-scale=1.0,minimum-scale=1.0,maximum-scale=1.0" : "width=1100"' name='viewport'/> صدائے قلندر: معاملات کی صفائی

Sunday 11 September 2011

معاملات کی صفائی







دنیا میں بہت سی مخلوقات ایسی ہیں کہ وہ اپنے باقی رہنے میں اپنی ہم جنس کی محتاج نہیں ہیں، جیسے درخت ہے، درخت کو اپنے ہی جیسی درخت کی ضرورت پیش نہیں آتی، بلند وبالا پہاڑ اپنے باقی رہنے میں دوسرے پہاڑ کے محتاج نہیں ہیں، لیکن جان دار او رخاص کر انسان اپنی زندگی میں اپنی ہم جنس مخلوق اور انسان کے محتاج ہیں، ماں باپ کا ” بوڑھا پا“ بال بچوں کے بغیر گزارے نہیں گزرتا، بچے باپ کی شفقت او رماں کی ممتا کے بغیر بچپن سے جوانی تک کا سفر طے نہیں کرسکتے، ایک خاص عمر کو پہنچنے کے بعد ہر شخص کو ایک رفیق کی ضرورت پیش آتی ہے ، جو شوہر وبیوی کی شکل میں مہیا ہوتا ہے ، یہ ضرورتیں تو چھوٹے سے خاندان سے متعلق ہیں، اس سے باہر نکلیے تو ضرورتوں کا دائرہ اور وسیع ہو جاتا ہے ، تاجرو گاہک ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور آجرو مزدور کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے ۔


سماج میں اس سے زیادہ افراد کے درمیان باہمی احتیاج وضرورت کی بنا پر جو مالی تعلق قائم ہوتا ہے، اُسے فقہ وقانون کی زبان میں ”معاملہ“ کہتے ہیں ، 


معاملات میں بعض دفعہ ” ادھار“ کی بھی نوبت آتی ہے اورمہلت کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق ادا کیے جاتے ہیں ، ایسے وقت میں خاص کر باہمی نزاع کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے ، عام طور پر معاملات میں جو اختلافات پیدا ہوتے ہیں ، وہ بڑی شدت اختیار کر جاتے ہیں ، اس لیے کہ مال کی حرص او رمال کے سلسلہ میں بخل انسانی فطرت میں داخل ہے ، ایسے اختلافات محبت کے رشتوں کو کڑواہٹوں میں تبدیل کر دیتے ہیں ، کینہ وکدورت کی آگ سینوں کو سلگا کر رکھ دیتی ہے، یہاں تک کہ لوگ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں اور قتل وقتال تک نوبت آجاتی ہے، یہ اختلاف عام طور پر دو اسباب کی وجہ سے رونما ہوتا ہے ، ایک بددیانتی ، دوسرے معاملات میں ابہام۔


بد دیانتی او رخیانت کے واقعات تو دن رات پیش آتے رہتے ہیں، اس لیے کہ بد دیانتی آج کی دنیا میں جرم کے بجائے آرٹ بن چکا ہے اور بعض لوگ ایسی حرکتوں کو ہوش مندی او رعقل مندی باور کرتے ہیں ، لیکن بہرحال جو لوگ دین وشریعت سے جڑے ہوئے ہیں ، نماز وروزہ کے پابند ہیں او راسلامی وضع قطع رکھتے ہیں ، وہ بڑی حد تک اس سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن معاملات میں ابہام اور صفائی ووضاحت کا نہ ہونا ایسی بیماری ہے ، جس میں یہ طبقہ بھی گرفتار رہتا ہے 


 قرآن مجید کی سب سے بڑی آیت سورة البقرة کی آیت نمبر282 ہے ، جو آیت ”مداینت“ کہلاتی ہے ، اس میں قرض کا ایک اہم حکم بتایا گیا ہے او رخاص طور پر ایسے معاملات کو لکھ لینے کا حکم دیا گیا ہے ، 


عداء بن خالد بن ہوذہ کے پاس خریدوفروخت کی ایک دستاویز تھی، جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تحریر کرائی تھی ، اس میں خریدار کی حیثیت سے عداء کا نام تھااور فروخت کنندہ کی حیثیت سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا۔ ( سنن الترمذی، کتاب البیوع ، باب ماجاء فی کتابة الشروط، حدیث نمبر:1260)


اس سے معلوم ہوا کہ خرید وفروخت نقد ہو تب بھی لکھ لینا بہتر ہے۔


خریدو فروخت کی ایک صورت یہ ہے کہ قیمت نقد ادا کر دی جائے اور خریدی جانے والی شیء ادھار رکھی جائے ، اس کو شریعت کی اصطلاح میں ”سلم“ کہتے ہیں،رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو وہاں ایسی خرید وفروخت کا عام رواج تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ، لیکن فرمایا کہ پیمانہ متعین ہونا چاہیے او رمدت متعین ہونی چاہیے:”من اسلف فی شیء ففی کیل معلوم، ووزن معلوم، الی اجل معلوم“․ (صحیح البخاری، کتاب السلم، باب السلم فی وزن معلوم، حدیث نمبر:2240)


فقہا نے اس سلسلہ میں مزید تفصیل کی ہے کہ چوں کہ شریعت کا منشا نزاع کو روکنا او رجھگڑے کا سدباب کرنا ہے ، اس لیے ان تمام چیزوں کا متعین اور واضح ہونا ضروری ہے ، جن کے بارے میں آئندہ اختلاف پیدا ہو سکتا ہے ، جوشے ادھار ہے وہ بھی متعین ہو جیسے چاول ، گیہوں، پھر اس کی قسم بھی متعین ہو ، جیسے باسمتی چاول ، کوالٹی اور کیفیت میں بھی ابہام نہ ہو ، جیسے اعلیٰ درجہ، درمیانی درجہ وغیرہ، سامان کی ڈیلیوری کی جگہ بھی مقرر ہو ، مثلا یہ چیز فلاں شہر میں مہیا کی جائے گی وغیرہ۔


حضرت عبدالله بن عباس نے قرض وادھار کی تمام صورتوں کے بارے میں اصولی بات فرمائی ہے کہ ادائیگی کی مدت واضح اور متعین ہونی چاہیے ، کوئی شخص کہے کہ کھیت کی کٹائی یا فلاں شخص کے دینے تک کے لیے ادھار ہے ، تو اس کا اعتبار نہیں، بلکہ مدت یا ادائیگی کا وقت کسی ابہام کے بغیر مقرر ہونا چاہیے ”لا تسلف الی العطاء، ولا الی الحصاد، واضرب اجلا“ ․ ( اعلاء السنن:381/14 بہ حوالہ، مصنف ابن ابی شیبہ)․


آج کل دارالافتاء، دارالقضاء اور محکمہ شرعیہ وغیرہ میں متعدد ایسے معاملات آتے رہتے ہیں ، جن میں آپسی جھگڑے کی بنیاد معاملات کا واضح نہ ہونا ہے ، اس وقت اس کی چند صورتوں کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے ۔


بعض اوقات والد ایک کاروبار شروع کرتے ہیں ، اس وقت بچے چھوٹے ہوتے ہیں ، بچے جیسے جیسے بڑے ہوئے ان میں سے بعض والدکے ساتھ کاروبار میں لگ جاتے ہیں ، بعض ملک یا بیرون ملک میں اچھی ملازمتیں حاصل کر لیتے ہیں ، ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑے لڑکے تو کاروبار میں شامل ہو گئے ، تاکہ تجارت کو فروغ دیں اور اس کی وجہ سے وہ آگے تعلیم حاصل نہیں کر سکے ، چھوٹے بھائیوں نے تعلیم حاصل کی او راعلیٰ ملازمتوں پر فائز ہو گئے ، اب والد کے انتقال کے بعد جب ترکہ کی تقسیم کا مسئلہ آیا تو جس بھائی نے کاروبار میں تعاون کیا تھا ، وہ چاہتا ہے کہ اس کو اس کی محنت کا معاوضہ ملے اور چھوٹے بھائیوں کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ترکہ برابر تقسیم کیا جائے ، بعض دفعہ اس میں ان بھائیوں کے ساتھ بہ ظاہر ناانصافی ہوتی ہے، جنہوں نے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے خود الگ سے کوئی ملازمت نہیں کی یا اپنی تعلیم کو قربان کیا ، بعض دفعہ اس کے برعکس صورت حال بھی پیش آتی ہے کہ جو بھائی کاروبار میں شریک تھا، وہ پورے کاروبار پر قابض ہو جاتا ہے اور دوسرے بھائی بہنوں کو بے دخل کر دیتا ہے …، اگر والدین بچوں کو کاروبار میں شریک کرتے ہوئے وضاحت کر دیں کہ تمہاری حیثیت پارٹنر کی ہو گی اور تم اس میں اتنے فیصد کے مالک ہو گے ، یا تمہاری حیثیت ملازمت کی ہو گی اور تم ماہانہ اتنی تنخواہ کے مستحق ہو گے، یا تم میرے معاون ومدد گار ہو ، الگ سے تمہارا کوئی حصہ نہیں ہو گا تو بعد کو چل کر اس طرح کا اختلاف پیدا نہیں ہوتا۔


عملی تعاون ہی کی طرح بعض دفعہ مالی تعاون میں بھی یہ صورت پیش آتی ہے ، جیسے والد کی تجارت میں ان کے مطالبہ پر یا بلا مطالبہ بعض بچوں نے مختلف موقعوں پر پیسے دیے ، یہ سرمایہ کاروبار کا حصہ بن گیا، لیکن یہ بات متعین نہیں ہوئی کہ سرمایہ لگانے والوں کا کاروبار میں خصوصی شیئر ہو گا یا ان کی یہ رقم قرض ہے، جوبعد میں ادا کی جائے گی ، یا اپنے والد کا تعاون ہے ؟ یہ عدم وضاحت پھر بعد میں بڑے جھگڑے کا سبب بنتی ہے، جن لڑکوں نے رقم دی تھی وہ زائد حصہ چاہتے ہیں اور دوسرے بھائی پورے کاروبار کو والد کا ترکہ قرار دیتے ہیں۔


ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بھائی نے کاروبار شروع کیا ، سب لوگ مل کر رہ رہے تھے، مختلف بھائیوں نے حسب گنجائش موقعہ بہ موقعہ کاروبار میں رقم لگائی ، بعض نے نہیں لگائی، بعض محنت میں شامل ہوئے ، بعض نہیں ہوئے ، اب ہوتا یہ ہے کہ جس بھائی نے کاروبار شروع کیا تھا، وہ سمجھتا ہے کہ یہ پورا کاروبار تنہا اسی کی ملکیت ہے اور دوسرے بھائی اپنے حصہ کے دعوے دار ہوتے ہیں ، یہ بات اس وقت زیادہ پیش آتی ہے ، جب والد کی زندگی میں اس نوعیت کا کاروبار شروع ہوا ہو ، کبھی کبھار وہ بھی دکان پر بیٹھ جاتے ہیں ، یا تجارت شروع کرنے والے بچے نے اپنے والد کے نام سے تجارت شروع کی، اگر شروع ہی میں یہ بات واضح ہو جائے کہ یہ کاروبار مشترکہ ہے ، یا جس بھائی نے شروع کیا ہے ، اس کا ہے او رجن دوسرے بھائیوں نے کچھ پیسے لگائے ہیں یا محنت کی ہے ، وہ تعاون ہے یا قرض ہے یا شرکت ہے ؟ او راگر اسی کاروبار سے گھر کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں تو یہ بہ طور شرکت کے ہے ، یا جس کا کاروبار ہے اس کی طرف سے تبرع واحسان ہے ؟ تاکہ بعد میں اختلاف پیدا نہ ہو۔


اسی طرح کی صورت حال بعض دفعہ اراضی کی خریداری میں پیش آتی ہے، ایسا ہوتا ہے کہ بعض لڑکے بیرون ملک ملازمت کر رہے ہوتے ہیں ، وہ زمین یا مکان کی خریداری کے لیے رقم بھیجتے ہیں، اب والد نے اس رقم سے اپنے نام مکان یا زمین خرید لی یا اپنے کسی ایسے لڑکے کے نام خرید کر دی جو وطن میں ہے، حالاں کہ پیسے بھیجنے والے کا مقصد اس کے لیے جائیداد خریدنا ہے او روالدکی بھی یہی نیت ہے ، بھائیوں کو معلوم ہے ، لیکن جب والد کا انتقال ہوا تو نیت بد ل گئی اور اصل صاحب حق کا نقصان ہو گیا، اس لیے اولاً تو خود رقم بھیجنے والے لڑکے کو چاہیے کہ اپنے والد پر اس بات کو واضح کر دے کہ اس کی نیت خود اپنے لیے زمین خریدنے کی ہے اور والد کو بھی چاہیے کہ اس کی نیت دریافت کرکے اس کے نام سے زمین خریدے اور اگر اس میں کوئی قانونی دقت ہو تو اپنے نام سے خرید کر اس لڑکے کے نام ہبہ نامہ بنا دے ، یا اس کو پاور آف اٹارنی دے دے ، یا کم سے کم اپنا یہ اقرار نامہ رجسٹرڈ کرادے کہ یہ زمین حقیقت میں میرے فلاں لڑکے کی ملکیت ہے، میں اس کا مالک نہیں ہوں اورمیرے دوسرے ورثہ کا بھی اس سے حق متعلق نہیں ہے ۔


اسی طرح کا اختلاف بعض اوقات مکان کی تعمیر میں بھی پیدا ہوتا ہے ، جیسے والد نے مکان کی تعمیر شروع کی اور بعض لڑکوں نے اس میں پیسے دیے، لیکن ان کا پیسہ دینا کس حیثیت سے ہے ؟ یہ واضح نہیں ہوتا، بعد میں پیسہ دینے والے لڑکے کی خواہش ہوتی ہے کہ اس مکان میں اس کا خصوصی شیئر ہو اور دوسرے لڑکے پورے مکان کو والد کا ترکہ قرار دیتے ہیں، یہی صورت حال اس وقت بھی پیش آتی ہے جب اتفاق واتحاد کے ماحول میں کوئی بھائی مکان کی تعمیر شروع کرتا ہے ، اب کئی بھائیوں میں سے ایک دو کچھ پیسے لگا دیتے ہیں ، کوئی اپنا وقت دے دیتا ہے اور یہ بات طے نہیں ہوتی کہ اس مالی اورعملی تعاون کی حیثیت کیا ہو گی؟ اگر یہ شروع میں طے پا جائے تو نہ دل کے آبگینے ٹوٹیں گے، نہ کینہ وکدورت کی آگ سلگے گی۔


ایک قابل توجہ بات تقسیم میراث کی ہے ، جیسے ہی مورث کا انتقال ہوا، اس کے ترکہ سے تمام ورثہ کا حق متعلق ہو جاتا ہے او رترکہ میں مرنے والے کی تمام چیزیں شامل ہیں ، مثلاً اگر ایک لڑکا مرنے والے کے ساتھ اس مکان میں مقیم تھا ، اب والد کی وفات کے بعد تنہا اس مکان کو یا والد کی دوسری اشیاء کو استعمال کر رہا ہے تو اپنے شیئر سے زیادہ حصہ ،جو اس کے استعمال میں ہے وہ اس کے حق میں گناہ اور حرام ہے ، پھر تقسیم میں جتنی تاخیر ہوتی جاتی ہے الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں اور اختلاف کے مواقع بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں ، اس لیے شریعت کا مقرر کیا ہوا اصول یہ ہے کہ مرنے والے کے گزرنے کے بعد جلد سے جلد ایک دودنوں کے اندر تمام ورثہ بیٹھ کر شریعت کے حکم کے مطابق اپنے حصے تقسیم کر لیں اور اس تقسیم میں ہر چیز کو شامل کریں ، کیوں کہ قرآن مجید میں ترکہ کے لیے ”ماترک“ کے الفاظ آئے ہیں، یعنی مرنے والا جو بھی چھوڑ جائے ، اس لیے گلاس اورپلیٹیں بھی ترکہ میں شامل ہیں ، ہاں! اگر مرحوم کی بعض اشیا کے استعمال کے بارے میں ورثہ کا اتفاق ہو جائے کہ یہ چیز فلاں کے استعمال میں رہے گی تو حرج نہیں ہے ، کیوں کہ یہ دوسرے حق داروں کی طرف سے اس کے حق میں ہبہ ہے۔


یہ او راس طرح کے معاملات میں جہاں وضاحت ضروری ہے ، وہیں یہ بھی مناسب ہے کہ ان معاملات کو تحریر میں لے آیا جائے اور اس تحریرپر تمام متعلقہ لوگوں اور کچھ گواہوں کے دستخط ہو جائیں ، تاکہ آئندہ طے پانے والے امور کے سلسلہ میں کوئی اختلاف پیدا نہ ہو ، حقیقت یہ ہے کہ اگر معاملات کی اچھی طرح وضاحت ہو جائے اور اسے تحریر میں لایا جائے تو زمین وجائیداد کے پچاس فیصد جھگڑے ختم ہو جائیں گے اور اختلاف کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔

3 comments: