-scale=1.0,minimum-scale=1.0,maximum-scale=1.0" : "width=1100"' name='viewport'/> صدائے قلندر: 2012

Tuesday 21 August 2012

ماں

ماں

رب سوہنے نے بہت سے رشتے بنائے ہیں اور بہت ہی خوبصورت بنائے ہیں مگر '' ماں '' جیسا رشتہ کوئی اور نہیں ہے
میری امی فروری 2012 میں بیمار ہوئیں ٹیسٹ وغیرہ کرونے سے پتہ چلا کہ وہ کینسر کی مریضہ ہیں ۔ ۔ 1 قیامت تھی جو یہ بات سن کر ٹوٹ پڑی
فروری سے جولائی تک میری ماں نے بہت تکالیف برداشت کیں آپریشن بھی ہوا
مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ دن صحت ٹھیک بھی رہی مگر شفا تو رب سوہنے کے پاس ہے جسے چاہے دے جسے چاہے نہ دے ۔ پھر آہستہ آہستہ صحت گرتی چلی گئی 14 جولائی سے بول چال کھاا پینا بھی بند ہو گیا ۔ ۔ یہ سب کچھ تھا ماں نہ بولتی تھی نہ کچھ کہہ پاتی تھی مگر پھر بھی دل کو سکون تھا کہ ماں پاس تو ہے ناں ۔ ۔ ۔
میں گھر میں سب سے چھوٹا ہوں زیادہ وقت اپنی ماں کے پاس گزرا ہے چارپائی سے لگی ہوئی اماں جان کو دیکھتا دکھ تو ہوتا ماں کی حالت پر مگر ماں کے پاس ہونے کا احساس دکھ ختم کردیتا تھا ۔ ۔ 
پھ 19 جولائی آن پنہچی صبح سے ہی طبیعت کافی خراب تھی ۔ ۔ ۔ شام کو مغرب کے قریب سانس اکھڑنے لگی خواتین سورۃ یٰسین کی تلاوت کر رہی تھیں مغرب کی نماز کے 15 منٹ بعد اماں جان اپنے خالق حقیقی سے جاملیں
بس وہی وقت ہے جب ہمارے سروں سے ٹھنڈی ور گھنے چھاؤں چھن گئی ۔ ۔ 
دل تھا شدت غم سے پھٹآ جا رہا تھا ۔ ۔ ہائے آج ہماری دعائیں چلی گئیں
وہ حفاظتی حصار جو میں‌ہر لمحہ اپنے اردگرد محسوس کیا کرتا تھا آج وہ حصار حتم ہو گیا ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
20
 جولائی کو 9 بجے صبح ماں جی کا جنازہ ہوا ۔ ۔ ۔ 1 بہت بڑا جنازہ ۔ ۔ علماء طلباء کی 1 بہت بڑی تعداد شریک تھی ۔ ۔
میں نے بہت علماء کو روتے ہووئے دیکھا کہ آج ہماری ماں چلی گئی ۔ ۔
اپنی بات نہیں لوگ کہتے ہیں کہ جتنا سکون اس '' ماں '' کا جنازہ پڑھ کر ملا اتنا کبھی زندگی میں نہیں ملا ۔ ۔ ۔
جب قبر میں رکھا تو آسمان پہ بادل چھا گئے اور ٹحنڈی ہوا کے جھونکوں نے میری ماں جی کا استقبال کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پہلی عید ماں کے بغیر ۔ ۔ ۔ سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ بھی نہیں تھا ہمارے پاس ۔ ۔ گھر بار سب اداس تھا اس ایک ہستی کے بغیر ۔ ۔ ۔
ماں کی قبر پہ 2 بار گیا وہاں سکون ملا ۔ ۔ ۔ ۔ 
کسی نے سچ کہا کہ حقیقت میں یتیم وہ ہوتا ہے جس کی ماں نہیں ہوتی

یا اللہ ۔ ۔ میری ماں کے ساتھ اسی طرح پیار محبت اور رحم والا معاملہ کر جس طرح میری ماں میرے ساتھ کیا کرتی تھی
آمین ثم آمین

Tuesday 24 January 2012

شاہ اسماعیل شہید اکابر اہل علم کی نظر میں


حجة الاسلام ،فخرالمحدثین حضرت مولانا شاہ محمد اسماعیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ21 ربیع الآخر 1193ھ (اپریل1797ء)کو اپنی ننھیال پھلت ضلع مظفر نگر میں پیدا ہوئے۔آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی محترمہ فاطمہ بتایا گیا ہے۔ وہ مولوی علاﺅ الدین پھلتی کی صاحبزادی تھیں اور آپ کے والد مولانا شاہ عبدالغنی صاحب حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے دوسری بیوی سے سب سے چھوٹے بیٹے اورشاہ عبدالعزیز،شاہ رفیع الدین اورشاہ عبدالقادررحمہم اللہ کے چھوٹے بھائی تھے۔
شاہ اسماعیل شہیدصاحب ایک جید عالم ،دینی مفکر،قاطع بدعت،بلند پایہ مبلغ اور عظیم مجاہد تھے ۔ وہ غیر معمولی علمی وسعت کے مالک ،ذہین وفریس ،دین سے انتہائی محبت رکھنے والے اور متقی وپرہیز گار تھے۔ اسلام کی تبلیغ کے لیے حیرت انگیز شجاعت،قلبی واخلاقی بلندی اور بے پناہ بصیرت کے مالک تھے۔آپ کے ان اعلیٰ اخلاق واوصاف اوربلندپایہ صفات وکمالات کاخودآپ کے یگانہ روزگارچچااورخاتم المحدثین شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی اوردیگراکابراہل علم اورتذکرہ نگاروں نے بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیاہے۔ذیل کی چندعبارات سے اس حقیقت کابخوبی اندازہ ہوسکتاہے۔

شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی کاارشاد:


حضرت شاہ اسماعیل جب اپنے بعض رفقاءکے ساتھ وعظ ونصیحت کے لیے لکھنو ¿ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے ان کی بعض باتوں کواجنبی سمجھا اس پرا یک بزرگ مولوی خیر الدین صاحب نے جناب شاہ عبدالعزیز صاحب کے حضور ایک فتویٰ بھیجا جس کے آخر میں اصلی مقصد بھی تحریر کیا کہ مولانا اسماعیل وغیرہ جس سفر پر نکلے ہیں کیا انہوں نے یہ سفر آپ کی اجازت سے شروع کیا ہے یا اپنے ارادے سے نیز حج کی فرضیت سے متعلق جوموقف انہوں نے پیش کیاہے آپ اس سے متفق ہیں یانہیں؟اس کے جواب میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے یہ الفاظ لکھے:
”دوسرے جواب کا مضمون تاج المفسرین، فخر المحدثین ،سرآمد علمائے محققین، مولوی عبدالحئ صاحب ومولوی اسماعیل صاحب کا لکھا ہوا ہے اور احادیثِ قویہ اور اصول و فقہ کی معتبر کتابوں کے موافق ہے چنانچہ ان کی مہر اور دستخط کے مقابل میں نے بھی اپنی مہر تصدیق ثبت کردی ہے ملاحظہ فرمالیں تاکہ اطمینان کلی ہو جائے۔
ایسی صورت میں کہ عزیزانِ موصوف کی مہر اور دستخط موجود تھے اِس استفتاءکے میرے پاس بھیجنے کی ضرورت نہ تھی اس لئے کہ یہ دونوں علم تفسیر وحدیث وفقہ واصول و منطق میں مجھ سے کم نہیں ،ان کی مہر اور دستخط گویا میری مہر اور دستخط ہیں ،اللہ تبارک وتعالیٰ کی جو عنایت اِن دونوں عزیز فاضلوں کے شاملِ حال ہے ،اس نعمتِ عظمیٰ کا شکر مجھ سے ادا نہیں ہو سکتا، حق تعالیٰ ان کو اس سے بھی بلند مراتب پر فائز فرمائے، ان لوگوں کے حق میں جو اصل شریعت کے واضح کرنے والے ہیں تمام مومنین کا حق تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنا خود ان کے لئے نجات اخروی کا باعث ہے۔ میرے دوست! مولوی عبدالحی اور مولوی اسمعیل کو علمائے ربانی میں شمار کرنا چاہئے،میرے کرم فرما! اگرچہ ان کلمات سے بظاہر اپنی تعریف نکلتی ہے لیکن امرِ حق کا اظہار واقفوں پر واجب ولازم ہے لہٰذا حق کے معاملے میں چشم پوشی مناسب معلوم نہ ہوئی ،دونوں استفتا ءخط کے ساتھ پہنچیں گے ان کے رسید سے مطلع فرمایا جائے اس وقت ضعف کی وجہ سے اتنے ہی پراکتفا کی گئی اور دونوں کے مجمل کلام کی موجودگی میں میری تفصیل کی چنداں ضرورت بھی نہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے معاش ومعاد میں برکت عطا فرمائے“۔
(تاریخ دعوت وعزیمت)

اس کے علاوہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے یہ الفاظ بھی شاہ اسماعیل شہید کی وسعتِ علم اور فراوانی معلومات پر دلالت کناں ہیں،حضرت شاہ عبدالعزیز آپ کی اورحضرت شاہ محمداسحاق کی مساعی ¿ جمیلہ سے خوش ہو کر اللہ کے حضور ہاتھ اٹھاتے اور فرماتے:
”الحمدللّٰہ الذی وہب لی علی الکبر اسمعیل واسحق“(تاریخ دعوت وعزیمت)
مولوی رحمان علی مولف تذکرہ علمائے ہند:
مولوی رحمان علی صاحب جن کی کتاب تذکرہ علمائے ہند،اہل علم کے حالات وواقعات کاایک معروف اوروقیع مجموعہ ہے ،اس میں انہوں نے حضرت شاہ اسماعیل شیہد کی علمی بلندی کے متعلق درج ذیل الفاظ لکھے ہیں:
”ابن مولوی عبدالغنی ،بن مولانا شاہ ولی اللہ درریاضت ورسائی فکر یگانہ روزگار ومشارالیہ علمائے کباربود“
یعنی شاہ عبدالغنی کے یہ فرزند اور شاہ ولی اللہ کے پوتے دیانت اور فہم وفکر میں یگانہ روزگار تھے، حلقہ علمائے کبار میں مشار الیہ تھے۔
نواب صدیق حسن خان مرحوم:
نواب صدیق حسن خان مولانا اسماعیل شہید کی عظیم شخصیت کا اِن الفاظ میں اعتراف کرتے ہیں:
”درعلوم معقول ومنقول یاد پیشینیاں از خاطر می برد۔درعلم فروع واصول ائمہ آں را دور ترمی نشاند درہر علم کہ با او سخن رانی،دانی کہ وے امامِ ایں فن است ودر ہر فن کہ باوے مناظرہ کنی شناسی کہ وے حافظ ایں علم است۔ اصول فقہ برنوک زبان داشت وعلم حساب درانگشتاں ،قرآن وحدیث خودمحفوظ سینہ ¿ اوبودوفقہ ومنقول مشق دیرینہ....تمام عمر خود رادر اعلائے کلمة اللہ واحیاءسنن رسول اللہ وجہاد فی سبیل اللہ وہدایت خلق اللہ گزرا نیدودمے باآرام درجائے ازبلاد اسلام نیا سود“۔
ترجمہ:علوم معقول ومنقول میں پہلوں کی یاد بھلا دیتے تھے۔ فروغ واصول میں ائمہ کو پرے بٹھا دیتے تھے ۔ جس علم میں ان سے بات کرو گے جان لو گے کہ وہ اس فن کے امام ہیں اور جس فن میں ان سے مناظرہ کی نوبت آئے گی پہچان لو گے کہ وہ اس کے حافظ ہیں۔اصول فقہ نوک زبان تھااورقواعد حساب کوچٹکیوں میں حل کردیتے تھے علوم قرآن وحدیث ان کے سینے میں محفوظ تھے اورفقہ ومنقول میں انہیں پوری مشق حاصل تھی .... ساری عمر خدا کے کلمے کی بلندی رسول اللہ ﷺکی سنتوں کے احیاء، خدا کی راہ میں جہاد اور خلق خدا کی ہدایت میں گزار دی، کسی مقام پر ایک لمحے کے لیے بھی آرام نہ فرمایا“

شاعراسلام علامہ اقبال کافرمان:




شاہ محمد اسماعیل کے بعد ہندوستان میں ان کے مرتبے کا کوئی شخص پیدا نہیں ہوا۔ علامہ اقبال مرحوم کا فرمان ہے:
”ہندوستان نے ایک مولوی پیدا کیا اور وہ مولوی شاہ محمد اسمعیل کی ذات تھی“
(Abdullah Butt,Aspects of Shah Ismail Shadeed.)
مولوی عبدالقادررام پوری کااعتراف:
شاہ صاحب کی عظیم المرتبت شخصیت بے شمار اوصاف کی حامل تھی ۔ آپ اعلیٰ مرتبے کے فقیہ ،بہترین مقرر اور عمدہ عادات کے مالک تھے۔ ان کے متعلق علم وعمل میں مولوی عبدالقادر رام پوری نے یوں نقل کیا ہے:
”دادا اور چچاﺅں کی یاد گار مولوی محمد اسماعیل ہیں جو ذہن کی جودت اور قوت توجیہ میں بے مثل ہیں۔ خدااِن کا نگہبان رہے“۔(وقائع عبدالقادر خانی ،علم وعمل )

مولانافضل حق خیرآبادی کا خراج تحسین:



مولانا فضل حق خیر آبادی اختلاف افکار کے باوجود شاہ اسمعیل کے علم وخلوص اور بلندی اخلاق کے انتہائی قائل تھے ۔”امیر الروایات“ میں ہے:
”مولوی عبدالرشید صاحب غازی پوری ،رام پور میں مولوی فضل حق سے پڑھتے تھے۔ یہ( عبدالرشید) ایک مرتبہ کہیں جا رہے تھے اتفاق سے ان کے ایک دوست مل گئے ۔ ان دوست نے ان سے کہا کہ چلو مولوی فضل حق صاحب کے یہاں چلیں تم ان (مولانا اسمعیل صاحب) کے معتقد ہو۔ آج تمہیں تمہارے استاد سے ان پر تبرے سنوائیں گے۔ انہوں نے کہا چلو۔ یہ دونوں وہاں جا کر بیٹھے تو مولوی عبدالرشید صاحب نے کہا حضرت !یہ مجھے یہ کہہ کر لائے ہیں کہ مولوی صاحب سے تمہیں مولوی اسمعیل پر تبرّے سنواﺅں گا ۔ مولوی فضل حق صاحب نے کہا”اچھا!اس غرض سے لائے ہیں،یہ کہہ کر ان پر بہت ناخوش ہوئے اور فرمایا :میں اور مولوی اسمعیل پر تبرّا کروں؟یہ نہیں ہو سکتا اور یہ کہہ کر ان کو اپنی مجلس سے اٹھو ا دیا اور فرمایا کہ میرے یہاں کبھی نہ آنا“۔(امیر الروایات ،ص ۶۲۱)
اسی طرح جب شاہ اسماعیل شہیدکی شہادت کی خبرہندوستان پہنچی تواس وقت مولانافضل حق صاحب نے ان کی عظمت وبلندی اورعلم وعمل کے متعلق جو الفاظ فرمائے وہ بھی اعتراف عظمت اوراظہارحقیقت کااعلی نمونہ ہیں۔فضل حسین بہاری تحریرفرماتے ہیں:
مولانا فضل حق خیر آبادی علم منطق میں اتنی مہارت رکھتے تھے کہ افلاطون اورسقراط وبقراط کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ۔ وہ مولوی شہید کے معاصر اور بعض مسائل کی تعبیر میں ان کے مخالف تھے۔ جب دہلی میں ان کی بالاکوٹ میں شہادت کی خبر ان کے پاس پہنچی تو طلباءکو درس دے رہے تھے اور مولوی غلام یحییٰ ان سے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے شاہ صاحب کی شہادت کی خبر سنتے ہی انہوں نے کتاب بند کردی ۔ سناٹے میں آگئے اور دیر تک خاموش بیٹھے روتے رہے ۔ اس کے بعد ان کے یہ تاریخی الفاظ ہمیشہ کے لیے لوح قرطاس پر نقش ہو گئے:
”اسمعیل کو ہم مولوی نہیں جانتے تھے بلکہ وہ امت محمدیہ کا حکیم تھا۔کوئی شے نہ تھی جس کی اِنِّیّت اور لِمِّیّت اس کے ذہن میں نہ ہو ۔امام رازی نے اگر علم حاصل کیا تو دودچراغ کھا کر اور اسماعیل نے محض اپنی قابلیت اور استعداد خداداد سے“(الحیاة بعد المماة )

حضرت شاہ عبدالغنی محدث دہلوی رحمہ اللہ:



حضرت شاہ عبدالغنی محدث دہلوی کا نام نامی کس صاحب علم سے مخفی ہوگا؟خاندان مجددیہ کے چشم و چراغ ، شاہ ابو سعید مجددی کے صاحبزادے اور خاندان شاہ ولی اللہ کے علمی وارث ہیں ۔ علماء دیوبند کا سلسلہ علمی انہی کے واسطے سے شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی سے جڑتا ہے ۔ انہوں نے حضرت شاہ غلام علی مجددی دہلوی کے حالات میں ایک مختصر رسالہ تحریر کیا ہے اور چوں کہ آپ کے والد حضرت شاہ ابوسعید مجددی ان کے ممتاز ترین خلیفہ تھے اس لئے ان کے خلفاء کے تذکرے میں ان کا تذکرہ کیا ہے ۔ اس تذکرے میں اپنے دادا حضرت شاہ صفی القدر مجددی کے بارے میں لکھتے ہیں:
ان (حضرت شاہ صفی القدر( کی وفات دو شنبہ 29 شعبان 1236 ھجری کو بلدہ لکھنو میں ہوئی ان کی تاریخ وفات ’’فاز رضوان المودود‘‘ ہے ۔ سیداحمد صاحب اور مولوی اسماعیل شہید اور دوسرے عزیزوں نے خود ان کی تجہیز و تکفین کی۔(مقامات مظہری ، ص543(
اس پورے اقتباس سے ان حضرات کے حضرت سیداحمدشہید اور شاہ اسماعیل شہید کے تعلقات کی جو قربت اور اپنائیت واضح ہورہی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہو سکتی ۔

آخر میں بارگاہ الہی سے یہ التجاء ہے کہ:
احب الصالحین و لست منہم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا

گلستان دیوبند کے چند پھولوں کی خوشبو

گلستان دیوبند کے چند پھولوں کی خوشبو

الله رب العزت کے دربار اقدس میں عزت ومرتبہ دلانے والی صفت، صفت عبدیت ہے، جو خاصہ ہے تو اضع کا اور اسی دربار میں ذلیل ورسوا کرنے والی چیز تکبر ہے، اسی خصلت رذیلہ کی وجہ سے ابلیس لعین راندہٴ درگاہ ہوا اور ہمیشہ کے لیے لعنت خداوندی کا مستحق ٹھہرا، اعاذنا الله منہ․

اگر اخلاص، تواضع او رعبدیت کے کمالات حسنہ سے اپنے کو مزین کر لیا جائے تو پھر ایسے شخص کے لیے اطاعت خداوندی اور تقرب عندالله کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں، اس کی تھوڑی سی خدمت بھی حق تعالیٰ شانہ کے یہاں بہت زیادہ وزنی او رمقبول ہوتی ہے اور دنیا میں بھی اس کے دور رس اور گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

افضل البشر، خدائے بزرگ وبرتر کے بعد سب سے بزرگ ہستی، خاتم الرسل، حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں : 

آپ صلی الله علیہ وسلم زمین پر بیٹھ جاتے، بکری کا دودھ دوہ لیتے اور غلام کی دعوت بھی قبول فرمالیتے او رارشاد فرماتے: اگر مجھے ایک دست گوشت کی طرف دعوت دی جائے تو اسے بھی قبول کر لوں گا او راگر بکری کا ایک پایہ ہدیہ کیا جائے تو وہ بھی قبول کر لوں گا۔“ (شرح السنة للبغوی)

ایک مرتبہ کسی سفر میں چند صحابہ نے ایک بکری ذبح کرنے کا ارادہ فرمایا او راس کا کام تقسیم فرمایا، ایک نے اپنے ذمہ ذبح کرنا لیا ، دوسرے نے کھال نکالنا، کسی نے پکانا، حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ پکانے کے لیے لکڑی اکٹھی کرنا میرے ذمہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا ،یا رسول الله! یہ کام ہم خود کر لیں گے ، حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو میں بھی سمجھتا ہوں کہ تم لوگ اس کو بہ خوشی کر لو گے، لیکن مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میں مجمع میں ممتاز رہوں اور الله جل شانہ بھی اس کو پسند نہیں فرماتے۔ (الرحیق المختوم)

حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے سوال کیا گیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم گھر میں کیا کرتے تھے ؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا ”رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی انسانوں میں ایک انسان تھے، اپنے کپڑے میں خود جوں تلاش کر لیتے ( کہ کسی کے کپڑوں سے نہ آگئی ہو ) بکری کا دودھ دوہ لیتے تھے ، اپنا کپڑا سی لیتے اپنا کام خود کرتے ، اپنا جوتا گانٹھ لیتے اور وہ تمام کام سر انجام دیتے جو مرد اپنے گھروں میں انجام دیتے ہیں او رگھر والوں کی خدمت کرتے ، جب مؤذن کی آواز سنتے تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔“ ( سنن الترمذی)

یہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کی ایک ادنی سی جھلک ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کی ایک ایک ادا سے تواضع، عاجزی اور عبدیت کا ظہور ہوتا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ مبارک ادائیں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہوئی ساڑھے تیرہ سو سال کے بعددیوبند کے فرزندوں میں پوری طرح روشن چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح دمکتی ہوئی نظر آتی ہیں،

سنت نبوی صلی الله علیہ وسلم کا پورے کا پورا نمونہ ان قدسی صفات سے منور نفوس میں پوری طرح نظر آتا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کی ہر خصلت کو ان حضرات نے سینے سے لگایا اور ثابت کر دکھایا کہ عاشق رسول کون ہے اور گستاخ رسول کون ہے۔

دیوبند کے پروانوں میں سے جس پر بھی انگلی رکھ دی جائے وہی بے مثال نظر آتا ہے ، جب حضرت العلام مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیری  کی وفات ہوئی تو لاہور میں ان کی یاد میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیا، جس میں خطاب کرتے ہوئے شاعر مشرق نے کیا خوب کہا #

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
پھر کہا کہ اسلام کی آخری پانچ سو سالہ تاریخ علامہ انور شاہ کشمیری کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، ایسا بلندپایہ عالم او رفاضل جلیل اب پیدا نہ ہو گا۔

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شاعر مشرق کی اس بات کا مصداق صرف حضرت کشمیری ہی نہ تھے، بلکہ حضرت کے اساتذہ ، تلامذہ، ہم عصر سب ہی دُریکتا تھے۔

ذیل میں گلستان دیوبند کے چند پھولوں کی تھوڑی تھوڑی خوش بو بطور نمونہ پیش کی جائے گی، ضرورت ہے کہ ان حضرات کی سوانح کا مستقل مطالعہ کرتے ہوئے اپنے لیے راہ عمل کو منتخب کیا جائے کہ ان نفوس قدسیہ کی قوت عمل سامنے ہونے کے بعد ہمارے لیے راہ عمل سے فرار ممکن نہیں رہ جاتا۔

حضرت مولانا مملوک علی صاحب نانوتوی رحمہ الله

حضرت اقدس، مولانا محمدیعقوب نانوتوی کے والد ماجد اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی وحضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہم الله کے استاذ تھے، بڑے ہی منکسر مزاج، صاحب مروت، خوش اخلاق، متقی، عبادت گزار اور سادہ طبیعت انسان تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نفسانیت ان کے قریب بھی نہیں پھٹکی، ان کا ایک واقعہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ الله نے ”قصص الاکابر“ میں لکھا ہے کہ ” مولانا مملوک علی ہمیشہ دہلی آتے اورجاتے، جب کاندھلہ سے گزرتے تو باہر سڑک پر گاڑی چھوڑ کر ملنے آتے، مولانا مظفر حسین صاحب اول یہ پوچھتے کہ کھانا کھا چکے یا کھاؤ گے؟ اگر کہتے ”کھا چکا“ تو پھر کچھ نہیں او راگر نہ کھائے ہوئے ہوتے تو کہہ دیتے کہ میں کھاؤں گا ۔تو مولانا پوچھتے کہ رکھا ہوا لا دوں یاتازہ پکوا دوں؟ چناں چہ ایک مرتبہ یہ فرمایا کہ رکھا ہوا لادو اس وقت صرف کھچڑی کی کھرچن تھی اسی کو لے آئے اور فرمایا کہ رکھی ہوئی تو یہی تھی انہوں نے کہا بس! یہی کافی ہے۔ پھر جب رخصت ہوتے تو مولانا مظفر حسین صاحب ان کو گاڑی تک پہنچانے جاتے تھے، یہی ہمیشہ کا معمول تھا۔“ ( سیرت یعقوب ومملوک ص:35,34)

سبحان الله! سادگی، بے تکلفی، حسن معاشرت کی کیسی جیتی جاگتی تصویر ہے، مولانا مظفر حسین کاندھلوی کا خلوص اور بغیر کسی تصنع کے کھرچن کا پیش کرنا او رمولانا مملوک علی صاحب کا اسے بغیر کسی ناگواری کے بے حد خندہ پیشانی سے قبول کرنا، کتنی بہترین زندگی کی طرف راہ دکھاتا ہے، جس میں سکون ہی سکون ہے۔

حضرت مولانا مظفر حسین صاحب کاندھلوی رحمہ الله

آپ حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب رحمہ الله کے شاگرد اورحضرت شاہ عبدالغنی صاحب محدث دہلوی رحمہ الله کے ہم سبق تھے۔

”آپ ایک مرتبہ تشریف لے جارہے تھے کہ راستہ میں ایک بوڑھا ملا، جو بوجھ لیے جارہا تھا، بوجھ زیادہ تھا او روہ بمشکل چل رہا تھا، حضرت مولانا مظفر حسین صاحب نے یہ حال دیکھا تو اس سے وہ بوجھ لے لیا اور جہاں وہ لے جانا چاہتا تھا وہاں پہنچا دیا ، اس بوڑھے نے اس سے پوچھا، اجی ! تم کہاں رہتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ بھائی میں کاندھلہ میں رہتا ہوں ، اس نے کہا ” وہاں مولوی مظفر حسین بڑے ولی ہیں“ اور یہ کہہ کر ان کی بڑی تعریفین کیں، مگر مولانا نے فرمایا”[COLOR="rgb(160, 82, 45)"] اور تو اس میں کوئی بات نہیں ہے ، ہاں! نماز تو پڑھ لیتا ہے[/COLOR] “ اس نے کہا واہ میاں ! تم ایسے بزرگ کو ایسا کہو؟ مولانا نے فرمایا میں ٹھیک کہتا ہوں، وہ بوڑھا ان کے سر ہو گیا، اتنے میں ایک اور شخص آیا، جو مولانا کو جانتا تھا، اس نے بوڑھے سے کہا، بھلے مانس ! مولوی مظفر حسین یہی ہیں، اس پر وہ بوڑھا مولانا سے لپٹ کر رونے لگا۔“ (اکابر دیوبند کیا تھے؟ :100 ارواح ثلاثہ:14

حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ الله


آپ بہت خوش مزاج او رعمدہ اخلاق تھے، مزاج تنہائی پسند تھا، اکثر خاموش رہتے، اس لیے ہر کسی کو کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوتا تھا، تعظیم سے نہایت گھبراتے تھے، بے تکلف ہر کسی کے ساتھ رہتے، اپنے کو مولوی کہلانے سے خوش نہیں ہوتے تھے، کوئی نام لے کر پکارتا تو خوش ہوتے۔( بیس بڑے مسلمان:117)

ایک بار حضرت نانوتوی جارہے تھے، ایک جولا ہے نے بوجہ سادگی کے، اپنا ہم قوم سمجھ کر آپ سے پوچھا” صوفی جی! آج کل سوت کا کیا بھاؤ ہے؟“ حضرت نے ذرا بھی ناگواری کا اظہار کیے بغیر فرمایاکہ ”بھائی! آج بازار جانا نہیں ہوا، اس لیے معلوم نہیں کہ کیا بھاؤ ہے۔“ (اصلاحی مضامین:52)

مولوی امیر الدین صاحب نے فرمایا کہ ایک مرتبہ بھوپال سے مولانا کی طلبی آئی اور پانچ سو روپیہ ماہوار تنخواہ مقرر کی ، میں نے کہا ” اے قاسم! تو کیوں نہیں جاتا“؟ تو فرمایا کہ ” وہ مجھے صاحب کمال سمجھ کر بلاتے ہیں او راسی بنا پر وہ پانچ سو روپے دیتے ہیں، مگر اپنے اندر میں کوئی کمال نہیں پاتا، پھر کس بنا پر جاؤں؟“ میں نے بہت اصرار کیا مگر نہیں مانے۔ ( اصلاحی مضامین:159)

حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی 

حضرت کا ایک واقعہ ہے
کہ ایک صاحب نے آپ کو کھانے کی دعوت دی، آپ نے قبول فرمالی، اس شخص کا گاؤں فاصلے پر تھا، لیکن اس نے سواری کا کوئی انتظام نہیں کیا، جب کھانے کا وقت آیا تو آپ پیدل ہی روانہ ہو گئے،
دل میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ ان صاحب نے سواری کا کوئی انتظام نہیں کیا، سواری کا انتظام کرنا چاہیے تھا،
بہرحال اس کے گھر پہنچے، کھانا کھایا، کچھ آم بھی کھائے، اس کے بعد جب واپس چلنے لگے تو اس وقت بھی اس نے سواری کا کوئی انتظام نہیں کیا، بلکہ الٹا یہ غضب کیا کہ بہت سارے آموں کی گٹھڑی بنا کر حضرت کے حوالے کر دی کہ حضرت! یہ کچھ آ م گھر کے لیے لیتے جائیں۔ اس الله کے بندے نے یہ نہ سوچا کہ اتنی دور جانا ہے اور سواری کا کوئی انتظام بھی نہیں ہے، کیسے اتنی بڑی گٹھڑی لے کر جائیں گے؟ مگر اس نے وہ گٹھڑی مولانا کو دے دی اور مولانا نے وہ قبول کر لی اور اٹھا کر چل دیے۔ اب ساری عمر مولانا نے کبھی اتنا بوجھ اٹھایا نہیں، شہزادوں جیسی زندگی گزاری، اب اس گٹھڑی کو کبھی ایک ہاتھ میں اٹھاتے، کبھی دوسرے ہاتھ میں اٹھاتے ، چلے جارہے ہیں ، یہاں تک کہ جب دیوبند قریب آنے لگا تو دونوں ہاتھ تھک کر چور ہو گئے، نہ اس ہاتھ میں چین، نہ اس ہاتھ میں چین، آخر کار اس گٹھڑی کو اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لیا، جب سر پرر کھا تو ہاتھوں کو کچھ آرام ملا تو فرمانے لگے، ہم بھی عجیب آدمی ہیں، پہلے خیال نہیں آیا کہ اس گٹھڑی کو سر پر رکھ دیں، ورنہ اتنی تکلیف نہ اٹھانی پڑتی۔ او راب مولانا اس حالت میں دیوبند میں داخل ہو رہے ہیں کہ سر پر آموں کی گٹھڑی ہے اب راستے میں جو لوگ ملتے وہ آپ کو سلام کر رہے ہیں، آپ سے مصافحہ کر رہے ہیں، آپ نے ایک ہاتھ سے گٹھڑی سنبھال لی اور دوسرے ہاتھ سے مصافحہ کرتے رہے ، اسی حالت میں آپ اپنے گھر پہنچ گئے اور آپ کو ذرا برابر بھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ کام میرے مرتبے کے خلاف ہے اور میرے مرتبے سے فروتر ہے، بہرحال! انسان کسی بھی کام کو اپنے مرتبے سے فروتر نہ سمجھے، یہ ہے تواضع کی علامت۔ (اصلاحی خطبات:43/3)

حضرت حاجی امداد الله مہاجر مکی رحمہ الله

حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله نے ارشاد فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت حاجی صاحب رحمہ الله کے پاس ایک شخص آئے اور عرض کیا ایسا وظیفہ بتلا دیجیے کہ خواب میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہو جائے، حضرت نے فرمایا کہ آپ کا بڑا حوصلہ ہے! ہم تو اس قابل بھی نہیں کہ روضہ مبارک کے گنبد شریف ہی کی زیارت نصیب ہو جائے۔

الله اکبر! کس قدر شکستگی وتواضع کا غلبہ تھا، اس پر حضرت والا (تھانوی صاحب رحمہ الله) نے فرمایا کہ یہ سن کر ہماری آنکھیں کھل گئیں، حضرت کی عجیب شان تھی، اس فن کے امام تھے ہر بات میں شانِ محققیت وحکمت ٹپکتی تھی، یہی وجہ ہے کہ حضرت کے خادموں میں سے کوئی محروم نہیں رہا، ہر شخص کی اصلاح وتربیت اس کی حالت کے مطابق فرماتے تھے۔ (ملفوظات حکیم الامت:92/1)

ایک سلسلہ گفت گو میں ( حضرت تھانوی رحمہ الله) نے فرمایا کہ مولانا محمد حسین صاحب الہ آبادی سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ نے حاجی صاحب رحمة الله علیہ میں کیا دیکھا کہ جس کی وجہ سے خادمانہ تعلق رکھ لیا؟ فرمایا اسی وجہ سے تو تعلق قائم کیا کہ وہاں کچھ نہیں دیکھا، مطلب یہ تھا کہ کوئی تصنع کی بات نہیں دیکھی تھی، خوب ہی جواب دیا، واقعی بات تو یہ ہے کہ اپنے بزرگوں میں ایسی باتوں کا نام ونشان نہ تھا، بہت سادہ وضع اور متبع سنت تھے، دوسروں کی کسی قسم کا ڈھونگ نہ تھا، پس یہی طرز قابل پسند ہے۔ ( ملفوظات حکیم الامت:336/2)

امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں:”حضرت گنگوہی نورا لله مرقدہ کے متعلق مولانا عاشق الہی صاحب لکھتے ہیں کہ سچی تواضع او رانکسار نفس جتنا امام ربانی میں دیکھا گیا دوسری جگہ کم نظر سے گزرے گا، حقیقت میں آپ اپنے آپ کو سب سے کم تر سمجھتے تھے، بحیثیت تبلیغ جو خدمات عالیہ آپ کے سپرد کی گئیں تھیں یعنی ہدایت وراہ بری، اس کو آپ انجام دیتے، بیعت فرماتے، ذکر وشغل بتلاتے، نفس کے مفاسد وقبائح بیان فرماتے او رمعالجہ فرماتے تھے،مگر بایں ہمہ اس کا کبھی وسوسہ بھی آپ کے قلب پر نہ گذرتا تھا کہ میں عالم ہوں او ریہ جاہل، میں پیر ہوں اور یہمرید، میں مطلوب ہوں اور یہ طالب، مجھے ان پر فوقیت ہے ، میرا درجہ ان کے اوپر ہے ، کبھی کسی نے نہ سنا ہو گا کہ آپ نے اپنے خدام کو خادم یا مستوسل یا منتسب کے نام سے یاد فرمایا ہو، ہمیشہ اپنے لوگوں سے تعبیر فرماتے اور دعا میں یاد رکھنے کی اپنے لیے طالبین سے بھی زیادہ ظاہر فرماتے تھے 

، ایک مرتبہ تین شخص بیعت کے لیے حاضر آستانہ ہوئے، آپ نے ان کو بیعت فرمایا اور یوں ارشاد فرمایا کہ :” تم میرے لیے دعا کرو، میں تمہارے لیے دعا کروں گا، اس لیے کہ بعض مرید بھی پیر کو تیرا لیتے ہیں۔“۔ ( آپ بیتی:241/2، بحوالہ تذکرہ الرشید:2/174)

بریلی کے مولوی احمد رضا خان صاحب نے اکابر دیوبند کی تکفیر اور ان پرسب وشتم کا جو طریقہ اختیار کیا تھا وہ ہر پڑھے لکھے انسان کو معلوم ہے، ان فرشتہ صفت اکابر پر گالیوں کی بوچھاڑ کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، لیکن حضرت گنگوہی رحمہ الله نے جو اس دشنام طرازی کا سب سے بڑا نشانہ تھے، ایک روز اپنے شاگرد رشید حضرت مولانا محمدیحییٰ کاندھلوی صاحب سے فرمایا:” اجی! دور کی گالیوں کا کیا ہے ؟ پڑی ( یعنی بلا سے ) گالیاں ہوں، تم سناؤ، آخر اس کے دلائل تو دیکھیں، شاید کوئی معقول بات ہی لکھی ہو تو ہم ہی رجوع کریں۔“ (ارواح ثلاثہ:211)

الله اکبر! حق پرستوں کا شیوہ کہ مخالفین، بلکہ دشمنوں کی باتیں بھی ان کی دشنام طرازیوں سے قطع نظر، اس نیت سے سنی جائیں کہ اگر اس سے اپنی کوئی غلطی معلوم ہو تو اس سے رجوع کر لیا جائے۔ ( اکابر دیوبند کیا تھے؟114)

شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی صاحب 

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله لکھتے ہیں:
”میری عمر پندرہ سولہ سال کی ہو گی کہ دارالعلوم کی قدیم عمارت نودرہ کے عقب میں ایک عظیم الشان دارالحدیثتعمیر کرنے کی تجویز ہوئی ، اس کے لیے بڑی گہری بنیادیں نودرہ کی عمارت سے متصل کھودی گئیں، اتفاقِ وقت سے بڑی تیز بارش ہوئی او رکافی دیر تک رہی ، یہ زمین کچھ نشیب میں تھی ، بارش کے پانی سے ساری بنیادیں لبریز ہو گئیں، دارالعلوم کی قدیم عمارت کو خطرہ لاحق ہو گیا، فائز بریگیڈئیر انجنوں کا زمانہ نہیں تھا اور ہوتا بھی تو ایک قصبہ میں کہاں؟

حضرت شیخ الہند رحمہ الله کو اس صورت حال کی اطلاع ملی تو اپنے گھر میں جتنی بالٹیاں اور ایسے برتن تھے، جن سے پانی نکالا جاسکے، سب جمع کرکے حضرت کے مکان پر جو طالب علم او ردوسرے مریدین جمع رہتے تھے، ان کو ساتھ لے کر ان پانی سے بھری گہری بنیادوں پر پہنچے اور بدست خود بالٹی سے پانی نکال کر باہر پھینکنا شروع کیا، شیخ الہند رحمہ الله کے اس معاملہ کی خبر پورے دارالعلوم میں بجلی کی طرح پھیل گئی، پھر کیا پوچھنا، ہر مدرس اور ہر طالب علم اور ہر آنے جانے والا اپنے اپنے برتن لے کر اس جگہ پہنچ گیا اور بنیادوں کا پانی نکالنا شروع کیا، احقر بھی اپنی قوت وحیثیت کے مطابق اس میں شریک تھا، میں نے دیکھا کہ چند گھنٹوں میں یہ سارا پانی بنیادوں سے نکل کر کیچڑ رہ گیا تو اس کو بھی بالٹیوں سے صاف کیا گیا۔ اس کے بعد ایک قریبی تالاب پر تشریف لے گئے اور طلبہ سے کہا کہ اس میں غسل کریں گے ، حضرت رحمہ الله اول عمر سے سپاہیانہ زندگی رکھتے تھے، پانی میں تیراکی کی بڑی مشق تھی، حضرت کے ساتھ طلبہ بھی جو تیرنا جانتے تھے وہ درمیان میں پہنچ گئے، مجھ جیسے آدمی جو تیرنے والے نہ تھے کنارے پر کھڑے ہو کر نہانے لگے ، یہ واقعہ تو خود احقر نے دیکھا او ر سیرو شکار میں طلبہ کے ساتھ بے تکلف دوڑنا بھاگنا، تالابوں میں تیرنا یہ عام معمول زندگی تھا، جس کے بہت سے واقعات دوستوں اور بزرگوں سے سنے ہیں، دیکھنے والے یہ نہ پہچان سکتے تھے کہ ان میں کون استاد اور کون شاگرد؟ “( چند عظیم شخصیات:11)

مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمان صاحب رح
:

حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانی صاحب  تحریر فرماتے ہیں:
”حضرت مفتی صاحب منصب اور عہدہ کے لحاظ سے دارالعلوم دیوبند کے مفتی اکبر ( بعد کی اصطلاح میں صدر مفتی) تھے، تفسیر یا حدیث کا کوئی سبق بھی پڑھا دیتے تھے، اس کے ساتھ وہ نقش بندی مجددی طریقہ کے صاحب ارشاد شیخ بھی تھے، حضرت شاہ عبدالغنی مجددی رحمہ الله کے خلیفہ حضرت مولانا شاہ رفیع الدین  کی راہ نمائی اور تربیت میں راہ سلوک طے کی تھی اوران ہی کے مجاز تھے،
وہ دارالعلوم کے اس وقت کے اکابر واساتذہ میں سب سے بڑے، بلکہ سب کے بڑے تھے اور سب ہی ان کا بڑا احترام کرتے ہیں، حضرت مفتی صاحب میں جو کمال بہت ہی نمایاں تھا، جس کو ہم جیسے صرف ظاہری آنکھیں رکھنے والے بھی دیکھتے تھے، وہ ان کی انتہائی بے نفسی تھی، معلوم ہوتا تھا کہ الله کے اس بندہ کے اندر وہ چیز ہے ہی نہیں جس کا نام نفس ہے، یہ بات عام طور پر مشہور تھی کہ گھروں کے جو کام نوکروں اور نوکرانیوں کے کرنے کے ہوتے ہیں، حضرت مفتی صاحب عند الضرورت وہ سب کام ( جیسے گھر میں جھاڑو دینا، برتنوں کا دھونا، مانجھنا وغیرہ) یہ سب بے تکلف، بلکہ بشاشت اور خوشی کے ساتھ کر لیتے ہیں ، آس پاس کے غریب گھرانوں کے پیسے پیسے ، دو دو پیسے کا سودا بھی خرید کے بازار سے لادیتے ہیں، دوسروں کے پھٹے جوتے لے جاکر ان کی مرمت کرالیتے ہیں۔

راقم سطور شہادت دے سکتا ہے کہ بے نفسی کا ایسا کوئی دوسرا نمونہ اس عاجز نے نہیں دیکھا۔“( تحدیث نعمت:ص127)

امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری 

حضرت مولانا محمد یوسف بنوری فرماتے ہیں کہ طلاق کے ایک مسئلہ میں کشمیر کے علماء میں اختلاف ہو گیا، فریقین نے حضرت شاہ صاحب کو حَکَم بنایا، حضرت شاہ صاحب نے دونوں کے دلائل غور سے سنے، ان میں سے ایک فریق اپنے موقف پر ”فتاویٰ عمادیة“ کی ایک عبارت سے استدلال کر رہا تھا، حضرت شاہ صاحب نے فرمایا:” میں نے دارالعلوم کے کتب خانہ میں فتاوی عمادیہ کے ایک صحیح قلمی نسخے کا مطالعہ کیا ہے ، اس میں یہ عبارت ہر گز نہیں ہے ، لہٰذا یا توان کا نسخہ غلط ہے، یا یہ لوگ کوئی مغالطہ انگیزی کر رہے ہیں۔“

ایسے علم وفضل اور ایسے حافظے کا شخص اگر بلند بانگ دعوے کرنے لگے تو کسی درجہ میں اس کو حق پہنچ سکتا ہے ، لیکن حضرت شاہ صاحب اس قافلہٴ رشدوہدایت کے فرد تھے جس نے”من تواضع لله“ کی حدیث کا عملی پیکر بن کر دکھایا تھا، چنا ں چہ اسی واقعہ میں جب انہوں نے حضرت بنوری کو اپنا فیصلہ لکھنے کا حکم دیا تو انہوں نے حضرت شاہ صاحب الحبر البحر(عالم متبحر) کے دو تعظیمی لفظ لکھ دیے، حضرت شاہ صاحب نے دیکھا تو قلم ہاتھ سے لے کر زبردستی خود یہ الفاظ مٹائے اور غصہ کے لہجے میں مولانا بنوری سے فرمایا:

”آپ کو صرف مولانا محمد انور شاہ لکھنے کی اجازت ہے۔“

پھر ایسا شخص جو ہمہ وقت کتابوں ہی میں مستغرق رہتا ہو ، اس کا یہ جملہ ادب وتعظیم کتب کے کس مقام کی نشان دہی کرتا ہے کہ:

” میں مطالعہ میں کتاب کو اپنا تابع کبھی نہیں کرتا، بلکہ ہمیشہ خود کتاب کے تابع ہو کر مطالعہ کرتاہوں“۔

چناں چہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں کہ:
” سفر وحضر میں ہم لوگوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ لیٹ کر مطالعہ کر رہے ہوں یا کتاب پر کہنی ٹیک کر مطالعہ میں مشغول ہوں، بلکہ کتاب کو سامنے رکھ کر مؤدب انداز سے بیٹھتے ، گویا کسی شیخ کے آگے بیٹھے ہوئے استفادہ کر رہے ہوں۔“

اور یہ بھی فرمایا کہ:
” میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد اب تک دینیات کی کسی کتاب کا مطالعہ بے وضونہیں کیا۔“( اکابر دیوبند کیا تھے:97)

حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب 

مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں کہ : 

”حقیقت یہ ہے کہ علمائے دیوبند کا جو خاص امتیاز ہے وہ یہ تھا کہ اپنے آپ کو مٹانا، اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھتا، جب میں تھانہ بھون میں حاضر ہوا، حضرت رحمة الله علیہ کو الله تعالیٰ نے ایک شان جلال او رایک رعب اور وجاہت عطا فرمائی تھی، چہرہ مبارک بڑا وجیہ تھا، اگر وہ اپنی وجاہت کو چھپانا بھی چاہیں تو نہیں چھپا سکتے، لیکن ان سب باتوں کے باوجود طالب علموں اور دوسرے لوگوں میں ملے جلے رہتے تھے، ایک مرتبہ میں نے مغرب کے بعد آپ کو دیکھا کہ ایک صاحب کرتا اتار ے ہوئے، صرف پائجامہٴ پہنے ہوئے، حوض کے پاس چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں، میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا او رمجھے پتہ بھی نہیں کہ یہ حضرت والا لیٹے ہوئے ہیں او رپاس میں طلبہ بھی تھے، بعد میں پتہ چلا کہ حضرت والا لیٹے ہوئے ہیں۔

اس طرح ان حضرات کی خاص شان تھی، یہ چیز دنیا میں شاذونادر ہی ملتی ہے ،یہ خصوصی وصف الله تعالیٰ نے ان بزرگوں کو دیا تھا، افسوس! اب ہمیں پاس بزرگوں کی صحبت حاصل نہیں رہی، صرف مدارس اورکتابیں رہ گئی ہیں ، الله تعالیٰ ہمارے اندر بھی یہ وصف پیدا فرما دے، آمین۔“ ( مجالس مفتی اعظم:526)

حضرت تھانوی رحمہ الله کے معمولات میں یہ بات لکھی ہے کہ آپ نے یہ عام اعلان کر رکھا تھا کہ کوئی شخص میرے پیچھے نہ چلے، میرے ساتھ نہ چلے، جب میں تنہا کہیں جار ہاہوں تو مجھے تنہا جانے دیا کرو، حضرت فرماتے کہ یہمقتدا کی شان بنانا کہ جب آدمی چلے تو دو آدمی اس کے دائیں طرف اور دو آدمی اس کے بائیں طرف چلیں، میں اس کو بالکل پسند نہیں کرتا، جس طرح ایک عام انسان چلتا ہے ، اسی طرح چلنا چاہیے۔

ایک مرتبہ یہ اعلان فرمایا کہ اگر میں اپنے ہاتھ میں کوئی سامان اٹھا کر جارہا ہوں تو کوئی شخص آکر میرے ہاتھ سے سامان نہ لے ، مجھے اسی طرح جانے دے، تاکہ آدمی کی کوئی امتیازی شان نہ ہو اور جس طرح ایک عام آدمی رہتا ہے اس طریقے سے رہے۔ ( اصلاحی خطبات:32/5)

شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحب 

مولانا سید عطاء الله شاہ بخاری  سے روایت ہے کہ یوپی کی ایک جگہ میری تقریر تھی ، رات کو تین بجے تقریر سے فارغ ہو کر لیٹ گیا، نیند اور بیداری کے درمیان تھاکہ مجھ کو محسوس ہوا کہ کوئی میرے پاؤں دبا رہا ہے ، میں نے کہا کہ لوگ اس طرح دباتے رہتے ہیں، کوئی مخلص ہو گا۔ مگر اس کے ساتھ یہ معلوم ہورہا تھا کہ یہ مُٹھی تو عجیب قسم کی ہے باوجود راحت کے نیند رخصت ہوتی جارہی تھی، سر اٹھایا تو دیکھا کہ حضرت مدنی ہیں! فوراً پھڑک کر چار پائی سے اتر پڑا اور ندامت سے عرض کیا، حضرت! کیاہم نے اپنے لیے جہنم جانے کا خود سامان پہلے سے کم کر رکھا ہے کہ آپ بھی ہم کو دھکا دے کر جہنم بھیج رہے ہیں ؟! شیخ نے جواب دیا کہ آپ نے دیر تک تقریر کی تھی، آرام کی ضرورت تھی اور آپ کی عادت بھی تھی اور مجھ کو سعادت کی ضرورت۔ ساتھ ہی نماز کا وقت بھی قریب تھا میں نے خیال کیا کہ آپ کی نماز ہی نہ چلی جائے، تو بتائیے حضرت میں نے کیا غلط کیا ہے؟ ( بیس بڑے مسلمان:515)

مولانا عبدالله فاروقی حضرت رائے پوری رحمہ الله سے بیعت تھے، لاہور دہلی مسلم ہوٹل میں برسہا برس خطیب رہے ، ان کا بیان ہے کہ میں مدینہ منورہ حاضر ہوا اور مولانا مدنی رحمہ الله کے ہاں قیام کیا، ایک روز جب مولانا کے ساتھ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے گیا تو میں نے مولانا کا جوتا اٹھالیا، مولانا اس وقت تو خاموش رہے، دوسرے وقت جب ہم نماز پڑھنے کے لیے گئے، تو مولانا نے میرا جوتا اٹھاکر سر پر رکھ لیا، میں پیچھے بھاگا، مولانا نے تیز چلنا شروع کر دیا، میں نے کوشش کی کہ جوتالے لوں، نہیں لینے دیا، میں نے کہا کہ خدا کے لیے سر پر تونہ رکھیے، فرمایا! عہد کرو کر آئندہ حسین احمد کا جوتا نہ اٹھاؤ گے۔ میں نے عہد کر لیا، تب جوتا سر سے نیچے اتار کر رکھا۔ ( بیس بڑے مسلمان:516)

یہ چند شخصیات کا ادنیٰ سا او رمختصر سا نمونہ پیش کیا گیا ہے ورنہ اکابر علماء دیوبند کا چمنستان ایسا وسیع، خوش بو دار اور پھل دار ہے کہ پوری دنیا اس سے فیض حاصل کر رہی ہے اور کرتی رہے گی، یہ حضرات نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے علوم واعمال کو اپنے سینوں میں اتارنے والے، شب وروز میں انجام پانے والے ہر ہر عمل سے متعلق سنت نبوی صلی الله علیہ وسلم کو اپنانے والے اور ہر ہر فرد تک اسے پہنچانے والے تھے۔ اس گلستان کے ہر ہر پھول کی تاریخ پر کتب تک لکھی جاسکتی ہیں اور لکھی گئیں، ضرورت ہے کہ ان حضرات کی سوانح کو مستقل مطالعہ میں رکھ کر ان کی صفات قدسیہ کو اپنایا جائے۔

الله رب العزت ہم سب کو ان اکابرین کی صفات کو اپنانے کی اور ان کو پھیلانے کی 
توفیق عطا فرمائے۔