-scale=1.0,minimum-scale=1.0,maximum-scale=1.0" : "width=1100"' name='viewport'/> صدائے قلندر: آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

Wednesday 12 October 2011

آنکھیں بھیگ جاتی ہیں



نجانے کیوں آج اُن کی یاد نے آنکھوں کو اشکبار کردیا۔ان بھیگی ہوئی آنکھوں میں اُ ن کے لہو میں بھیگے ہوئے چہرے دکھائی دے رہے ہیں۔
کبھی وہ خود نظر آنے لگتا ہے اور کبھی اس کے دیوانے نظر آنے لگتے ہیں 
اور کبھی وہ سیاہ غلاف میں لپٹی ہوئی محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی بیٹیاں نظر آنے لگتی ہیں کہ جن کی حیاء اور پاکیزگی پر خود حیاء بھی ناز کرتی تھی ۔
وہ سب ایک ایسی منزل کے مسافر تھے  کہ جس کی راہ میں کانٹے ہی کانٹے تھے وہ عشق کی ایسی راہ  پہ چل نکلے تھے کہ جو صرف  اورصرف دار تک ہی جاتی تھی۔
وہ محبت میں ایسے فنا ہوگئے تھے کہ اُن کو دنیا کی چمک دمک محض  دھوکہ ہعلوم ہوتی تھی۔اصل اور حقیقی مئومن کی پہچان بھی تو یہ ہی ہے  کہ جب وہ محبت الٰہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہو جاتا ہے تو دنیا کی چمک دمک اس کے آگے کوڑا کرکٹ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔آج میرا دل چاہتا ہے ک میں اُن وفا کے مجسموں سے کچھ باتیں کروں  اُن شریعت کے پروانوں سے کچھ کہوں اپنی غفلت کی اُن سے معافی مانگوں۔اے شریعت  یا شہادت کا نعرہ لگانے والو ہم  تم سے 
بہت پیچھے ہیں۔تم نے جو کہا کر دکھایا مگر ہم باتیں ہی کرتے رہ گئی۔اور ہاں ہم کریں بھی تو کیا  کریں؟
ہم مجبور ہیں۔حالات ہمارے ساتھ نہیں ہیں ۔اور یہ بھی تو دیکھو  ہمارا گھر ہے ماں باپ بہن بھائی  ۔۔۔یہ سب ہم کیسے چھو
 سکتے ہیں
اے مساجد کے لئے قربانی دینے والو۔ ہم تم سے بہت شرمندہ ہیں ۔۔۔۔
اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔
دریں اثنا ء کہیں دور سے ۔۔یا شاید دل کے کسی کونے سی۔۔۔نہیں شاید اسلام کے نام پہ بننے والے ملک کے کسی قبرستان سی
آواز آتی ہے ۔۔۔۔کہ اے پاکستان میں بسنے والو۔۔۔۔حالات کبھی ساتھ ساتھ نہیں دیتی۔۔حالات تو محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  بھی نہیں تھی۔انہوں نے  مکہ مکرمہ طائف و احد  ۔۔۔میں اپنا  خون اور پسینہ بہا  کر حالات کو سدھارا ہی۔۔ اگر تم بہت مجبور ہو  تو دیکھو تاجدارِ مدینہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت  خون بہانے والی ہم نے ادا کر دی ہے ۔اب پسینہ تم بہا کر  حالات کو سدھار لو اسی میں کامیابی ہے اب حالات تمہارے سپرد ہیں۔ہم نے اپنے لہو سے ابتداء ِ انقلاب کر دی ہیاب دیکھنا ہماری محنت ضائع نہ ہونے  دینا۔ہم تم سے خون نہیں مانگتے صرف اتنا کہتے ہیں کہ ہم نے جو نفاذ شریعت کا نعرہ لگایا  تھا ہماری 
ایک جان تھی سو ہم  نے وہ بھی لٹا دی ہے اب تمہاری باری ہی

نہیں نہیں۔۔ گھبراؤ مت ہمیں پتہ ہے کہ تم بہت مجبور  ہو ۔۔بس اتنا کرو۔۔اپنے اپنے گھروں میں شریعت نافذ کردو ۔یہ قرض ہے  ہمارے خون کا تمہارے اوپر اب یہ اتارنا  تمہارا  فرض ہی۔

اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔۔۔۔

اور  ان بھیگی ہوئی آنکھوں  میں ۔۔لہو  رنگ ۔۔ایک ہستا ہوا چہرہ  نظر آنے لگتا ہی۔اور کہتا ہے۔۔۔سیفی ۔۔میرے قاتل سے کہہ دو کہ ہم مر کے بھی زندہ ہیں
۔۔آ دیکھ ہمارے رب نے ہمیں اپنی رحمت کی بانہوں میں لے رکھا ہے۔۔دیکھ سکتے ہو تو دیکھو ۔۔ہم اپنے رب کے ہاں  خوش ہیں۔۔
بہت خوش۔۔۔۔

اورآنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔۔۔
اب یہ کسی دکھ میں نہیں بلکہ شہداء لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی استقامت اور شہادت کو سلام کرت ہیں ۔۔اپنے آنسوؤں کے 
ساتھ۔۔۔

جب تک دیپ نہ جلیں شہیدوں کے لہو سی
سنا ہے کہ جنت میں چراغاں نہیں ہوتا


2 comments:

  1. خوب تحریر ہے ماشاءاللہ۔ آپکے جزبات کو سراہتا ہوں

    ReplyDelete