-scale=1.0,minimum-scale=1.0,maximum-scale=1.0" : "width=1100"' name='viewport'/> صدائے قلندر: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عملی تفسیر!

Monday 21 November 2011

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عملی تفسیر!

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جس دور میں قرآنی تفسیر کی خدمت کے لئے اٹھایا گیا تھا آپ کو معلوم ہے کہ وہ ”عملی دور“ تھا، اور حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اپنے وقت میں اس دور کے امام تھے۔ اس لئے تلاش کرنے والوں کو ان کی عملی زندگی میں ڈوب کر ”تفسیری سرمایہ“ تلاش کرنا چاہئے، اس نقطہٴ نظر سے اگر غور کیا جائے گا تو یہ واقعہ کھل کر سامنے آئے گا کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے سیکڑوں آیات قرآنیہ کی عملی تشریح فرمائی، اور بے شمار اشکالات کو اپنے ”طرز عمل“ سے حل فرمایا۔ وصال نبوی کے موقع پر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی بے خودی اور بے چینی، سیرت کا معروف واقعہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے قوی عزم حضرات ” از خود رفتہ“ ہوکر اعلان کررہے تھے کہ جو شخص کہے گا کہ آنحضرت ا کا وصال ہوگیا ہے، اس کی گردن اڑا دوں گا۔
اس موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آیت:
” وَ مَا مُحَمَّدٌ إلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الْرُّسُل، أفَإن مَّاتَ أوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی أعْقَابِکُمْ“
کی منبر نبوی پر تلاوت فرمائی اور اس کی تشریح فرماتے ہوئے اعلان فرمایا:
”الا من کان یعبد محمدا ا فإن محمدا ا قد مات۔ ومن کان یعبد اللہ فإن اللہ حی لا یموت۔“ (بخاری ج:۱ ص:۵۱۷)
ترجمہ:…” سنو جو شخص محمد ا کی عبادت کرتا تھا (اسے معلوم ہونا چاہئے کہ) آنحضرت ا انتقال فرماچکے ہیں، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا (اس کا معبود) اللہ تعالیٰ زندہ ہیں کبھی نہ مریں گے۔“
اس واقعہ کا تذکرہ عام طور پر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی ثابت قدمی، قوت قلبی اور حسن تدبر کے ذیل میں کیا جاتا ہے، لیکن حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہی کا بیان جو کتابوں میں نقل کیا گیا ہے، یعنی وہ فرمایا کرتے تھے کہ خدا کی قسم ہمیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی ہے۔ اس فاروقی بیان کو سامنے رکھ کر اگر دعویٰ کیا جائے کہ آنحضرت ا کے بعد یہ پہلی آیت تھی جس کا مفہوم ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے ”عملی اندازتشریح“ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے واضح کیا گیا تھا تو کیا یہ دعویٰ بے جا ہوگا؟ بہرحال اس کی مزید مثالیں ذکر کرنے کی گنجائش نہیں، اس نکتہ کو سامنے رکھ کر ”صدیقی سیرت“کا مطالعہ کرنے والوں کو اچھی خاصی مقدار میں صدیقی تفسیر کے جواہر پارے ملیں گے:
”اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَیٰ السَّمْعَ وَ ھُوَ شَھِیْدٌ “۔ (ق:۳۷)
ترجمہ:…”اس میں اس شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جس کے پاس (فہیم) دل ہو یا وہ (کم از کم دل سے ) متوجہ ہوکر (بات کی طرف) کان ہی لگا دیتا ہو۔“ (ترجمہ حضرت تھانوی)

متأخرین صحابہ کے علوم میں بہت بڑا حصہ صدیقی علوم کا تھا:

یہاں اس نکتہ کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے جس پر حکیم الامت لسان الحکمت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے تنبیہ فرمائی ہے، یعنی حضرات شیخین کے علوم صرف اسی قدر نہیں کہ جو اُن کے نام سے کتابوں میں نقل کئے گئے ہیں بلکہ ان کا بیشتر حصہ وہ ہے جو متأخرین صحابہ نے ان سے اخذ کیا ہے اور نقل کرنے والے ان متأخرین ہی کے نام سے ان کو نقل کرتے ہیں، اس کو ایک توضیحی مثال سے سمجھئے: مثلاً ایک نادر روزگار استاذ کے سیکڑوں شاگرد ہوں، جنہوں نے تمام علوم کا استفادہ اپنے استاذ محترم سے کیا ہو، پھر ان تمام تلامذہ نے تصنیف و تالیف کے ذریعہ سے ان تمام علوم کو مدون کردیا ہو، تو اس صورت میں یہ تمام تصنیفات شاگردوں ہی کی طرف بظاہر منسوب کی جاتی ہیں، لیکن حقیقت شناس جانتے ہیں کہ یہ تمام، استاذ محترم ہی کے علوم ہیں جو شاگردوں کی زبان قلم سے ظاہر ہورہے ہیں۔ اسی طرح یہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر کو ان صحابہٴ کرام کے لئے بمنزلہٴ استاذ تصور کرو، جن کو تأخر اسلام یا صغر سنی کی وجہ سے آنحضرت اسے استفادہ کا موقع کم میسر آیا، لیکن اکابر صحابہ بالخصوص حضرات شیخین کی صحبت اور تعلیم و تربیت کی وجہ سے ان کو اپنے وقت کی امامت نصیب ہوئی۔ ان حضرات کے تفسیری اور حدیثی علوم دراصل حضرات شیخین ہی کے علوم ہیں، اگرچہ نقل و روایت کے اعتبار سے نسبت خود ان کی طرف نہ کی جائے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت ابن عباس، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم اور ان کے ہمعصر صحابہ سے جو روایاتِ تفسیر و حدیث،کتابوں میں منقول ہیں وہ درحقیقت حضرات شیخین سے مستفاد ہیں۔

شاہ صاحب رحمہ اللہ کے الفاظ میں اس نکتہ کو ملاحظہ فرمائیے:


”نہ پنداری !کہ شیخین ہمیں قدر روایت کردہ اندکہ در کتب مسانید بایشاں نسبت کردہ می شود، بلکہ بسیارے از احادیث مرفوعہ کہ در مسانید بکثیرین از صحابہ مذکور است بحقیقت روایت شیخین است کہ عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن عباس و ابوہریرہ آن را ارسال نمودہ اند،و بہ آں حضرت ا رفع کردہ واھل مسانید ظاہر آں را اعتبار کردہ در مسانید ایشاناں درج نمودہ اند، چنانکہ بر شخصے کہ متتبع جزئیات و کلیات علم حدیث مخفی نخواہد بود۔“ (قرة العینین ص:۵۵ طبع مجتبائی)
ترجمہ:…” یہ نہ سمجھا جائے کہ شیخین کی روایات صرف اسی قدر ہیں جو کتب مسانید میں ان کی طرف نسبت کی گئی ہیں، بلکہ بہت سی احادیث مرفوعہ ایسی ہیں کہ مکثرین صحابہ کی مسانید میں ذکر کی گئی ہیں، لیکن درحقیقت وہ شیخین رضی اللہ عنہما کی روایات ہیں جن کو عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ (رضی اللہ عنہم) نے ارسال کرتے ہوئے آنحضرت ا سے مرفوعاً نقل کیا ہے، اور اصحاب مسانید نے ان روایات کے ظاہر کا اعتبار کرتے ہوئے ان حضرات کی مسانید میں درج کردیا ہے۔ چنانچہ جو شخص علم حدیث کی جزئیات و کلیات کا تتبع کرے گا، اس پر یہ نکتہ مخفی نہ رہے گا۔“
تفسیری کلیات صدیقی سیرت کی روشنی میں


مندرجہ بالا وجوہ اور حضرت صدیق کی بے حد مصروفیت کے علاوہ یہ امر بھی خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ آنحضرت ا کے بعد تابعین کی بلا واسطہ تربیت کا موقع ان کو بہت کم ملا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان سے روایت کرنے والوں میں، صحابہ بلکہ اکابر صحابہ کے نام زیادہ اور تابعین کے نام کم ملتے ہیں۔
چنانچہ علامہ شیخ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”و سبب ذٰلک مع تقدم صحبتہ و ملازمتہ للنبیا انہ تقدمت وفاتہ قبل الانتشار الاحادیث و اعتناء التابعین بسماعھا و تحصیلھما و حفظھما۔“
ترجمہ:…” آپ کی روایات میں کمی کا باعث، باوجودیکہ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ کے ساتھ دیرینہ رفاقت اور ملازمت حاصل تھی، یہ ہے کہ احادیث کے پھیلنے اور تابعین کے حفظ و تحصیل میں مشغول ہونے سے قبل ہی ان کا وصال ہوگیا۔“
اسی کے ساتھ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی طبعی افتاد کا بھی دخل تھا، مطلب یہ کہ ان کی سیرت کے مطالعہ کرنے سے آدمی جو سب سے پہلے تأثر لیتا ہے، وہ یہی ہے کہ ان پر خشیت کی نسبت غالب تھی، دین کے ہر معاملہ میں ہر پہلو سے احتیاط در احتیاط ان کی طبیعت ثانیہ تھی، کسی کام کے کرنے یا کسی بات کے کہنے سے پہلے وہ پوری طرح جائزہ لیا کرتے تھے کہ خدانخواستہ اس میں، سبب بعید کے طور پر ہی سہی، کوئی شر کا پہلو تو نہیں پایا جاتا؟ مجدد قرن ثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کا یہ فقرہ کس قدر حکیمانہ ہے؟ وہ فرمایا کرتے تھے:
”مَنْ عَدَّ کَلامَہُ مِنْ عَمَلِہِ، قَلَّ کَلامُہ“ (تاریخ الخلفأ)
ترجمہ:…” جو شخص اپنے کلام کو بھی عمل میں شمار کرے گا ، اس کی باتیں کم ہوں گی۔“
حضرت صدیق کی خدا ترسی اور خوف محاسبہ کی کیفیت کتنی بلند تھی! کتابوں میں جو کچھ اس سلسلہ میں نقل کیا گیا ہے آج کل کے چھچھورے مزاج کے انسانوں کے لئے اس کا تصور بھی دشوار ہے۔
اس واقعہ کا تذکرہ تقریباً سب ہی سیرت نگاروں نے کیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ اپنی زبان پکڑ کر کھینچ رہے ہیں، عرض کیا کہ ” کیا قصہ ہے؟“ جواب میں ”صدیقی زبان“ جس پر صدق و تصدیق کے سوا شاید دوسرا لفظ کبھی نہ آیا ہوگا، کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جارہا تھا:
”ھذہ اوردتنی الموارد“۔ (نسائی بحوالہٴ تاریخ الخلفأ)
ترجمہ: ”اسی نے مجھے بہت سی گھاٹیوں میں لا اتارا ہے۔“
اس سرتاج صدیقین کو کبھی کبھی یہ تمنا کرتے سنا اور دیکھا جاتا:
”لعددت انی شعرة فی جنب مؤمن“۔
ترجمہ: ”میری یہ تمنا رہتی ہے کہ میں کسی موٴمن کے پہلو کا بال ہوتا۔“
ان کی خدمت میں اگر ایک حادثہ عرض کیا جاتا، جس کا صریح حکم نہ کتاب اللہ میں موجود ہوتا اور نہ سنت نبوی میں اس کی تصریح ہوتی، تو وہی رئیس المجتہدین، کہ ابو حنیفہ و شافعی (رحمہما اللہ) کی فقاہت جن کی دریوزہ گر تھی، ابن سینا اور ابن رشد کا فلسفہ جن کے گھر کا دربان تھا، فضیل اور جنید کا تقویٰ جن کا خانہ زاد تھا، انہیں کو بار بار فرماتے ہوئے سنا جاتا:
”اجتھد رأیا فإن یکن صوابا فمن اللہ و إن یکن خطاء فمنی و استغفر اللہ۔“(ابن سعد)
ترجمہ:…” میں اس معاملہ میں کتاب و سنت کی روشنی میں اجتہاد کروں گا، اگر درست ہوا تو اللہ کی جانب سے، اور غلط ہوا تو میری طرف سے، اور میں اللہ سے معافی کی التجا ٴ کرتا ہوں۔“
کہاں تک نقل کرتا جاؤں؟ جن کے احتیاط اور تثبیت کا یہ عالم ہو، ان کے لئے اللہ کی کتاب میں لب کشائی کیا آسان کام ہوگا؟ قرآن کی شرح و تفسیر تو خیر بعد کی بات ہے، قرآن کی تدوین سے بڑھ کر اور ضروری عمل، اور اس سے بڑی سعادت عظمیٰ کا کام کیا ہوسکتا ہے! لیکن ”صدیقی احتیاط“ اس معاملہ میں بھی کس طرح دامن گیر رہی؟ اس کی خبر سب ہی کو ہے۔ اگر ”حکمت ازلیہ“ نے صدیقی احتیاط کے ساتھ فاروقی فراست کا حسین امتزاج نہ کردیا ہوتا تو نہیں کہا جاسکتا کہ صورت حال کیا ہوتی؟
علوم اسلامیہ کے ارتقائی مزاج سے ناآشنا اور اردو تراجم پڑھ پڑھ کر چہاردہ صد سالہ امت کے علی الرغم ”قرآنی بصیرت“ کی ”غلط پنداری“ کے مریضوں کے لئے کیا اس واقعہ میں عبرت کا کوئی سامان نہیں؟ جس دور میں خود قرآن کی جمع و ترتیب ہی پر بمشکل آمادگی ظاہر ہوتی ہے، انہیں سوچنا چاہئے کہ وہ تدوین حدیث کا دور ہوسکتا ہے؟ جن اصحاب بصیرت کو ابھی تک قرآن کے یکجا کردینے میں تأمل ہو، اگر وہ حدیث کا کوئی مجموعہ مرتب نہ کریں، یا کئے ہوئے کو غایت احتیاط کی بنا پر تلف کردیں، ان کے اس طرز عمل سے کیا حدیث کا ناقابل قدر ہونا کوئی عقل مند تسلیم کرسکتا ہے؟ اور کیا تدوین قرآن کی بھی قریب قریب وہی نوعیت نہیں ہوجاتی جو تدوین حدیث کی ہے؟ اندریں صورت کیا انکار حدیث سے انکار قرآن ہی کا راستہ تیار نہیں ہوتا؟
الیس منکم رجل رشید۔ نعوذ باللہ من الزیغ ومن ان نُضِلَّ او نُضَلَّ۔
بخاری شریف میں کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
”یمامہ میں قرا ٴ صحابہ رضی اللہ عنہم کے شہید ہوجانے پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے پیغام بھیج کر بلایا، میں حاضر ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے، حضرت ابوبکر فرمانے لگے: عمر میرے پاس آئے اور کہا: ” جنگ یمامہ میں بکثرت قرا ٴ قرآن شہید ہوگئے ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر دوسرے مواقع میں بھی قرآن کے حافظ اسی طرح شہید ہوتے رہے، تو قرآن کا بہت سا حصہ ان کے ساتھ ہی نہ جاتا رہے۔ میری رائے ہے کہ آپ قرآن کی یکجا تدوین کا حکم دیں“۔ میں نے (ابوبکر رضی اللہ عنہ نے) عمر سے کہا :
”کیف تفعل شیئاً لم یفعلہ رسول اللہ ا“
ترجمہ:…”تم ایسا کام کیسے کرسکتے ہوجو آنحضرت ا نے نہیں کیا۔“
اس کے جواب میں عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بخدا یہ کام سراپا خیر ہے (منشا ٴ نبی کے خلاف نہیں)“ پس عمر رضی اللہ عنہ بار بار مجھ سے اس مسئلہ میں گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی اس کے لئے شرح صدر نصیب فرمایا اور مجھے بھی اسی میں خیر نظر آنے لگی، جس طرح عمر کی رائے تھی…“ الی آخر القصہ۔
الغرض حضرت ابوبکر ہر معاملہ میں کامل حزم اور نہایت احتیاط کے ساتھ منشا ٴ خداوندی کے پورا کرنے کی سعی فرماتے، لیکن باایں ہمہ اپنی ذات کے لئے یا اپنے نفس پر ایک لمحہ کے لئے بھی اعتماد نہ فرماتے، گویا نفس کے بارے میں ان کا نظریہ ٹھیک وہی نظریہ تھا جسے قرآن کریم نے یوسف صدیق علیہ السلام کی زبانی نقل کیا ہے :
”وَمَا اُبَرِّیٴُ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارُةٌ م بِالسُّوْءِ“ (یوسف:۵۳)
ترجمہ:…” میں اپنے نفس کو بری نہیں کہتا، اس میں کیا شک ہے کہ نفس کا کام برائی ہی کا مشورہ دینا ہے۔

اس لئے تفسیر قرآن کے معاملہ میں بھی ان کا یہی احتیاطی جذبہ ممکن ہے کہ تعلیل کا باعث ہوا ہو؟ تاہم جتنا ذخیرہ بھی تفسیری روایات کا ان سے منقول ہے، اگر گہری بصیرت کو کام میں لایا جائے تو جزئیاتی حیثیت سے اگرچہ قلیل ہے، لیکن کلیاتی رنگ میں وہ بیش بہا ہے۔

حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے تفسیری اصول


شرح اس اجمال کی یہ ہے کہ علم تفسیر کے جزئیات اگرچہ درجہٴ شمار سے خارج ہیں، لیکن یہ تمام جزئیات چند کلیات کی طرف راجع ہیں جن کو علم تفسیر کے اصول موضوعہ کہنا چاہئے۔ حضرت صدیق سے جو چند تفسیری روایات نقل کی گئی ہیں ان میں علم تفسیر کے ان ہی اہم اصول کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، کاش ان ”صدیقی اصول“ کے ساتھ اس ”صدیقی ذوق“ کو اگر ملحوظ رکھا جاتا تو کم از کم تفسیر قرآن کے سلسلہ میں وہ جرأتیں ظاہر نہ ہوتیں جو مدت سے غیر ذمہ دار طبقات کی طرف سے ظاہر ہورہی ہیں۔

تفسیر بالرائے سے اجتناب


پہلا تفسیری اصول یہی ہے کہ قرآن کی شرح و تفسیر کرنے والا اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی اہلیت رکھتا ہو کہ کسی مقام پر بھی وہ اپنی خواہش اور ہوا کے ساتھ کتاب اللہ کو ملوث کرنے کی جرأت نہ کرے، کسی بھی آیت پر بحث کرتے ہوئے وہ حق تعالیٰ کی مراد واضح کرنے کے بجائے اپنے ذاتی رجحانات و اوہام کی ترجمانی شروع نہ کردے، اس میں کم از کم اتنی اہلیت اور امانت موجود ہو کہ قرآن جو کچھ سمجھانا چاہتا ہے اسے بیان کرنے کی جگہ ”جہاں تک میں سمجھا ہوں“ کی منطق استعمال نہ کرنے لگے، قرآن کی جس آیت پر وہ کلام کرنا چاہتا ہے، اسے معلوم ہو کہ مجھ سے پہلے اس کا کیا مفہوم لیا گیاہے؟ لغت عرب سے اس کے کیا معنی متعین ہوتے ہیں؟ اس کے سیاق و سباق سے کیا مطلب واضح ہوتا ہے؟ قرآن مجید میں یہ مضمون کس کس جگہ آیا ہے؟ اور اسے کن کن عنوانات سے بیان فرمایا گیاہے؟ اس آیت کا جو مفہوم میں نے سمجھا ہے وہ کسی شرعی قاعدہ سے تو نہیں ٹکراتا؟ اس سے کسی نص کی تکذیب تو نہیں ہوجاتی؟ الغرض جب تک کسی آیت کے اطراف و جوانب، شریعت کے قواعد و ضوابط اور امت کے عقائد و اجماعات پر اس کی نظر نہ ہو ، محض ظن و تخمین اور ہوا و ہوس سے کسی آیت کو خود ساختہ معنی پہناکر نامہٴ عمل سیاہ کرتے چلے جانا، قرآنی خدمت نہیں بلکہ ”دروغ بافی“ ہے۔

کون نہیں جانتا کہ اگر کسی وقت صدر مملکت کی ترجمانی کے فرائض پر کسی کو مأمور کردیا جائے، تو اس پر کس قدر نازک ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے؟ اس کو زبان و لغت پر کتنا عبور درکار ہوگا؟اسے ”شاہی محاورات“ پر کتنی گہری نظر رکھنی ہوگی؟ اسے فصاحت و بلاغت کی کن کن نزاکتوں کا لحاظ رکھناہوگا؟ اسے صدر مملکت کے ذاتی احساسات و رجحانات، لب و لہجہ، طرز خطاب کو کس حد تک نبھانا ہوگا؟ پھر ذرا سی غلط بیانی اور ”الٹی تعبیر“ پر کتنا خطرہ درپیش ہوگا؟ اگر ایک معمولی حاکم کی ترجمانی میں ان امور کا لحاظ رکھنا باتفاق عقلأ مسلم ہے، تو سوچنا چاہئے کہ ”شہنشاہ مطلق“ اور احکم الحاکمین کی ترجمانی کن کن نزاکتوں کی حامل ہوگی؟ اگر آپ غور کریں گے تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد میں اسی اصول کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے جس کو سورہٴ عبس کی تفسیر میں تقریباً سب ہی مفسرین نے ذکر کیا ہے یعنی اس سورت میں” ابًا “ کا لفظ جو آیا ہے۔ پوچھنے والوں نے حضرت صدیق  سے اس کے معنی دریافت کئے، سننے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیس سالہ شاگرد سے سن رہے تھے:
”ای سماء تظلنی و ای ارض تقلنی ان قلت فی کتاب اللہ ما لا اعلم۔“
(تفسیر ابن کثیر ج:۱ ص:۵)
ترجمہ:…” مجھے کون سا آسمان سایہ دے گا؟ اور مجھے کون سی زمین اٹھائے گی؟ اگر میں اللہ کی کتاب میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں۔“
میں اسی کو حضرت صدیق کے ”پہلے تفسیر اصول“ سے تعبیر کررہا ہوں جس کا حاصل یہی ہے کہ کتاب اللہ کی تفسیر کے لئے جس قدر ذرائع علم درکار ہیں، جب تک ان کی اہلیت پیدا نہ کرلی جائے اس وقت تک قرآن کی کسی آیت کے معنی اور مفہوم کو متعین کرنے کی جرأت کرنا”تفسیر بالرائے“بلکہ اصطلاح نبوت میں ”قول بالرائے“ ہے جو مطلقاً حرام اور مستوجب وعید ہے۔ آنحضرت ا کا مشہور ارشاد ہے:
”من قال فی القرآن برأیہ او بما لا یعلم فلیتبوأ مقعدہ من النار۔“
ترجمہ:…” جس نے قرآن میں بدون علم کے یا محض رائے سے کوئی بات کہی، اسے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنانا چاہئے۔

کیا آج بھی اس وعید نبوی اور ذوق صدیقی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے؟ آج ہر بدعتی اپنی بدعت کے لئے، ہر ملحد اپنے الحاد کے لئے، ہر زندیق اپنی ہرزہ سرائی کے لئے،ہر بازی گر اپنی شعبدہ بازی کے لئے، اللہ کی اسی پاک کتاب کو استعمال کرتاہے۔ کسی کو بھول کر بھی خیال نہیں آتا کہ ان تمام خرافات کو کتاب اللہ کی طرف منسوب کرنا بھی کوئی جرم ہوسکتا ہے؟ حضرت ابن عمر فرمایا کرتے تھے:” تعلمنا الایمان ثم تعلمنا القرآن“۔یعنی ”ہم نے پہلے ایمان سیکھا تھا پھر قرآن سیکھا تھا۔“ آج ایمان اور قرآن سیکھنے کی زحمت گوارا کئے بغیر گھر گھر ”قرآنی مبصر“ پیدا ہورہے ہیں۔

حافظ سیوطی رحمہ اللہ دسویں صدی میں ان نام نہاد قرآنی مبصرین کا ماتم کررہے ہیں:
”والمبتدع لیس لہ قصد الا تحریف الآیات و تسویتھا علی مذھبہ الفاسد۔ بحیث انہ متی لاح شاردة من بعید اقتنصھا او وجد موضعا لہ فیہ ادنی مجال سارع الیہ…و الملحد فلا تسأل عن کفرہ و الحادہ فی آیات اللہ تعالیٰ و افتراء ہ علی اللہ ما لم یقلہ “۔ (الاتقان: النوع الثمانون ص:۱۹۰)
ترجمہ:…” اہل بدعت کی تمام تر ہمت اس پر لگی ہوئی ہے کہ آیات کی تحریف کی جائے اور ان کو اپنے فاسد مذہب پر منطبق کیا جائے، اسے جہاں کہیں دور سے بھی کوئی بکھری ہوئی چیز نظر آجاتی ہے، اسے فوراً اچک لیتا ہے، یا کہیں اسے ذرا سی گنجائش بھی ملتی ہے، اس کی طرف لپک جاتا ہے۔ رہا ملحد سو اس کے کفر، آیات اللہ میں کجروی، اور اللہ پر افترأ پردازی کا حال تو ناگفتہ بہ ہے۔“

آج کون ہے جو اس امام کے مزار پر جاکر اطلاع کرے کہ آپ کے بعد کی چار صدیوں نے ”انسانی مزاج“ میں کتنی تبدیلی کرڈالی ہے۔ چودھویں صدی کے اہل بدعت کی غباوت نے کتاب اللہ کی کس قدر آیات کو تحریف کا تختہٴ مشق بنا ڈالا ہے؟ اور اس دور کے ملحدین، کفر و الحاد اور جرأت افترأ علی اللہ میں کن کن حدود کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں؟ قرآن حکیم نے،کتاب اللہ کے محکمات سے بے رخی کرتے ہوئے متشابہات کی پیروی کرنے والوں اور ان کو غلط معنی پہناکر فتنہ جوئی کرنے والوں کے ”قلبی زیغ“ اور ”ذ ہنی کجی“ کی اطلاع دی تھی۔ دور حاضر کے مغرب زدہ زائغین قرآن کو اول سے آخر تک مسخ کردینے والے اور سیزدہ سالہ اسلام کو منہدم کر کے اس کے کھنڈرات پر الحاد و زندقہ کی بنیادیں استوار کرلینے کے سودائے خام میں مبتلا ہیں۔
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔
بہرحال حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد میں جو اوپر نقل کرچکا ہوں، اسی قسم کی بے باکیوں کی پیش بندی فرمائی گئی ہے، یعنی جب تک پوری تحقیق قرآن کی کسی آیت کے متعلق آدمی کو نہ ہو اس وقت تک اس کے لئے جائز نہیں کہ اللہ کی کتاب پر ظن و تخمین کا غلاف چڑھائے۔ حضرت صدیق  سے دوسری روایت جو اسی مضمون کی منقول ہے وہ اس سے واضح تر ہے، یعنی ان سے کسی آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو فرمایا:
”ای ارض تسعنی او ای سماء تظلنی اذا قلت فی کتاب اللہ ما لم یرد اللہ۔“
ترجمہ:…” مجھے کون سی زمین پناہ دے گی؟ یا کون سا آسمان سایہ دے گا؟ جب کہ میں کتاب اللہ میں ایسی بات کہہ ڈالوں جو اللہ کی مراد نہیں۔“

اس روایت میں ” مالم یرد اللہ “ کا لفظ کس قدر علم سے بھرا ہوا، احتیاط میں ڈوبا ہوا، اور عظمت خداوندی سے لبریز ہے۔ مطلب یہ کہ آیت کے ظاہری مفہوم کو بیان کرسکتا ہوں ، لیکن جب تک قرائن و دلائل سے قطعاً ثابت نہیں ہوجاتا کہ جو کچھ میں سمجھا ہوں وہی اللہ کی مراد بھی ہے، آیت کے معنی میں لب کشائی کیسے کروں؟ اگر خدانخواستہ میرے بیان کردہ معنی ”اللہ کی مراد“ کے خلاف ہوئے تو شہنشاہ مطلق کی غلط ترجمانی کی سزا سے بچنے کے لئے آسمان و زمین کا کون سا گوشہ پناہ دے گا؟ ”عجب سلامتی“ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو نصیب ہوئی تھی، اسی آیت کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی قسم کا ارشاد نقل کیا گیا ہے۔ شیخ ابن کثیر ان دونوں حضرات کی روایات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”یہ تمام روایتیں اس پر محمول ہیں کہ یہ دونوں حضرات کیفیت ” اَبَّ “ کا علم قطعی دریافت کرنا چاہتے تھے، ورنہ اتنی سی بات کہ” اَبَّ “ زمین کی سبزی کا نام ہے بالکل ظاہر ہے مجہول نہیں۔“ (ابن کثیر ج :۱ ص:۵)

امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں:

”قولہ تعالیٰ فاکھة و أبًا، الأبُ المرعی المتھیٴ للرعی والجز من قولھم اب لکذا ای تھیا ابا وابابة و ابابا ، واب إلی وطنہ اذا نزع إلی وطنہ نزوعا تھیاء الخ“ (مفردات القرآن ص:۵)
گویا اسی ”ظاہر لایجھل“ کی پوری کیفیت چونکہ واضح نہیں، اس لئے شیخین اس لفظ کی شرح میں ایک حرف کی جرأت نہیں کرتے۔
یہ بحث پوری نہیں ہوئی، سورہٴ نسا ٴ کی آیت میراث میں لفظ کلالہ جو واقع ہوا ہے، کتب تفسیر میں امام بیہقی وغیرہ کے حوالہ سے نقل کیا گیا ہے کہ ”حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے اس کا مفہوم دریافت کیا گیا، اس کے جواب میں علوم نبوت کے حافظ، اسرار کتاب اللہ کے امین، آنحضرت اکے یار غار و مزار سے کس قدر صداقت آمیز فقرہ سن رہے تھے:
” اقول فیھا برای فان یکن صوابا فمن اللہ و ان یکن خطاء فمنی و من الشیطان و اللہ و رسولہ بریئان منہ۔الکلالة من لا ولد لہ ولا والد۔“ (تفسیر ابن کثیر ج:۱ ص:۴۶)
ترجمہ:…” میں اس میں رائے سے ایک بات کہتا ہوں، اگر درست ہوئی تو اللہ کی جانب سے ہوگی، اور اگر غلط ہوئی تو میری جانب سے اور القا ٴ شیطان کی وجہ سے ہوگی۔ اس صورت میں اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہوں گے۔ (کلالہ) سے مراد وہ شخص ہے جس کانہ بیٹا ہو نہ باپ۔“
کلالہ سے مراد اس آیت میں وہ شخص ہے جس کے نہ اصول ہوں نہ فروع۔
شیخ ابن کثیر فرماتے ہیں:
”یہی تفسیر عمر،علی، ابن مسعود، ابن عباس، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ شعبی، نخعی ، قتادہ، جابر بن زید اور حکم کا یہی قول ہے، اہل مدینہ ، اہل کوفہ ، اہل بصرہ اسی کے قائل ہیں۔ فقہا ٴ سبعہ، ائمہٴ اربعہ اور جمہور سلف و خلف کا بلکہ تمام سلف و خلف کا یہی قول ہے، بہت سے اکابر نے اس پر پوری امت کا اتفاق نقل کیا ہے۔” و ورد فیہ حدیث مرفوع “ (تفسیر ابن کثیر  ج: ۱ ص:۴۶۰)
یہ تفسیر جس پر بقول ابن کثیر جمیع سلف و خلف کا اتفاق ہے ظاہر ہے کہ اس میں کسی دوسرے معنی کا احتمال اجماع امت کے بعد کب باقی رہ جاتاہے؟
لیکن اسی کو جب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، تو احتیاط و حزم کے سارے سامان جمع کر لیتے ہیں۔ اس لئے کہ انہوں نے جہاں آنحضرت ا سے (بقول ابن عمر) ایمان اور قرآن سیکھا تھا، وہیں کتاب اللہ کی عظمت اور اس کی ترجمانی کی نازک ذمہ داری بھی سیکھی تھی۔ یہ روایت جس کا حوالہ اوپر عرض کیا گیا ہے، اس کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب تک اسے سامنے نہ لایا جائے، یہ بحث تشنہ رہے گی۔ یعنی روایت کرنے والوں نے اس صدیقی طرز عمل کے بعد جو ”فاروقی اسوہ“ نقل کیا ہے وہ مستقل ”تفسیری اصول“ ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
” فلما ولی عمر قال : انی لاستحیی ان اخالف ابابکر فی رأی رأہ۔“ (تفسیر ابن کثیر ج:۱ ص:۴۰)
ترجمہ:…” پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو فرمایا: بخدا مجھے حیا آتی ہے کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی (اس تفسیری) رائے کے خلاف کروں۔“
سلف کی تفسیر کے خلاف اختراعی نظریات قرآن سے ثابت کرنے والے اور ”میں یہ سمجھا ہوں“ کے مراقی خبط میں مبتلا ہونے والوں کے لئے تازیانہٴ عبرت ہے، جس کے لئے زبان وحی سے ” ان اللہ جعل الحق علی لسان عمر و قلبہ“ صادر ہوا۔
ڈیڑھ درجن سے زیادہ آیات میں آسمانی وحی نے جس کی نہ صرف مضمون میں بلکہ بعض مرتبہ الفاظ میں بھی موافقت کی تھی، ان کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلاف کرنے سے حیا آتی ہے۔آج صحابہٴ کرام ، تابعین ، ائمہ اور مفسرین ، الغرض چہاردہ سالہ امت بلکہ (خاکم بدہن) خود امت کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت قرآن پڑھ پڑھ کر کرنے والوں کے متعلق سوچتا ہوں کہ ان کی شرم و حیا سے گردن کیوں نہیں جھکتی۔
صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم پر تبرا، ائمہ پر استہزا ٴ، پوری امت پر تمسخر کرنے والے ”قرآنی مبصرین“ میں مادہٴ حیا پیدا ہی نہیں کیا گیا، یا وہ اسے کسی دوسرے کام میں لاتے ہیں۔ (ماہنامہ دارالعلوم دیوبند مارچ ۱۹۶۵ء)


No comments:

Post a Comment