصطلاح نبوت میں ”قول بالرائے“ ہے جو مطلقاً حرام اور مستوجب وعید ہے۔ آنحضرت ا کا مشہور ارشاد ہے:<br />”من قال فی القرآن برأیہ او بما لا یعلم فلیتبوأ مقعدہ من النار۔“<br />ترجمہ:…” جس نے قرآن میں بدون علم کے یا محض رائے سے کوئی بات کہی، اسے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنانا چاہئے۔<br />“<br />کیا آج بھی اس وعید نبوی اور ذوق صدیقی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے؟ آج ہر بدعتی اپنی بدعت کے لئے، ہر ملحد اپنے الحاد کے لئے، ہر زندیق اپنی ہرزہ سرائی کے لئے،ہر بازی گر اپنی شعبدہ بازی کے لئے، اللہ کی اسی پاک کتاب کو استعمال کرتاہے۔ کسی کو بھول کر بھی خیال نہیں آتا کہ ان تمام خرافات کو کتاب اللہ کی طرف منسوب کرنا بھی کوئی جرم ہوسکتا ہے؟ حضرت ابن عمر فرمایا کرتے تھے:” تعلمنا الایمان ثم تعلمنا القرآن“۔یعنی ”ہم نے پہلے ایمان سیکھا تھا پھر قرآن سیکھا تھا۔“ آج ایمان اور قرآن سیکھنے کی زحمت گوارا کئے بغیر گھر گھر ”قرآنی مبصر“ پیدا ہورہے ہیں۔<br /><br />حافظ سیوطی رحمہ اللہ دسویں صدی میں ان نام نہاد قرآنی مبصرین کا ماتم کررہے ہیں:<br />”والمبتدع لیس لہ قصد الا تحریف الآیات و تسویتھا علی مذھبہ الفاسد۔ بحیث انہ متی لاح شاردة من بعید اقتنصھا او وجد موضعا لہ فیہ ادنی مجال سارع الیہ…و الملحد فلا تسأل عن کفرہ و الحادہ فی آیات اللہ تعالیٰ و افتراء ہ علی اللہ ما لم یقلہ “۔ (الاتقان: النوع الثمانون ص:۱۹۰)<br />ترجمہ:…” اہل بدعت کی تمام تر ہمت اس پر لگی ہوئی ہے کہ آیات کی تحریف کی جائے اور ان کو اپنے فاسد مذہب پر منطبق کیا جائے، اسے جہاں کہیں دور سے بھی کوئی بکھری ہوئی چیز نظر آجاتی ہے، اسے فوراً اچک لیتا ہے، یا کہیں اسے ذرا سی گنجائش بھی ملتی ہے، اس کی طرف لپک جاتا ہے۔ رہا ملحد سو اس کے کفر، آیات اللہ میں کجروی، اور اللہ پر افترأ پردازی کا حال تو ناگفتہ بہ ہے۔“<br /><br />آج کون ہے جو اس امام کے مزار پر جاکر اطلاع کرے کہ آپ کے بعد کی چار صدیوں نے ”انسانی مزاج“ میں کتنی تبدیلی کرڈالی ہے۔ چودھویں صدی کے اہل بدعت کی غباوت نے کتاب اللہ کی کس قدر آیات کو تحریف کا تختہٴ مشق بنا ڈالا ہے؟ اور اس دور کے ملحدین، کفر و الحاد اور جرأت افترأ علی اللہ میں کن کن حدود کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں؟ قرآن حکیم نے،کتاب اللہ کے محکمات سے بے رخی کرتے ہوئے متشابہات کی پیروی کرنے والوں اور ان کو غلط معنی پہناکر فتنہ جوئی کرنے والوں کے ”قلبی زیغ“ اور ”ذ ہنی کجی“ کی اطلاع دی تھی۔ دور حاضر کے مغرب زدہ زائغین قرآن کو اول سے آخر تک مسخ کردینے والے اور سیزدہ سالہ اسلام کو منہدم کر کے اس کے کھنڈرات پر الحاد و زندقہ کی بنیادیں استوار کرلینے کے سودائے خام میں مبتلا ہیں۔<br />یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔<br />بہرحال حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد میں جو اوپر نقل کرچکا ہوں، اسی قسم کی بے باکیوں کی پیش بندی فرمائی گئی ہے، یعنی جب تک پوری تحقیق قرآن کی کسی آیت کے متعلق آدمی کو نہ ہو اس وقت تک اس کے لئے جائز نہیں کہ اللہ کی کتاب پر ظن و تخمین کا غلاف چڑھائے۔ حضرت صدیق سے دوسری روایت جو اسی مضمون کی منقول ہے وہ اس سے واضح تر ہے، یعنی ان سے کسی آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو فرمایا:<br />”ای ارض تسعنی او ای سماء تظلنی اذا قلت فی کتاب اللہ ما لم یرد اللہ۔“<br />ترجمہ:…” مجھے کون سی زمین پناہ دے گی؟ یا کون سا آسمان سایہ دے گا؟ جب کہ میں کتاب اللہ میں ایسی بات کہہ ڈالوں جو اللہ کی مراد نہیں۔“<br /><br />اس روایت میں ” مالم یرد اللہ “ کا لفظ کس قدر علم سے بھرا ہوا، احتیاط میں ڈوبا ہوا، اور عظمت خداوندی سے لبریز ہے۔ مطلب یہ کہ آیت کے ظاہری مفہوم کو بیان کرسکتا ہوں ، لیکن جب تک قرائن و دلائل سے قطعاً ثابت نہیں ہوجاتا کہ جو کچھ میں سمجھا ہوں وہی اللہ کی مراد بھی ہے، آیت کے معنی میں لب کشائی کیسے کروں؟ اگر خدانخواستہ میرے بیان کردہ معنی ”اللہ کی مراد“ کے خلاف ہوئے تو شہنشاہ مطلق کی غلط ترجمانی کی سزا سے بچنے کے لئے آسمان و زمین کا کون سا گوشہ پناہ دے گا؟ ”عجب سلامتی“ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو نصیب ہوئی تھی، اسی آیت کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی قسم کا ارشاد نقل کیا گیا ہے۔ شیخ ابن کثیر ان دونوں حضرات کی روایات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:<br />”یہ تمام روایتیں اس پر محمول ہیں کہ یہ دونوں حضرات کیفیت ” اَبَّ “ کا علم قطعی دریافت کرنا چاہتے تھے، ورنہ اتنی سی بات کہ” اَبَّ “ زمین کی سبزی کا نام ہے بالکل ظاہر ہے مجہول نہیں۔“ (ابن کثیر ج :۱ ص:۵)<br /><br />امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں:<br /><br />”قولہ تعالیٰ فاکھة و أبًا، الأبُ المرعی المتھیٴ للرعی والجز من قولھم اب لکذا ای تھیا ابا وابابة و ابابا ، واب إلی وطنہ اذا نزع إلی وطنہ نزوعا تھیاء الخ“ (مفردات القرآن ص:۵)<br />گویا اسی ”ظاہر لایجھل“ کی پوری کیفیت چونکہ واضح نہیں، اس لئے شیخین اس لفظ کی شرح میں ایک حرف کی جرأت نہیں کرتے۔<br />یہ بحث پوری نہیں ہوئی، سورہٴ نسا ٴ کی آیت میراث میں لفظ کلالہ جو واقع ہوا ہے، کتب تفسیر میں امام بیہقی وغیرہ کے حوالہ سے نقل کیا گیا ہے کہ ”حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے اس کا مفہوم دریافت کیا گیا، اس کے جواب میں علوم نبوت کے حافظ، اسرار کتاب اللہ کے امین، آنحضرت اکے یار غار و مزار سے کس قدر صداقت آمیز فقرہ سن رہے تھے:<br />” اقول فیھا برای فان یکن صوابا فمن اللہ و ان یکن خطاء فمنی و من الشیطان و اللہ و رسولہ بریئان منہ۔الکلالة من لا ولد لہ ولا والد۔“ (تفسیر ابن کثیر ج:۱ ص:۴۶)<br />ترجمہ:…” میں اس میں رائے سے ایک بات کہتا ہوں، اگر درست ہوئی تو اللہ کی جانب سے ہوگی، اور اگر غلط ہوئی تو میری جانب سے اور القا ٴ شیطان کی وجہ سے ہوگی۔ اس صورت میں اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہوں گے۔ (کلالہ) سے مراد وہ شخص ہے جس کانہ بیٹا ہو نہ باپ۔“<br />کلالہ سے مراد اس آیت میں وہ شخص ہے جس کے نہ اصول ہوں نہ فروع۔<br />شیخ ابن کثیر فرماتے ہیں:<br />”یہی تفسیر عمر،علی، ابن مسعود، ابن عباس، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ شعبی، نخعی ، قتادہ، جابر بن زید اور حکم کا یہی قول ہے، اہل مدینہ ، اہل کوفہ ، اہل بصرہ اسی کے قائل ہیں۔ فقہا ٴ سبعہ، ائمہٴ اربعہ اور جمہور سلف و خلف کا بلکہ تمام سلف و خلف کا یہی قول ہے، بہت سے اکابر نے اس پر پوری امت کا اتفاق نقل کیا ہے۔” و ورد فیہ حدیث مرفوع “ (تفسیر ابن کثیر ج: ۱ ص:۴۶۰)<br />یہ تفسیر جس پر بقول ابن کثیر جمیع سلف و خلف کا اتفاق ہے ظاہر ہے کہ اس میں کسی دوسرے معنی کا احتمال اجماع امت کے بعد کب باقی رہ جاتاہے؟<br />لیکن اسی کو جب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، تو احتیاط و حزم کے سارے سامان جمع کر لیتے ہیں۔ اس لئے کہ انہوں نے جہاں آنحضرت ا سے (بقول ابن عمر) ایمان اور قرآن سیکھا تھا، وہیں کتاب اللہ کی عظمت اور اس کی ترجمانی کی نازک ذمہ داری بھی سیکھی تھی۔ یہ روایت جس کا حوالہ اوپر عرض کیا گیا ہے، اس کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب تک اسے سامنے نہ لایا جائے، یہ بحث تشنہ رہے گی۔ یعنی روایت کرنے والوں نے اس صدیقی طرز عمل کے بعد جو ”فاروقی اسوہ“ نقل کیا ہے وہ مستقل ”تفسیری اصول“ ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:<br />” فلما ولی عمر قال : انی لاستحیی ان اخالف ابابکر فی رأی رأہ۔“ (تفسیر ابن کثیر ج:۱ ص:۴۰)<br />ترجمہ:…” پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو فرمایا: بخدا مجھے حیا آتی ہے کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی (اس تفسیری) رائے کے خلاف کروں۔“<br />سلف کی تفسیر کے خلاف اختراعی نظریات قرآن سے ثابت کرنے والے اور ”میں یہ سمجھا ہوں“ کے مراقی خبط میں مبتلا ہونے والوں کے لئے تازیانہٴ عبرت ہے، جس کے لئے زبان وحی سے ” ان اللہ جعل الحق علی لسان عمر و قلبہ“ صادر ہوا۔<br />ڈیڑھ درجن سے زیادہ آیات میں آسمانی وحی نے جس کی نہ صرف مضمون میں بلکہ بعض مرتبہ الفاظ میں بھی موافقت کی تھی، ان کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلاف کرنے سے حیا آتی ہے۔آج صحابہٴ کرام ، تابعین ، ائمہ اور مفسرین ، الغرض چہاردہ سالہ امت بلکہ (خاکم بدہن) خود امت کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت قرآن پڑھ پڑھ کر کرنے والوں کے متعلق سوچتا ہوں کہ ان کی شرم و حیا سے گردن کیوں نہیں جھکتی۔<br />صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم پر تبرا، ائمہ پر استہزا ٴ، پوری امت پر تمسخر کرنے والے ”قرآنی مبصرین“ میں مادہٴ حیا پیدا ہی نہیں کیا گیا، یا وہ اسے کسی دوسرے کام میں لاتے ہیں۔ (ماہنامہ دارالعلوم دیوبند مارچ ۱۹۶۵ء)</span></div>
<hr align="left" size="1" style="background-color: #ece9e3; border-bottom-width: 0px; border-color: initial; border-left-width: 0px; border-right-width: 0px; border-style: initial; border-top-width: 0px; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; height: 1px; line-height: 22px;" width="25%" />
<br /><span style="background-color: #ece9e3; color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: 16px; line-height: 22px;"><span style="font-size: large;"></span></span></div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-37492440536445651872011-11-21T04:52:00.001-08:002011-11-21T05:14:26.600-08:00ثانی اثنین کا مصداق کون ( حصہ دوم)<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<span style="background-color: #ece9e3;"></span></div>
<div style="text-align: left;">
<div style="text-align: right;">
<span style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large;"><div style="text-align: center;">
لفظ ِ ثانی اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ</div>
</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span style="color: red; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">قارئین کرام ! </span><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">حصہ اول میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے ثانی فی الغار کا مسئل ذکر کیا گیا ہے ۔ اب ہم اس چیز کی وضاحت پیش کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ثانویت(ثانی ہونے کی) کی خصوصیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سے دیگر مقامات میں بھی حاصل ہوئی مثلاً</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"> </span><span style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large;"><span style="color: red;">ثانی فی الاسلام </span></span><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">، قبول اسلام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ </span><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"> عنہا کے بعد دوسرے شخص ہیں</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"> </span><span style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large;"><span style="color: red;">ثانی فی الہجرہ</span></span><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"> ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ہجرت کرنے میں آپ رض دوسرے درجہ میں ہیں</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large;"><span style="color: red;"> ثانی فی عریش ِبدر</span></span><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"> ، مقامِ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار کیے جانے والے عریش میں آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں بیٹھنے والے دوسرے شخص ہیں( عریش ” چھاتہ “ کو کہتے ہیں )</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span style="color: red; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"><span style="font-size: x-large;"> ثانی فی الامامہ باالصلوۃ</span></span><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"> ، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں نماز کی امامت کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دوسرے درجہ میں ہیں</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"> </span><span style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large;"><span style="color: red;">ثانی فی مقبرہ النبی</span></span><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"> ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر میں دفن ہونے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دوسرا درجہ ہے</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"> </span><span style="color: red; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"><span style="font-size: x-large;">ثانی فی دخول الجنۃ </span></span><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق جنت میں داخل ہونے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دوسرے شخص ہونگے</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span style="color: red; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"><span style="font-size: x-large;"><div style="text-align: center;">
سفر ہجرت اور آیت غار کے متعلق شیعہ اکابر کے بیانات</div>
</span></span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">سابقہ سطور میں میں نے </span><span style="color: red; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">ثانی اثنین</span><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"> کے مصداق کے حوالہ سے چند چیزیں ذکر کی ہیں ۔ جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سفر ہجرت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ حضرت ابوبکر صدیق بن ابو قحافہ رضی اللہ عنہ ہی تھے ۔اس کے بعد اسی سفر ہجرت اور آیت غار کے متعلق شیعہ اکابر کے بیانات ذکر کیے جارہے ہیں جن میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس مبارک سفر میں معیت اور مصاحبت پائی جاتی ہے ۔ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک سفر ہونا ثابت ہو تا ہے ۔ اور اسلام کا یہ مبارک سفر بڑی اہمیت کا حامل ہے</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">۔</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">اس سلسلہ میں چند ایک حوالہ جات شیعہ حضرات کی کتب سے پیش کیے جاتے ہیں تا کہ اصل واقعہ کی صحت کے ثبوت میں کوئی اشتباہ نہ رہے</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">اور فریقین کے بیانات کے ذریعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عظمت کا مسئلہ ازرُؤئے قرآن پختہ ہو جائے</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span style="color: mediumvioletred; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">شیعہ کے مشہور قدیم مفسر شیخ ابوعلی الفضل بن حسن الطبری اپنی تفسیر مجمع البیان میں آیت غار کے تحت بیان کرتے ہیں</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ ۔ معناہ ان لم تنصرو الی علی القتال قتال العدو فقد فعل اللہ بہ النصر اذا خرجہ الذین کفروا من مکہ فخرج یرید المدینہ</span><span style="color: red; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"> ثانی اثنین</span><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"> یعنہ کان ھو ابوبکر اذھما فی الغار ولیس معھما ثالث ای وھو احد اثنین ومعناہ فقد نصرہ اللہ منفردا من کل شیء من ابی بکر والغار ۔ ۔ ۔ الخ</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کے قتال پر اگر تم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ کرو گے تو اللہ نے اپنے نبی کی مدد کی ۔ جبکہ کفار نے نبی کو مکہ سے نکالا اور آپ مدینے کا ارادہ کر کے نکل پڑے ۔ </span><span style="color: red; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">ثانی اثنین یعنی پیغمبر اورحضرت ابوبکر تھے</span><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"> ۔ جبکہ دونوں غار میں تھے ۔ ان دونوں کے ساتھ تیسرا نہیں تھا ۔ معنیٰ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کی مدد کی درآں حالیکہ وہ سوائے ابوبکر کے سب سے منفرد تھے ۔ اور جبل میں ایک بڑا شگاف تھا ۔ اس سے مراد غار ثور ہے جو کے مکہ کے پہاڑ میں ہے ۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہ رہے تھے کہ غم نہ کھا نہ خوف کر اللہ ہمارے ساتھ ہے</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">تفسیر مجمع البیان الطبرسی ص 504 تحت آیت غار پ10 طبع قدیم ایران</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">شیعہ کے شیخ الطائفہ ابو جعفر الطوسی اپنی تفسیر امالی میں حضرت انس بن مالک کی روایت نقل کرتے ہیں</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">قال لما توجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی</span><span style="color: red; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"> الغار ومعہ ابوبکر </span><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">۔ ۔ الخ</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">یعنی انس بن مالک کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار کی طرف متوجہ ہوؤئے تو</span><span style="color: red; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;"> ان کے ساتھ ابوبکر </span><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">تھے ۔ اس پر نبی اکرم نے حضرت علی کو حکم دیا کہ ان کے بستر پر سو جائیں اور آپ کی چادر اوڑھ لیں</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">امالی للشیخ الطوسی ص 61 ج 2 طبع نجف اشرف</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">شیخ طوسی واقعہ ہجرت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آگے چل کر لکھتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر چلے گئے تو ہند (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب تھے عنی حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے پہلے شوہر سے فرزند)اور حضرت ابوبکر کے پاس جا پہنچے ۔ اور انہیں اٹھایا اور وہ دونوں آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے حتیٰ کہ یہ سہ حضرات غار تک جا پہنچے اس کے بعد ہند مکہ کی طرف واپس آگیا ۔ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسکو واپسی کا حکم دیا ۔ </span><span style="color: red; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر غار میں داخل ہو گئے</span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">امالی للشیخ الطوسی ص 81 ج 2 طبع نجف اشرف </span><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><br style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: x-large; line-height: 33px;" /><span class="Apple-style-span" style="color: mediumblue; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large; line-height: 33px;">(جاری ہے)</span></div>
</div>
<br />
<br />
</div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-238901453297949972011-11-19T02:05:00.001-08:002011-11-21T05:19:04.310-08:00ثانی اثنین کا مصداق کون ؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="color: maroon; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: large;"></span><br />
<div style="line-height: 22px;">
<br />
<div>
<div id="pid_17224" style="background-color: #ece9e3; font-family: 'jameel noori nastaleeq', 'urdu naskh asiatype', tahoma; font-size: 16px; padding-bottom: 5px; padding-left: 0px; padding-right: 0px; padding-top: 5px;">
<span style="color: maroon;"><span style="font-size: large;">السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ<br /><br />معزز قارئین کرام !<br /><br /><span style="color: mediumblue;">شیعہ حضرات جہاں بغض صحابہ میں بہت سارے حقائق کو جھٹلاتے وہاں پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ثانی اثنین کے مصداق نہیں ہیں ۔ بلکہ اس کے مصداق عبداللہ بن اریقط ہیں ۔<br /><br />قارئین کرام میں یہاں کوشش کروں گا کہ صحابہ کرام کی زبانی یہ بات واضح کر سکوں کہ ثانی اثنین کے مصداق سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی ہیں ۔ انشا ءاللہ ۔ </span><br /><br />سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اللہ نے اپنے کلام مجید میں <span style="color: red;">ثانی اثنین</span> سے ذکر فرمایا ہے ۔ اور یہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے خصوصی فضیلت اور لقب ہے ۔ مفسرین یہاں یہاں <span style="color: red;">ثانی</span>کے لفظ سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات مراد لیتے ہیں ۔ یہ اس کلمہ کا ایک مفہوم ہے لیکن ایک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ<span style="color: red;"> ثانی اثنین</span> کا لفظ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ یعنی دو شخصوں میں سے دوسرے شخص سمیت کافروں نے نکال دیا ۔ اس صورت میں ثانی سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مراد لینا درست ہے ۔ ذیل میں ایسے قرائن پیش کیے جاتے ہیں کہ جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام اپنے کلام اور تکلم میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو<span style="color: red;"> ثانی اثنین </span>کے لقب سے یاد فرماتے تھے ۔<br /><br />اس کی چند ایک مثالیں ۔ ان مقامات سے ظاہر اور ثابت ہو گا کہ <span style="color: red;">ثانی اثنین </span>کا لقب صحابہ کرام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے حق میں صحیح تصور فرماتے تھے<br /><br /><span style="color: mediumvioletred;"><span style="font-size: x-large;"><div style="text-align: center;">
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کلام</div>
</span></span><br /><br />حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیعت کرنے کے موقعہ پر ایک کلام کیا تھا ۔ اس میں آں موصوف نے آپ کے صفات شمار کئے<br /><br />ان ابابکر صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم <span style="color: red;">و ثانی اثنین </span>و انہ اولی المسلمین بامورکم فقوموا فبایعو ۔ ۔ ۔ الخ<br /><br />درج ذیل مقامات پر محدثین اور اہل سیرت نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خطبہ کو نقل کیا ہے ملاحظہ ہو<br /><br />مصنف لعبدالرزاق ص 438-437 باب بداء مرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم<br />بخاری شریف ۔ ص 1702 ج 2 کتاب الاحکام باب الاستخلاف طبع نور محمد<br />المصنف لابن شیبہ ص 566 ج 14 باب ماجاء فی خلافۃ ابی بکر<br />سیرت ابن ہشام ۔ ص 661-600 ج 2 تحت خطبہ عمر قبل ابی بکر عند البیعت عامہ<br /><br /><br /><span style="color: mediumvioletred;"><span style="font-size: x-large;"><div style="text-align: center;">
حضرت ابو عبیدہ کا قول</div>
</span></span><br /><br />حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پاک کے بعد بیعت کے معاملہ میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بیعت خلافت کے لئے آمادہ کرنا چاہا تو حضرت ابوعبیدہ نے فرمایا :<br /><br />۔ ۔ ۔ اتبا یعنی وفیکم الصدیق و <span style="color: red;">ثانی اثنین </span>۔ یعنی تم میرے ساتھ بیعت کرنا چاہتے ہو حالانکہ تم میں الصدیق اور<span style="color: red;"> ثانی اثنین </span>موجود ہیں<br /><br />طبقات ابن سعد ص 128 ج 3 ۔ کنزالعمال لعلی متوی الہندی ص 140 ج 3 طبع اول دکن<br /><span style="color: mediumvioletred;"><span style="font-size: x-large;"><div style="text-align: center;">
حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہما کا قول</div>
</span></span><br /><br />تاریخ ابن جریر الطبری ص 209 ج 3 میں طبری نے نقل کیا ہے کہ جس وقت مہاجرین اور انصار میں خلافت کے معاملہ میں گفتگو ہوئی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ میں معذرت چاہی تو اس وقت حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما دونوں نے فرمایا : اللہ کی قسم اس معاملے کا آپ کو چھوڑ کر ہم ( کسی دوسرے کو) والی نہیں بنانا چاہتے کیوں کہ آپ افضل المہاجرین ہیں اور<span style="color: red;"> ثانی اثنین </span>ہیں جبکہ دونوں حضرات غار میں تھے اور نماز پر بھی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور قائمقام ہیں ۔ حالنکہ نماز مسلمانوں کے دین میں افضل چیز ہے ۔پس کس کے لئے مناسب ہے کہ وہ آپ سے مقدم ہو سکے ؟ یعنہ آپ سے مقدم ہونا کسی کے لائق نہیں ۔ ۔ ۔<br /><br /><span style="color: mediumvioletred;"><span style="font-size: x-large;"><div style="text-align: center;">
شیعہ علماء کی طرف سے تائید</div>
</span></span><br /><br />شیعہ علماء میں ابن ابی الحدید نے اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ طبع قدیم میں بحث ہذا میں حضرت عمر اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے<br /><br />وہ لکھتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔فقال عمر و ابو عبیدہ ما ینبغی لاحد من الناس ان یکون فوقک انت <span style="color: red;">صاحب الغار ثانی اثنین </span>وامرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم با الصلوۃ۔ فانت احق النسا بھذالامر<br /><br />یعنی حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خطاب کرتے ہوے فرمایا کہ اس وقت کوئی شخص آپ پر فائق نہیں ہے ۔ آپ <span style="color: red;">صاحب غار ہیں اور ثانی اثنین</span> ہیں ۔ اور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا ۔ پس آپ خلافت کے معاملہ میں سب لوگوں سے زیادہ حقدار اور مستحق ہیں<br /><br /><br /><span style="color: mediumvioletred;"><span style="font-size: x-large;"><div style="text-align: center;">
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا قول</div>
</span></span><br /><br />کنزالعُمال میں بحوالہ خیثمہ بن سلیمان روایت ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ عن حمران قال عثمان ابن عفان ان ابابکر الصدیق احق النا س بہا یعنی الخلافۃ انہ صدیق و<span style="color: red;"> ثانی اثنین </span>وصاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم<br /><br />یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تحقیق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلافت کے معاملہ میں زیادہ حقدار ہیں ۔ وہ صدیق ہیں <span style="color: red;">ثانی اثنین</span> ہیں اور وہ صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں<br /><br />(کنزالعمال لعلی متقی الہندی ص 140 بحوالہ خیثمہ فی فضائل الصحابہ روایت نمبر 2331 ۔ کتاب الخلافۃ۔ طبع اول دکن)<br /><br /><span style="color: mediumvioletred;"><span style="font-size: x-large;">حضرت علی اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما کا قول</span></span><br /><br />جب خلافت و نیابت کے معاملہ میں گفتگو ہوئی تو ان دونوں حضرات نے فرمایا<br />۔ ۔ ۔ انا نری ان ابا بکر احق الناس بہا ۔ <span style="color: red;">انہ لصاحب الغار و ثانی اثنین </span>۔ ۔ یعنی حضرت علی اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما مسئلہ خلافت کی بحث میں فرماتے ہیں کہ ہم تمام لوگوں میں سے خلافت کا زیادہ حقدار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جانتے ہیں ۔ کیوں کہ وہ <span style="color: red;">صاحب غار اور ثانی اثنین </span>ہیں<br />السنن الکبریٰ للبیہقی ص 18 ۔ الاعتقاد علی مذہب السلف للبیہقی ص 179 طبع مصر<br /><br /><span style="color: mediumvioletred;"><span style="font-size: x-large;">حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ کا قول</span></span><br /><br />مسند امام احمد میں یہ واقعہ درج ہے کہ ایک بار ربیعہ بن کعب الاسلمی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کا ایک نخلہ ( کھجور) کے متعلق وقتی طور پر تنازع پیش آیا تھا ۔ ربیعہ کے قبیلے کے لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق کچھ شکوہ کرنے لگے تو ربیعہ نے ان کو فہمائش کرتے ہؤے کہا<br />۔ ۔ ۔ ۔ اتدرون ماھذا ؟ ھذا ابوبکر الصدیق ھذا<span style="color: red;"> ثانی اثنین</span> ھذا ذو شیبہ المسلمین ۔ ۔ ۔الخ<br /><br />یعنی ربیعہ نے کہا کیا تم جانتے کہ ان کا کیا مقام ہے ؟<br />یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ <span style="color: red;">یہ ثانی اثنین ہی</span>ں ۔ یہ مسلمانوں کے شیخ اور بزرگ ہیں ۔ ۔الخ<br />مسند امام احمد ص 58-59 ج رابع تحت مسندات ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ<br /><br /><span style="color: mediumvioletred;"><span style="font-size: x-large;">حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اشعار</span></span><br /><br />روایات کی کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان بن ثابت کو فرمایا : کہ تو نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی کچھ اشعار کہے ہیں تو کہو تا کہ ہم بھی سن لیں ۔ تو حسان کہنے لگے<br /><br /><span style="color: darkgreen;"><div style="text-align: center;">
<span style="color: red;">وثانی اثنین فی الغار</span> ا لمنیف<br />وقد طاف العدو بہ اذ صعد الجبلاء<br />وکان حب رسول اللہ قد علموا<br />من البریہ لم یعدل بہ زجلا</div>
</span><br />( دیوان حسان ص 240 طبع مصر ۔ ازالہ لشاہ ولی اللہ ص 99 جلد اول تحت مسند حسان بن ثابت)<br /><br />ان اشعار کا مفہوم یہ ہے کہ ۔ بلند غار میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ <span style="color: red;">دو شخصوں میں سے دوسرے تھے</span> اور جب یہ پہاڑ پر چڑھے تو دشمن نے اس غار کا چکر لگایا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم<br />کے محبوب ہیں ۔ اور لوگوں نے یقین کر لیا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو ان کے برابر نہیں قرار دیا ۔ ۔<br /><br />مختصر یہ کہ صحابہ کرام اپنی گفتگو اور کلام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو<span style="color: red;"> ثانی اثنین</span> کے لقب سے ذکر کرتے تھے یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ثانی درجہ میں ہیں ۔ اور کلمہ ثانی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی مراد ہیں<br /><br /><span style="color: mediumvioletred;"><div style="text-align: center;">
<span style="font-size: x-large;">قاعدہ :</span></div>
</span><br /><br />قاعدہ ہے کہ باب تفسیر میں اقوالصحابہ کرام حجت قرار دئیے جاتے ہیں ۔ فلہذا <span style="color: red;">ثانی اثنین </span>کے مفہوم کی وضاحت صحابہ کرام کے مندرجہ بالا اقوال حجت شرعی کے درجہ میں ہیں ۔ اس لئیے یہ بات بالکل درست ہے کہ اس مقام ثانی سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں اور یہ ان کا لقب درست ہے اور یہ اُن کی صفت صحیح ہے ۔ اور صحابہ کرام اس چیز کا اعتراف کرتے تھے اور اس میں خلافت صدیق کی طرف اشارہ پاتے تھے</span></span><br /><br /><br />جاری ہے</div>
</div>
<div>
<br /></div>
</div>
</div>
</div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-82670702312127833272011-11-03T08:51:00.000-07:002011-11-03T09:03:22.982-07:00آیت اولی الامر کی تفسیر حصہ اول<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><br />
<center><span style="font-size: x-large;"><b><span style="color: black;">آیت اولی الامر کی تفسیر </span></b></span></center><center><span style="font-size: x-large;"><span style="color: black;">از مولانا عبدالشکور لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ</span><b><span style="color: black;"> </span> </b></span></center><span style="font-size: x-large;"><b><br />
</b><b><span style="color: red;">آیت اولی الامر سورہ نساء رکوع ساتواں</span><br />
<br />
ترجمہ : اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اولی الامر ( یعنی صاحبان حکومت کی) جو تم میں سے ہوں پھر اگر تم ( یعنی رعیت اور صاحبان حکومت) ٓپس میں اختلاف کرو سکی بات میں تو اسکو رجوع کرو اللہ اور اس کے رسول کی طرف اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ اور روز آخرت پر ۔ یہ بہتر ہے اور بہت خوب ہے باعتبار انجام کی۔</b> <b><br />
<br />
</b><b><span style="color: red;">تراجم علمائے اہلسنت و شیعہ</span><br />
<br />
۱ :. . حضرت شیخ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اسکا ترجمہ لکھتے ہیں ’’ اے مومناں فرمانبرداری کنید خداراو فرمان برداری پیغامبر راو ’’فرمان روایان‘‘</b> <b><br />
از جنس خویش پس اگر اختلاف کنید در چیزے پس رجوع کنید اور بسوئے خدا و پی غامبر اگر اعتقاد کنید بخدا روز آخر ایں بہتر است ونیکو تر باعتبار عاقبت‘‘<br />
<br />
۲:.... حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں ’’ اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اورجو ’’اختیار والے ‘‘ ہیں تم میں سے ۔ پھر اگر جھگڑپڑو کسی چیز میں تو اسکو رجوع کرو اللہ اور رسول کی طرف اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور پچھلے دن پر یہ خوب ہے اوربہتر تحقیق کرنا ۔‘‘</b> <b><br />
یہ دونوں ترجمے علمائے اہلسنت کے تھے اب دو ترجمے علمائے شیعہ کے بھی ملاحضہ ہوں :<br />
<br />
۳:... شیعہ مولوی فرمان علی جن کا ترجمہ قرآن شیعوں کو اتنا پسند آیا کہ اس کاترجمہ انگریزی میں بھی کیا گیا اس آیت کا ترجمہ یوں لکھتے ہیں ’’ اے ایمان دارو خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں سے ’’ صاحبان حکومت‘‘ ہوں انکی اطاعت کرو اور اگر تم کسی بات پر جھگڑ ا کرو پس اگر تم خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس امر میں خدا ور رسول کی طرف رجوع کرو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اور انجام کی راہ سے بہت اچھا ہے ۔</b> <b><br />
<br />
۴:... شیعہ مولوی مقبول احمد دہلوی اپنے مشہور ترجمہ قرٓن میں لکھتے ہیں ’’ اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول اور ’’ ان والیان امر ‘‘ کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں پھر اگر کسی معاملہ میں تم میں آپس میں جھگڑا ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو بشرطیکہ تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو یہی سب سے بہتر اور عمدہ تاویل ہی۔</b> <b><br />
<br />
</b><b><span style="color: red;"><div align="center">آیت کی صحیح تفسیر</div></span><br />
<br />
اس آیت کا مطلب بالکل واضح ہے صاف بات ہے کہ حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اللہ و رسول اور ان اولوالامر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہوں یعنی مسلمان ہوں اور یہ بھی فرمایا کہ اولوالامر اور رعیت میں اگر کوئی اختلاف پیدا ہو جائے تو اس اختلاف کا تصفیہ اللہ اور رسول یعنی قرآن و سنت سے کرانا چاہیئے اور تصفیہ کی اس صورت کو اس قدر ضروری قرار دیا کہ فرمایا اگر تمہا را ایمان اللہ پر اور قیامت پر ہے تو ضرور تم ایسا ہی کرو گے یہ بھی فرما یا کہ ایسا کرنے میں تمہارے ہر طرح کی بھلائے ہے اور اسکا نتیجہ بہت اچھا نکلے گا ۔</b></span> <span style="font-size: x-large;"> <b><br />
oاس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول کی اطاعت ہر حال میں واجب ہے اور ان سے نزاع کرنا حرام ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت ایک ہی چیز ہے لفظ دو ہیں مگر مصداق ایک ہی ہے چنانچہ اسی سورت میں آگے چل کر فرمایا ’’ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ‘‘ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے یقینا اللہ کی اطاعت کی ۔ ان دونوں اطاعتوں کا متحد ہونا محض اس سبب سے ہے کہ رسول معصوم ہوتے ہیں ان کا خلا ف حکم الٰہی کوئی بات صادر ہی نہیں ہو سکتی ’’ ما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ ‘‘ یعنی رسول ہوائے نفسانی سے کوئی بات نہیں فرماتے ان کی ہر بات وحی الٰہی ہوتی ہے ۔<br />
دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ اولی الامر کی اطاعت ہر حال میں واجب نہیں اگر ان کا کوئی حکم خلاف قرآن وسنت ہو اسکی اطاعت نہ کی جائے گی حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’ لا طاعتہ لمخولق فی معصیۃ الخالق‘‘ یعنہ خالق کی نافرمانی ہوتی ہو تو پھر مخلوق کی اطاعت جائز نہیں اس لیئے اولی الامر اسے نزاع اور نزاع سے فیصلہ کا طریقہ بیان فرما دیا تھا ۔<br />
اب یہاں دو باتیں سمجھ لینی چاہیئں :<br />
<br />
اول: .... یہ کہ اولوالامر کے کیا معنی ہیں اور کون کون لوگ اس سے مراد ہو سکتے ہیں</b> <b><br />
<br />
دوم : ..... یہ کہ اولوالامر کی اطاعت کا حکم کیوں دیا گیا خصوصاََ جب کہ الولی الامر معصوم بھی نہیں اور اسکا معصوم نہ ہونا اسی سے ظاہر ہے کہ اس سے نزاع کی اجازت دی گئی۔</b> <b><br />
<br />
</b><b><span style="color: green;">امر اول کی توضیح</span> :.... اولوالامر کے معنیٰ ازروئے لغت عرب صاحب حکومت کے ہیں الہٰذا جس شخص کو کسی قسم کی حکومت حاصل ہو اسکو اولولامر کہیں گے ۔ حکومت دو قسم کی ہوتی ہیں ۔ ایک حکومت عامہ جیسے بادشاہ وقت کی حکومت کہ اس کی تمام رعایا کو شامل ہے ۔ دوسری حکومت خاصہ جیسے افسران فوج یا حکام صوبہ یا قاضیوں کی حکومت کہ ان کی اپنی اپنی فوج یا صوبے یا شہر کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے ان سب کو اولوالامر کہتے ہیں ۔ اسی وجہ سے علمائے مفسرین نے اولوالامر کی <br />
تفسیر میں تین قول بیان کیے ہیں<br />
<br />
۱:.... یہ کہ اس سے سرداران فوج مراد ہیں ۔ہر فوج کو اپنے سردار کی اطاعت واجب ہی۔</b></span> <span style="font-size: x-large;"> <b><br />
۲:... یہ کہ اس سے خلیفہ وقت مراد ہے اس تفسیر کی بان پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا گیا ہے ۔<br />
۳: .. یہ کہ علماء اور فقہاء مراد ہیں ۔<br />
ان تینوں قولوں میں کوئی اختلاف نہیں تینوں مراد ہو سکتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کی اطاعت اپنے اپنے درجہ میں واجب ہے ۔<br />
<br />
<span style="color: green;">تفسیر درمنثور میں ہے :</span></b> <b><br />
<br />
<span style="color: red;">اخرج البخاری و مسلم و ابو داود و الترمذی و النسائی و ابن جریر و ابن المنذر و ابن ابی حاتم و البیہقی فی الدلائل من طریق سعید بن جبیر عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ اطیعواللہ واطیعوالرسول واولی الامر منک قال نزلت فی عبداللہ بن حذافۃ بن قیس اذ بعثہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سریۃ واخرج ابن جریر عن میمون بن مھرا فی قولہ واولی الامر منکم قال اصحاب السرایا علی عھدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم</span></b> <b><br />
<br />
ترجمہ :۔ بخاری اور مسلم اور ابودائو اور ترمذی اور نسائی اور ابن جریر اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے دلائل نبوت میں بروایت سعید بن جریر ابن عبا سے اللہ تعالیٰ کے قول ’’ واطیعواللہ واطیعو الرسول واولی الامر منکم ‘‘کے متعلق روایت کیا ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن حذافہ بن قیس کے بارہ میں نازل ہوئی تھی جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو ایک چھوٹے لشکر کا سردار بنا کر بھیجا تھا اور ابن عساکر نے بروایت سدی ابو صالح سے انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ار ابن جریر نے میمون بن مہران سے اللہ تعالیٰ کے قول اولی الامر کے متعلق روایت کیا ہے کہ اس سے مراد وہ افسران فوج ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مقرر تھی۔</b> <b><br />
<br />
ان روایات سے معلوم ہو ا کہ یہ آیت ان سرداران فوج کے بارہ میں نازل ہوئی ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مقرر ہوا کرتے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض مہم پر کسی دوسرے کو سردار فوج بنا کر بھیج دیتے تھے خود تشریف نہ لے جاتے تھے۔ لہٰذا حکم ہوا کہ فوجی لوگ اپنے سرداروں کی کی اطاعت کریں ۔ </b></span> <span style="font-size: x-large;"><b><br />
شان نزول تو یہی ہے مگر چونکہ الفاظ آیت عام ہیں۔اور اصول تفسیر کا قاعدہ کلیہ ہے کہ ’’ العبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوالسبب ‘‘ لہٰذا اب حکم سرداران فوج کے ساتھ خاص نہ رہے گا بلکہ سرداران فوج کا بھی جو شخص سردار ہو یعنی خلیفہ وقت بدرجہ اولیٰ اس حکم میں شامل ہو گا ۔<br />
<br />
تفسیر معالم التنزیل میں ہے : </b></span> <span style="font-size: x-large;"><b><span style="color: red;">وقال ابوہریرۃ ھم الامراء والولاۃ وقال عکرمۃ اراد باولی الامر ابابکر و عمر۔</span>حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اولی الامر سے مراد ’’ امیر اور والی یعنی خلفاء ہیں ‘‘ عکرمہ کہتے ہیں اولی الامر سے مراد ابو بکر رض اور عمر رض ہیں۔<br />
حضرت ابوبکر رض و عمر رض کے مراد ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ لفظ اولی الامر ان کے لئے مخصوص ہے بلکہ ان کا ذکر محض اس لے کیا گیا کہ لفظ اولی الامر کے اعلیٰ و اکمل مصداق وہ ہیں۔<br />
<br />
نیز تفسیر در منثور میں ہے : </b></span> <span style="font-size: x-large;"><b><span style="color: green;">اخرج عبد بن حمید و ابن جبیر و ابن ابی حاتم عن عطاء فی قولہ تعالیٰ اطیعواللہ واطیعوالرسول قال اطاعۃ اللہ والرسول اتباع الکتاب والسنۃ واولی الامر منکم قال اولی الفقہ والعلم واخرج ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والحاکم عن ابن اعباس فی قولہ تعالیٰ واولی الامر منکم یعنی اھل الفقہ والدین اول الطاعۃ الذین یعلمون الباس معانی دینھم ویامرونھم بالمعروف وینھون عن المنکر فاوجب اللہ طاعتھم علی العباد واخرج ابن ابی شیبۃ و عبد بن حمید والحکیم الترمذی فی نوادر الاصول وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والحاکم وصححہ عن جابر بن عبداللہ فی قولہ واولی الامر منکم واخرج ابن ابی حاتم شیبۃ و ابن جریر عن ابی العالیہ فی قولہ واولی الامر قال ھم اھل العلم الاتری الی انہ یقول ولو ردوہ الی الرسول واولی الامر منھم لعلمہ الذین یستننبونہ منھم۔</span><br />
<br />
ترجمہ : عبد بن حمید اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے چطاء سے اللہ تعالیٰ کے قول ’’ اطیعواللہ واطیعوالرسول کے متعلق روایت کیا ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت سے مراد کتاب و سنت کی پیروی ہے اور </b></span> <span style="font-size: x-large;"><b><span style="color: red;">اولوالامر</span> سے مراد فقہاء اور علماء ہیں ۔ اور ابن جریر اور ابن منذر اور ابن ابی حارتم اور حاکم نے ابن عباس رض سے روایت کی ہے کہ <span style="color: red;">اولی الامر</span> سے فقہاء اور دیندار عبادت گزار لوگ مراد ہیں جو لوگوں کو دین کی باتوں کی تعلیم کرتے ہیں ۔اور انکو امر معروف و نہی منکر کرتے ہیں ۔ اللہ نے انکی اطاعت بندوں پر واجب کی ہے ۔ اور ابن شیبہ اور عبد بن حمید نے اور حکیم ترمذی نے نوادالاصول میں اور ابن جریر اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم اور حاکم نیروایت کی ہے اور حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ بھی <span style="color: red;">اولی الامر</span> سے فقہاء کو مراد لیتے تھے ۔ اور ابن شیبہ اور ابن جریر نے ابولعالیہ سے روایت کیا ہے کہ <span style="color: red;">اولوالامر</span> سے مراد اہل علم ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ دوسری آیت میں فرمایا ہے کہ اگر وہ رسول اور اپنے<span style="color: red;"> اولوالامر</span> کی طرف رجوع کرتے تو جولوگ استنباط کرسکتے ہیں وہ بات سمجھ لیتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل استنباط مراد ہیں اور اوہ اہل علم ہی ہو سکتے ہیں۔<br />
<br />
</b><b>مفسرین کے ان اقوال سے معلوم ہوا کہ ہر درجہ کے حاکموں پر لفظ <span style="color: red;">اولی الامر</span> کا اطلاق ہو سکتا ہے ۔ پس کچھ شک نہ رہا کہ خلیفہ وقت جس کو حکومت عامہ حاصل ہے بدرجہ اولیٰ اس لفظ کا مصداق ہے ، بلکہ جب لفظ اولی الامر بولا جائے گا تو اس کے متبادل معنیٰ خلیفہ ہی کے ہونگی۔<br />
</b><b><span style="color: red;">امر دوم کی توضیح</span> :.... اولی الامر سے مراد اگر علماء فقہاء لیے جائیں تو ان کی اطاعت کا حکم اس وجہ سے ہے کہ عوام الناس جو کتاب و سنت کے سمجھنے کی لیاقت یا اتنباط مسائل کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ اگر علماء فقہاء سے دین کی تعلیم نہ حاصل کریں یا انکی تعلیم پر عمل نہ کریں تو ظاہر ہے کہ دین سے بے خبر اور بے تعلق ہو جائیں گی۔<br />
اور اگر اولوالامر سے مراد خلیفہ یا سردار فوج ہو اور یہی مراد ظاہر ہے تو ان کی اطاعت کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ نظام امت کا قیام اور امور سیاست کا انصرام اس کے بغیر نہیں ہو سکتا۔<br />
مشیت الٰہی میں روز اول سے یہ بات مقرر تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اس لیے ہو گی کہ تمام روئے زمین پر اسلام کی شوکت و سطوت کا جھنڈا نصب ہو اور آپ کے متبعین کسی غیر مسلم قوت کے زیر فرمان ہوکر نہ رہیں ۔ بلکہ وہ خود فرمانروا ہوں اور دین الٰہی کے جلال و جبروت کے سامنے تمام ادیان باطلہ کو سرنگوں کر دیں آیت کریمہ ’’ لیظہرۃ علی الدین کلہ ‘‘ اس کی گواہ ہی۔<br />
پس جب یہ بات پہلے مقرر تھی تو ضروری تھا کہ قرآن شریف میں جس طرح عبادات ماشرت و اخلاق کے اصول تعلیم فرمائے گئے ہیں ۔ اسی طرح سیاست و جہانداری کے اصول بھی ارزاد فرمائے جائیں۔ اور سیاست و جہانداری کے اصول میں سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ تمام اقوام کا شیرازہ متحد ہو۔ سب ایک نظام سے منسلک ہوں اور یہ بات بغیر اس کے حاصل نہیں ہو سکتی کہ قوم کا ایک شخص مقتدا اور صاحب حکم ہو اور باقی اشخاص اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں۔سیاست و جہانداری کی اسی اصل عظیم کی تعلیم آیت مذکورہ میں ہے ۔ اس آیت سے پہلے حکام کو تعلیم دی ہے کہ تم عدل و انصاف پر کاربند رہنا ۔ فرمایا ’’ <span style="color: green;">وَ اِذَا حکَمتم بَین الناس ان تحکموا بالعدل ان اللہ نعما یعظکم بہ</span></b></span> <span style="font-size: x-large;"> <b><br />
‘‘یعنی تم لوگو ں کے درمیان میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔ تحقیق اللہ کیا اچھی نصیحت تم کو کرتا ہی۔<br />
اس کے بعد آیت مبحوثہ میں محکوموں کو حکام کی اطاعت کا حکم دیا ۔ اس طرح حاکم و محکوم دونوں کے فرائض بیان کئی۔<br />
سیاست و جہانداری تو بڑی چیز ہے ایک گھر کا انتظام بھی بغیر اس کے درست نہیں ہو سکتا کہ اس گھر کے جتنے بھی رہنے والے ہوں سب مل کر اپنے میں سے کسی ایک کو بڑا مانیں اور سب اسکی اطاعت کریں۔ تو بھلا<br />
ایسا ضروری مسئلہ قرآن شریف سے کیوں کر فروگزاشت ہو سکتا تھا<br />
<br />
</b><b>دین اسلام ایسا کامل و مکمل دین ہے کی اس نے فلاح دارین کے اصول تعلیم فرمائے ہیں تو کیونکر ممکن تھا کہ تمدن کا ایسا ضروری مسئلہ نہ تعلیم دیا جاتا۔<br />
یہی وجہ ہے کہ اطاعت اولی الامر کے متعلق احادیث صحیحہ کا بھی ایک بڑا دفتر ہے جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:<br />
<br />
</b><b><div align="center"><span style="color: red;">احادیث نبویہ متعلق اطاعت اولی الامر </span></div><br />
۱: </b></span> <span style="font-size: x-large;"><b><span style="color: red;">عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من اطاعی فقد اطاع اللہ وم عصانی فقد عصی اللہ ومن یطع الامیر فقد اطاعنی ومن یعص الامیر فقد عصانی وانما الامام جنۃ یقاتل من ورائہ ویتقی بہ فان امر بتقوی اللہ وعدل فان لہ بذلک اجرا وان قال بغیرہ فان علیہ منہ ( متفق علیہ </span>)<br />
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رض سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس شخص نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر(یعنی حاکم) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ امام یعنی خلیفہ جس کی پناہ میں جہاد کیا سکتا ہے پس اگر وہ تقویٰ کا حکم دے اور انصاف کرے تو یقیناََ اسکو ثواب ملے گااور اگر اسکے خلاف کرے تو اس پر وبال ہو گا ( صحیح بخاری و صحیح مسلم)<br />
<br />
</b><b>ف: یہ جو فرمایا کہ امام مثل ایک سپر کے ہے الخ ۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام یعنی خلیفہ کا مقرر کرنا اس کی اطاعت کا واجب ہونا ان سیاسی و تمدنی مقاصد کے لئے ہے اور بس۔<br />
۲:عن ام الحصین قا ل قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان امر علیکم عبد مجدع یقودکم بکتاب اللہ فاسمعوا لہ واطیعوا ( مسلم)<br />
ترجمہ : حضرت ام حصین سے روایت ہے کہ وہ کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم پر کوئی غلام حاکم بنا دیا جائے ۔ جس کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں وہ تم کو کتاب اللہ کو موافق چلائے اس کا حکم سنو اور اطاعت کرو ( صحیح مسلم)<br />
۳ : عن انس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اسمعوا واطیعوا وان استعمل علیکم عبد حبشی کا ن راسہ زبیبۃ ( بخاری)<br />
ترجمہ: حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا حکم سنو اطاعت کرو اگرچہ تم پر کوئی حبشی غلام عامل بنا دیا جائے ۔ اور وہ ایسا بد صورت ہو گویا اس کا سر انگور کے برابر ہو ( بخاری)<br />
</b><b>ف: معلوم ہوا کہ اگر غلام بھی خلیفہ ہو جائے تو اس کی اطاعت بھی واجب ہے ۔ ہاں مسلمان ہونا ضروری ہے کیونکہ مقصد خلافت کا یہی ہے کہ کتاب اللہ کے مطابق ہماری قیادت کرے ۔ تیسری حدیث میں ’’ استعمل ‘‘ کے لفظ سے معلوم ہوا کہ ہر حاکم کی اطاعت واجب ہے خواہ وہ خلیفہ ہو یا خلیفہ کا مقرر کیا ہوا عامل ۔ <br />
۴: عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم السمع والطاعۃ علی المرء المسلم فیما احب وکرہ مالم یومر بمعصیت فاذا امر بمعصیت فلا سمع ولا طاعۃ ( متفق علیہ)<br />
ترجمہ: حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حکم سننا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان پر واجب تمام باتوں میں خواہ اس کو پسند ہوں یا ناپسند ۔ تاوقتیکہ کہیں گناہ کا حکم نہ دیا جائے ۔ مگر جب گناہ کا حکم دیا جائے نہ سننا واجب ہے نہ اطاعت کرنا ( صحیح بخاری و مسلم)<br />
<br />
</b><b>آیت اولی الامر .... کی تفسیر بیان ہو چکی اب اہل انصاف غور کریں کہ اس آیت سے کس طرح حضرات شیعہ اپنا مدعا ثابت کر سکتے ہیں ۔ آیت میں کونسا لفظ ہے جس سے حضرت علی کی خلافت یا عصمت آئمہ ثابت کی جا سکے ۔<br />
بلکہ اگر سچ پوچھو تو یہ آیت حضرات شیعہ کی ایجاد کیے ہوئے امامت و عصمت کا گھروندہ ہی بگاڑ دیتی ہے ۔ کیوںکہ آیت صاف بتا رہی کہ امام مثل رسول واجب الاطاعت اور معصوم نہیں ورنہ امام سے نزع کی ممانعت فرمائی جاتی ۔ جس طرح رسول سے نزاع کی ممانعت یہ نہ فرمایا جاتا کہ امام اگر کسی بات میں نزع ہو جائے اس کا فیصلہ قرآ ن و حدیث سے کرو ۔ یہ بالکل کھلی ہو ئی بات ہے ۔ جس کا اقرار خود آئمہ شیعہ سے بھی منقول ہے ۔<br />
اب دیکھو شیعہ صاحبا ن کیا فرماتے ہیں اور کس طرح آیت قرآنی کی تحریف کرتے ہیں<br />
<br />
جاری</b> </span> </div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-51207410641991941832011-11-02T19:43:00.001-07:002011-11-02T19:43:29.582-07:00مسلمان کی جان کی اہمیت<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><center><span style="font-size: x-large;"><b><span style="color: black;"><br />
</span> </b></span></center><span style="font-size: x-large;"><b><br />
</b><b><div align="center"><span style="color: magenta;">قومیّت اور اس کے روح فرسا نتائج</span></div><br />
<br />
پچھلے چند دنوں میں خاص طور پر خونِ ناحق کی ارزانی وفراوانی اور جان ومال کے محافظوں کے ہاتھوں جان ومال کی تباہ کاری وبربادی کے جو درد ناک وخون چکاں واقعات پیش آئے ہیں اور ان کا سلسلہ اب تک بھی ختم نہیں ہوا ہے، یہ تاریخِ پاکستان کے سیاہ ترین اوراق ہیں۔ جس طرح بھائی بھائی سے دست وگریباں ہے، بھائی بھائی کے ہاتھ قتل ہورہا ہے، بھائی بھائی کے مکان ودکان کو آگ لگارہا ہے، سامان کو لوٹ رہا ہے، یہ تاریخِ پاکستان کا انتہائی دردناک دور ہے۔ نہ بھائی سے بھائی کی جان محفوظ ہے، نہ آبرو محفوظ ہے، نہ مال محفوظ ہے، انتہائی کرب انگیز صورتِ حال ہے۔ مسلمان کے خون کی یہ ارزانی، مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے گھروں،دکانوں اور مارکیٹوں کی یہ تباہی وبربادی تاریخِ پاکستان کے الم انگیز اور شرمناک واقعات ہیں، بلکہ پاکستانی قوم کی پیشانی کا سیاہ داغ ہیں۔ مہاجروں اور سندھیوں میں سفاکی کے یہ ہولناک منظر ہلاکو اور چنگیزی بربریت کی یاد تازہ کرتے ہیں، بلکہ ان خداناآشنا وحشیوں کو بھی شرماتے ہیں۔ <span style="color: blue;">انا لله وانا الیہ راجعون۔</span><br />
<br />
اردو سندھی لسانی تنازع کے عنوان سے ابھرنے والی ملعون ”قومیت“ کے نتائج انتہائی حسرت ناک ہیں، کاش حکومت ذرا غور وتدبر سے کام لیتی اور اس نازک ترین موقع پر اس قضیہ کو ابھرنے نہ دیتی اور موزوں وقت کا انتظار کرلیتی تو شاید یہ دردناک صورت پیش نہ آتی۔ اگرچہ یہ تو ظاہر ہی ہے کہ یہ نزاع واختلاف ان واقعات ومحرکات کی محض ظاہری صورت ہے، ورنہ پسِ پردہ کوئی اور مخفی طاقت ہے جو ان واقعات کو اچھال رہی ہے، لیکن حیرت تو اس پر ہے کہ اس طاقت کی تشخیص کے باوجود آخر کیوں اس کو زہر پھیلانے کا موقع دیا جارہا ہے؟ زہر بھی وہ زہر جس سے خود صدرِ مملکت اور برسرِ اقتدار پارٹی بھی نہیں بچ سکتی۔ خیال تھا کہ مشرقی پاکستان کے واقعات کا اعادہ مغربی پاکستان میں نہ ہوگا اور مشرقی پاکستان کے واقعات سے مغربی پاکستان کو عبرت ہوگی، لیکن افسوس کہ عبرت تو کیا ہوتی، ان کی تقلید کی جارہی ہے، ان کو مثال اور نمونہ بنایا جارہا ہے۔<br />
<br />
</b></span> <span style="font-size: x-large;"><b><span style="color: magenta;">دراصل اسلامی اخوت کی نعمت سے جب مسلمان قوم محروم ہوجاتی ہے تو لسانی، قومی اور وطنی عصبیتوں کی لعنت میں گرفتار ہوجاتی ہے اور عالم گیر اسلامی ملت اور قوم چھوٹے چھوٹے دیشوں اور قوموں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ </span><br />
<br />
پاکستان کے پیٹ سے ”بنگلہ دیش“ تو جنم لے ہی چکا ہے اور اگر ان قومی ولسانی لعنتوں کو ختم نہ کیا گیا تو بقیہ مملکت کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں اور ”بنگلہ دیش“ کے بعد ”سندھودیش“ جنم لے گا اور پھر نہ معلوم اور کون کون؟ اور اس ملعون عصبیت کا سیلاب کہاں جاکر تھمے گا؟بلاشبہ یہ جو کچھ ہورہا ہے ہماری طویل غفلت کی سزا ہے، بلکہ غلط اور غیر اسلامی نظامِ زندگی کو اپنانے کا نتیجہ ہے۔ <br />
<br />
<br />
</b><b>[COLOR="rgb(255, 0, 255)"]اسلامی اخوت قرآن عظیم قرآن کریم کی روشنی[/COLOR]<br />
<br />
۱:۔”<span style="color: blue;">إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوْا بَیْنَ اَٴخَوَیْکُمْ“</span>۔ (الحجرات:۱۰)<br />
ترجمہ:۔”ا س کے سوا نہیں کہ اہلِ ایمان تو (آپس میں) بھائی بھائی ہیں، پس (اگر کوئی نزاع ہوجائے تو) اپنے بھائیوں کے درمیان صلح صفائی کرادو“۔<br />
<br />
۲:۔”<span style="color: blue;">فَاتَّقُوْا اللهَ وَاَٴصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ“</span>۔ (الانفال:۱)<br />
ترجمہ:۔”سو ڈرو اللہ سے اور صلح کرو آپس میں“۔<br />
<br />
۳:۔”<span style="color: blue;">وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیْعاً وَّلاَتَفَرَّقُوْ</span>ا“ (آل عمران:۱۰۳)<br />
ترجمہ:۔”اور تھام لو اللہ کی رسی کو سب مل کر اور الگ الگ (قوموں میں) نہ بٹو“۔<br />
<br />
</b><b><div align="center"><span style="color: magenta;">اسلامی اخوت حدیث کی روشنی میں</span></div><br />
<br />
۴:۔<span style="color: green;">”المسلم أخو المسلم لایظلمہ ولایسلمہ ومن کان فی حاجة أخیہ کان الله فی حاجتہ، ومن فرّج عن مسلم کربة فرج الله بہا کربة من کرب یوم القیامة ومن ستر مسلماً سترہ الله یوم القیامة“</span>۔ (صحیح مسلم،ج:۲،ص:۳۲۰)<br />
ترجمہ:۔”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کا ساتھ چھوڑتا ہے اور جو کوئی اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگے گا، اللہ اس کی حاجتوں کو پورا کرے گا اور جو کوئی کسی مسلمان کی مصیبت دور کرے گا، اللہ اس کی مصیبت قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے دور کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کا پردہ رکھا، اللہ قیامت کے دن اس کا پردہ رکھے گا“۔<br />
<br />
۵:۔”<span style="color: green;">المسلم أخو المسلم لایخذلہ ولایکذبہ ولایظلمہ</span>“۔(ترمذی،ج:۲،ص:۱۴)<br />
ترجمہ:۔”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس کا ساتھ چھوڑتا ہے، نہ اس کو جھٹلاتا ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے“۔<br />
<br />
۶:۔”<span style="color: green;">المؤمن للمؤمن کالبنیان یشد بعضہ بعضاً</span>“۔ (بخاری،ج:۲،ص:۸۹۰)<br />
ترجمہ:۔”مسلمان مسلمان کے لئے عمارت (کی اینٹوں) کی طرح ہے، ایک دوسرے کو مضبوط رکھتا ہے“۔<br />
<br />
۷:۔<span style="color: green;">”من مشی فی حاجة أخیہ کان خیراً لہ من اعتکاف عشر سنین“۔</span> (طبرانی)<br />
ترجمہ:۔”جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے چلے گا (جد وجہد کرے گا) یہ اس کے حق میں دس سال کے اعتکاف سے بہتر ہے“۔<br />
<br />
۸:۔”<span style="color: green;">المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ</span>“۔ (بخاری،ج:۱،ص:۶)<br />
ترجمہ:۔”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں“۔<br />
<br />
۹:۔”<span style="color: green;">مثل المؤمنین فی تواددہم وتراحمہم وتعاطفہم کمثل جسد ان اشتکی عضو منہ تداعی لہ سائر الجسد بالسہر والحمّٰی“</span>۔ (صحیح مسلم،ج:۲،ص۳۲۱)<br />
ترجمہ:۔”مسلمانوں کی مثال (صفت) آپس میں دوستی ،باہمی ترحم اور آپس میں شفقت کے لحاظ سے ایک جسم (اور بدن) کے مانند ہے، اگر اس (بدن) کا ایک عضو کسی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو بدن کے تمام اعضاء بخار اور بے خوابی میں اس کا ساتھ دیتے ہیں“۔<br />
<br />
۱۰:۔”<span style="color: green;">ألا أخبرکم بأفضل من درجة الصیام والصلاة والصدقة؟ قالوا: بلیٰ! قال: صلاح ذات البین فان فساد ذات البین ہی الحالقة‘</span> ‘(ابوداؤد،ج:۲،ص۳۳۱)<br />
ترجمہ:۔”کیا میں تم کو ایسا عمل نہ بتلاؤں جو روزے ، نماز اور صدقہ کے درجہ سے بھی افضل ہو؟<br />
صحابہ کرام نے عرض کیا: ضرور بتلایئے۔ آپ ا نے ارشاد فرمایا: وہ عمل باہمی تعلقات کی درستی ہے، اس لئے کہ بلاشبہ آپس کے تعلقات کی خرابی ہی تو (تمام خوبیوں اور برکتوں کو) مٹادینے والی ہے“۔<br />
<br />
ایسے بے شمار جواہرات ہیں، جن میں سے بطور مثال یہ چند پیش کئے گئے ہیں، جن سے اسلامی اخوت کے ایمانی رشتہ کی اہمیت اور ضرورت قومی اور اجتماعی زندگی کے بقا اور تحفظ میں واضح ہوتی ہے، بشرطیکہ کوئی عقل وہوش کے کانوں سے سنے اور دل سے سبق حاصل کرے، نیز عیاں ہوجائے کہ ایک مسلمان کا مسلمان کے ساتھ تعلق کیسا ہونا چاہئے؟ اور مسلمان کے مسلمان کے ذمے کیا حقوق ہیں؟ اور مسلمان کی امداد واعانت کے کیا کیا درجات ہیں؟۔<br />
ان آسمانی ہدایات وارشادات پر غور کریں اور جو کچھ ہورہا ہے اور جس دردناک طریق پر مسلم خون کی ارزانی ہور ہی ہے، اس کو دل کی آنکھوں سے دیکھیں، یقین نہیں آسکتا کہ جو قوم زبانی ہی سہی، مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، وہ ان وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کیسے کرسکتی ہے؟ درحقیقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دلوں سے اسلام کی روح نکل چکی ہے، حق تعالیٰ کے خوف سے دل خالی ہو گئے ہیں، قیامت پر ایمان نہیں رہا ہے، ورنہ تو مذکورہ بالا آیات واحادیث ِ نبویہ دلوں کو لرزادینے کے لئے بہت کافی ووافی ہیں۔<br />
<br />
</b></span><span style="font-size: x-large;"><b><div align="center"><span style="color: magenta;">قتلِ مسلم پر وعیدیں</span></div><br />
<br />
۱…رحمتِ عالم <img alt="" border="0" class="inlineimg" src="http://pak.net/images/smilies/pbuh.gif" title="صلی اللہ علیہ وصلم" /> نے ارشاد فرمایا ہے:<br />
<span style="color: seagreen;">”لزوال الدنیا اہون علی الله من قتل رجل مسلم“ </span>(نسائی ، ترمذی)<br />
ترجمہ:۔”ایک مسلمان کا قتل حق تعالیٰ کے نزدیک تمام کائنات کے تباہ ہوجانے سے بھاری ہے“۔<br />
<br />
۲:۔ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:<br />
[COLOR="rgb(46, 139, 87)"]”قتل المؤمن اعظم عند الله من زوال الدنیا[/COLOR]“۔<br />
ترجمہ:۔”ایک مومن کا قتل اللہ کے نزدیک تمام دنیا کے زوال سے بڑھ کرہے“۔<br />
۳:۔ایک اور حدیث میں جو ترمذی نے بروایت ابوسعید خدری وابوہریرہ نقل کی ہے:<br />
”اگر تمام روئے زمین وآسمان کے باشندے کسی ایک مسلمان کے قتل کرنے میں شریک ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا“۔<br />
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:<br />
”اگر تمام انس وجن ایک مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں، تو سب کے سب جہنم میں جائیں گے“۔<br />
<br />
۴:[COLOR="rgb(46, 139, 87)"]۔ایک اور حدیث میں جو ابن ماجہ وغیرہ میں آئی ہے، ارشاد فرمایا:<br />
”جو شخص کسی مسلمان کے قتل کرنے کے بارے میں ایک آدھ لفظ بھی زبان سے کہے گا تو قیامت کے روز اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا کہ یہ شخص حق تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے (یعنی محروم ہے)“۔ العیاذ بالله۔[/COLOR]<br />
<br />
۵:<span style="color: blue;">۔صحیح بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں جن سات چیزوں کو امت کی تباہی کا ذریعہ بتلایاگیا ہے، ان میں سے ایک ”مسلمان کا خونِ ناحق “ ہے۔<br />
</span><br />
۶:<span style="color: purple;">۔ایک اور حدیث میں آیاہے کہ:<br />
”مسلمان کی جان ومال حق تعالیٰ کے نزدیک بیت اللہ شریف سے بھی زیادہ قابلِ احترام ہے“۔</span><br />
<br />
۷:۔ ایک اور حدیث میں آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ:<br />
”<span style="color: olive;">ایک قاتل کو کسی مسلمان کے قتل پر قیامت میں ایک ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا۔ (یعنی ہر مرتبہ قتل کے بعد زندہ کیا جائے گا، پھر قتل کیا جائے گا)“۔</span><br />
<br />
۸:۔ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایاہے:<br />
”<span style="color: sienna;">اگر قاتل کو مسلمان کے قتل سے روکا نہ گیا تو تمام امت عذاب میں مبتلا ہوگی </span>(یہی ہو رہا ہے)“۔<br />
<br />
اس قسم کے اور بے شمار ارشاداتِ نبویہ موجود ہیں، ان کو ٹھنڈے دل سے پڑھئے اور پھر آج کل جو سرزمینِ سندھ میں ہورہا ہے، اس کا جائزہ لیجئے، یقین سا ہوتا جاتا ہے کہ خاکم بدہن اس قوم کی تباہی کا وقت آگیا ہے۔ یہ دردناک صورتحال مسلمانوں کے جہل کا نتیجہ ہے یا بے دینی کا، خود کررہے ہیں یا کرایا جارہا ہے۔ <br />
قدیم سندھی جدید سندھیوں سے کہہ رہے ہیں کہ:” سندھ سے نکل جاؤ“۔ یا جدید قدیم سے کہہ رہے ہیں کہ:” تمہارا وجود ناقابلِ برداشت ہے، تم سندھ کو چھوڑدو“۔<br />
بدقسمتی سب سے بڑی یہ ہے کہ حکومت اصلاحِ احوال میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ درحقیقت مسلمان قوم کو من حیث القوم خدا فراموشی کبھی راس نہیں آسکتی، افراد اس لعنت میں گرفتار ہوں تو معاملہ قابلِ برداشت ہوتا ہے، لیکن جب پوری قوم اس تباہ کن معصیت، یعنی خدا فراموشی میں مبتلا ہوجائے تو نجات کیسے ہو؟!<br />
<span style="color: magenta;">ایک طرف تو یہ مصیبتِ عظمیٰ نازل ہے، دوسری طرف چھپے ہوئے دشمنانِ اسلام اور اس ملک کے اصلی غدار، بے ضمیر، ملحد ودہریئے مارِ آستین بنے ہوئے ہیں، وہ سندھ کی علیحدگی اور ”جئے سندھ“ نعرہ بلند کررہے ہیں اور” سندھودیش“ کے شیطانی راگ الاپ رہے ہیں، بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں یہ سب سے دردناک اور تباہ کن دور ہے۔</span><br />
سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ملک تباہی کے کنارے آلگا ہے، لیکن دلوں کی قسادت وغفلت کی کوئی انتہاء نہیں، اب بھی عبرت نہیں ہوتی، آج بھی اگر پوری قوم محکوم اور حاکم، پبلک اور پولیس وفوج، سب صدقِ دل سے اپنی بدکرداریوں سے توبہ کرلیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے جرائم کی معافی مانگ لیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیں اور اس خدافراموش وخود فراموش زندگی کو یک قلم ترک کردیں اور ہر شخص اپنے دائرہٴ اقتدار میں ایمانداری سے اصلاحِ احوال کا عزم کرلے اور اپنی زندگی خداترسی کی زندگی بنالے تو<span style="color: blue;">”اِنَّ رَحْمَةَ اللهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ</span>“۔(اعراف:۵۶) یعنی ”بے شک اللہ کی رحمت مخلص نیکوکاروں سے قریب ہے“۔<br />
بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ضرور نازل ہوگی، مملکت بھی محفوظ ہوجائے گی اور باشندگانِ مملکت بھی آرام کی نیند سوئیں گے۔<br />
<br />
جب یہ بات یقینی ہے کہ اپنے اعمال کی سزا امت کو مل رہی ہے، یعنی مرض کی تشخیص ہوگئی ہے تو تشخیصِ مرض کے بعد تو علاج بہت آسان ہوجاتا ہے، قرآنِ حکیم نے اس قسم کے امراض کے لئے جو تیر بہدف نسخہ تجویز فرمایاہے، وہ استغفار ہے، انابت الی اللہ اور اپنے اعمال پر ندامت ہے، صدقِ دل سے توبہ ہے، اس ملک میں صحیح معاشرہ کا قیام ہے، اس کے لئے اسلامی قانون جلد سے جلد نافذ کیا جائے، شراب اور شراب خانے فوراً بند کئے جائیں، شرعی سزائیں جاری کی جائیں، مختصر یہ کہ غیر اسلامی زندگی کو فوراً ختم کردیا جائے ، یعنی حق تعالیٰ کے قہر وغضب کو دعوت دینے والی زندگی کو پہلی فرصت میں ترک کردیا جائے، اللہ تعالیٰ کی رحمت وفضل وکرم کو دعوت دینے والی حیاتِ طیبہ کو قائم ورائج کیا جائے، پھر دیکھئے چند دنوں میں انقلاب آجائے گا، اسلامی اخوت کے مظاہرے ہونے لگیں گے، قلوب میں سکینت واطمینان پیدا ہوجائے گا، جان ، مال، آبرو سب محفوظ ہوجائیں گی۔<br />
<br />
۱۹۶۵ء میں حق تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ کا یہ نمونہ بھی اہلِ پاکستان کو دکھلادیا ہے، چند دنوں میں پوری قوم نے فسق وفجور کی زندگی سے تائب ہوکر صالحین کی زندگی اختیار کر لی تھی، مسجدوں اور گھروں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے فضائیں گونجنے لگی تھیں، پورے ملک کا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔<br />
دیکھا آپ نے کہ کیسے اللہ تعالیٰ کی تدبیر کا ظہور ہوا اور کیسے لطیفہٴ غیبیہ کا اظہار ہوا؟، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:<br />
<span style="color: blue;">”وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرٰی أٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِّن السَّمآءِ وَالأَرْضِ“۔ </span>(الاعراف:۹۶)<br />
ترجمہ:۔”اور اگر بستیوں والے (صدقِ دل سے) ایمان لے آتے اور نافرمانی ترک کردیتے تو ہم یقیناً ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں نازل کردیتے“۔<br />
یہ آسمانی نسخہ اور قرآنی علاج ہے، تاریخِ عالم کا آزمایا ہوا نسخہ اور علاج ہے،لیکن اگر خدانخواستہ یہی خدا فراموشی اور خود فراموشی کی زندگی قائم رہی، یہی لیل ونہار رہے تو اس کے دردناک عواقب ونتائج سہنے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے:<span style="color: blue;">”وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِیْلاً“</span>۔ اور تم سنتِ الٰہیہ میں تبدیلی ہرگز نہیں پاؤگے۔<br />
حق تعالیٰ رحم فرمائیں اور امتِ پاکستانیہ کو توبہ وانابت کی توفیق نصیب فرمائیں او رقہرِ الٰہی سے نجات اور سعادت ورضاء ِ الٰہی کے آثار ظاہر فرمائیں اور موجودہ وآئندہ شقاوت وبربادی وتباہی سے امت کو بچائیں۔<br />
<br />
بحرمة سید المرسلین وامام المتقین وخاتم النبیین المبعوث رحمة للعالمین علیہ صلوات الله والملائکة والناس اجمعین۔</b></span><b><br />
</b></div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-16588854303904482412011-11-02T06:50:00.000-07:002011-11-02T06:55:37.803-07:00علامہ محمد اقبال اورسیّد عطاء اللہ شاہ بخاری<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><div style="text-align: right;"><br />
<center><span style="font-size: large;"><b><span style="color: black;"><br />
</span> </b></span></center><span style="font-size: large;"><b><br />
امیرشریعت سیّد عطا ء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ محمد اقبال </b></span><span style="font-size: large;"><b>رحمۃ اللہ علیہ</b></span><span style="font-size: large;"><b> کے باہم تعلقات تاریخ کے سینہ پر ثبت ہیں،لیکن ہمارے مصنفین کی ذاتی پسندوناپسند نے اِن شخصیات کی تعلق داری اوردوستی کے واقعات پر پردہ ڈال رکھا ہے۔وگرنہ اِن حضرات کی آپس کی قربت اِتنی نمایاں تھی کہ جانبدارقلم کاروں کی دیدہ ودانستہ سینہ زوریوں کے باوجودآج بھی اِن کے دوستانہ مراسم لوحِ تاریخ پر جگمگاتے نظر آتے ہیں۔<br />
<br />
تاریخی قرائن پتادیتے ہیں کہ اقبال اوربخاری کے مابین شناسائی کا آغاز دسمبر ۱۹۱۹ء میں خلافت کانفرنس ، امرتسر میں ہوا ۔جس میں علامہ اقبال سمیت ہندوستان کے تمام نمایاں سیاسی رہنمابھی شریک تھے۔اِس کانفرنس میں سیّدعطاء اللہ شاہ بخاری </b></span><span style="font-size: large;"><b>رحمۃ اللہ علیہ</b></span><span style="font-size: large;"><b> نے اپنی زندگی کی پہلی سیاسی تقریرکی تھی۔جسے سن کر مولانامحمدعلی جوہر کہہ اُٹھے تھے کہ:’’ <span style="color: blue;">بخاری! جب تم لوگوں کو پلاؤ اورقورمہ کھلادیتے ہوتواب تمہارے بعد ہمارے ساگ اورستّو کو کون پوچھے گا۔</span>‘‘جب سیّد بخاری </b></span><span style="font-size: large;"><b>رحمۃ اللہ علیہ</b></span><span style="font-size: large;"><b> اپنی ایسی ہی شعلہ بارتقریروں کی بدولت گرفتارہوکر تین سال کے لیے جیل چلے گئے تو خان غازی کابلی کی روایت کے مطابق اقبال نے سیّدبخاری کی گرفتاری پر ’’اسیری ‘‘ کے عنوان سے ایک خوبصورت نظم لکھی تھی ۔جس کے یہ اشعارقابل ذکرہیں:<br />
</b></span><div style="text-align: center;"><span style="font-size: large;"><b> <span style="color: magenta;">ہے اسیری اعتبار اَفزاء جو ہو فطرت بلند</span></b></span><br />
<span style="font-size: large;"><b><span style="color: magenta;"> </span></b></span><br />
<span style="font-size: large;"><b><span style="color: magenta;"> قطرۂ نیساں ہے زندانِ صدف سے ارجمند</span></b></span><br />
<span style="font-size: large;"><b><span style="color: magenta;"> </span></b></span><br />
<span style="font-size: large;"><b><span style="color: magenta;"> مشکِ ازفر چیز کیا ہے، اک لہو کی بوند ہے</span></b></span><br />
<span style="font-size: large;"><b><span style="color: magenta;"> </span></b></span><br />
<span style="font-size: large;"><b><span style="color: magenta;"> مشک بن جاتی ہے، ہو کر نافۂ آہو میں بند</span></b></span><br />
<span style="font-size: large;"><b><span style="color: magenta;"> </span></b></span><br />
<span style="font-size: large;"><b><span style="color: magenta;"> ہرکسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت، مگر</span></b></span><br />
<span style="font-size: large;"><b><span style="color: magenta;"> </span></b></span><br />
<span style="font-size: large;"><b><span style="color: magenta;"> کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام وقفس سے بہرہ مند</span></b> </span></div><span style="font-size: large;"><b> <br />
اقبال نے بخاری کی اِسی نظربندی پر ایک بیان میں کہا تھاکہ :’</b> <b><span style="color: blue;">’مجھے مجلس خلافت کے اُن ارکان سے ہمدردی ہے جواَپنی مجلس کی تجویزکے مطابق نیک نیتی سے یہ سمجھتے ہوئے گرفتارہوئے کہ وہ ایک پاک مقصد کی خاطر اِیثارکررہے ہیں۔ خاص کر مولاناسیدعطاء اللہ شاہ بخاری اورخواجہ عبدالرحمن غازی ایسے مشہورکارکنوں کے ساتھ ہمدردی ہے۔ہمیں اُن کی بعض رائیوں سے اختلاف بھی ہو،لیکن عقل واِنصاف کا تقاضایہ ہے کہ اُن کی خوبیوں کا بھی اعتراف کیاجائے۔وہ قومیکاموں میں بہت حصہ لیتے ہیں اورضرورت کے وقت بڑااِیثاردکھاتے ہیں۔‘</span>‘(’’گفتار اقبال‘‘،ص ۴۰۔۴۱)گویا اقبال سیاسی اختلاف کے باوجوداُن کی قربانی واِیثار کے معترف تھے۔اقبال ہی کاشعر سیّدبخاری کے حسب حال ہے کہ<br />
</b></span><div style="text-align: center;"><span style="font-size: large;"><b> <span style="color: magenta;">ازل سے فطرتِ احرارمیں ہے دوش بدوش</span></b></span><br />
<span style="font-size: large;"><b><span style="color: magenta;"> </span></b></span><br />
<span style="font-size: large;"><b><span style="color: magenta;"> قلندری و قبا پوشی و کلہ داری</span></b> </span></div><span style="font-size: large;"><b> <br />
اقبال نے بخاری کی اِنہی دینی وقومی ا ورملی خدمات کے پیش نظرکیاخوب تاریخی جملہ کہاتھا کہ:</b> <b><br />
<br />
’’ </b><b><span style="color: magenta;">شاہ جی! آپ اسلام کی چلتی پھرتی تلوارہیں۔</span>‘‘( ہفت روزہ ’’ چٹان‘‘ لاہور،۱۹۶۲ء)<br />
<br />
مارچ ۱۹۲۵ء کو اَنجمن خدام الدین لاہورکے زیراہتمام ایک جلسہ منعقدہواتھا۔جس میں ہندوستان کے نامورعلماء نے شرکت کی تھی۔رات کو علامہ اقبال نے اپنے گھرمیں ایک ضیافت کااہتمام کیاتھا۔جس میں علامہ محمد انورشاہ کشمیری </b></span><span style="font-size: large;"><b>رحمۃ اللہ علیہ</b></span><span style="font-size: large;"><b> ،علامہ شبیر احمدعثمانی </b></span><span style="font-size: large;"><b>رحمۃ اللہ علیہ</b></span><span style="font-size: large;"><b>، مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی </b></span><span style="font-size: large;"><b>رحمۃ اللہ علیہ</b></span><span style="font-size: large;"><b> اورمولاناسیّد عطا ء اللہ شاہ بخاریؒ بھی مدعوتھے۔ ضیافت سے قبل اوربعدمیں بہت سے علمی اوردینی مسائل زیر بحث آئے ۔ جن میں سود کا مسئلہ بھی شامل تھا۔<br />
<br />
(’’بادشاہی مسجد لاہور‘‘ ص:۳۸ ۔ ازڈاکٹر عبداللہ چغتائی)</b> <b><br />
<br />
جب اقبال ۱۹۲۶ء میں پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے لیے میدان میں اترے توفرزندِ اقبال جسٹس(ر)جاوید اقبال کے بقول سید عطا ء اللہ شاہ بخاری نے اقبال کے انتخابی جلسوں میں اُن کی حمایت میں تقریریں کیں۔(’’زندہ رودِ اقبال‘‘ ،ص۴۹۶) اقبال کامیابی سے ہمکنارہوئے تو اُن کی اِس سیاسی کامیابی میں سیّدبخاری کی خطابتی سحرکاری کابھی خاصاعمل دخل شامل تھا۔</b> <b><br />
<br />
جب پنجاب میں قادیانیت کے فتنہ نے زورپکڑا تو علامہ انورشاہ کشمیری </b></span><span style="font-size: large;"><b>رحمۃ اللہ علیہ</b></span><span style="font-size: large;"><b> نے تحفظ ختم نبوت کے لیے خصوصی تگ ودوسے کام لیا اوراستیصالِ قادیانیت کے لیے نہ صرف خودبھی خصوصی جدوجہدفرمائی ،بلکہ اپنے شاگردوں کو بھی اِ س اہم محاذپر کھڑاکیاتھا۔۱۹۳۰ء میں انجمن خدام الدین لاہور کے جلسہ میں علامہ انورشاہ کشمیریؒ نے سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری </b></span><span style="font-size: large;"><b>رحمۃ اللہ علیہ</b></span><span style="font-size: large;"><b> کی قادیانیت شکن سرگرمیوں اورمجاہدانہ یلغاروں کے اعتراف میں اُنہیں امیرشریعت نامزدکیااورپانچ سو علماء سمیت سیّدبخاریؒ کی بیعت کی۔ اِس تاریخی موقع پر علامہ اقبال بھی موجودتھے۔<br />
<br />
اقبال اوربخاری کے درمیان کا فی معاملات قدرِ مشترک تھے۔مثلاً قرآن فہمی، عالم اسلام کی ناگفتہ بہ حالت پر اِضطراب وبے قراری،انگریزدشمنی ،شعرواَدب کا ذوق وغیرہ۔یہی وجہ تھی کہ ۱۹۳۰ء میں ممتازاِشتراکی مصنف باری علیگ نے روزنامہ ’’زمیندار‘‘ میں ’’ اقبال اوربخاری‘‘ کے عنوان سے ایک پُرمغز مقالہ تحریر کیاتھا۔جس میں انہوں نے دونوں شخصیات کا موازنہ کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان نوجوانوں کو اِن کی قیادت میں اٹھ کھڑے ہونے کا مشورہ بھی دیاتھا۔</b> <b><br />
<br />
۱۹۳۱ء میں سیّد عطا ء اللہ شاہ بخاری </b></span><span style="font-size: large;"><b>رحمۃ اللہ علیہ</b></span><span style="font-size: large;"><b> کی قیادت میں کشمیری مسلمانوں کی آزادی کے لیے مجلس احراراسلام نے پہلی عوامی تحریک چلائی۔ تحریک کشمیر کے آغازمیں ہی علامہ اقبال نے کشمیری مسلمانوں کی حمایت میں ہونے والے جلسوں کا انتظام مجلس احر اراسلام کے سپردکردیا۔(جس کی تفصیلات روزنامہ ’’انقلاب‘‘لاہورکی فائلوں میں محفوظ ہیں۔)<br />
<br />
آزادئ کشمیرکے سلسلہ میں ہی ایک جلسہ اقبال کی صدارت میں لاہورمیں منعقدہوا۔ جس میں سیّد بخاری نے تقریر فرمائی ۔عوام کے اصراراورشاہ جی کی سفارش پر اِقبال نے ناسازئ طبع کے باوجودحسب ذیل ایک شعر بھی سنایاتھا:</b> <b><br />
</b></span><div style="text-align: center;"><span style="font-size: large;"><b> <span style="color: magenta;">لاالہ گوئی بگو اَزرُوئے جاں</span></b></span><br />
<span style="font-size: large;"><b><span style="color: magenta;"> </span></b></span><br />
<span style="font-size: large;"><b><span style="color: magenta;"> لاالہ ضرب است وضرب کاری است</span></b> </span></div><span style="font-size: large;"><b> <br />
اُنہی دنوں ’’کشمیر کمیٹی‘‘ کا قیام بھی عمل میں آیاتھا۔ جس میں دیگر مسلمان رہنماؤں کے علاوہ علامہ اقبال بھی شامل تھے،لیکن بدقسمتی سے کمیٹی کی سربراہی کاسہرا آنجہانی مرزابشیرالدین محمود (سربراہ قادیانی جماعت)اپنے سرپر سجانے میں کامیاب ہوگیا۔جس پر مجلس احرارنے ملک گیر شدید احتجاج کیا اورسید عطا ء اللہ شاہ بخاریؒ ، چودھری افضل حقؒ اورمولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ نے بارہا علامہ اقبال سے مذاکرات کیے اوراُن پر واضح کیاکہ کشمیریوں کی حمایت کے پردہ میں قادیانی کشمیرکو قادیانی ریاست بنانے کاناپاک منصوبہ بروئے کارلاناچاہتے ہیں۔ بعد کے حالات نے بھی قادیانیوں کا مکروہ چہرہ واضح کردیا۔احرارکی رہنمائی میں مسلمانوں کے شدید دباؤپر مرزابشیرالدین کشمیرکمیٹی سے مستعفی ہوگیا اورعلامہ اقبال کو نیاصدرمنتخب کرلیاگیا،لیکن علامہ اقبال بھی قادیانیوں کے اصل عزائم سے باخبر ہونے پر کمیٹی سے استعفیٰ دے کرالگ ہوگئے اوریوں اقبال نے سیّد بخاری اوراُن کی جماعت کے اُصولی مؤقف کے درست ہونے کی عملاً تائید کردی۔</b> <b><br />
<br />
اقبال وبخاری کا یہ تعلقِ خاطرآخردم تک قائم رہا۔حتیٰ کہ جب۱۹۳۸ء میں اقبال کا انتقال ہواتو سید بخاری نے مسجد خیرالدین امرتسرمیں ایک تعزیتی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’ اقبال کو نہ انگریز نے سمجھا ،نہ قوم نے ۔اگر انگریزسمجھتاتو اقبال بستر پر نہ مرتے ،بلکہ پھانسی کے تختہ پر لٹکائے جاتے اوراگر قوم سمجھ لیتی تو آج تک غلام نہ رہتی۔‘‘</b> <b><br />
<br />
اقبال وبخاری میں قرآن فہمی کا ذوق بدرجہ اتم موجودتھا۔اقبال نے قرآن مجید کے بحرِ عمیق میں غواصی کی تھی۔اِسی لیے سیّد بخاری فرمایاکرتے تھے کہ ’’ بابو لوگو ! قرآن کی قسمیں نہ کھایاکرو ۔قرآن کو سمجھ کر پڑھاکرو۔دیکھا! اقبال نے قرآن کو ڈوب کر پڑھا تو دانشِ فرنگ پر ہلّہ بول دیا۔‘‘</b> <b><br />
<br />
آج ملک وقوم جن حالات سے گزررہے ہیں۔ایسے میں اقبال جیسے دانشورانہ تدبراوربخاری جیسی مومنانہ بصیرت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔یورپی اوراَمریکی استعمار نے عالم اسلام کو بری طرح اپنی سازشوں سے ضیدِ زبوں کررکھا ہے۔دنیائے اسلام میں انقلابات کروٹیں لے رہے ہیں،لیکن اُن کی قیادتیں تدبروبصیرت سے محروم ہیں اوراُن کے عوام اپنی منزل سے کوسوں دُوربھٹک رہے ہیں۔اللہ امت مسلمہ کو اِقبال وبخاری جیسے عظیم المرتبت رہنما عطاء فرمائے ۔تاکہ ملتِ اسلامیہ کی کشتی ساحلِ مراد سے ہمکنار ہوسکے۔</b> <b><br />
</b></span><div style="text-align: center;"><span style="font-size: large;"><b> <span style="color: magenta;">خاموش ہوگئے ہیں، چمنستاں کے رازدار</span></b></span><br />
<span style="font-size: large;"><b><span style="color: magenta;"> </span></b></span><br />
<span style="font-size: large;"><b><span style="color: magenta;"> سرمایۂ گداز تھی، جن کی نوائے درد</span></b> </span></div></div></div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-45148009889695459782011-10-29T20:54:00.000-07:002011-10-29T20:54:10.051-07:00دین پر دُنیا کو ترجیح نہ دیجیے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><div style="text-align: right;"><span style="font-size: medium;">مولانا عبد اللہ خالد</span></div><div style="text-align: right;"><span style="font-size: medium;"> <span style="font-size: large;"><b><br />
</b></span></span></div><div style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><b>دعوائے مسلمانی کے باوجود ہم مسلمانوں نے اپنی زندگی کے ہر عمل اور ہرقدم کو بے دھڑک رسم ورواج اور ”زمانے کی ضروریات“ کے مطابق ڈھالنے کی روش اختیار کر رکھی ہے جس کی بنا پرہمارے لیے مذہب ثانوی اور” زمانے کا تقاضا “اولین حیثیت اختیار کر گیا ہے۔<br />
<br />
نتیجہ؟ ”رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی “ کے مصداق مسلمانی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود ہماری زندگی میں شاید ہی کوئی عمل ہو جس میں اسلامی تعلیمات کی جھلک نظر آتی ہو۔ مگر زعم اس بات کا کہ ہم جدی پشتی مسلمان ہیں، حد یہ ہے کہ خاص دینی اعمال بھی اب اسلامی تعلیمات کی روشنی سے خالی ہیں اور ان میں بھی تاریکی ہی تاریکی ہے ہمارے خاص دینی اعمال جیسے نماز، روزہ، حج اور قربانی وغیرہ اُس روح سے خالی ہیں جس کا تقاضا اسلام ہم سے کرتا ہے ۔ اور بے روح، بدن یقینا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہمارے اعمال بھی بے روح ہو چکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں ، وظائف کرتے ہیں ، روزہ رکھتے ہیں ، زکوٰة دیتے ہیں ، حج بھی کرتے ہیں اور قربانی بھی کرتے ہیں مگر ہماری روزانہ کی زندگی پر اس کے اثرات نظر نہیں آتے۔<br />
<br />
وجہ…؟ صرف یہ ہے کہ ہم نے دینی اعمال کو بھی اپنی دنیا سازی کا مقصد اور ہدف بنا ڈالا ہے۔ ہمیں دین کی وہ تمام باتیں اچھی لگتی ہیں جن سے ہماری دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے مگر ایسے اعمال جن سے بہ ظاہر ہمارے دُنیا وی فوائد واہداف کو کوئی گزند پہنچنے کا خطرہ ہو ، ہمارے لیے قابل توجہ وقابل عمل نہیں ہوتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے لیے قابل ترجیح دنیا کی زندگی ہے ، نہ کہ دین اور آخرت!<br />
<br />
اور ہمارے موجودہ شدید ترین سیاسی اور معاشی مسائل کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے دنیا کی محبت کو دین اور آخرت کی محبت پر مقدم کر رکھا ہے ، ایک حدیث نبوی صلی الله علیہ وسلم سے ہمیں واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ جب مسلمان پر دنیا کی محبت غالب آجائے گی تو دُنیا بھر کے کافر مل کر اس پر ٹوٹ پڑیں گے۔<br />
<br />
آئیے… ! قربانی کے اس دن ہم عہد کریں کہ اپنی دنیا کی محبت کو دین کی محبت پر قربان کرتے ہیں، اور آج سے ہم دین کو اپنی دنیا پر ترجیح دیں گے۔</b></span></div></div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com4tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-37532680872401287782011-10-21T19:17:00.000-07:002011-10-21T19:17:01.846-07:00قذافی کا پاکستان قوم پر ایک احسان<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="background-color: white; color: grey; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 14px;"><span class="caption"></span></span></div><div class="text_exposed_root text_exposed" id="id_4ea226645d0fc3b63518729" style="display: inline;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><span dir="rtl"><br />
<br />
ڈاکٹر عبدالقدیر نے بھٹو سے بات کی کہ اگر ھم<br />
و<span class="text_exposed_show" style="display: inline;">اقعی یہ مہم ﴿ایٹمی پاور﴾ سر کرنا چاہتے ہین تو ابتدائی طور پر پہلے سو ملین ڈالر کا بندوست کریں جو اس عظیم پروجیکٹ کےلیے ایک سیڈ منی ھوگی ۔۔ یہ اس زمانے بھٹو نے الطاف عباسی کو کرنل قذافی کے پاس یہ پغام دے کر پھیجا کہ اگر ہمیں ١۰۰ ملین ڈالر نہ ملے اور ھم نے بھارت کے جواب میں ایٹم بم نہ بنا سکے تو پاکستان صفحہ ہستی سے مٹ جاے گا ۔۔چنانچہ کرنل قذافی نہ صرف اتنی بڑی رقم دینے پر آمادہ ھو گے بلکہ انہوں نے لیبیا کی انقلابی کمان کو نسل کے ممبرڈاکٹر سالم بن عامر کو یہ رقم دے کر الطاف عباسی کے ہمراہ ہالینڈ پھیجا الطاف عباسی کے بقول اگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لے اگر قذافی پیسے نہ دیتا تو پاکستان اج اٹمی طاقت نہ ہوتا<br />
<br />
<br />
اور یہ وہی قذافی تھا جوشاہ فیصل اور بھٹو کے شانہ بشانہ ایک ایسی خلافت کے قیام میں پیش پیش تھا۔جس کا خواب ہر مسلمان نے دیکھا تھا*۔اور ہر مسلمان اس کی تکمیل کا آرزو مند تھا۔جی ہاں آج وہی قذافی شاہ فیصل کے قتل اور بھٹو کی پھانسی کے بعد اسلام کے دوشمنوں کی سازش کا نشانہ بنا.</span></span><span class="text_exposed_show" style="display: inline;"></span></span></div><br />
<div><span class="Apple-style-span" style="background-color: white; color: grey; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; font-size: 11px; line-height: 14px;"><span class="caption"><div class="text_exposed_root text_exposed" style="display: inline;"><span dir="rtl"><span class="text_exposed_show" style="display: inline;"><br />
</span></span></div></span></span></div></div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com3tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-37691159246505000892011-10-12T07:39:00.000-07:002011-10-12T07:39:20.414-07:00صدائے قلندر: آنکھیں بھیگ جاتی ہیں<a href="http://saifikhan011.blogspot.com/2011/10/blog-post_12.html?spref=bl">صدائے قلندر: آنکھیں بھیگ جاتی ہیں</a>: نجانے کیوں آج اُن کی یاد نے آنکھوں کو اشکبار کردیا۔ان بھیگی ہوئی آنکھوں میں اُ ن کے لہو میں بھیگے ہوئے چہرے دکھائی دے رہے ہیں۔ کبھی وہ خود...الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-90524723963115692982011-10-12T07:37:00.000-07:002011-10-12T07:37:24.613-07:00آنکھیں بھیگ جاتی ہیں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><br />
<div style="text-align: right;"></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">نجانے کیوں آج اُن کی یاد نے آنکھوں کو اشکبار کردیا۔ان بھیگی ہوئی آنکھوں میں اُ ن کے لہو میں بھیگے ہوئے چہرے دکھائی دے رہے ہیں۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">کبھی وہ خود نظر آنے لگتا ہے اور کبھی اس کے دیوانے نظر آنے لگتے ہیں </span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اور کبھی وہ سیاہ غلاف میں لپٹی ہوئی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی بیٹیاں نظر آنے لگتی ہیں کہ جن کی حیاء اور پاکیزگی پر خود حیاء بھی ناز کرتی تھی ۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">وہ سب ایک ایسی منزل کے مسافر تھے کہ جس کی راہ میں کانٹے ہی کانٹے تھے وہ عشق کی ایسی راہ پہ چل نکلے تھے کہ جو صرف اورصرف دار تک ہی جاتی تھی۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">وہ محبت میں ایسے فنا ہوگئے تھے کہ اُن کو دنیا کی چمک دمک محض دھوکہ ہعلوم ہوتی تھی۔اصل اور حقیقی مئومن کی پہچان بھی تو یہ ہی ہے کہ جب وہ محبت الٰہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہو جاتا ہے تو دنیا کی چمک دمک اس کے آگے کوڑا کرکٹ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔آج میرا دل چاہتا ہے ک میں اُن وفا کے مجسموں سے کچھ باتیں کروں اُن شریعت کے پروانوں سے کچھ کہوں اپنی غفلت کی اُن سے معافی مانگوں۔اے شریعت یا شہادت کا نعرہ لگانے والو ہم تم سے </span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">بہت پیچھے ہیں۔تم نے جو کہا کر دکھایا مگر ہم باتیں ہی کرتے رہ گئی۔اور ہاں ہم کریں بھی تو کیا کریں؟</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">ہم مجبور ہیں۔حالات ہمارے ساتھ نہیں ہیں ۔اور یہ بھی تو دیکھو ہمارا گھر ہے ماں باپ بہن بھائی ۔۔۔یہ سب ہم کیسے چھو</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"> سکتے ہیں</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اے مساجد کے لئے قربانی دینے والو۔ ہم تم سے بہت شرمندہ ہیں ۔۔۔۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">دریں اثنا ء کہیں دور سے ۔۔یا شاید دل کے کسی کونے سی۔۔۔نہیں شاید اسلام کے نام پہ بننے والے ملک کے کسی قبرستان سی</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">آواز آتی ہے ۔۔۔۔کہ اے پاکستان میں بسنے والو۔۔۔۔حالات کبھی ساتھ ساتھ نہیں دیتی۔۔حالات تو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی نہیں تھی۔انہوں نے مکہ مکرمہ طائف و احد ۔۔۔میں اپنا خون اور پسینہ بہا کر حالات کو سدھارا ہی۔۔ اگر تم بہت مجبور ہو تو دیکھو تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت خون بہانے والی ہم نے ادا کر دی ہے ۔اب پسینہ تم بہا کر حالات کو سدھار لو اسی میں کامیابی ہے اب حالات تمہارے سپرد ہیں۔ہم نے اپنے لہو سے ابتداء ِ انقلاب کر دی ہیاب دیکھنا ہماری محنت ضائع نہ ہونے دینا۔ہم تم سے خون نہیں مانگتے صرف اتنا کہتے ہیں کہ ہم نے جو نفاذ شریعت کا نعرہ لگایا تھا ہماری </span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">ایک جان تھی سو ہم نے وہ بھی لٹا دی ہے اب تمہاری باری ہی</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">نہیں نہیں۔۔ گھبراؤ مت ہمیں پتہ ہے کہ تم بہت مجبور ہو ۔۔بس اتنا کرو۔۔اپنے اپنے گھروں میں شریعت نافذ کردو ۔یہ قرض ہے ہمارے خون کا تمہارے اوپر اب یہ اتارنا تمہارا فرض ہی۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔۔۔۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اور ان بھیگی ہوئی آنکھوں میں ۔۔لہو رنگ ۔۔ایک ہستا ہوا چہرہ نظر آنے لگتا ہی۔اور کہتا ہے۔۔۔سیفی ۔۔میرے قاتل سے کہہ دو کہ ہم مر کے بھی زندہ ہیں</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">۔۔آ دیکھ ہمارے رب نے ہمیں اپنی رحمت کی بانہوں میں لے رکھا ہے۔۔دیکھ سکتے ہو تو دیکھو ۔۔ہم اپنے رب کے ہاں خوش ہیں۔۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">بہت خوش۔۔۔۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اورآنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔۔۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اب یہ کسی دکھ میں نہیں بلکہ شہداء لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی استقامت اور شہادت کو سلام کرت ہیں ۔۔اپنے آنسوؤں کے </span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">ساتھ۔۔۔</span></b></div><div style="text-align: center;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: center;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">جب تک دیپ نہ جلیں شہیدوں کے لہو سی</span></b></div><div style="text-align: center;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">سنا ہے کہ جنت میں چراغاں نہیں ہوتا</span></b></div><div style="text-align: center;"><br />
</div><br />
</div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-17972856886308764372011-10-01T00:49:00.000-07:002011-10-01T00:50:18.095-07:00توہینِ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا انجام<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><span class="Apple-style-span" style="background-color: white; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naksh';"></span></span></b></div><div style="text-align: right;"></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">جنگ جمل کے موقع پر اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اونٹ پر سوار تھیں، اونٹ کا رنگ سفید تھا۔۔۔ سفید رنگ حسن والا ہوتا ہے۔ اونٹ ’’مہرہ‘‘ نسل کا تھا، اس کا نام ’’عسکر‘‘ تھا۔ یمن کے گورنر ’’یعلیٰ بن امیہ‘‘ نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں یہ اونٹ اور کئی ہزار اشرفیاں بھیجی تھیں۔ سبائیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں کھڑے ہو کر اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے لشکر پر تیر برسائے اور ادھر سے اس طرف چلے۔ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے ارد گرد ’’بنو ضبہ‘‘ کے لوگ تھے جوحارث بن زبیر الازدی کے یہ شعر پڑھ رہے تھے کہ :</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">یَا اُمَّنَا یَا خَیْرَ اُمِّ نَعْلَم( اے ہماری اماں، اے ہماری دانست میں ہماری معلومات کے مطابق سب سے بہتر ماں!)</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">أَمَا تَرَیْنَ کَمْ شَجَاعٍ یُکْلَم(کیا آپ نہیں دیکھتیں کہ کتنے بہادر زخمی ہو گئے ہیں)</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">وَ تَجْتَلِیْ ہَامَّتَہ وَالْمِعْصَم(اور آپ اُن کی کھوپڑیاں اور کلائیاں (کٹی ہوئی) دیکھتی ہیں)</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">انہوں نے اماں کے اردگرد اپنی لاشوں کے ڈھیر لگا دیے، اماں کے اردگرد بنو ضبہ کی ستر لاشیں تھیں۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ایک سبائی خبیث تھا، اس کا نام ’’أَعْیَنْ بِنْ ضَبِیْعَۃ الْمجاشعی‘‘ تھا۔ اس نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہودج کا پردہ اٹھا کر اندر جھانکا۔۔۔استغفر اللہ</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">ان ظالموں نے لوٹ لی حرمت رسول کی</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">محشر میں کوئی جواب ان کو سجھایا نہ جائے گا</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’اِلَیْکَ! لَعَنَکَ اللّٰہُ‘‘ تجھ پر اللہ کی لعنت ہو باز آ جا(ہٹ جا)</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">پھر بھی باز نہ آیا، اور بھونکنے لگا: ’’سنا تھا کہ نبی کی گھر والی بڑی گوری چٹی ہے آج بھی ویسی ہی نظر آ رہی ہے‘‘</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اس خبیث نے پھر جھانکا اور بکواس کی: ’’مَا أَرَی اِلَّا حُمَیْرَاءَ‘‘ بڑی گوری چٹی کو دیکھا۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے منہ سے یہ جملے نکلے:</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">’’ہَتَکَ اللّٰہُ سِتْرکَ، وَقَطَعَ یَدَکَ، وأَبْدٰی عَوْرَتَکَ‘‘</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">’’اللہ تیرا پردہ چاک کرے، تیرے ہاتھ کٹ جائیں، اوراللہ تجھے ننگا کر کے پھینک دے۔ ‘‘</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">دو دن بعد یا تیسرے دن بصرہ والوں نے دیکھا:اس کے ہاتھ کٹے ہوئے تھے اور ننگی لاش پڑی ہوئی تھی۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">(البدایہ والنہایہ، جلد:۷، صفحہ:۲۴۵)</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">سن لو! سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بے حرمتی کرنے والوں کو اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا، نقد بدلہ اللہ نے چُکا دیا۔ میرا عقیدہ ہے کہ جو سبِّ صحابہ کرے گا مرنے کے بعد اس کا منہ قبلہ کی طرف نہیں رہے گا اور قبر میں شکل خنزیر کی ہو جائے گی۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">علاّمہ ابن حجر مکّی رحمۃ اللہ علیہ ۱۰ھ کے مجدّد ہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کرنے والے ایک بدبخت کے انجام کی تفصیل لکھتے ہیں:</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">ابن منیر گورنر حلب جب مر گیا تو حلب کے نوجوانوں نے اس کے متعلق ایک فیصلہ کیا کہ اس کی قبر کو اکھیڑو اور لاش کا حلیہ دیکھو کہ کیا ہے؟ کیوں کہ ہم نے یہ عقیدہ اپنے علما سے سنا ہواہے کہ جو شخص ابوبکر و عمر اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالی دیتا ہے اللہ تعالیٰ قبر میں اس کی شکل خنزیر کی بنا دیتے ہیں۔ العیاذ باللہ۔ ابن منیر ان دونوں بزرگوں کو گالیاں دیا کرتا تھا۔وہ اس کی قبر کے پاس آئے ، انہوں نے قبر اکھیڑی، دیکھا تو اس کی شکل خنزیر کی بنی ہوئی تھی اور منہ قبلہ سے مڑا ہوا تھا۔ انہوں نے اس کو باہر نکالا اور قبر کے کنارے پر اس کو لٹکا دیا۔ تین دن لٹکا رہا۔ لوگ آتے اور دیکھتے کہ ابن منیر کی شکل خنزیر کی سی ہو گئی ہے۔ جب نمائش ہو گئی تو پھر اس کی لاش کو جلایا اور خاک قبر میں ڈال دی۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">استغفر اللہ العظیم من کل ذنب و من ہذا الذنب الاکبر</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">(الزواجر عن اختلاف الکبائر، علاّمہ ابن حجر مکّی رحمۃ اللہ علیہ، حصہ دوم۔ صفحہ:۲۲۰)</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><span class="Apple-style-span" style="background-color: white; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naksh';">(اقتباس: خطاب جمعہ، مسجد معاویہ عثمان آباد۔ ملتان)</span></span></b></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="background-color: white; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naksh';"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="background-color: white; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naksh';"><span class="Apple-style-span" style="background-color: #f0f0f0;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">افادات: جانشین امیرشریعت سید ابوذر بخاری رحمتہ اللہ علیہ</span></b></span></span></div></div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-12597988148534458862011-10-01T00:35:00.000-07:002011-10-01T00:35:15.929-07:00’’ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی ‘‘<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><div style="text-align: right;"></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">گاؤں کا چودھری مر گیا جنازے سے واپسی پر میراثی کے بیٹے نے پوچھا ’’ابا جی، اب کون چودھری بنے گا‘‘؟میراثی نے کہا ’’اب چودھری کا بیٹا یا چودھری کا بھائی چودھری بنے گا۔‘‘ میراثی کے بیٹے نے کہا ’’اگر وہ دونوں بھی مر جائیں تو پھر کون چودھری بنے گا‘‘؟ میراثی نے کہا ’’بیٹا سن اور غور سے سن، ابھی تو نادان ہے۔ اگر چودھریوں کا سارا خاندان اور تمام دور و نزدیک رشتے دار بھی مر جائیں تو تب بھی تجے یا تیرے باپ کو چودھری کوئی نہیں بنائے گا۔‘‘</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">ایک وقت تھا کہ صدیوں پر مشتمل بد رنگ حکمران جن کی حکومت میں سورج کو غروب ہونے کی اجازت نہ تھی، بد رنگ بدیسی ہمارے آقا تھے۔ ہمارے بڑوں نے اعلان کیا’’ بٹ کے رہے گا ہندوستان بن کے رہے گا پاکستان، پاکستان کا معنی کیا، لا الہ الا اللہ ۔۔۔ نعروں کی یہ گونج جب مالک الملک تک پہنچی تو اس نے مدد کا وعدہ کر لیا۔ ہمارے بڑوں نے لاکھوں جانوں اور لاکھوں کروڑوں کے مال جائیداد کی قربانیاں دیں۔۔۔ ’’پاکستان بن گیا‘‘۔۔۔ نہ جانے گورے بد رنگ آقا کو جاتے جاتے کیا سوجھی کہ نہایت چالاکی سے اپنی کالی روحانی اولاد کو ہمارے سروں پر سوار کر گیا۔ کھوٹے سکوں سے بانی پاکستان کی جیبیں بھر گیا۔ برطانوی بھگوڑوں کی امریکی اولاد کو ان کھوٹے سکوں نے رائج الوقت اصلی کرنسی بن کر اپنا نیا آقا تسلیم کر لیا۔۔۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">قرآن عظیم الشان نے ازلی ابدی اعلان میں کہہ دیا تھا ’’یہود اور نصاریٰ ہرگز تمہارے دوست نہیں بن سکتے، ہاں تم ہی ان کے سو فیصد غلاو بے دام اور پیروکار ہونے کا اعلان اور کردار پیش کرو تو اور بات ہے۔‘‘ ۱۹۵۰ء سے تا حال یہ نام نہاد آزاد قوم اپنے کالے انگریز آقاؤں کے سامنے ہاتھوں میں ہتھکڑیوں اور پاؤں میں بیڑیوں کے ساتھ پیش ہے،</span></b></div><div style="text-align: center;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: center;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">بے وقار آزادی ہم غریب لوگوں کی</span></b></div><div style="text-align: center;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: center;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">سر پہ تاج رکھا ہے بیڑیاں ہیں پاؤں میں</span></b></div><div style="text-align: center;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">منت خوشامد کرتے ہیں، عزت جان، مال، اسلام کے بیٹے، بیٹیاں پیش کرتے ہیں، ناک سے لکیریں نکالتے ہیں مگر جان بخشی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ گورے بد رنگ آقاؤں کے نمائندہ کالے سنگدل آقا راضی ہی نہیں ہوتے۔ اور اگر کبھی اُن کی طرف سے دل خوش کن اعلان ہو بھی جائے تو وائسرائے فوراً اسلام آباد آ دھمکتے اور اپنے کالے نمائندوں کے کان کھینچ کر یا مرغا بنا کر نیا مسلم کش ٹارگٹ دے جاتے ہیں۔ کالے آقا فرماتے ہیں، بش مسلم کش (اور اس کا غلام پرویز مُش) چلے گئے۔ فکر مت کرو، اب حسین کا بیٹا اوبامہ پالیسی میں تبدیلی لا کر مسلم امت کو ریلیف دے گا۔ کروڑں الّو باٹے اس انتظار میں بغلیں بجاتے ہیں کہ ہاں کالے مسلمان، حسین کا بیٹااوباما گورے امریکہ کا حکمران بن سکتا ہے تو اپنے اعلان کے مطابق وہ امن پالیسی بھیلائے گا۔ وطنِ عزیز کے نادان بیٹے اس امید پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ واقعی اب حسین اوبامہ کے تخت شاہی پر براجمان ہونے پر زنجیر عدل کھینچنے سے پہلے ہی اللہ کی زمین پر عدل اور امن کی بہاریں ہوں گی اور ہم غلام پاکستانی اب جوڈیشل لاک اپ سے آزادی پا لیں گے۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اوبامہ حسین مصر جیسے عظیم مسلم ملک میں کانفرنس سے خطاب کرتا اور قرآنی آیات کو اپنے خطاب کا تاج بناتا، اسلام کو امن کا مذہب تسلیم کرنے اور اہل اسلام کو امن دینے کا اعلان کرتا ہے مگر۔۔۔ مگر تخت نشینی سے اب تک سیکڑوں ڈرون طیارے حملوں کو تیز تر کرتا جاتا ہے۔ ہفتے دس دن بعد پاکستان کے لیے اپنے وائسرائے کو نگرانی کے لیے بھیجتا ہے۔ مشرقی سرحدوں سے پاکستانی افواج کو ہٹا کر ایف 16، ایف 17، مارٹر گولے، توپوں اور ٹینکوں سے مسلح زمینی اور آسمانی شاہی فوجوں کو افغان پاکستان سرحدی قبائلی اور پشتون پٹی پر ’’بزن‘‘ کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہی لوگ پولیو کے قطروں سے انکار اور جہاد پر اصرار کے مجرم ہیں۔ حکم اتنا سخت اور تاکیدی ہے کہ محترم سالار اعظم خود طیارے پر سوار ہو کر بمباری کی نگرانی کے لیے مالا کنڈ اور سوات تشریف لے جاتے ہیں۔ اصغر خان نے انگریز کمانڈر کے حکم پر بمباری کرنے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ نیچے آبادی میں عورتیں اور بچے بھی ہیں، اس کا عذر قبول کیا گیا تھا؟</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عطیہ تلوار کو مقابل کافرعورت پر استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ عورت کا احترام اور عورت پر تلوار، تلوار دینے والے عظیم رسول کی توہین ہے۔۔۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر چند مسلمان مردوں، عورتوں کے مکہ مکرمہ میں موجودگی اور لڑائی میں اُن کو نقصان کو خطرہ تھا۔ اس وجہ سے عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے محبوب صحابہ رضی اللہ عنہم کو جہاد کی اجازت نہ ملی( سورۃ الفتح، القرآن) یہ کیسے مسلمان حکمران ہیں، جن کو سوات مالاکنڈ، شمالی، جنوبی وزیرستان، بلوچستان اور دیگر قبائلی و قانونی علاقوں میں نہ عورتیں نظر آتی ہیں، نہ بچے نظر آتے ہیں، نہ بے گناہ ضعیف عمر مسلمان نظر آتے ہیں۔ بس حکمرانوں کو وائسرائے کا حکم اور وڈیروں اور زرداروں کا حکم نظر آتا ہے۔یہ اللہ اور رسول کا حکم تو نظر انداز کر سکتے ہیں مگر امریکی وائسرائے کا حکم نظر انداز کرنے کی جرأت نہیں۔لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِق(مخلوق کی اطاعت میں خالق کی نافرمانی نہ کرو) اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے فراستِ مومن والے خلیفہ راشد ’’چھے اہم افراد‘‘ کو مشورہ کا پابند اور خلافت کا اہل قرار دے سکتے ہیں تو یہاں فرد واحد کا حکم کیوں چلتا ہے؟ پارلیمنٹ آخر کس مرض کی دوا ہے؟ کیا ہم اہل پاکستان اس میراثی کے بیٹے سے بھی زیادہ نا سمجھ بنے رہیں گے کہ چلو یہ حکمران چلا گیا تو حالات سنور جائیں گے۔ بش مسلم کش اور دشمن رسول پرویز مُش چلا گیا، اب ہمیں روٹی کپڑا اور مکان مل جائے گا؟ کیا ہمیں آسمانی اعلان پر غور کرنے کی توفیق نہیں ہو گی؟وَ لَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَ لَا النَّصاریٰ حَتّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">یہود و نصاریٰ تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے حتیٰ کہ تم ان کے دین کی پیروی کرو۔(البقرہ، آیت:۱۲۰)</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">یہ قرآن ناشناسی، خدا فراموشی اور اللہ سے کیے گئے وعدے سے انحراف کی سزا ہے کہ</span></b></div><div style="text-align: center;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: center;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">ابھی تک پاؤس سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی</span></b></div><div style="text-align: center;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: center;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">دن آ جاتا ہے آزادی کا ، آزادی نہیں آتی</span></b></div></div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-13755394455920750712011-09-25T01:10:00.000-07:002011-09-25T01:21:11.020-07:00علامہ علی شیر حیدری شہید<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><div style="text-align: right;"></div><span class="Apple-style-span" style="background-color: white;"></span><br />
<div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><span class="Apple-style-span" style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naksh';"><span class="Apple-style-span" style="background-color: white; font-family: 'Times New Roman';"></span></span></span></div><table cellpadding="0" cellspacing="0" id="artable" style="padding-right: 10px; text-align: left;"><tbody>
<tr><td dir="rtl" id="contentable" style="background-image: url(http://localhost/ahrar/naqeeb/contents/images/bg-linear-gray.gif); background-position: 0% 0%; background-repeat: no-repeat repeat; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naksh'; padding-bottom: 10px; padding-left: 10px; padding-right: 24px; padding-top: 10px; text-align: right; vertical-align: middle; width: 649px;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اصحاب و ازواجِ رسول علیہم الرضوان کے مقام ومنصب اور ناموس کے تحفظ کے لیے جاں نثاروں اور فدا کاروں کا ایک قافلۂ سخت جاں ترتیب دیا تھا۔ علی شیر اُسی قافلۂ حق، سپاہِ صحابہ کا پانچواں سپہ سالار تھا۔</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">میری اُن سے چند ہی ملاقاتیں ہیں جو یادگار بھی ہیں اور ناقابلِ فراموش بھی۔ میں نے اپنی چالیس سالہ تحریکی زندگی کے سفر میں کئی رہنماؤں کو دیکھا اور سنا۔ اُن میں سے بعض شخصیتوں کے دوہرے رُخ نے بہت مایوس کیا۔ خود ساختہ تقدس اور تصنع کے پردوں میں زیادہ دیر چھپا نہیں جا سکتا۔ لیکن جن شخصیتوں کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے اور زبان دل کی رفیق ہوتی ہے اُن کا نقشِ اوّل، نقشِ لافانی ہوتا ہے۔ علامہ علی شیر حیدری شہید انھی میں سے ایک تھے۔</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">وہ خالصتاً علمی مزاج رکھنے والے ایک عالم با عمل، درویش خدا مست، منفرد خطیب، جری اور بہادر اور ناموسِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دفاع کے لیے بے جگری سے لڑنے والے ایک عظیم مجاہد تھے۔ وہ سپاہی بھی تھے اور سپہ سالار بھی۔ قائد و رہنما بھی تھے اور پیکرِ ایثار کارکن بھی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا۔</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">میں نے جب انھیں پہلی مرتبہ دیکھا تو اُن کا تعارف نہیں تھا۔ وہ اپنے کارکنوں میں یوں گھلے ملے ہوئے تھے کہ پہچانے نہیں جاتے تھے۔ جب وہ کارکنوں سے ہم کلام ہوئے اور سب اُن کی طرف متوجہ ہوئے تو وہ پہچانے گئے۔ یہ ایک نجی محفل تھی۔ وہ بول رہے تھے، سوالات کے جوابات نہایت تحمل سے دے رہے تھے اور علم کی روشنی سے ماحول بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ محویت کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص ہمہ تن گوش تھا۔</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ ابنِ امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عیادت کے لیے دارِ بنی ہاشم ملتان تشریف لائے۔ یہ جون ۱۹۹۹ء کی ایک شام تھی۔ حضرت شاہ جی شدید علیل تھے اور یہ اُن کا مرض الوفات تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نمازِ مغرب کے بعد وہ تشریف لائے۔ حضرت شاہ جی پاؤں لٹکائے چارپائی پر بیٹھے تھے کہ اچانک حسین و جمیل اور وجیہہ شکل و صورت کا ایک جوانِ رعنا زمین پر ہی اُن کے قدموں میں آ کر بیٹھ گیا۔</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اپنے دونوں ہاتھ شاہ جی کے گھٹنوں پر رکھے اور نظر اُن کے چہرے پر جماتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔’’فقیر علی شیر حیدری‘‘۔۔۔ شاہ جی نے اُن کے ہاتھوں کو پکڑ کر اٹھانے کی بہت کوشش کی کہ وہ چارپائی پر تشریف رکھیں مگر علی شیر کہہ رہے تھے:</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">’’شاہ جی! آپ ہمارے مخدوم ہیں میری جگہ آپ کے قدموں میں ہے۔ آپ کے والد حضرت امیر شریعت آپ کے بڑے بھائی حضرت ابوذر بخاری اور آپ سے ہم نے دفاع و مدحِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا سبق سیکھا۔ میرے پیش رو مولانا حق نواز شہید، مولانا ایثار القاسمی شہید، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی شہید اور مولانا اعظم طارق شہید(تب مولانا اعظم طارق حیات تھے) سب آپ کے خاندان کے مدّاح تھے۔ میں بھی سادات کا محب اور خانوادہ امیر شریعت کا خوشہ چین ہوں۔ اُسی راہِ حق کا مسافر اور شہادت کا طلبگار ہوں جس پر چلتے ہوئے میرے رفقاء صحابہ کی آبرو پر قربان ہو گئے۔‘‘</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">علی شیر کی آنکھوں میں حُبِ رسول اور حُبِ ازواج و اصحابِ رسول علیہم الرضوان کی ایمانی چمک تھی۔ سرخ و سفید چہرہ نور ایمان سے روشن تھا، لبوں پر دلنواز تبسم اور کشادہ پیشانی پر شب کی خلوتوں میں سجدہ ہائے اخلاص کے نشانات تھے۔ وہ دیر تک شاہ جی کے چہرے کو دیکھتے رہے پھر اُن کی آنکھوں سے محبت و خلوص کے چشمے رواں ہو گئے۔ وہ شاہ جی کی گرتی ہوئی صحت کو دیکھ کر بہت غم زدہ ہوئے اور پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا۔ شاہ جی نے اُنھیں اٹھایا اور اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ پھر گفتگو شروع ہو گئی۔</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">* مقام و منصبِ صحابہ رضی اللہ عنہم، قرآن و حدیث میں</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">* مُشاجراتِ صحابہ میں اہل سنت کا مؤقف و مسلک</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">* قرآن و حدیث کے مقابلے میں تاریخ کو مستند قرار دینے کی سازش</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">* قرآن و حدیث کو چھوڑ کر تاریخ کی مکذوبہ روایات کی بنیاد پر صحابہ پر تنقید</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">* قصہ گو اور کہانی باز واعظوں کی جہالتوں سے عامۃ المسلمین کے نقصانات</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">ایسے کئی عنوانات اور موضوعات تھے جن پر گفتگو ہوتی رہی۔ علی شیر سوالات کرتے اور شاہ جی جوابات دیتے۔ اس وقت علامہ ابنِ تیمیہ کی ایک کتاب (’’مختصر فتاویٰ‘‘) شاہ جی کے سرہانے رکھی تھی۔ اس میں سے مختلف مقامات شاہ جی نے علامہ علی شیر کو دکھائے۔ بعض صفحات علامہ شہید نے فوٹو کاپی بھی کرائے۔</span></b></td></tr>
</tbody></table><span class="Apple-style-span" style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naksh';"><span class="Apple-style-span" style="background-color: white; font-family: 'Times New Roman'; font-size: large;"><b> </b></span></span><br />
<table cellpadding="0" cellspacing="0" style="padding-right: 10px; text-align: left;"><tbody>
<tr><td dir="rtl" style="background-image: url(http://localhost/ahrar/naqeeb/contents/images/bg-linear-gray.gif); background-position: 0% 0%; background-repeat: no-repeat repeat; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naksh'; padding-bottom: 10px; padding-left: 10px; padding-right: 24px; padding-top: 10px; text-align: right; vertical-align: middle; width: 649px;">مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور حوصلہ بھی ملا کہ تصنع، تقدس اور شخصیت سازی کے اس مکروہ ماحول میں علی شیر جیسا عالم بھی ہے جو قصہ گوئی اور کہانی سازی سے کوسوں دور ہے۔ وہ علم و تحقیق کے میدان کا شناور ہے۔ علم نے اُسے حلم سے آشنا کر دیا۔ حوصلے و صبر سے ہمکنار کر دیا اور جہد و ایثار میں بے پناہ کر دیا۔ وہ شاہ جی سے مل کر رخصت ہونے لگے تو شاہ جی کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کے موتی برسنے لگے۔ جو رخساروں سے لڑھکتے ہوئے اُن کے دامن میں جمع ہو رہے تھیہو رہے تھے۔ یہی وہ خلوص ہے جسے محبت کی جمع پونجی کہا جاتا ہے۔</td></tr>
</tbody></table><br />
<div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naksh'; font-size: large;"><b></b></span><br />
<span class="Apple-style-span" style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naksh'; font-size: large;"><b><br />
</b></span><br />
<span class="Apple-style-span" style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naksh'; font-size: large;"><b>ہر سال ستمبر میں لاہور میں سپاہ صحابہ کی عظیم الشان کانفرنس ہوا کرتی تھی۔ متعدد بار مجھے بھی وہاں خطاب کی سعادت ملی۔ ایک مرتبہ اسی کانفرنس میں حاضر ہوا تو نعرے گونج رہے تھے ’’آیا آیا شیر آیا‘‘ میں سوچ رہا تھا کہ</b></span><br />
<div><span class="Apple-style-span" style="font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naksh'; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div></div><table cellpadding="0" cellspacing="0" style="padding-right: 10px; text-align: left;"><tbody>
<tr><td dir="rtl" style="background-image: url(http://localhost/ahrar/naqeeb/contents/images/bg-linear-gray.gif); background-position: 0% 0%; background-repeat: no-repeat repeat; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naksh'; padding-bottom: 10px; padding-left: 10px; padding-right: 24px; padding-top: 10px; text-align: right; vertical-align: middle; width: 649px;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">کس شیر کی آمد ہے کہ رَن کانپ رہا ہے</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اور چند لمحوں بعد علی شیر آ گیا۔ پھر شیر دھاڑا، خوب گرجا اور برسا۔ اس نے اپنے سوز دروں اور شعلہ بیانی سے دشمنانِ صحابہ کے خرمنِ باطل کو پھونک ڈالا اور اُن پناہ گاہوں کو خاکستر کر دیا جہاں سبائی منافق چھپ کر سازشیں کرتے۔</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">علامہ علی شیر حیدری سے آخری ملاقات ایک سفر میں اس وقت ہوئی جب وھاڑی سے ملتان آتے ہوئے سڑک کے کنارے ایک پٹرول پمپ پر ہم رُکے تو سامنے کھڑی ایک گاڑی سے نکل کر وہ میری طرف بڑھے۔ حلیہ کچھ ایسا تھا کہ میں پہلی نظر میں پہچان نہ سکا، پولیس اُن کے تعاقب میں تھی اور انھیں بہر صورت اپنی منزل پہ پہنچنا تھا۔ بعض لوگ ایسے ہیں کہ معانقہ کریں تو دوسرے کا سینہ خالی کر دیتے ہیں لیکن علی شیر نے جس خلوص سے معانقہ و مصافحہ کیا میرے دل و دماغ کو اُنس و محبت سے بھر دیا۔</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">۱۷اگست ۲۰۰۹ء کو علی شیر بھی قافلۂ شہداء سے جا ملا۔وہ عظمتِ صحابہ کے گیت گاتا ، ناموسِ صحابہ کے ترانے سناتا اور کردارِ صحابہ کے علم لہراتا خون میں نہا کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگیا ۔</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">آہ! کیا انسان تھا۔ جو اماں عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کی عزت و عصمت پر قربان ہو گیا۔ سچے بیٹے ماؤں کی حرمت پر یوں ہی فدا ہوتے ہیں۔ تاریخ اُن کی فداکاری اور وفاداری پر ہمیشہ ناز کرے گی۔علی شیر کی حق گوئی اور فدا کاری پرامہات المؤمنین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ارواح کتنی خوش ہوئی ہوں گی ۔صحابہ کی پاکیزہ ارواح نے علامہ علی شیرشہیدکا استقبال کیا ہوگا ۔وہ قبر میں بھی پُرسکون نیند سورہے ہوں گے اور قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحق بنیں گے ۔</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">مجھے یقین ہے کہ خلفاء راشدین، امہات المؤمنین، بناتِ طاہرات اور تمام صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے روحانی بیٹے علی شیرشہید کی مغفرت کی سفارش کریں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے اِس صالح بندے کو جنت کے انعامات سے نوازیں گے۔ (ان شاء اللہ)</span></b><br />
<b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اللہ تعالیٰ نژادِ نو کو اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ دفاع و مدحِ صحابہ کے مشن کے علم برداروں کو علامہ علی شیر حیدری شہید رحمۃ اللہ علیہ کا سوزِ دروں ، عزم و ہمت، استقلال و استقامت، صبر و وفا اور شوقِ جہدِ مبین عطاء فرمائے (آمین)</span></b></td></tr>
<tr><td dir="rtl" id="contentwriter" style="background-attachment: initial; background-clip: initial; background-color: #f0f0f0; background-image: initial; background-origin: initial; color: black; font-family: 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naksh'; padding-bottom: 5px; padding-left: 5px; padding-right: 5px; padding-top: 5px; text-align: right; vertical-align: top; width: 649px;">ب شکریہ ۔ ۔ ۔ ۔ تقیب ختم نبوت ۔ ۔ ۔سید محمد کفیل بخاری</td></tr>
</tbody></table></div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-75961084146083788262011-09-23T19:06:00.000-07:002011-09-23T19:06:14.942-07:00خانقاہ رائے پور اور تردید مرزائیت<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><div style="text-align: right;"></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے کشکول و تفہیمات الٰہیہ کی پہلی تفہیم میں ہے:</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">”انبیاء علیہم السلام جن چیزوں کی اہمیت اور خصوصیت سے دعوت دیتے ہیں‘ وہ بنیادی طور پر تین ہی چیزیں ہیں: ایک مبدأ و معاد وغیرہ سے متعلق عقائد کی تصحیح‘ اس شعبہ کو علماء عقائد و اصول نے سنبھال لیا‘ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی کو مشکور فرمائے اور جزائے خیردے‘ دوسرے عبادات و معاملات اور معاشرت وغیرہ‘ انسانی اعمال کی صحیح صورتوں کی تعلیم اور حلال و حرام کا بیان‘ اس شعبہ کی کفالت فقہائے امت نے اپنے ذمہ لے لی ہے اور اس میں انہوں نے امت کی پوری رہنمائی اور رہبری کی ہے‘ تیسرے اخلاص و احسان یعنی ہر عمل خالص لوجہ اللہ اور اس دھیان کے ساتھ کرنا کہ میرا مالک مجھے اور میرے عمل کو دیکھ رہا ہے اور یہ تیسری چیز دین و شریعت کے مقاصد میں سب سے زیادہ دقیق و عمیق ہے اور پورے نظام دینی میں اس کی حیثیت وہ ہے جو جسم میں روح کی اور الفاظ کے مقابلے میں معانی کی اور اس شعبہ کی ذمہ داری صوفیائے کرام رضوان اللہ علیہم نے لے لی ہے‘ وہ خود راہ یاب ہیں اور دوسروں کی رہنمائی کرتے ہیں‘ خود سیراب ہیں اور دوسروں کو سیراب کرتے ہیں‘ وہ بڑے بانصیب اور انتہائی سعادت مند ہیں۔“ (تفیہمات الٰہیہ ص ۱۲‘۱۳) </span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">حضرت شاہ صاحب نے بالکل سچ فرمایا کہ تصوف دین و شریعت کی روح اور اس کا جوہر ہے‘ اور صوفیائے کرام اس دولت کے حامل و امین ہیں‘ جس طرح جسم کبھی روح سے بے نیاز نہیں رہ سکتا‘ اسی طرح امت اپنے دینی وجود میں کبھی تصوف اور صوفیائے ربانی سے بے نیاز نہیں ہوسکتی۔ </span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">انہی صوفیائے ربانی کی ایک مشہور و معروف خانقاہ رائے پور تھی‘ جس کی دینی و ملی خدمات کا مختصر تذکرہ پیش خدمت ہے‘ خانقاہ رائے پور اوّلاً حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری کی وجہ سے مشہور و معروف ہوئی‘ جو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے ممتاز خلیفہ تھے‘ بعد ازاں حضرت شاہ عبدالرحیم کی نظر انتخاب حضرت مولانا عبدالقادر پر پڑی‘ جنہوں نے خانقاہ رائے پور میں نہ صرف ذکر و اذکار کی محافل سجائیں بلکہ اس دور میں اٹھنے والے فتنہ یعنی فتنہ قادیانیت کے انسداد سے متعلق بھی اپنی ذمہ داری پوری کی۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">ایک مرتبہ قطب الارشاد حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری کی مجلس میں بھیرہ کے قادیانی عناصر کا تذکرہ چلا۔ حکیم نورالدین‘ حکیم فضل الدین ایڈیٹر ”الفضل“ قادیان ‘ اور مفتی محمد صادق تینوں بھیرہ کے تھے‘ جنہوں نے قادیان کی جعلی نبوت کو پھیلانے کے لئے کام کیا‘ حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری نے فرمایا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب براہین احمدیہ لکھی تو بعض لوگ اسے لے کر یوپی (انڈیا) کے علاقہ میں پہنچے اور ہمارے اکابر سے بھی چاہا کہ اس کتاب کے لکھنے والے کو مجدد مانا جائے‘ (اس زمانہ میں ابھی مرزا قادیانی نے دعویٰ نبوت نہ کیا تھا)‘ چنانچہ وہ اس کتاب کو حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری‘ حضرت مولانا مظہر الدین‘ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور دوسرے حضرات کے پاس لے گئے‘ حضرت گنگوہی نے تو یہ جواب دیا کہ میں یہاں ہوں‘ مجھے حالات معلوم نہیں‘ سہارنپور اور ادھر پنجاب کے علماء سے لکھوالو‘ سہارنپور والوں نے کہا کہ کتاب کی تائید اور تنقید تو ایک بات ہے (جس کا علمی لائن سے تعلق ہے)‘ مگر مجدد ماننا یہ تو دوسری لائن کی بات ہے‘ اس لئے حضرت میاں شاہ عبدالرحیم سہارنپوری رحمة اللہ علیہ (جو حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری کے پیر و مرشد ہیں)‘ کے پاس جاؤ‘ حضرت میاں صاحب ظاہری علوم پڑھے ہوئے نہ تھے‘ انہوں نے فرمایا کہ بھائی علماء سے پوچھو‘ میں نہ اس کتاب کو پڑھ سکتا ہوں نہ یہ میرا کام ہے‘ عرض کیا گیا کہ علماء ہی نے (آپ کے پاس لے جانے کے لئے) فرمایا ہے‘ تو آپ نے جواباً فرمایا کہ بھائی پوچھتے ہو تو سن لو کہ یہ شخص (مرزا قادیانی) تھوڑے دنوں بعد ایسے دعوے کرے گا جو نہ رکھے جائیں گے نہ اٹھائے جائیں گے (ان کی کوئی توجیح بھی نہیں کی جاسکے گی)‘ یہ سن کر وہ کتاب لانے والے افراد جزبز ہونے لگے اور یہ بدگمانی کرنے لگے کہ دیکھو علماء تو علماء درویشوں کو بھی دوسرے لوگوں کا شہرت پانا گراں گزرتا ہے‘ حضرت میاں عبدالرحیم سہارنپوری نے فرمایا: مجھ سے پوچھا ہے تو جو سمجھ میں آیا بتادیا‘ اب ہم تو اس وقت زندہ نہ ہوں گے‘ تم آگے دیکھ لینا۔ اہل اللہ کی بصیرت کا کیا کہنا!</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری نے فرمایا کہ مولانا نوازش علی سے سنا ہے جو حضرت میاں عبدالرحیم سہارنپوری کی خدمت میں بیس سال رہے کہ ایک مرتبہ حکیم نورالدین (خلیفہ مرزا قادیانی) حضرت میاں صاحب کی خدمت میں آیا‘ جموں کشمیر کا راجہ پیشاب کے عارضہ میں مبتلا تھا‘ بہت علاج ہوئے اور خود حکیم نورالدین نے بھی علاج کیا‘ جب فائدہ نہ ہوا تو راجہ درویشوں اور فقیروں کی طرف متوجہ ہوا اور حکیم نورالدین کو حضرت میاں صاحب کی خدمت میں سہارنپور دعا کروانے کے واسطے بھیجا‘ حکیم نور الدین نے راجہ کی طرف سے حضرت میاں صاحب سے عرض کیا کہ آپ جموں تشریف لے چلیں‘ راجہ کے لئے شفا کی دعا فرمائیں‘ حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ راجہ کا اسی بیماری میں انتقال کرنا لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے‘ مگر تین شرطیں ہیں ‘اگر راجہ پوری کردے تو میں دعا کروں گا جس سے جب تک اس نے زندہ رہنا ہے‘ بیماری کی تکلیف نہ رہے گی اور جب موت آئے گی تو اس وقت بیماری عود کر آئے گی‘ شرائط یہ ہیں کہ:</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">۱: راجہ مسلمان ہوجائے۔ </span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">۲: اپنی راجدھانی میں گائے کی قربانی پر لگی پابندی اٹھا دے۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">۳:اذان بلند آواز سے کہنے کی اجازت دیدے۔ </span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">حکیم نور الدین نے دوبارہ حاضر ہوکر جواب دیا کہ راجہ نے کہا ہے کہ مجھے مسلمان ہونے میں دل سے انکار نہیں‘ مگر ایسا کیا تو میری قوم مجھے ہلاک کردے گی اور گائے کی قربانی پر سے پابندی اٹھانے سے بھی میرا یہی حشر ہوگا‘ البتہ اذان بلند آواز سے کہنے کی میں اجازت دیتا ہوں۔ حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا وہی ہوگا‘ مگر تینوں شرائط مان لے تو انشاء اللہ تعالیٰ مذکورہ بالا طریق پر شفا تاحیات ہوگی۔ حکیم نورالدین نے راجہ کی طرف سے حضرت میاں صاحب سے وہاں چل کر دعا کرنے پر اصرار کیا کہ جو ہونا ہے ہوجائے‘ آپ وہاں جاکر دعا کریں‘ راجہ کے لئے بیماری میں سفر محال نہ ہوتا تووہ خود ضروریہاںآ تیاس لئے اس کو آپ کی زیارت کا بھی شوق ہے‘ اصرار بے حد ہوا تو </span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">حضرت میاں صاحب نے فرمایا: نہ بھائی‘ جاتے تو نہیں‘ اپنے آدمیوں کو دعا کے لئے آپ کے اصرار پر بھیجے دیتا ہوں۔ تیسری بار حکیم نورالدین پھر حضرت میاں صاحب کی خدمت میں آیا‘ جب جانے لگا تو حضرت میاں صاحب نے حکیم نور الدین کو بلوایا اور فرمایا کہ:</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">دیکھو دو تین مرتبہ آئے ہو‘ اب میرا حق ہے کہ میں ایک نصیحت کی بات کہوں‘ پنجاب میں کوئی جگہ قادیان ہے؟ عرض کیا: ہے‘ فرمایا: وہاں کا ایک شخص خلاف دین بڑے بڑے دعاوی کرتا چلا جائے گا‘ عرض کیا کہ وہ ایسا ہی کررہا ہے‘ فرمایا کہ لوح محفوظ پر میں آپ (حکیم نورالدین) کو اس شخص کا مددگار لکھا ہوا دیکھتا ہوں‘ ہوگا وہی جو خدا کو منظور ہوگا‘ مگر میری نصیحت یہ ہے کہ اس سے بچنا۔ حکیم نورالدین نے عرض کیا کہ حضرت! ابھی تک تو بچا ہوا ہوں‘ آپ دعا فرما دیں۔ (مجالس حضرت رائے پوری صفحہ ۴۰۷‘۴۰۸)</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری فتنہ قادیانیت کی سازشوں کو بے نقاب کرنے والی جماعت کے سرکردہ علماء امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری‘ حضرت مولانا محمد علی جالندھری ‘ حضرت قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحمہم اللہ تعالیٰ و دیگر کی سرپرستی فرماتے اور جب یہ حضرات خانقاہ رائے پور حاضر ہوتے تو ان سے عقیدہٴ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانی فتنہ کے سدباب کے سلسلہ میں جماعتی کارگزاری ضرور سنتے۔ ایک واقعہ جو حضرت مولانا محمد علی جالندھری نے حضرت رائے پوری کی خدمت میں عرض کیاوہ حضرت کے ملفوظات میں اس طرح تحریر ہے‘ لکھتے ہیں کہ :</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">کچھ آدمیوں کی دعوت پر ایک گاؤں میں جو ضلع جالندھر کا تھا‘ میں تبلیغ اسلام اور تردید مرزائیت کے لئے گیا‘ وہاں اسٹیشن پر اترا تو کئی آدمی مجھے لینے آگئے، مگر میرے وہ دوست جنہوں نے مجھے دعوت دی تھی‘ وہ اپنے دوسرے گاؤں سے بروقت نہ پہنچ سکے‘ مجھے اس گاؤں میں ایک ایسے گھر میں ٹھہرایا گیا جس پر مالک مکان کا نام احمدی لکھا ہوا تھا‘ مجھے مغرب کے بعد شبہ ہوگیا کہ یہ مرزائیوں کی طرف سے یہاں ٹھہرانے میں میرے ساتھ کوئی پر خطر شرارت نہ ہو‘ اس لئے عشاء کے لئے مسجد کو جانے کو تھا کہ مسجد کے نمازیوں سے حالات دریافت کروں گا‘ اتنے میں میرے مدعو کرنے والے دوست آگئے اور دیر لگنے کی معذرت کی‘ عشاء کے بعد جب تقریر کا موقع آیا تو میزبانوں اور دوسرے مقامی مرزائیوں اور دیگر لوگوں اور مدعو کرنے والے دوستوں میں صلاح و مشوروں کی طوالت رہی اور مرزائیوں کے ساتھ بعض دوسرے لوگ جو مسلمان ہی تھے‘ تردید مرزائیت پر تقریر روکنے میں شریک تھے۔ صبح کی نماز کے بعد میں ذرا سو گیا کہ پھر جمعہ کی وجہ سے دوپہر کو سونا نہ مل سکے گا‘ میں لیٹے لیٹے ان کی اس سلسلے میں باہمی لڑائی سنتا رہا‘ دو آدمی اور بھی مرزائیت کے سلسلے میں جھگڑنے کے لئے آئے‘ وہ اس خیال سے چلے گئے کہ مولوی صاحب سو رہے ہیں‘ ورنہ کافی مسائل دریافت کرتے‘ ان کے جانے کے بعد میں سوگیا‘ خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک بہت خوبصورت بزرگ آسمان سے سیدھے زمین پر نازل ہوئے‘ میں نے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں؟ اس بزرگ نے فرمایا کہ: عیسیٰ ابن مریم ہوں‘ میں نے عرض کیا کہ آپ کے نازل ہونے کا وقت تو ابھی دور ہے‘ آپ پہلے ہی کیوں تشریف لے آئے ہیں؟ انہوں نے غصے کے لہجے میں فرمایا کہ جب تم لوگ میری حیات ثابت نہ کرو تو میں خود نہ آؤں تو کیا کروں؟ میں نے عرض کیا: حضرت! ناراض نہ ہوں‘ حضرت کی حیات ثابت کرنا تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے‘ ضرور ثابت کروں گا‘ چنانچہ میں نے ارادہ کرلیا اور مجھے مدعو کرنے والوں پر جو یہاں کے مرزائیوں کے رشتہ دار بھی تھے‘ واضح کردیا کہ اگر یہاں کے مسلمان مجھے مرزائیت کی تردید کی اجازت نہ دیں گے تو میں بازار میں ہندوؤں سے جلسہ کی جگہ لے کر تقریر کروں گا‘ چنانچہ جمعہ کے بعد جامع مسجد میں ہی مرزائیت کی تردید کی۔“ (ملفوظات حضرت رائے پوری ص۴۱۸‘۴۱۹)</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری کے متعلق حضرت مولانا عبدالقار رائے پوری فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ موقع دیکھ کر عرض کیا کہ حضرت! قادیانی انوار کا دعویٰ کرتے ہیں‘ ان کو نماز وغیرہ میں بہت حالات اور کیفیات پیش آتی ہیں تو اس کا کیا سبب ہے؟ حضرت سنبھل کر بیٹھ گئے اور جوش میں فرمایا: </span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">مولوی صاحب! سنو: ”ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الہدیٰ و یتبع غیر سبیل المومنین نولہ ما تولیٰ“ حضرت اس کی کچھ تشریح فرمانا چاہتے تھے‘ میں نے عرض کیا کہ حضرت بس میں سمجھ گیا‘ اس کے بعد پھر اس مسئلہ میں کبھی کوئی کھٹک نہیں ہوئی۔ (سوانح حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری ص ۶۳)</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری رحمة اللہ علیہ نے قادیانیت کا آغاز اور اس کے سب دور دیکھے تھے‘ خود مرزا قادیانی‘ حکیم نورالدین اور اس تحریک کے دیگر ذمہ داروں سے بخوبی واقف تھے‘ آپ اس قادیانی تحریک کے حقیقی مقاصد اور اس کے اندرونی حالات سے بخوبی آگاہ تھے اور اس کو اسلام کی بیخ کنی اور تخریب کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ تحریک تحفظ ختم نبوت اور احراری رہنماؤں اور علماء میں درحقیقت آپ ہی کا جذبہ اور آپ ہی کی روح کام کررہی تھی‘ آپ اس سلسلہ کی ہر کوشش کو وقت کا اہم فریضہ اور دین کی اہم خدمت سمجھتے تھے اور ہر طرح اس کی ہمت افزائی اور سرپرستی فرماتے اور دل و جان سے اس کی خدمت و تقویت کو ضروری سمجھتے تھے‘ ان کی کوششوں کے تذکرہ سے آپ کے اندر شگفتگی اور تازگی پیدا ہوجاتی تھی اور وہ آپ کی روح کی غذا بن گئی تھی۔ مولانا محمد علی جالندھری فرماتے ہیں:</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">”مرزائیت کی نسبت جس قدر متفکر رہتے آپ کو معلوم ہی ہے‘ جب میں حاضر ہوتا فرماتے مرزائیوں کا کیا حال ہے؟ اگر کوئی خوشی کی بات بتائی جاتی‘ اکثر فرماتے: الحمدللہ! اگر ہنسی والی بات ہوتی تو ایسا ہنستے کہ تمام بدن متحرک ہوجاتا‘ </span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">ایک مرتبہ حاضر ہوا تو ایک نوٹ نکال کر عطا فرمایا کہ ختم نبوت کے کام کیلئے امداد میری طرف سے‘ پھر مجلس میں حاضرین کو توجہ دلائی‘ سب نے امداد کی‘ حضرت مولانا فضل احمد صاحب نے دس روپے کا نوٹ نکال کر دیا‘ فرمایا: پانچ روپے رکھ لو ‘ میں پانچ کا نوٹ واپس کرنے لگا تو حضرت نے فرمایا: واپس کیوں لیتے ہو‘ یہ بھی دے دو‘ انہوں نے وہ بھی دے دیا۔ حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری کا سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے جو قلبی تعلق تھا وہ کسی سے مخفی نہ تھا‘ بخاری صاحب کے متعلق بڑے بلند کلمات فرماتے اور ان سے اور ان کی وجہ سے ان کے خاندان سے بڑی محبت و شفقت کا برتاؤ کرتے تھے۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"> ایک مرتبہ فرمایا کہ تم بخاری صاحب کو یوں ہی نہ سمجھو کہ صرف لیڈر ہی نہیں‘ انہوں نے ابتدا میں بہت ذکر کیا ہے اور فرمایا کہ یقین تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا نصیب فرمایا ہے کہ باید و شاید۔ یہاں حالات و کیفیات کیا چیز ہے؟ اصل تو یقین ہی ہے‘ اللہ تعالیٰ جس کو عطا فرمائے… یہ محبت اور خصوصیت ان کے اخلاص اور خود فراموشی کی ایک جھلک ہے۔ (سوانح حضرت رائے پوری)</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">قادیانیت کی تردید اور اس کا مقابلہ کرنے والوں میں سے جو لوگ نمایاں حصہ لیتے اور جنہوں نے رات دن ایک کر رکھا تھا‘ ان سے حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری کو نہایت محبت تھی اور ان کی قدر فرماتے تھے اور ان سے اپنی محبت کا اظہار فرماتے۔ مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے بعد مولانا محمد علی جالندھری اس میں پیش پیش تھے۔ حضرت رائے پوری ان حضرات سے بڑی محبت و شفقت فرماتے تھے اور ان کا بڑا اکرام کرتے تھے۔ مولانا محمد علی جالندھری اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: </span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">”ایک مرتبہ صبح آٹھ بجے کے قریب لائل پور (فیصل آباد) حاضر ہوا‘ زمین پر دھوپ میں تشریف فرما تھے‘ آگے ہوکر فرش پر بیٹھنے کا حکم دیا‘ میں تھوڑا آگے ہوا تو بالکل برابر بٹھاکر کمر پر ہاتھ پھیر کر فرمایا: میرا چاند آیا“۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">حضرت مولانا محمد علی جالندھری فرماتے ہیں، میری موجودگی میں جب حضرت کی خدمت میں دودھ پیش کیا جاتا تو فرماتے: مولوی صاحب! کو پلاؤ میں پی کر کیا کروں گا؟ یہ تو کام کرتے ہیں‘ خدام اصرار کرکے پلاتے اور کہتے کہ دودھ مولوی صاحب کو بھی پلادیں گے پھر بھی پورا نہ پیتے بلکہ چھوڑ کر فرماتے کہ مولوی صاحب کو پلادو‘ اس طرح بارہا حضرت کا تبرک ملا۔ حضرت مولانا محمد صاحب انوری تحریر فرماتے ہیں:</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">” آخر عمر میں حضرت اقدس شاہ عبدالقادر رائے پوری) کو ردِ مرزائیت کی طرف بڑی توجہ ہوگئی تھی‘ مولانا محمد حیات صاحب (فاتح قادیان) کو جنہیں (قادیانیوں اور لاہوریوں کی کتابیں ا زبر تھیں) بلاکر مباحث سنتے تھے اور مولانا لال حسین اختر کو بلا بھیجتے تھے‘ ‘</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">حضرت رائے پوری کے سوانح نگار مولانا سید ابوالحسن علی ندوی تحریر فرماتے ہیں:</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">”پاکستان کے دوران قیام میں دو نئی باتوں کا اضافہ ہوجاتا‘ ایک تو یہ کہ پاکستان پہنچ کر تحریک قادیانیت کے خطرات اور اس کے دور رس اثرات کا احساس (جو کبھی فراموش و نظر انداز نہیں ہوتا تھا‘ تازہ ہوجاتا اور طبع مبارک پوری قوت و ہمت کے ساتھ اس کے مقابلہ‘ تردید اور ملک کی اس سے حفاظت کی ضرورت کی طرف متوجہ ہوجاتی اور یہ مسئلہ مجالس اور گفتگو کا سب سے بڑا موضوع بن جاتا‘ علماء و زعماء احرار میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کے مقابلہ کی خصوصی توفیق عطا فرمائی ہے اور حضرت نے ان کو اس جہاد اکبر پر خود مامور فرمایا ہے) آجائیں تو ہر گفتگو ختم ہوکر بے اختیار یہی موضوع چھڑ جاتا‘ خصوصاً مولانا محمد علی جالندھری مولانا لال حسین اختر‘ اور قاضی احسان احمد شجاع آبادی کی تشریف آوری تو گویا دل کا ساز چھیڑ دیتی اور اس موضوع کے سوا کوئی دوسرا موضوع سخن نہ رہتا‘ ان حضرات کی کارگزاری سے ان کی ہمت افزائی اور تحسین فرماتے اور نئی تحقیقات و معلومات دریافت فرماتے۔ مولانا محمد حیات صاحب تشریف لاتے تو گویا ردِقادیانیت کی کتاب کھل جاتی‘ ہمہ تن گوش اور سراپا ذوق ہوکر ان کی نادر تحقیقات اور زندگی کے تجربات سنتے اور کسی طرح ان کی گفتگو سے سیری نہ ہوتی‘ حضرت کو اسی محفل میں کھل کھلا کر ہنستے اور لطف و مسرت کا اظہار کرتے دیکھا گیا‘ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری وقتاً فوقتاً مجلس کو اپنے لطائف اورقادیانیت پر تبصرہ سے زعفران زار اور باغ و بہار بنادیتے۔“(سوانح حضرت رائے پوری)</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">۱۹۵۳ء میں ختم نبوت کی تحریک شروع ہوئی‘ حضرت رائے پوری ہمہ تن اس کی طرف متوجہ رہے اور اس کی فکر اور اس کا اثر پورے طور پر آپ کی طبیعت‘ قویٰ فکریہ اور اعضاء جوارح پر مستولی ہوگیا‘ محمد افضل صاحب سلطان فانڈری والے کہتے ہیں کہ:</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">”تحریک کے زمانہ میں آپ ایک مرتبہ اپنے وطن ڈھڈیاں تشریف لائے ہوئے تھے‘ پنجاب کے ایک مشہور عالم کہیں قرب و جوار میں تشریف لائے تھے‘ حضرت کی موجودگی کی اطلاع پاکر زیارت کے لئے ڈھڈیاں آئے‘ آپ کی نگاہ جب ان پر پڑی تو آپ بڑے ذوق و شوق کے ساتھ ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہوگئے‘ اس وقت لاہور تحریک کا مرکز تھا اور یہاں گاؤں ہونے کی وجہ سے دیر میں خبریں پہنچتی تھیں‘ آپ کو خیال تھا کہ (یہ عالم دین) دورہ کرتے ہوئے آرہے ہیں‘ ان کو تازہ حالات کا علم ہوگا‘ آپ نے بڑے اشتیاق کے ساتھ ان سے تحریک کی رفتار اور لاہور کے حالات سے متعلق دریافت فرمایا‘ انہوں نے لا علمی کا اظہار کیا جس سے بے توجہی اور عدم دلچسپی کا اظہار ہوتا تھا‘ حضرت بہت مایوس اور پژمردہ ہوئے کہ یہ شہر سے آرہے ہیں‘ کچھ تازہ حال سنائیں گے مگر یہ تو بالکل ناواقف اور بے تعلق نکلے۔“ (سوانح حضرت رائے پوری)</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;">اس واقعہ سے حضرت رائے پوری کی عقیدہ ختم نبوت‘ تحفظ ختم نبوت اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے علماء کے ساتھ والہانہ محبت کا اظہار ہوتا ہے۔</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><br />
</div></div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-31247598351191046162011-09-18T07:14:00.000-07:002011-09-18T07:14:08.404-07:00ہم ایسے گداگر ہیں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><div style="text-align: right;"></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;">ہم ایسے گداگر ہیں کہ خیرات سے پہلے</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;">اُٹھ کر چلے آئیں گے ملاقات سے پہلے</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;">یہ جیت کا نشّہ بھی عجب چیز ہے یارو</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;">وہ جشن مناتا ہے مری مات سے پہلے</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;">اِک شخص نظر آئے گا مایوس و پریشاں</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;">دیکھو گے اِدھر جب بھی عنایات سے پہلے</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;">پَل پَل یہ صدا گونجتی ہے وادیٔ دل میں</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;">لوٹ آؤ مرے دشت میں آفات سے پہلے</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;">میں آج بھی اِک عالمِ وجدان میں گُم ہوں</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;">یہ حال نہ تھا شہرِ طلسمات سے پہلے</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;">لَو اپنے چراغوں کی ذرا اور بڑھا دو</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;">احساسِ جُدائی کی سِیہ رات سے پہلے</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><br />
</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;">ہم نے غمِ دنیا! کبھی سوچا ہی نہیں تھا</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;">جاناں! ترے بخشے ہوئے صدمات سے پہلے</span></b></div></div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-61402254142748068932011-09-17T10:31:00.000-07:002019-12-14T18:22:24.988-08:00حسن انتخاب<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><b>حمد باری تعالیٰ
</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><b><br />
</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><b>ترے ماسوا سے ہم کو جو اچانک چھڑا گئی ہے</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><b>ہمیں لگ رہا ہے الفت تری راس آگئی ہے</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><b><br />
</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><b>تو ہی لاج رکھ رہا ہے مری خوش گمانیوں کی</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><b>مری رائیگاں نہ اب تک کوئی اِک دعا گئی ہے</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><b><br />
</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><b>وہ کرم بھی تھا ترا ہی، یہ عطا بھی ہے تری ہی</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><b>تجھے یاد آگئے ہیں، تری یاد آگئی ہے</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><b><br />
</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><b>نہ قبائے دل کی قیمت مری پوچھ مجھ سے تائب</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><b>ابھی خونِ آرزو سے جو نہا نہا گئی ہے</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-size: large;"><b><br />
</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
جناب خالد اقبال تائب</div>
</div>
الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-85235968303382343152011-09-17T09:47:00.001-07:002011-09-17T09:47:49.129-07:00حمد باری تعالیٰ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><br />
<br />
<div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b>وہ جو درد سہہ رہے ہیں تو دوا بھی پارہے ہیں</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b>تری راہ کے مسافر ترے گھر کر جارہے ہیں</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b>ہے ترے کرم سے پالا ہے قدم قدم اجالا</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b>دیئے ان کی چشم تر میں کئی جھلملا رہے ہیں</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b>یہ عنایتیں مبارک‘ یہ مسافتیں مبارک</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b>تری دھن میں جارہے ہیں ترے گیت گارہے ہیں</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b>وہ طلب میں ہیں خدا کی‘ ہے خدا طلب میں ان کی</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b>وہی لوگ جارہے ہیں جنہیں وہ بلا رہے ہیں</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b>ترے اسم کا کرشمہ کہ ہے ساتھ ہی مسمیٰ</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b>ترا نام لے رہے ہیں ترا قرب پارہے ہیں</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b>وہ خوشی میں بہتے آنسو جو ہیں غمگسار و دل جُو</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="font-size: x-large;"><b>وہ جو چُھپ نہیں رہے ہیں انہیں وہ چُھپا رہے ہیں</b></span></div><div style="text-align: right;"><br />
</div>جناب خالد اقبال تائب<br />
</div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-7834384478081408742.post-28363851641149183262011-09-17T06:03:00.000-07:002011-09-17T06:03:17.470-07:00مسجد اقصیٰ (تعارف اور مختصر تاریخ)<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><div style="text-align: right;"></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسجد اقصیٰ (تعارف اور مختصر تاریخ)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسجد اقصیٰ کا محل وقوع</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسجد اقصیٰ شام کے علاقے (یعنی موجودہ فلسطین) میں واقع ہے اور اس کو</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b> القدس بھی کہا جاتاہے، القدس یروشلم کا عربی نام ہے۔ اسلام سے قبل اس کا نام ایک رومی بادشاہ ہیرڈوس نے ایلیا رکھا تھا اور یہ بحر روم سے ۵۲ کلو میٹر ، بحر احمر سے ۲۵۰ کلو میٹر اور بحر مردار سے ۲۲ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ بحر روم سے اس کی اونچائی ۷۵۰ میٹر اور بحر مردار کی سطح سے اس کی بلندی ۱۱۵۰ میٹر ہے۔ سب سے پہلے یہاں یبوسین آکر آباد ہوئے، ایک روایت ہے کہ اس شہر کو ”سام بن نوح“ نے آکر آباد کیا۔ سب سے پہلے ۱۰۱۳ قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کو فتح کیا۔ </b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>(خطط الشام ج:۵،ص:۲۵۲، القدس دراسةً وتاریخیةً)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسجد اقصیٰ کی تاریخی حیثیت</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>ایک روایت ہے کہ زمین پر پہلی مسجد، مسجد ِاقصیٰ ہے، لیکن محدثین اور اکثر مفسرین کے نزدیک پہلی مسجد، مسجد بیت الحرام ہے، جس کو فرشتوں نے تعمیر کیا ہے: جیساکہ بخاری شریف میں حضرت ابوذر رض: سے روایت ہے، جس میں یہ صراحت ہے کہ مسجد بیت الحرام کی تعمیر اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر میں چالیس سال کا عرصہ ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مسجد بیت الحرام کو ابن آدم کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا۔ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت الحرام کے اور حضرت سلیمان علیہ السلام مسجد اقصیٰ کے مجدد ہیں، نہ کہ مؤسس۔ اور مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے، جس میں معراجِ نبوی کا تذکرہ ہے۔ (الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل ص:۸-۱۰)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ادوار اس بارے میں مختلف روایات ہیں کہ مسجد اقصیٰ کا مؤسّسِ اول کون ہے:پہلا قول یہ ہے کہ سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے تعمیرکی۔ تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت سام بن نوح سب سے پہلے تعمیر کرنے والے ہیں اور چوتھا قول یہ ہے کہ حضرت داؤد وسلیمان علیہما السلام پہلے تعمیر کرنے والے ہیں۔ </b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>علامہ احمد بن عبد الواحد المقدسی فرماتے ہیں کہ ان سب روایتوں میں اس طرح تطبیق ہوسکتی ہے کہ سب سے پہلے فرشتوں نے ، پھر حضرت آدم علیہ السلام نے، پھر حضرت سام بن نوح نے اور پھر حضرت داؤد وسلیمان علیہما السلام نے بالترتیب </b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>تعمیر کیا ہو۔(حوالہ سابقہ)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسجد اقصیٰ پر آنے والے حوادثات</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے بعد اس پر مختلف قسم کے حوادثات آئے، جس کی وجہ سے دوبارہ اس کی تجدید اور تأسیس کی ضرورت پڑتی رہی،لیکن تاریخ کی کتابوں میں چھ حوادثات کا ذکر ہے، جن میں باہر سے القدس پر حملہ ہوا، مسجد کو دو مرتبہ نقصان پہنچا۔ ان دو واقعوں کا ذکر قرآن پاک کی سورہٴ اسراء کے شروع میں ہے۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>پہلا واقعہ جس میں مسجد کی تعمیر کو نقصان پہنچا، وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے ۴۱۵ برس بعد ۵۸۸ ق-م میں پیش آیا،</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b> جب اہل فارس کے بادشاہ بخت نصر نے اس پر حملہ کیا اور پورے شہر کو آگ لگادی، جس میں مسجد کی عمارت منہدم ہوگئی، پھر شاہ ایران کے تعاون سے دوبارہ اس کی تعمیر ہوئی۔ دوسرا واقعہ ۶۳ ق-م میں ہوا، جس میں دوبارہ رومی قابض ہوگئے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کے چالیس سال بعد ۷۰ء میں طیطلس نامی بادشاہ نے اس شہر کو بالکل تباہ کردیا، اس میں بھی مسجد کو نقصان پہنچا۔ ۱۳۵ء میں رومی بادشاہ ہیرڈوس نے اس شہر کو دوبارہ بسایا اور اس کا نام ایلیاء رکھا۔ ۶۱۴ء میں دوبارہ اہل فارس نے قبضہ کرلیا، لیکن مسجد اقصیٰ ۷۰ء سے حضرت عمررض: کے زمانے تک ویران رہی۔ (تفسیر حقانی، ج:۵،ص:۶۴/۷۱، خطط الشام ،ج: ۵،ص:۲۵۲)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b> مسجد ِاقصیٰ کا اسلامی دور </b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>حضرت عمر کے دور خلافت میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رض: نے ۱۶ھ میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا اور ان کے سامنے اپنا پیغام رکھا، نہ ماننے کی صورت میں قتل اور صلح کی صورت میں جزیہ اور خراج کا حکم سنایا، تو وہ ایک شرط پر صلح کے لئے تیار ہوگئے کہ خلیفہٴ وقت صلح کے لئے خود تشریف لائیں۔ حضرت ابوعبیدہ نے حضرت عمررض: کو خط لکھ کر ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو حضرت عمر، حضرت علی کے مشورہ سے بیت المقدس جانے پر راضی ہوگئے، یوں ۱۷ھ میں حضرت عمر کے دور خلافت میں مسجد اقصیٰ اسلام کے سائے میں آگئی۔ حضرت عمر نے مسجد کو صاف کروایا اور وہاں پر مسجد تعمیر کرالی، جس کو مسجد عمر رض: کہتے ہیں۔ (البدایہ والنہایہ،ج: ۱۲،ص:۳۴۴تا ۳۴۸/الروختین فی اخبار الدولتین،ج: ۳،ص:۲۰۶-۲۶۰)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>اسلامی دور میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر وترقی</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۱۷ھ میں فتح کے کافی عرصہ بعد اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے ۶۵ھ میں اس کی تعمیر اور مرمت کا آغاز کیا اور ولید بن عبد الملک نے مصر کے سات سال کا خراج اس کی تعمیر کے لئے وقف کردیا تھا۔ ۱۳۰ھ اور ۱۵۸ھ کے زلزلوں میں اس کی عمارت کو نقصان پہنچا تو ۱۶۹ھ میں مہدی کے دور حکومت میں دوبارہ اس کی تعمیر نو کی گئی۔ ۴۰۷ھ کے زلزلے میں قبّہ کی دیوار یں منہدم ہوگئیں تو ۴۱۳ھ میں ظاہر فاطمی نے اس کی دوبارہ تعمیر کی اور افرنگی بادشاہوں نے مسلمان بادشاہوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ۴۹۲ھ میں بیت المقدس پر حملہ کردیا اور حضرت عمر کے برخلاف اس بادشاہ نے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور مسجد کی بے حرمتی کی اور مسجد میں گھوڑوں کے لئے اصطبل بنایا، جس کو ”اصطبل سلیمان“ کہا جاتا تھا اور مال متاع لوٹ لیا تھا۔ ۹۱ سال تک مسجد اقصیٰ ان کے قبضہ میں رہی۔ پھر سلطان نور الدین زنگی کے فتوحات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کے جانشین سلطان الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب نے ۵۵۳ھ میں دوبارہ قبضہ کرلیا اور مسجد کی صفائی کروا کر اس کی مرمت کی۔ (معجم البلدان،ج: ۵،ص:۱۶۸،خطط الشام، ج:۵،ص:۲۵۳،۲۵۲)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>اس کے بعد مسلمان بادشاہ اس کی مرمت اور تزیین میں حصہ لیتے رہے: ۶۵۵ھ میں ملک معظم نے، ۶۶۸ھ میں ظاہر بیبرس نے، ۷۸۶ھ میں منصور قلادوں نے، ۷۶۹ھ میں ملک اشرق نے، ۷۸۹ھ میں ظاہر برثوق اور ظاہرجقمق العلانی نے، ۸۷۷ھ میں الاشرف ابو النصر نے تجدید کی۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>خلافت عثمانیہ کے خلفاء بھی حصہ لیتے رہے، خاص طور پر سلیمان القانونی نے ۹۴۹ھ میں تجدید کی۔ اس کے بعد عثمانی خلفاء نے اس کی طرف خاص توجہ نہ دی، بہرحال پھر بھی ۱۲۳۲ھ، ۱۲۵۶ھ، ۱۲۹۱ھ اور اس کے بعد بھی تزیین وآرائش کا کام جاری رہا اور موجودہ تعمیر ترک سلاطین کے دور میں سلطان عبد الحمید( ۱۸۵۳ء) اور سلطان عبد العزیز (۱۸۷۴ء) کے دور حکومت کی تعمیر کردہ ہے۔ (خطط الشام،ج: ۵،ص:۲۵۲،۲۵۱- القدس دراسةً تاریخیةً)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسجد ِاقصیٰ کی مساحت</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسجد اقصیٰ کا اطلاق اس پورے احاطے پر ہوتا ہے، جس کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا ہے اور اس پر مسجداقصیٰ کا اطلاق کیا ہے۔ اس اعتبار سے اور ہردورمیں گز اور میٹر کے اختلاف کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کے طول وعرض میں مؤرخین کے مختلف اقوال ہیں۔ ”احسن التقاسیم“ اور ”مختصر کتاب البلدان“ میں ہے کہ مسجد کی لمبائی ایک ہزار گز اور چوڑائی ۷۰۰ گز ہے۔ (احسن التقاسیم، ۱۴۷)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>”معجم البلدان“ میں ہے کہ اس کی لمبائی اس کی چوڑائی سے زیادہ ہے۔ ناصر خسرو نے اپنے سفرنامے میں جو ۴۳۸ھ میں ہوا، اس میں لکھا ہے کہ مسجد بیت المقدس کی لمبائی ۷۵۴ گز اور چوڑائی ۴۵۵ گز ہے، یہ خراسان وغیرہ کے گز کے حساب سے ہے۔ابن جبیر نے اپنے سفرنامہ میں جو ۵۷۸ھ- ۵۸۱ھ میں ہوا، اس میں لکھا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی ۷۸۰ گز لمبائی اور ۴۵۰ گز چوڑائی ہے اور حدود حرم کے اندرونی ہال کا طول ۶۰۰ گز اور عرض ۷۰۰ گز ہے، نہایت عمدہ اور خوبصورت نقش ونگار کیا ہوا ہے۔ تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسجد اقصیٰ روز اول سے جن حدود پر قائم ہوئی، آج بھی انہیں حدود پر قائم ہے۔ کبھی چار دیواری کے اندر پورے احاطے کو مسجد اقصیٰ کہا جاتا ہے اور کبھی صرف اس خاص حصہ کو مسجد اقصیٰ کہا جاتا ہے۔ (القدس دراسةً تاریخیةً)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسجد اقصیٰ کے متعلق فضائل</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسجد اقصیٰ کے فضائل احادیث میں آئے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ:</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>”رسول اللہا نے فرمایا کہ تین مسجدوں کے علاوہ (کسی دوسری جگہ کے لئے) تم اپنے کجاووں کو نہ باندھو (یعنی سفر نہ کرو): مسجد حرام، مسجد رسول (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد اقصیٰ “۔ (بخاری ج:اص:۱۰۸) </b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>اور ایک روایت میں ہے کہ:</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b> مسجد اقصیٰ میں ایک نماز بیس ہزار نمازوں کے برابر (اجر وثواب رکھتی) ہے۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>ایک روایت میں ہے کہ:</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>جو شخص بیت المقدس میں نماز پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرمائیں گے“۔ (فضائل بیت المقدس، ص:۱۰۷)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسجد اقصیٰ کی حدود میں دیگر بھی ایسی چیزیں موجود ہیں، جو مسلمانوں کے لئے باعث فخر ہیں، جن میں سے حدود حرم میں</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>واقع قبے، مینارے اور مدرسے ہیں، جن کو مسلمان بادشاہ مختلف ادوار میں تعمیر کرواتے رہے، ان میں سے چندمشہور قبّوں کے نام یہ ہیں: قبة المعراج، قبة السلسلة، قبة النحویة، قبة الصخرة۔(خطط الشام، ۵/۲۵۷) ان سب میں سے زیادہ مقدس قبة الصخرة ہے، جس کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا جاتا ہے۔ </b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>قبة الصخرة </b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>قبہ گنبد کو اور الصخرة چٹان کو کہتے ہیں، یہ قبہ ایک چٹان پر واقع ہے۔ ناصر خسرونے اپنے سفرنامہ میں اس کے اوصاف بیان کئے ہیں کہ یہ قبة الصخرة ایک چبوترہ میں واقع ہے اور صخرہ قبہ کے وسط میں ہے اور قبة الصخرة مثمّن الاضلاع (آٹھ پہلوؤں والا) ہے، آٹھ پہلوؤں میں سے ہر پہلو ۳۳ گز کا ہے اور چاروں طرف دروازے ہیں اور قبہ کا اندرونی احاطہ ۵۳ میٹر ہے، سیڑھیوں سے چڑھ کر اوپر کی طرف پہنچتے ہیں، سیڑھیوں کے اختتام پر دروازے ہیں اور قبہ کا اندرونی حصہ تین حصوں پر مشتمل ہے: پہلے میں چٹان، دوسرے میں ستون اور تیسرا حصہ دروازے کے ساتھ متصل ہے۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>قبہ میں اندر کی طرف ستون کی دوقطاریں ہیں۔ پہلی قطار چٹان کے اردگرد ہے، اس میں چار بڑے مربّعة الاضلاع (چار پہلووٴں والے) اور دو گول چھوٹے ستون ہیں۔ دوسری قطار ذرا فاصلہ پر ہے، اس میں آٹھ بڑے مسدّسة الاضلاع (چھ پہلووٴں والے) اور(۱۶) سولہ چھوٹے ستون ہیں اور ان ستونوں پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے۔ </b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>سب سے پہلے اس کی تعمیر خلیفہ عبد الملک بن مروان نے کی ہے یا تاریخ یعقوبی کے مصنف نے یہ ایک بات نقل کی ہے کہ جب خلیفہ عبد الملک بن مروان کا حضرت عبد اللہ بن زبیر سے اختلاف ہوا تو حجاز پر حضرت عبد اللہ بن زبیر کا کنٹرول تھا ، خلیفہ نے لوگوں کی توجہ حرمین شریفین سے ہٹانے کے لئے مسجد اقصیٰ میں قبة الصخرة تعمیر کروایا، لیکن یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ تاریخ یعقوبی کا مصنف شیعہ ہے اور وہ اموی خلفاء کو پسند نہیں کرتا، دوسری وجہ یہ ہے کہ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اسی دور میں جامع مسجد دمشق اور دیگر مقدس مقامات پر شاندار، خوبصورت عمارتیں تعمیر کروائیں، یہ بھی ان میں سے ہے۔ (خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۳، تاریخ یعقوبی،ج: ۲ص:۱۸۲ ،القدس)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>بہرحال قبة الصخرة اموی دور کا ایک اہم شاہکار تصور کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کی رونق میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ قبة الصخرة کی تعمیر مشہور تابعی ”رجاء بن حیوہ“ اور ”یزید بن سلام“ کی نگرانی میں مکمل ہوئی، جب تعمیر مکمل ہوئی تو ان حضرات نے خلیفہٴ وقت کو لکھا کہ ایک لاکھ دینار بچ گئے ہیں، تو خلیفہ نے ان کو ان کی ایمان داری اور دیانت کا انعام دینا چاہا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس اعزاز میں اور نعمت کے شکرانے کے طور پر اپنی بیویوں کے زیور اس پر لگادیں، چہ جائیکہ اس کے بدلے انعام لیں، تو خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کے سونے کو پگھلا کر طلا کاری کردی جائے۔ یہ ان کے اخلاص کا نتیجہ تھا۔ (فضائل بیت المقدس،ص:۷۳)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>الصخرة</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>یہ قبہ جس چٹان پر واقع ہے، وہ چٹان ایک قدرتی پتھر ہے، جس کی لمبائی ۵۶ فٹ اور چوڑائی ۴۲ فٹ ہے اور نیم دائرے کی غیر منظم شکل ہے۔ ناصر خسرو اپنے سفرنامہ میں لکھتے ہیں کہ اس کا کل احاطہ ۱۰۰ گز ہے اور یہ غیر منظم شکل ہے اور نہ ہی مدوّرة اور نہ ہی مربّعة، یہ عام پہاڑوں کی طرح ہے۔ (القدس دراسةً تاریخیةً)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>اس چٹان کے کئی فضائل ہیں ۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ چٹان جنت کی چٹانوں میں سے ہے۔ اکثر مؤرخین کے نزدیک یہ وہی جگہ ہے، جہاں پر اسرافیل علیہ السلام کھڑے ہوکر نفخہٴ اخیرہ پھونکیں گے۔ یہی انبیاء سابقین کا قبلہ رہا ہے اور ۱۶،۱۷ ماہ تک نبی کریم ا بھی اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ یہودیوں کا قبلہ اول ہونے کی وجہ سے عیسائی وہاں پر کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے، جب حضرت عمر نے فتح کیا تو اس کو صاف کروایا۔ (فضائل بیت المقدس،ص:۱۲۳)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>غار</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>اسی چٹان کے نیچے ایک غار ہے، جو مربعہ شکل میں ہے ۔اس غار کی لمبائی ۱۱ فٹ اور زمین سے اونچائی ۳۰ فٹ ہے۔ غار تک پہنچنے کے لئے قبلہ کی طرف گیارہ سیڑھیاں ہیں اور غار کے دروازے کے پاس ایک عمارت ہے جو دوستونوں پر مشتمل ہے اور سنگ مرمر سے اس کی تزیین کی گئی ہے ۔ عمارت کے اندر دو محراب ہیں۔ محراب کے نیچے دوستون انتہائی خوبصورت اور سنگ مرمر سے بنے ہوئے ہیں۔ دائیں طرف والے محراب کے سامنے ایک چبوترہ ہے، جس کو مقامِ خضر کہا جاتا ہے۔ شمال میں واقع چبوترہ کو ”باب الخلیل“ کہا جاتا ہے۔ قبّہ اور غار کا فرش خوبصورت سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے،جس سے اس کی چمک اور خوبصورتی میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ (خطط الشام،ج:۵ص:۲۵۴)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسجد کا اندرونی حصہ</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسجد کے اندرونی حصے کے مغربی جانب جامع النساء ہے، جس کو فاطمیین نے تعمیر کروایا اور مغربی جانب جامع عمر ہے، جس کو حضرت عمر نے فتح کے بعدتعمیر کرایا تھا اور اسی عمارت کی طرف ایک بڑا خوبصورت ایوان ہے، جس کو” مقامِ عزیر“ کہا جاتا ہے، اسی ایوان کے شمال کی جانب ایک خوبصورت محراب ہے، جس کو” محرابِ زکریا“ کہا جاتا ہے اور اس کی لمبائی اور چوڑائی ۶۰۶ میٹر ہے۔ مغربی جانب ایک لوھے کا جنگلہ ہے، جس میں ایک محراب” محرابِ معاویہ “کے نام سے ہے۔ قبلہ کی جانب ایک بڑا محراب ہے، جس کو محرابِ داؤد کہتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک منبر ہے، یہ منبر سلطان نور الدین زنگی نے مسجد اقصیٰ کے لئے بنوایا تھا، خود انتقال کرگئے ، لیکن ان کے جانشین سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس کو فتح کے بعد حلب سے منگوا کر نصب کیا۔ (خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۵)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>دیوارِ براق</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>یہ دیوار دم کے جنوب مغرب میں ہے، اس کی لمبائی ۴۷ میٹر اور بلندی ۱۷ میٹر ہے۔ روایات میں ہے کہ حضور صل: نے معراج والی رات یہاں اپنی سواری باندھی تھی، اسی مناسبت سے اس کو دیوار براق کہتے ہیں۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے فتح کے بعد حضرت کعب احبار سے پوچھا کہ کہاں نماز پڑھوں؟ انہوں نے فرمایا کہ چٹان کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھیں، تاکہ سارا قدس آپ کے سامنے ہو۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ آپ نے تو یہودیوں سے ملی جلی بات کہی، میں تو وہاں پر نماز پڑھوں گا، جہاں پر رسول اللہ ا نے نماز پڑھی تھی، چنانچہ آپ قبلہ کی جانب گئے اورفاتحین صحابہ کے ساتھ براق باندھنے کی جگہ کے قریب نماز پڑھی، آپ نے وہاں پر مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ (البدایہ والنہایہ ج:۱۲ص:۳۴۷۔خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۵/ القدس دراسةً تاریخیةً)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مینارے</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسجد اقصیٰ کے شمال اور مغرب کی جانب چار مینارے تھے، یہ چاروں مینارے چاروں دروازوں کے ساتھ تعمیر کئے گئے تھے، ان کو باب المغاربة کا مینارہ، باب السلسلہ کا مینارہ، باب؟ کا مینارہ اور باب الاسباط کا مینارہ کہا جاتا ہے۔ یہ مینارے ممالیک کے دور حکومت ( ۷۶۹ھ تا ۱۳۶۷ھ) میں تعمیر ہوئے۔ (خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۴)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسجد اقصیٰ میں تعلیم وتعلّم اور علمی شخصیات</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>مسلمان بادشاہوں نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس میں تعلیم و تعلّم کے لئے بھی سہولتیں فراہم کیں: طلباء کے لئے کمرے اور درسگاہیں تعمیر کیں، ان میں سے جامعة المغاربہ، مدرسہ عثمانیہ، مدرسہ کریمیہ، مدرسہ باسطیہ اور مدرسہ طولونیہ وغیرہ تعمیر کرائے۔ مسجد اقصیٰ کی طرف بہت سی علمی اور مذہبی شخصیات نے سفر کئے، جن میں مشہور نام یہ ہیں:</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b> حضرت عمر کے دور خلافت میں عبادة بن صامت متوفی۳۴ھ اور شداد بن اوس متوفی۵۸ھ وہیں رہے۔ مشہور مفسر مقاتل بن سلیمان المتوفی سنة ۱۵۰ھ اور فقیہ امام عبد الرحمن بن عمرو اوزاعی متوفی ۱۵۷ھ اور عراق کے مشہور عالم امام سفیان ثوری متوفی ۱۶۱ھ اور مصر کے امام لیث بن سعد متوفی ۱۷۵ھ اور فقہ شافعی کے بانی امام محمد بن ادریس شافعی متوفی ۲۰۳ھ اور حجة الاسلام متوفی ۴۸۸ھ ہیں۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>اس کے بعد عیسائیوں کے قبضہ میں جانے کے بعد یہ سلسلہ موقوف ہوگیا تھا ، لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتح کے بعد دوبارہ اس میں تعلیم اور تعلّم کا سلسلہ جاری ہوگیا اور ہندوستان کے مشہور خطیب مولانا محمد علی جوہر کا مزار مدرسہ خاتونیہ کے باہر واقع ہے۔ </b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>(معجم البلدان،ج: ۵ص:۱۷۲ باعث النفوس الی زیارة القدس والخلیل)</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>بیت المقدس پر لکھی جانے والی چند کتابیں </b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۱-مشیر الغرام الی زیارة القدس والشام: للامام شہاب الدین ابی محمود بن تمیم المقدسی متوفی ۷۶۵ھ</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۲-الجامع المستقصیٰ فی فضائل المسجد الاقصیٰ۔ للامام بہاء الدین ابی محمد القاسم ابن ہبة بن عساکر۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۳-الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل۔ للامام الدین الحنبلی العلیمی المتوفی ۹۲۷ھ</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۴-فضائل بیت المقدس، للامام ابی المعالی المشرف بن المرجی بن ابراہیم المقدسی المتوفی ۴۹۲ھ</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۵-باعث النفوس الی زیارة القدس المجروس، للشیخ برہان الدین الفراری المعروف بابن القرقاح۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۶-فضائل بیت المقدس لابن الجوزی۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۷-بیت المقدس والمسجد الاقصیٰ، دراسةً تاریخیةً، مولفة محمد حسن التراب۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۸-المسجد الاقصیٰ والصخرة المشرفة، ابراہیم الغنی۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۹-القدس، جراسة تاریخیة حول المسجد الاقصیٰ والقدس الشریف للدکتور عبد الفتاح حسن ابوعلیہ۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۱۰- فضائل بیت المقدس، للامام الحافظ ضیاء الدین محمد بن عبد الواحد بن احمد المقدسی الحنبلی المتوفی ۶۴۳ھ۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>[مراجع</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۱-بخاری۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۲-سنن ابن ماجة۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۳-تفسیر حقانی۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۴-البدایة والنہایة۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۵- کتاب الروضتین فی اخبار الدولتین لابی شامة۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۶-فضائل بیت المقدس للامام ابی المعالی المشرف المرجی المقدس ۴۹۲ھ</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۷-فضائل بیت المقدس للامام الحافظ ضیاء الدین محمد بن عبد الواحد بن احمد المقدسی الحنبلی ۶۴۳ھ</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۸-القدس:تاریخیة دراسة للدکتور عبد الفتاح حسن ابوعلیہ۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۹-الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل للامام مجیر الدین الحنبلی ۹۲۷ھ</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۱۰-معجم البلدان، یاقوت حموی۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۱۱- خطط الشام، محمد کر دعلی۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>۱۲-احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم لمحمد الیشاری۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b><br />
</b></span></div><div style="text-align: right;"><span class="Apple-style-span" style="color: magenta; font-size: large;"><b>بشکریہ ماہنامہ بینات کراچی</b></span></div></div>الیکٹروہومیو ڈاکٹر و حکیم سیف الاسلام سیفیhttp://www.blogger.com/profile/09064542093064712563noreply@blogger.com0