-scale=1.0,minimum-scale=1.0,maximum-scale=1.0" : "width=1100"' name='viewport'/> صدائے قلندر: ’’ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی ‘‘

Saturday 1 October 2011

’’ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی ‘‘

گاؤں کا چودھری مر گیا جنازے سے واپسی پر میراثی کے بیٹے نے پوچھا ’’ابا جی، اب کون چودھری بنے گا‘‘؟میراثی نے کہا ’’اب چودھری کا بیٹا یا چودھری کا بھائی چودھری بنے گا۔‘‘ میراثی کے بیٹے نے کہا ’’اگر وہ دونوں بھی مر جائیں تو پھر کون چودھری بنے گا‘‘؟ میراثی نے کہا ’’بیٹا سن اور غور سے سن، ابھی تو نادان ہے۔ اگر چودھریوں کا سارا خاندان اور تمام دور و نزدیک رشتے دار بھی مر جائیں تو تب بھی تجے یا تیرے باپ کو چودھری کوئی نہیں بنائے گا۔‘‘

ایک وقت تھا کہ صدیوں پر مشتمل بد رنگ حکمران جن کی حکومت میں سورج کو غروب ہونے کی اجازت نہ تھی، بد رنگ بدیسی ہمارے آقا تھے۔ ہمارے بڑوں نے اعلان کیا’’ بٹ کے رہے گا ہندوستان بن کے رہے گا پاکستان، پاکستان کا معنی کیا، لا الہ الا اللہ ۔۔۔ نعروں کی یہ گونج جب مالک الملک تک پہنچی تو اس نے مدد کا وعدہ کر لیا۔ ہمارے بڑوں نے لاکھوں جانوں اور لاکھوں کروڑوں کے مال جائیداد کی قربانیاں دیں۔۔۔ ’’پاکستان بن گیا‘‘۔۔۔ نہ جانے گورے بد رنگ آقا کو جاتے جاتے کیا سوجھی کہ نہایت چالاکی سے اپنی کالی روحانی اولاد کو ہمارے سروں پر سوار کر گیا۔ کھوٹے سکوں سے بانی پاکستان کی جیبیں بھر گیا۔ برطانوی بھگوڑوں کی امریکی اولاد کو ان کھوٹے سکوں نے رائج الوقت اصلی کرنسی بن کر اپنا نیا آقا تسلیم کر لیا۔۔۔

قرآن عظیم الشان نے ازلی ابدی اعلان میں کہہ دیا تھا ’’یہود اور نصاریٰ ہرگز تمہارے دوست نہیں بن سکتے، ہاں تم ہی ان کے سو فیصد غلاو بے دام اور پیروکار ہونے کا اعلان اور کردار پیش کرو تو اور بات ہے۔‘‘ ۱۹۵۰ء سے تا حال یہ نام نہاد آزاد قوم اپنے کالے انگریز آقاؤں کے سامنے ہاتھوں میں ہتھکڑیوں اور پاؤں میں بیڑیوں کے ساتھ پیش ہے،

بے وقار آزادی ہم غریب لوگوں کی

سر پہ تاج رکھا ہے بیڑیاں ہیں پاؤں میں

منت خوشامد کرتے ہیں، عزت جان، مال، اسلام کے بیٹے، بیٹیاں پیش کرتے ہیں، ناک سے لکیریں نکالتے ہیں مگر جان بخشی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ گورے بد رنگ آقاؤں کے نمائندہ کالے سنگدل آقا راضی ہی نہیں ہوتے۔ اور اگر کبھی اُن کی طرف سے دل خوش کن اعلان ہو بھی جائے تو وائسرائے فوراً اسلام آباد آ دھمکتے اور اپنے کالے نمائندوں کے کان کھینچ کر یا مرغا بنا کر نیا مسلم کش ٹارگٹ دے جاتے ہیں۔ کالے آقا فرماتے ہیں، بش مسلم کش (اور اس کا غلام پرویز مُش) چلے گئے۔ فکر مت کرو، اب حسین کا بیٹا اوبامہ پالیسی میں تبدیلی لا کر مسلم امت کو ریلیف دے گا۔ کروڑں الّو باٹے اس انتظار میں بغلیں بجاتے ہیں کہ ہاں کالے مسلمان، حسین کا بیٹااوباما گورے امریکہ کا حکمران بن سکتا ہے تو اپنے اعلان کے مطابق وہ امن پالیسی بھیلائے گا۔ وطنِ عزیز کے نادان بیٹے اس امید پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ واقعی اب حسین اوبامہ کے تخت شاہی پر براجمان ہونے پر زنجیر عدل کھینچنے سے پہلے ہی اللہ کی زمین پر عدل اور امن کی بہاریں ہوں گی اور ہم غلام پاکستانی اب جوڈیشل لاک اپ سے آزادی پا لیں گے۔

اوبامہ حسین مصر جیسے عظیم مسلم ملک میں کانفرنس سے خطاب کرتا اور قرآنی آیات کو اپنے خطاب کا تاج بناتا، اسلام کو امن کا مذہب تسلیم کرنے اور اہل اسلام کو امن دینے کا اعلان کرتا ہے مگر۔۔۔ مگر تخت نشینی سے اب تک سیکڑوں ڈرون طیارے حملوں کو تیز تر کرتا جاتا ہے۔ ہفتے دس دن بعد پاکستان کے لیے اپنے وائسرائے کو نگرانی کے لیے بھیجتا ہے۔ مشرقی سرحدوں سے پاکستانی افواج کو ہٹا کر ایف 16، ایف 17، مارٹر گولے، توپوں اور ٹینکوں سے مسلح زمینی اور آسمانی شاہی فوجوں کو افغان پاکستان سرحدی قبائلی اور پشتون پٹی پر ’’بزن‘‘ کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہی لوگ پولیو کے قطروں سے انکار اور جہاد پر اصرار کے مجرم ہیں۔ حکم اتنا سخت اور تاکیدی ہے کہ محترم سالار اعظم خود طیارے پر سوار ہو کر بمباری کی نگرانی کے لیے مالا کنڈ اور سوات تشریف لے جاتے ہیں۔ اصغر خان نے انگریز کمانڈر کے حکم پر بمباری کرنے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ نیچے آبادی میں عورتیں اور بچے بھی ہیں، اس کا عذر قبول کیا گیا تھا؟

صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عطیہ تلوار کو مقابل کافرعورت پر استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ عورت کا احترام اور عورت پر تلوار، تلوار دینے والے عظیم رسول کی توہین ہے۔۔۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر چند مسلمان مردوں، عورتوں کے مکہ مکرمہ میں موجودگی اور لڑائی میں اُن کو نقصان کو خطرہ تھا۔ اس وجہ سے عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے محبوب صحابہ رضی اللہ عنہم کو جہاد کی اجازت نہ ملی( سورۃ الفتح، القرآن) یہ کیسے مسلمان حکمران ہیں، جن کو سوات مالاکنڈ، شمالی، جنوبی وزیرستان، بلوچستان اور دیگر قبائلی و قانونی علاقوں میں نہ عورتیں نظر آتی ہیں، نہ بچے نظر آتے ہیں، نہ بے گناہ ضعیف عمر مسلمان نظر آتے ہیں۔ بس حکمرانوں کو وائسرائے کا حکم اور وڈیروں اور زرداروں کا حکم نظر آتا ہے۔یہ اللہ اور رسول کا حکم تو نظر انداز کر سکتے ہیں مگر امریکی وائسرائے کا حکم نظر انداز کرنے کی جرأت نہیں۔لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِق(مخلوق کی اطاعت میں خالق کی نافرمانی نہ کرو) اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے فراستِ مومن والے خلیفہ راشد ’’چھے اہم افراد‘‘ کو مشورہ کا پابند اور خلافت کا اہل قرار دے سکتے ہیں تو یہاں فرد واحد کا حکم کیوں چلتا ہے؟ پارلیمنٹ آخر کس مرض کی دوا ہے؟ کیا ہم اہل پاکستان اس میراثی کے بیٹے سے بھی زیادہ نا سمجھ بنے رہیں گے کہ چلو یہ حکمران چلا گیا تو حالات سنور جائیں گے۔ بش مسلم کش اور دشمن رسول پرویز مُش چلا گیا، اب ہمیں روٹی کپڑا اور مکان مل جائے گا؟ کیا ہمیں آسمانی اعلان پر غور کرنے کی توفیق نہیں ہو گی؟وَ لَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَ لَا النَّصاریٰ حَتّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ۔

یہود و نصاریٰ تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے حتیٰ کہ تم ان کے دین کی پیروی کرو۔(البقرہ، آیت:۱۲۰)

یہ قرآن ناشناسی، خدا فراموشی اور اللہ سے کیے گئے وعدے سے انحراف کی سزا ہے کہ

ابھی تک پاؤس سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی

دن آ جاتا ہے آزادی کا ، آزادی نہیں آتی

No comments:

Post a Comment