-scale=1.0,minimum-scale=1.0,maximum-scale=1.0" : "width=1100"' name='viewport'/> صدائے قلندر

Wednesday, 30 November 2011

صحابہ سے حسنِ ظن - حنفی موقف



حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف میں ایک کتاب "الفقہ الاکبر" کو بھی شمار کیا جاتا ہے۔
اس کتاب میں آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :
نتولاهم جميعا ولا نذكر الصحابة
ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں آخری الفاظ یوں ہیں :
ولا نذكر أحداً من اصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم إلالخير
ہم سب صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی کا ذکر بھلائی کے علاوہ نہیں کرتے۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس کی شرح میں مزید لکھتے ہیں :
یعنی گو کہ بعض صحابہ سے صورۃ شر صادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بنا پر ایسا ہوا اور ان کا شر سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ، ان سے حسن ظن کا یہی تقاضا ہے۔
بحوالہ : شرح الفقہ الاکبر ، ص:71
الفقہ الاکبر کے ایک اور شارح علامہ ابوالمنتہی احمد بن محمد المغنی ساوی لکھتے ہیں :
اہل السنۃ و الجماعۃ کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ان کی اسی طرح تعریف کی جائے جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔
بحوالہ : شرح الفقہ الاکبر ، مطبوعہ مجموعۃ الرسائل السبعۃ حیدرآباد دکن - 1948ء
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدہ و عمل کے ترجمان امام ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب "العقیدہ الطحاویۃ" میں لکھا ہے :
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں، ان میں سے نہ کسی ایک کی محبت میں افراط کا شکار ہیں اور نہ ہی کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔ اور جو ان سے بغض رکھتا ہے اور خیر کے علاوہ ان کا ذکر کرتا ہے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں اور ہم ان کا ذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں۔ ان سے محبت دین و ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر و نفاق اور سرکشی ہے۔
بحوالہ : شرح العقیدہ الطحاویۃ ، ص:467


صحابہ سے حسن ظن

Saturday, 26 November 2011

اور دل ہے کہ اداس بہت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نیٹو کا حملہ 24 مسلمان پاکستانی فوجی شہید ۔ ۔ ۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اٰمین
پاکستان کی سر زمین پر ایک عرصہ سے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ۔ ۔ کچھ غیروں کا ستم کچھ اپنوں کا کرم ۔ ۔ ۔ ۔ 

کل شام کو جب یہ خبر سنی یقین مانئیے دل بجھ سا گیا  ۔ ۔ ۔ ۔ یوں لگا جیسے کسی نے دل کو مٹھی میں جکڑ لیا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ میرے خدا یہ کیا معاملہ ہے ۔ ۔ ۔ آج مسلمان کا خون اتنا سستا کیوں ہو گیا ہے ۔ ۔ ۔ کبھی ڈرون آتے ہیں اور معصوم وبے گناہ مسلمانوں کو شہید کرتے ہیں اور کبھی یہ امریکی بے غیرت آتے ہیں ہمارے ملک کی خود مختاری کو تہس نہس کرتے چلے جاتے ہیں ۔ ۔  
اپنے ملک سے محبت کسے نہیں ہوتی اگرچہ جو بندہ یہاں اسلام یا جہاد کی بات کرے اسے دہشت گرد کا لقب مل جاتا ہے ۔ ۔ ۔ میں بھی یہاں اسلام چاہتا ہوں کفار سے جہاد کا حامی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر پاکستا ن کے ہر زخم پر میں تڑپ کے رہ جاتا ہوں ۔ ۔ ۔  میں کبھی پاکستان کا پرچم نیچا نہیں دیکھنا چاہتا مجھے یہ پرچم اونچا فضا میں لہراتا بہت ہی پیارا لگتا ہے ۔ ۔ ۔
مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کل شام سے یوں لگ رہا ہے کہ میرا یہ پرچم گر گیا ہے ۔ ۔ ۔ میری دھرتی تڑپ رہی ہے ۔ ۔ ۔ کہ میرے محافظ کہاں گئے ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
ایسے میں میرے موبائل سے جنید جمشید کی آواز ابھرتی ہے ۔ ۔  طارق بن زیاد کی دعا ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ طارق بن زیاد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اپنے شاندار ماضی کی حسین یادوں میں کھو جاتا ہوں ۔ ۔ ۔  جہاں مجھے جرات اور بہادری اور غیرت نظر آتی ہے ۔ ۔  ۔ ۔ ۔  میں سوچ میں پڑگیا ہم کیا سے کیا ہو گئے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ بہادر سے بزدل ۔ ۔ ۔۔ ۔ غیرت مند سے بے غیرت ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں ہوا یہ سب ۔ ۔ ۔ کیسے ہوا یہ سب ۔ ۔ 
تصور پرواز کرتا ہوا  ۔ ۔ ۔ اپنے آقا و مولا محمد رسول اللہ صل: کے روضہ انور 
پر جا پنہچا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے خودی میں ہاتھوں نے حلقہ بنا لیا  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آنکھیں برسنے لگیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  پلکیں قدمین شریفین کے بوسے لینے لگیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس تصور میں ہی ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  آنکھیں برسنے لگیں ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔  ساون کی جھڑی لگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
عرض کی کہ آقا صل: ۔ ۔ ۔ آپ کے غلام بہت پریشان ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ہم غلاموں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیٹیاں لٹ گئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسجدیں گرا دی گئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمان کاٹ دئیے گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلامی ممالک تباہ ہو گئے ۔ ۔ 
یہ سب کیوں ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔آقا صل:  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہم بہت پریشان ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کا رب ہم سے ناراض ہو گیا ۔ ۔ ۔  ۔ ۔  ہم ذلتوں میں گر گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آواز  آئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان ذلتوں کا انتخاب تم نے خود کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس غلام کو پسند تم نے خود کیا ہے ۔ ۔  مسلمان کے خون کو بے قیمت تم نے خود کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ 
میں نے تو تمہیں بتایا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عزت کی راہ دکھائی تھی ۔ ۔ ۔ غیرت کی زندگی بتائی تھی ۔ ۔  ۔ ۔ مگر تم روگردانی کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غیروں کی بات کو مانا مجھے چھوڑ دیا  ۔ ۔ ۔ ۔   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہا تھا   ۔ ۔ ۔ ۔ کہ 2 چیزوں کو اپنے اندر نہ آنے دینا ۔ ۔ حب الدنیا و کراہیۃ الموت ۔ ۔ ۔  دنیا کی محبت اور موت کی نفرت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں کہ یہ دونوں تمہیں غیرت کی زندگی سے دور کردین گی ۔ ۔ ۔
غیرت کی زندگی کیا ہے  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آواز آئی جہاد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہاں غیرت کی زندگی جہا د ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم دنیا سے محبت اور موت سے نفرت کروگے تو وَھَن جیسے مرض کا شکار ہو جاوگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تم غیرت کی راہ یعنی جہاد کو چھوڑ دو گے ۔  ۔ ۔ ۔ پھر کیا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ذلت تمہارا مقدر بن جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

میں تصور کی دنیا سے نکلا ۔ ۔ ۔ ۔  کیوں کہ میں سمجھ گیا تھا  ۔ ۔ ۔ ۔ کہ یہ ذلت ہمارا مقدر کیوں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ 

اور دل ہے کہ اداس بہت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  










Wednesday, 23 November 2011

ثانی اثنین کون ( حصہ سوم و آخری)


قارئین کرام !

حصہ دوم میں آپ شیعہ کابرین کے بیانات پڑھ رہے تھے اس کا کچھ حصہ اور ملاحظہ فرمائیں ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد اس مضمون کا تتمہ ہو گا ۔ ۔ ان شاء اللہ

امام حس عسکری کے شاگرد اور کلینی کے استاد شیعہ کے مشہور مفسر شیخ علی بن ابراہیم القم نے اپنی تفسیر قُمی میں آیت غار کے تحت امام جعفر صادق کی ایک روایت ذکر کی ہے کہ
لام کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الغار قال لابی بکر کا ن انظر الی سفینہ جعفر واصحابہ تقوم فی البحر وانظر الی الانصار مختبین فی افنیتھم فقال ابوبکر تراھم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ قال نعم ۔ قال فارنیھم فمسح علی عینیہ فراھم فقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انت الصدیق ۔ ۔ ۔ الخ
یعنی جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم غار میں تشریف فرما تھے تو آپ نے ابوبکر کو فرمایا : گویا کہ میں جعفر بن ابی طالب اور اس کے ساتھیوں کی کشتی کو سمندر میں کھڑے دیکھ رہا ہوں اور انصار کی طرف نظر کر رہا ہوں جو اپنے مکانوں کے صحنوں میں چھپے بیٹھے ہیں ۔ تو ابوبکررض نے عرض کی یا رسول اللہ آپ ان کو دیکھ رہے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں دیکھ رہا ہوں ۔ اس کے بعد ابو بکر رض نے کہا کہ مجھے بھی یہ منظر دکھائیں ، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رض کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا پس ابو بکر رض نے ان کو دیکھ لیا ۔ تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اے ابوبکر تم صدیق ہو ( تم نبوت کے معجزات کی تصدیق کرنے والے ہو)

تفسیر قمی تحت آیت غار پ 10 سورۃ توبہ طبع قدیم ایران


اس روایت سے مندرجہ ذیل چیزیں معلوم ہوئیں

(1) حضرت ابوبکر رض کو غار ثور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل ہے
(2) معجزہ نبوی کی حضرت ابوبکر صدیق نے تصدیق کی
(3) اس موقعہ پر حضرت ابوبکر کو صیق کا لقب زبان نبوت سے حاصل ہوا

تنبیہ



ایک بات یہاں قابل ذکر ہے کہ تفسیر قمی کی مندرجہ بالا روایت کو تفسیر قمی کی حالیہ طبع ( طبع جدید ایران) سے طابعین اور ناشرین نے خارج کر دیا ہے ۔ اس کی وجہ اور کوئی نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ اس میں فضیلت صدیق اور آپ کا ثانی اثنین ہونا بطریق اتم ثابت ہوتا ہے
(2) دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ سفینہ والی روایت جو آیت غار کے تحت ان کے آئمہ سے مروی ہےوہ شیعہ کے متعدد مصنفین نے ذکر کی ہے ۔ ان میں یہاں صرف 2 حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں
(الف) روضہ کافی ص 123 ۔ طبع قدیم نولکشو لکھنئو
(ب) تفسیر صافی لمحمد بن مرتضیٰ ملقب بہ فیض کا شانی سورۃ توبہ تحت آیت غار ص 702
ان مقامات میں حضرت جعفر کی سفینہ والی روایت ان کے آئمہ سے مفصل منقول ہے جو حضرات تسلی کرنا چاہیں ان کی طرف رجوع کرلیں

قارئین کرام !

اس تمام بحث سے ثابت ہوتا ہے ثانی اثنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کا لقب ہے ۔ اور ہجرت میں آپ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔
اور صحابہ کرام کے جو اقوال میں نے یہاں نقل کیے ہیں وہ بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ ثانی اثنین کا مصداق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں نہ کہ کوئی اور ۔ ۔

باقی بغض ، حسد ، عناد اور نا ماننے کا علاج نہ تو میرے بس میں ہے اور نہ ہی آپ کے ۔ ۔

دعاؤں کی درخواست کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں

والسلام علیکم
خاکپائے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ سیفی خان ۔ ۔ ۔ ۔

Monday, 21 November 2011

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عملی تفسیر!

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جس دور میں قرآنی تفسیر کی خدمت کے لئے اٹھایا گیا تھا آپ کو معلوم ہے کہ وہ ”عملی دور“ تھا، اور حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اپنے وقت میں اس دور کے امام تھے۔ اس لئے تلاش کرنے والوں کو ان کی عملی زندگی میں ڈوب کر ”تفسیری سرمایہ“ تلاش کرنا چاہئے، اس نقطہٴ نظر سے اگر غور کیا جائے گا تو یہ واقعہ کھل کر سامنے آئے گا کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے سیکڑوں آیات قرآنیہ کی عملی تشریح فرمائی، اور بے شمار اشکالات کو اپنے ”طرز عمل“ سے حل فرمایا۔ وصال نبوی کے موقع پر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی بے خودی اور بے چینی، سیرت کا معروف واقعہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے قوی عزم حضرات ” از خود رفتہ“ ہوکر اعلان کررہے تھے کہ جو شخص کہے گا کہ آنحضرت ا کا وصال ہوگیا ہے، اس کی گردن اڑا دوں گا۔
اس موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آیت:
” وَ مَا مُحَمَّدٌ إلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الْرُّسُل، أفَإن مَّاتَ أوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی أعْقَابِکُمْ“
کی منبر نبوی پر تلاوت فرمائی اور اس کی تشریح فرماتے ہوئے اعلان فرمایا:
”الا من کان یعبد محمدا ا فإن محمدا ا قد مات۔ ومن کان یعبد اللہ فإن اللہ حی لا یموت۔“ (بخاری ج:۱ ص:۵۱۷)
ترجمہ:…” سنو جو شخص محمد ا کی عبادت کرتا تھا (اسے معلوم ہونا چاہئے کہ) آنحضرت ا انتقال فرماچکے ہیں، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا (اس کا معبود) اللہ تعالیٰ زندہ ہیں کبھی نہ مریں گے۔“
اس واقعہ کا تذکرہ عام طور پر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی ثابت قدمی، قوت قلبی اور حسن تدبر کے ذیل میں کیا جاتا ہے، لیکن حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہی کا بیان جو کتابوں میں نقل کیا گیا ہے، یعنی وہ فرمایا کرتے تھے کہ خدا کی قسم ہمیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی ہے۔ اس فاروقی بیان کو سامنے رکھ کر اگر دعویٰ کیا جائے کہ آنحضرت ا کے بعد یہ پہلی آیت تھی جس کا مفہوم ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے ”عملی اندازتشریح“ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے واضح کیا گیا تھا تو کیا یہ دعویٰ بے جا ہوگا؟ بہرحال اس کی مزید مثالیں ذکر کرنے کی گنجائش نہیں، اس نکتہ کو سامنے رکھ کر ”صدیقی سیرت“کا مطالعہ کرنے والوں کو اچھی خاصی مقدار میں صدیقی تفسیر کے جواہر پارے ملیں گے:
”اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَیٰ السَّمْعَ وَ ھُوَ شَھِیْدٌ “۔ (ق:۳۷)
ترجمہ:…”اس میں اس شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جس کے پاس (فہیم) دل ہو یا وہ (کم از کم دل سے ) متوجہ ہوکر (بات کی طرف) کان ہی لگا دیتا ہو۔“ (ترجمہ حضرت تھانوی)

متأخرین صحابہ کے علوم میں بہت بڑا حصہ صدیقی علوم کا تھا:

یہاں اس نکتہ کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے جس پر حکیم الامت لسان الحکمت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے تنبیہ فرمائی ہے، یعنی حضرات شیخین کے علوم صرف اسی قدر نہیں کہ جو اُن کے نام سے کتابوں میں نقل کئے گئے ہیں بلکہ ان کا بیشتر حصہ وہ ہے جو متأخرین صحابہ نے ان سے اخذ کیا ہے اور نقل کرنے والے ان متأخرین ہی کے نام سے ان کو نقل کرتے ہیں، اس کو ایک توضیحی مثال سے سمجھئے: مثلاً ایک نادر روزگار استاذ کے سیکڑوں شاگرد ہوں، جنہوں نے تمام علوم کا استفادہ اپنے استاذ محترم سے کیا ہو، پھر ان تمام تلامذہ نے تصنیف و تالیف کے ذریعہ سے ان تمام علوم کو مدون کردیا ہو، تو اس صورت میں یہ تمام تصنیفات شاگردوں ہی کی طرف بظاہر منسوب کی جاتی ہیں، لیکن حقیقت شناس جانتے ہیں کہ یہ تمام، استاذ محترم ہی کے علوم ہیں جو شاگردوں کی زبان قلم سے ظاہر ہورہے ہیں۔ اسی طرح یہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر کو ان صحابہٴ کرام کے لئے بمنزلہٴ استاذ تصور کرو، جن کو تأخر اسلام یا صغر سنی کی وجہ سے آنحضرت اسے استفادہ کا موقع کم میسر آیا، لیکن اکابر صحابہ بالخصوص حضرات شیخین کی صحبت اور تعلیم و تربیت کی وجہ سے ان کو اپنے وقت کی امامت نصیب ہوئی۔ ان حضرات کے تفسیری اور حدیثی علوم دراصل حضرات شیخین ہی کے علوم ہیں، اگرچہ نقل و روایت کے اعتبار سے نسبت خود ان کی طرف نہ کی جائے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت ابن عباس، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم اور ان کے ہمعصر صحابہ سے جو روایاتِ تفسیر و حدیث،کتابوں میں منقول ہیں وہ درحقیقت حضرات شیخین سے مستفاد ہیں۔

شاہ صاحب رحمہ اللہ کے الفاظ میں اس نکتہ کو ملاحظہ فرمائیے:


”نہ پنداری !کہ شیخین ہمیں قدر روایت کردہ اندکہ در کتب مسانید بایشاں نسبت کردہ می شود، بلکہ بسیارے از احادیث مرفوعہ کہ در مسانید بکثیرین از صحابہ مذکور است بحقیقت روایت شیخین است کہ عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن عباس و ابوہریرہ آن را ارسال نمودہ اند،و بہ آں حضرت ا رفع کردہ واھل مسانید ظاہر آں را اعتبار کردہ در مسانید ایشاناں درج نمودہ اند، چنانکہ بر شخصے کہ متتبع جزئیات و کلیات علم حدیث مخفی نخواہد بود۔“ (قرة العینین ص:۵۵ طبع مجتبائی)
ترجمہ:…” یہ نہ سمجھا جائے کہ شیخین کی روایات صرف اسی قدر ہیں جو کتب مسانید میں ان کی طرف نسبت کی گئی ہیں، بلکہ بہت سی احادیث مرفوعہ ایسی ہیں کہ مکثرین صحابہ کی مسانید میں ذکر کی گئی ہیں، لیکن درحقیقت وہ شیخین رضی اللہ عنہما کی روایات ہیں جن کو عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ (رضی اللہ عنہم) نے ارسال کرتے ہوئے آنحضرت ا سے مرفوعاً نقل کیا ہے، اور اصحاب مسانید نے ان روایات کے ظاہر کا اعتبار کرتے ہوئے ان حضرات کی مسانید میں درج کردیا ہے۔ چنانچہ جو شخص علم حدیث کی جزئیات و کلیات کا تتبع کرے گا، اس پر یہ نکتہ مخفی نہ رہے گا۔“
تفسیری کلیات صدیقی سیرت کی روشنی میں


مندرجہ بالا وجوہ اور حضرت صدیق کی بے حد مصروفیت کے علاوہ یہ امر بھی خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ آنحضرت ا کے بعد تابعین کی بلا واسطہ تربیت کا موقع ان کو بہت کم ملا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان سے روایت کرنے والوں میں، صحابہ بلکہ اکابر صحابہ کے نام زیادہ اور تابعین کے نام کم ملتے ہیں۔
چنانچہ علامہ شیخ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”و سبب ذٰلک مع تقدم صحبتہ و ملازمتہ للنبیا انہ تقدمت وفاتہ قبل الانتشار الاحادیث و اعتناء التابعین بسماعھا و تحصیلھما و حفظھما۔“
ترجمہ:…” آپ کی روایات میں کمی کا باعث، باوجودیکہ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ کے ساتھ دیرینہ رفاقت اور ملازمت حاصل تھی، یہ ہے کہ احادیث کے پھیلنے اور تابعین کے حفظ و تحصیل میں مشغول ہونے سے قبل ہی ان کا وصال ہوگیا۔“
اسی کے ساتھ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی طبعی افتاد کا بھی دخل تھا، مطلب یہ کہ ان کی سیرت کے مطالعہ کرنے سے آدمی جو سب سے پہلے تأثر لیتا ہے، وہ یہی ہے کہ ان پر خشیت کی نسبت غالب تھی، دین کے ہر معاملہ میں ہر پہلو سے احتیاط در احتیاط ان کی طبیعت ثانیہ تھی، کسی کام کے کرنے یا کسی بات کے کہنے سے پہلے وہ پوری طرح جائزہ لیا کرتے تھے کہ خدانخواستہ اس میں، سبب بعید کے طور پر ہی سہی، کوئی شر کا پہلو تو نہیں پایا جاتا؟ مجدد قرن ثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کا یہ فقرہ کس قدر حکیمانہ ہے؟ وہ فرمایا کرتے تھے:
”مَنْ عَدَّ کَلامَہُ مِنْ عَمَلِہِ، قَلَّ کَلامُہ“ (تاریخ الخلفأ)
ترجمہ:…” جو شخص اپنے کلام کو بھی عمل میں شمار کرے گا ، اس کی باتیں کم ہوں گی۔“
حضرت صدیق کی خدا ترسی اور خوف محاسبہ کی کیفیت کتنی بلند تھی! کتابوں میں جو کچھ اس سلسلہ میں نقل کیا گیا ہے آج کل کے چھچھورے مزاج کے انسانوں کے لئے اس کا تصور بھی دشوار ہے۔
اس واقعہ کا تذکرہ تقریباً سب ہی سیرت نگاروں نے کیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ اپنی زبان پکڑ کر کھینچ رہے ہیں، عرض کیا کہ ” کیا قصہ ہے؟“ جواب میں ”صدیقی زبان“ جس پر صدق و تصدیق کے سوا شاید دوسرا لفظ کبھی نہ آیا ہوگا، کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جارہا تھا:
”ھذہ اوردتنی الموارد“۔ (نسائی بحوالہٴ تاریخ الخلفأ)
ترجمہ: ”اسی نے مجھے بہت سی گھاٹیوں میں لا اتارا ہے۔“
اس سرتاج صدیقین کو کبھی کبھی یہ تمنا کرتے سنا اور دیکھا جاتا:
”لعددت انی شعرة فی جنب مؤمن“۔
ترجمہ: ”میری یہ تمنا رہتی ہے کہ میں کسی موٴمن کے پہلو کا بال ہوتا۔“
ان کی خدمت میں اگر ایک حادثہ عرض کیا جاتا، جس کا صریح حکم نہ کتاب اللہ میں موجود ہوتا اور نہ سنت نبوی میں اس کی تصریح ہوتی، تو وہی رئیس المجتہدین، کہ ابو حنیفہ و شافعی (رحمہما اللہ) کی فقاہت جن کی دریوزہ گر تھی، ابن سینا اور ابن رشد کا فلسفہ جن کے گھر کا دربان تھا، فضیل اور جنید کا تقویٰ جن کا خانہ زاد تھا، انہیں کو بار بار فرماتے ہوئے سنا جاتا:
”اجتھد رأیا فإن یکن صوابا فمن اللہ و إن یکن خطاء فمنی و استغفر اللہ۔“(ابن سعد)
ترجمہ:…” میں اس معاملہ میں کتاب و سنت کی روشنی میں اجتہاد کروں گا، اگر درست ہوا تو اللہ کی جانب سے، اور غلط ہوا تو میری طرف سے، اور میں اللہ سے معافی کی التجا ٴ کرتا ہوں۔“
کہاں تک نقل کرتا جاؤں؟ جن کے احتیاط اور تثبیت کا یہ عالم ہو، ان کے لئے اللہ کی کتاب میں لب کشائی کیا آسان کام ہوگا؟ قرآن کی شرح و تفسیر تو خیر بعد کی بات ہے، قرآن کی تدوین سے بڑھ کر اور ضروری عمل، اور اس سے بڑی سعادت عظمیٰ کا کام کیا ہوسکتا ہے! لیکن ”صدیقی احتیاط“ اس معاملہ میں بھی کس طرح دامن گیر رہی؟ اس کی خبر سب ہی کو ہے۔ اگر ”حکمت ازلیہ“ نے صدیقی احتیاط کے ساتھ فاروقی فراست کا حسین امتزاج نہ کردیا ہوتا تو نہیں کہا جاسکتا کہ صورت حال کیا ہوتی؟
علوم اسلامیہ کے ارتقائی مزاج سے ناآشنا اور اردو تراجم پڑھ پڑھ کر چہاردہ صد سالہ امت کے علی الرغم ”قرآنی بصیرت“ کی ”غلط پنداری“ کے مریضوں کے لئے کیا اس واقعہ میں عبرت کا کوئی سامان نہیں؟ جس دور میں خود قرآن کی جمع و ترتیب ہی پر بمشکل آمادگی ظاہر ہوتی ہے، انہیں سوچنا چاہئے کہ وہ تدوین حدیث کا دور ہوسکتا ہے؟ جن اصحاب بصیرت کو ابھی تک قرآن کے یکجا کردینے میں تأمل ہو، اگر وہ حدیث کا کوئی مجموعہ مرتب نہ کریں، یا کئے ہوئے کو غایت احتیاط کی بنا پر تلف کردیں، ان کے اس طرز عمل سے کیا حدیث کا ناقابل قدر ہونا کوئی عقل مند تسلیم کرسکتا ہے؟ اور کیا تدوین قرآن کی بھی قریب قریب وہی نوعیت نہیں ہوجاتی جو تدوین حدیث کی ہے؟ اندریں صورت کیا انکار حدیث سے انکار قرآن ہی کا راستہ تیار نہیں ہوتا؟
الیس منکم رجل رشید۔ نعوذ باللہ من الزیغ ومن ان نُضِلَّ او نُضَلَّ۔
بخاری شریف میں کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
”یمامہ میں قرا ٴ صحابہ رضی اللہ عنہم کے شہید ہوجانے پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے پیغام بھیج کر بلایا، میں حاضر ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے، حضرت ابوبکر فرمانے لگے: عمر میرے پاس آئے اور کہا: ” جنگ یمامہ میں بکثرت قرا ٴ قرآن شہید ہوگئے ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر دوسرے مواقع میں بھی قرآن کے حافظ اسی طرح شہید ہوتے رہے، تو قرآن کا بہت سا حصہ ان کے ساتھ ہی نہ جاتا رہے۔ میری رائے ہے کہ آپ قرآن کی یکجا تدوین کا حکم دیں“۔ میں نے (ابوبکر رضی اللہ عنہ نے) عمر سے کہا :
”کیف تفعل شیئاً لم یفعلہ رسول اللہ ا“
ترجمہ:…”تم ایسا کام کیسے کرسکتے ہوجو آنحضرت ا نے نہیں کیا۔“
اس کے جواب میں عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بخدا یہ کام سراپا خیر ہے (منشا ٴ نبی کے خلاف نہیں)“ پس عمر رضی اللہ عنہ بار بار مجھ سے اس مسئلہ میں گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی اس کے لئے شرح صدر نصیب فرمایا اور مجھے بھی اسی میں خیر نظر آنے لگی، جس طرح عمر کی رائے تھی…“ الی آخر القصہ۔
الغرض حضرت ابوبکر ہر معاملہ میں کامل حزم اور نہایت احتیاط کے ساتھ منشا ٴ خداوندی کے پورا کرنے کی سعی فرماتے، لیکن باایں ہمہ اپنی ذات کے لئے یا اپنے نفس پر ایک لمحہ کے لئے بھی اعتماد نہ فرماتے، گویا نفس کے بارے میں ان کا نظریہ ٹھیک وہی نظریہ تھا جسے قرآن کریم نے یوسف صدیق علیہ السلام کی زبانی نقل کیا ہے :
”وَمَا اُبَرِّیٴُ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارُةٌ م بِالسُّوْءِ“ (یوسف:۵۳)
ترجمہ:…” میں اپنے نفس کو بری نہیں کہتا، اس میں کیا شک ہے کہ نفس کا کام برائی ہی کا مشورہ دینا ہے۔

اس لئے تفسیر قرآن کے معاملہ میں بھی ان کا یہی احتیاطی جذبہ ممکن ہے کہ تعلیل کا باعث ہوا ہو؟ تاہم جتنا ذخیرہ بھی تفسیری روایات کا ان سے منقول ہے، اگر گہری بصیرت کو کام میں لایا جائے تو جزئیاتی حیثیت سے اگرچہ قلیل ہے، لیکن کلیاتی رنگ میں وہ بیش بہا ہے۔

حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے تفسیری اصول


شرح اس اجمال کی یہ ہے کہ علم تفسیر کے جزئیات اگرچہ درجہٴ شمار سے خارج ہیں، لیکن یہ تمام جزئیات چند کلیات کی طرف راجع ہیں جن کو علم تفسیر کے اصول موضوعہ کہنا چاہئے۔ حضرت صدیق سے جو چند تفسیری روایات نقل کی گئی ہیں ان میں علم تفسیر کے ان ہی اہم اصول کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، کاش ان ”صدیقی اصول“ کے ساتھ اس ”صدیقی ذوق“ کو اگر ملحوظ رکھا جاتا تو کم از کم تفسیر قرآن کے سلسلہ میں وہ جرأتیں ظاہر نہ ہوتیں جو مدت سے غیر ذمہ دار طبقات کی طرف سے ظاہر ہورہی ہیں۔

تفسیر بالرائے سے اجتناب


پہلا تفسیری اصول یہی ہے کہ قرآن کی شرح و تفسیر کرنے والا اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی اہلیت رکھتا ہو کہ کسی مقام پر بھی وہ اپنی خواہش اور ہوا کے ساتھ کتاب اللہ کو ملوث کرنے کی جرأت نہ کرے، کسی بھی آیت پر بحث کرتے ہوئے وہ حق تعالیٰ کی مراد واضح کرنے کے بجائے اپنے ذاتی رجحانات و اوہام کی ترجمانی شروع نہ کردے، اس میں کم از کم اتنی اہلیت اور امانت موجود ہو کہ قرآن جو کچھ سمجھانا چاہتا ہے اسے بیان کرنے کی جگہ ”جہاں تک میں سمجھا ہوں“ کی منطق استعمال نہ کرنے لگے، قرآن کی جس آیت پر وہ کلام کرنا چاہتا ہے، اسے معلوم ہو کہ مجھ سے پہلے اس کا کیا مفہوم لیا گیاہے؟ لغت عرب سے اس کے کیا معنی متعین ہوتے ہیں؟ اس کے سیاق و سباق سے کیا مطلب واضح ہوتا ہے؟ قرآن مجید میں یہ مضمون کس کس جگہ آیا ہے؟ اور اسے کن کن عنوانات سے بیان فرمایا گیاہے؟ اس آیت کا جو مفہوم میں نے سمجھا ہے وہ کسی شرعی قاعدہ سے تو نہیں ٹکراتا؟ اس سے کسی نص کی تکذیب تو نہیں ہوجاتی؟ الغرض جب تک کسی آیت کے اطراف و جوانب، شریعت کے قواعد و ضوابط اور امت کے عقائد و اجماعات پر اس کی نظر نہ ہو ، محض ظن و تخمین اور ہوا و ہوس سے کسی آیت کو خود ساختہ معنی پہناکر نامہٴ عمل سیاہ کرتے چلے جانا، قرآنی خدمت نہیں بلکہ ”دروغ بافی“ ہے۔

کون نہیں جانتا کہ اگر کسی وقت صدر مملکت کی ترجمانی کے فرائض پر کسی کو مأمور کردیا جائے، تو اس پر کس قدر نازک ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے؟ اس کو زبان و لغت پر کتنا عبور درکار ہوگا؟اسے ”شاہی محاورات“ پر کتنی گہری نظر رکھنی ہوگی؟ اسے فصاحت و بلاغت کی کن کن نزاکتوں کا لحاظ رکھناہوگا؟ اسے صدر مملکت کے ذاتی احساسات و رجحانات، لب و لہجہ، طرز خطاب کو کس حد تک نبھانا ہوگا؟ پھر ذرا سی غلط بیانی اور ”الٹی تعبیر“ پر کتنا خطرہ درپیش ہوگا؟ اگر ایک معمولی حاکم کی ترجمانی میں ان امور کا لحاظ رکھنا باتفاق عقلأ مسلم ہے، تو سوچنا چاہئے کہ ”شہنشاہ مطلق“ اور احکم الحاکمین کی ترجمانی کن کن نزاکتوں کی حامل ہوگی؟ اگر آپ غور کریں گے تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد میں اسی اصول کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے جس کو سورہٴ عبس کی تفسیر میں تقریباً سب ہی مفسرین نے ذکر کیا ہے یعنی اس سورت میں” ابًا “ کا لفظ جو آیا ہے۔ پوچھنے والوں نے حضرت صدیق  سے اس کے معنی دریافت کئے، سننے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیس سالہ شاگرد سے سن رہے تھے:
”ای سماء تظلنی و ای ارض تقلنی ان قلت فی کتاب اللہ ما لا اعلم۔“
(تفسیر ابن کثیر ج:۱ ص:۵)
ترجمہ:…” مجھے کون سا آسمان سایہ دے گا؟ اور مجھے کون سی زمین اٹھائے گی؟ اگر میں اللہ کی کتاب میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں۔“
میں اسی کو حضرت صدیق کے ”پہلے تفسیر اصول“ سے تعبیر کررہا ہوں جس کا حاصل یہی ہے کہ کتاب اللہ کی تفسیر کے لئے جس قدر ذرائع علم درکار ہیں، جب تک ان کی اہلیت پیدا نہ کرلی جائے اس وقت تک قرآن کی کسی آیت کے معنی اور مفہوم کو متعین کرنے کی جرأت کرنا”تفسیر بالرائے“بلکہ اصطلاح نبوت میں ”قول بالرائے“ ہے جو مطلقاً حرام اور مستوجب وعید ہے۔ آنحضرت ا کا مشہور ارشاد ہے:
”من قال فی القرآن برأیہ او بما لا یعلم فلیتبوأ مقعدہ من النار۔“
ترجمہ:…” جس نے قرآن میں بدون علم کے یا محض رائے سے کوئی بات کہی، اسے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنانا چاہئے۔

کیا آج بھی اس وعید نبوی اور ذوق صدیقی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے؟ آج ہر بدعتی اپنی بدعت کے لئے، ہر ملحد اپنے الحاد کے لئے، ہر زندیق اپنی ہرزہ سرائی کے لئے،ہر بازی گر اپنی شعبدہ بازی کے لئے، اللہ کی اسی پاک کتاب کو استعمال کرتاہے۔ کسی کو بھول کر بھی خیال نہیں آتا کہ ان تمام خرافات کو کتاب اللہ کی طرف منسوب کرنا بھی کوئی جرم ہوسکتا ہے؟ حضرت ابن عمر فرمایا کرتے تھے:” تعلمنا الایمان ثم تعلمنا القرآن“۔یعنی ”ہم نے پہلے ایمان سیکھا تھا پھر قرآن سیکھا تھا۔“ آج ایمان اور قرآن سیکھنے کی زحمت گوارا کئے بغیر گھر گھر ”قرآنی مبصر“ پیدا ہورہے ہیں۔

حافظ سیوطی رحمہ اللہ دسویں صدی میں ان نام نہاد قرآنی مبصرین کا ماتم کررہے ہیں:
”والمبتدع لیس لہ قصد الا تحریف الآیات و تسویتھا علی مذھبہ الفاسد۔ بحیث انہ متی لاح شاردة من بعید اقتنصھا او وجد موضعا لہ فیہ ادنی مجال سارع الیہ…و الملحد فلا تسأل عن کفرہ و الحادہ فی آیات اللہ تعالیٰ و افتراء ہ علی اللہ ما لم یقلہ “۔ (الاتقان: النوع الثمانون ص:۱۹۰)
ترجمہ:…” اہل بدعت کی تمام تر ہمت اس پر لگی ہوئی ہے کہ آیات کی تحریف کی جائے اور ان کو اپنے فاسد مذہب پر منطبق کیا جائے، اسے جہاں کہیں دور سے بھی کوئی بکھری ہوئی چیز نظر آجاتی ہے، اسے فوراً اچک لیتا ہے، یا کہیں اسے ذرا سی گنجائش بھی ملتی ہے، اس کی طرف لپک جاتا ہے۔ رہا ملحد سو اس کے کفر، آیات اللہ میں کجروی، اور اللہ پر افترأ پردازی کا حال تو ناگفتہ بہ ہے۔“

آج کون ہے جو اس امام کے مزار پر جاکر اطلاع کرے کہ آپ کے بعد کی چار صدیوں نے ”انسانی مزاج“ میں کتنی تبدیلی کرڈالی ہے۔ چودھویں صدی کے اہل بدعت کی غباوت نے کتاب اللہ کی کس قدر آیات کو تحریف کا تختہٴ مشق بنا ڈالا ہے؟ اور اس دور کے ملحدین، کفر و الحاد اور جرأت افترأ علی اللہ میں کن کن حدود کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں؟ قرآن حکیم نے،کتاب اللہ کے محکمات سے بے رخی کرتے ہوئے متشابہات کی پیروی کرنے والوں اور ان کو غلط معنی پہناکر فتنہ جوئی کرنے والوں کے ”قلبی زیغ“ اور ”ذ ہنی کجی“ کی اطلاع دی تھی۔ دور حاضر کے مغرب زدہ زائغین قرآن کو اول سے آخر تک مسخ کردینے والے اور سیزدہ سالہ اسلام کو منہدم کر کے اس کے کھنڈرات پر الحاد و زندقہ کی بنیادیں استوار کرلینے کے سودائے خام میں مبتلا ہیں۔
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔
بہرحال حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد میں جو اوپر نقل کرچکا ہوں، اسی قسم کی بے باکیوں کی پیش بندی فرمائی گئی ہے، یعنی جب تک پوری تحقیق قرآن کی کسی آیت کے متعلق آدمی کو نہ ہو اس وقت تک اس کے لئے جائز نہیں کہ اللہ کی کتاب پر ظن و تخمین کا غلاف چڑھائے۔ حضرت صدیق  سے دوسری روایت جو اسی مضمون کی منقول ہے وہ اس سے واضح تر ہے، یعنی ان سے کسی آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو فرمایا:
”ای ارض تسعنی او ای سماء تظلنی اذا قلت فی کتاب اللہ ما لم یرد اللہ۔“
ترجمہ:…” مجھے کون سی زمین پناہ دے گی؟ یا کون سا آسمان سایہ دے گا؟ جب کہ میں کتاب اللہ میں ایسی بات کہہ ڈالوں جو اللہ کی مراد نہیں۔“

اس روایت میں ” مالم یرد اللہ “ کا لفظ کس قدر علم سے بھرا ہوا، احتیاط میں ڈوبا ہوا، اور عظمت خداوندی سے لبریز ہے۔ مطلب یہ کہ آیت کے ظاہری مفہوم کو بیان کرسکتا ہوں ، لیکن جب تک قرائن و دلائل سے قطعاً ثابت نہیں ہوجاتا کہ جو کچھ میں سمجھا ہوں وہی اللہ کی مراد بھی ہے، آیت کے معنی میں لب کشائی کیسے کروں؟ اگر خدانخواستہ میرے بیان کردہ معنی ”اللہ کی مراد“ کے خلاف ہوئے تو شہنشاہ مطلق کی غلط ترجمانی کی سزا سے بچنے کے لئے آسمان و زمین کا کون سا گوشہ پناہ دے گا؟ ”عجب سلامتی“ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو نصیب ہوئی تھی، اسی آیت کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی قسم کا ارشاد نقل کیا گیا ہے۔ شیخ ابن کثیر ان دونوں حضرات کی روایات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”یہ تمام روایتیں اس پر محمول ہیں کہ یہ دونوں حضرات کیفیت ” اَبَّ “ کا علم قطعی دریافت کرنا چاہتے تھے، ورنہ اتنی سی بات کہ” اَبَّ “ زمین کی سبزی کا نام ہے بالکل ظاہر ہے مجہول نہیں۔“ (ابن کثیر ج :۱ ص:۵)

امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں:

”قولہ تعالیٰ فاکھة و أبًا، الأبُ المرعی المتھیٴ للرعی والجز من قولھم اب لکذا ای تھیا ابا وابابة و ابابا ، واب إلی وطنہ اذا نزع إلی وطنہ نزوعا تھیاء الخ“ (مفردات القرآن ص:۵)
گویا اسی ”ظاہر لایجھل“ کی پوری کیفیت چونکہ واضح نہیں، اس لئے شیخین اس لفظ کی شرح میں ایک حرف کی جرأت نہیں کرتے۔
یہ بحث پوری نہیں ہوئی، سورہٴ نسا ٴ کی آیت میراث میں لفظ کلالہ جو واقع ہوا ہے، کتب تفسیر میں امام بیہقی وغیرہ کے حوالہ سے نقل کیا گیا ہے کہ ”حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے اس کا مفہوم دریافت کیا گیا، اس کے جواب میں علوم نبوت کے حافظ، اسرار کتاب اللہ کے امین، آنحضرت اکے یار غار و مزار سے کس قدر صداقت آمیز فقرہ سن رہے تھے:
” اقول فیھا برای فان یکن صوابا فمن اللہ و ان یکن خطاء فمنی و من الشیطان و اللہ و رسولہ بریئان منہ۔الکلالة من لا ولد لہ ولا والد۔“ (تفسیر ابن کثیر ج:۱ ص:۴۶)
ترجمہ:…” میں اس میں رائے سے ایک بات کہتا ہوں، اگر درست ہوئی تو اللہ کی جانب سے ہوگی، اور اگر غلط ہوئی تو میری جانب سے اور القا ٴ شیطان کی وجہ سے ہوگی۔ اس صورت میں اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہوں گے۔ (کلالہ) سے مراد وہ شخص ہے جس کانہ بیٹا ہو نہ باپ۔“
کلالہ سے مراد اس آیت میں وہ شخص ہے جس کے نہ اصول ہوں نہ فروع۔
شیخ ابن کثیر فرماتے ہیں:
”یہی تفسیر عمر،علی، ابن مسعود، ابن عباس، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ شعبی، نخعی ، قتادہ، جابر بن زید اور حکم کا یہی قول ہے، اہل مدینہ ، اہل کوفہ ، اہل بصرہ اسی کے قائل ہیں۔ فقہا ٴ سبعہ، ائمہٴ اربعہ اور جمہور سلف و خلف کا بلکہ تمام سلف و خلف کا یہی قول ہے، بہت سے اکابر نے اس پر پوری امت کا اتفاق نقل کیا ہے۔” و ورد فیہ حدیث مرفوع “ (تفسیر ابن کثیر  ج: ۱ ص:۴۶۰)
یہ تفسیر جس پر بقول ابن کثیر جمیع سلف و خلف کا اتفاق ہے ظاہر ہے کہ اس میں کسی دوسرے معنی کا احتمال اجماع امت کے بعد کب باقی رہ جاتاہے؟
لیکن اسی کو جب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، تو احتیاط و حزم کے سارے سامان جمع کر لیتے ہیں۔ اس لئے کہ انہوں نے جہاں آنحضرت ا سے (بقول ابن عمر) ایمان اور قرآن سیکھا تھا، وہیں کتاب اللہ کی عظمت اور اس کی ترجمانی کی نازک ذمہ داری بھی سیکھی تھی۔ یہ روایت جس کا حوالہ اوپر عرض کیا گیا ہے، اس کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب تک اسے سامنے نہ لایا جائے، یہ بحث تشنہ رہے گی۔ یعنی روایت کرنے والوں نے اس صدیقی طرز عمل کے بعد جو ”فاروقی اسوہ“ نقل کیا ہے وہ مستقل ”تفسیری اصول“ ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
” فلما ولی عمر قال : انی لاستحیی ان اخالف ابابکر فی رأی رأہ۔“ (تفسیر ابن کثیر ج:۱ ص:۴۰)
ترجمہ:…” پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو فرمایا: بخدا مجھے حیا آتی ہے کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی (اس تفسیری) رائے کے خلاف کروں۔“
سلف کی تفسیر کے خلاف اختراعی نظریات قرآن سے ثابت کرنے والے اور ”میں یہ سمجھا ہوں“ کے مراقی خبط میں مبتلا ہونے والوں کے لئے تازیانہٴ عبرت ہے، جس کے لئے زبان وحی سے ” ان اللہ جعل الحق علی لسان عمر و قلبہ“ صادر ہوا۔
ڈیڑھ درجن سے زیادہ آیات میں آسمانی وحی نے جس کی نہ صرف مضمون میں بلکہ بعض مرتبہ الفاظ میں بھی موافقت کی تھی، ان کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلاف کرنے سے حیا آتی ہے۔آج صحابہٴ کرام ، تابعین ، ائمہ اور مفسرین ، الغرض چہاردہ سالہ امت بلکہ (خاکم بدہن) خود امت کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت قرآن پڑھ پڑھ کر کرنے والوں کے متعلق سوچتا ہوں کہ ان کی شرم و حیا سے گردن کیوں نہیں جھکتی۔
صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم پر تبرا، ائمہ پر استہزا ٴ، پوری امت پر تمسخر کرنے والے ”قرآنی مبصرین“ میں مادہٴ حیا پیدا ہی نہیں کیا گیا، یا وہ اسے کسی دوسرے کام میں لاتے ہیں۔ (ماہنامہ دارالعلوم دیوبند مارچ ۱۹۶۵ء)


ثانی اثنین کا مصداق کون ( حصہ دوم)

لفظ ِ ثانی اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ


قارئین کرام ! حصہ اول میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے ثانی فی الغار کا مسئل ذکر کیا گیا ہے ۔ اب ہم اس چیز کی وضاحت پیش کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ثانویت(ثانی ہونے کی) کی خصوصیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سے دیگر مقامات میں بھی حاصل ہوئی مثلاً

 ثانی فی الاسلام  ، قبول اسلام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ       عنہا کے بعد دوسرے شخص ہیں

 ثانی فی الہجرہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ہجرت کرنے میں آپ رض دوسرے درجہ میں ہیں

 ثانی فی عریش ِبدر ، مقامِ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار کیے جانے والے عریش میں آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں بیٹھنے والے دوسرے شخص ہیں( عریش ” چھاتہ “ کو کہتے ہیں )

 ثانی فی الامامہ باالصلوۃ ، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں نماز کی امامت کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دوسرے درجہ میں ہیں

 ثانی فی مقبرہ النبی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر میں دفن ہونے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دوسرا درجہ ہے

 ثانی فی دخول الجنۃ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق جنت میں داخل ہونے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دوسرے شخص ہونگے

سفر ہجرت اور آیت غار کے متعلق شیعہ اکابر کے بیانات


سابقہ سطور میں میں نے ثانی اثنین کے مصداق کے حوالہ سے چند چیزیں ذکر کی ہیں ۔ جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سفر ہجرت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ حضرت ابوبکر صدیق بن ابو قحافہ رضی اللہ عنہ ہی تھے ۔اس کے بعد اسی سفر ہجرت اور آیت غار کے متعلق شیعہ اکابر کے بیانات ذکر کیے جارہے ہیں جن میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس مبارک سفر میں معیت اور مصاحبت پائی جاتی ہے ۔ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک سفر ہونا ثابت ہو تا ہے ۔ اور اسلام کا یہ مبارک سفر بڑی اہمیت کا حامل ہے
۔
اس سلسلہ میں چند ایک حوالہ جات شیعہ حضرات کی کتب سے پیش کیے جاتے ہیں تا کہ اصل واقعہ کی صحت کے ثبوت میں کوئی اشتباہ نہ رہے
اور فریقین کے بیانات کے ذریعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عظمت کا مسئلہ ازرُؤئے قرآن پختہ ہو جائے

شیعہ کے مشہور قدیم مفسر شیخ ابوعلی الفضل بن حسن الطبری اپنی تفسیر مجمع البیان میں آیت غار کے تحت بیان کرتے ہیں

الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ ۔ معناہ ان لم تنصرو الی علی القتال قتال العدو فقد فعل اللہ بہ النصر اذا خرجہ الذین کفروا من مکہ فخرج یرید المدینہ ثانی اثنین یعنہ کان ھو ابوبکر اذھما فی الغار ولیس معھما ثالث ای وھو احد اثنین ومعناہ فقد نصرہ اللہ منفردا من کل شیء من ابی بکر والغار ۔ ۔ ۔ الخ
اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کے قتال پر اگر تم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ کرو گے تو اللہ نے اپنے نبی کی مدد کی ۔ جبکہ کفار نے نبی کو مکہ سے نکالا اور آپ مدینے کا ارادہ کر کے نکل پڑے ۔ ثانی اثنین یعنی پیغمبر اورحضرت ابوبکر تھے ۔ جبکہ دونوں غار میں تھے ۔ ان دونوں کے ساتھ تیسرا نہیں تھا ۔ معنیٰ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کی مدد کی درآں حالیکہ وہ سوائے ابوبکر کے سب سے منفرد تھے ۔ اور جبل میں ایک بڑا شگاف تھا ۔ اس سے مراد غار ثور ہے جو کے مکہ کے پہاڑ میں ہے ۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہ رہے تھے کہ غم نہ کھا نہ خوف کر اللہ ہمارے ساتھ ہے

تفسیر مجمع البیان الطبرسی ص 504 تحت آیت غار پ10 طبع قدیم ایران

شیعہ کے شیخ الطائفہ ابو جعفر الطوسی اپنی تفسیر امالی میں حضرت انس بن مالک کی روایت نقل کرتے ہیں
قال لما توجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی الغار ومعہ ابوبکر ۔ ۔ الخ

یعنی انس بن مالک کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار کی طرف متوجہ ہوؤئے تو ان کے ساتھ ابوبکر تھے ۔ اس پر نبی اکرم نے حضرت علی کو حکم دیا کہ ان کے بستر پر سو جائیں اور آپ کی چادر اوڑھ لیں
امالی للشیخ الطوسی ص 61 ج 2 طبع نجف اشرف

شیخ طوسی واقعہ ہجرت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آگے چل کر لکھتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر چلے گئے تو ہند (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب تھے عنی حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے پہلے شوہر سے فرزند)اور حضرت ابوبکر کے پاس جا پہنچے ۔ اور انہیں اٹھایا اور وہ دونوں آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے حتیٰ کہ یہ سہ حضرات غار تک جا پہنچے اس کے بعد ہند مکہ کی طرف واپس آگیا ۔ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسکو واپسی کا حکم دیا ۔ اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر غار میں داخل ہو گئے
امالی للشیخ الطوسی ص 81 ج 2 طبع نجف اشرف 

(جاری ہے)


Saturday, 19 November 2011

ثانی اثنین کا مصداق کون ؟



السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

معزز قارئین کرام !

شیعہ حضرات جہاں بغض صحابہ میں بہت سارے حقائق کو جھٹلاتے وہاں پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ثانی اثنین کے مصداق نہیں ہیں ۔ بلکہ اس کے مصداق عبداللہ بن اریقط ہیں ۔

قارئین کرام میں یہاں کوشش کروں گا کہ صحابہ کرام کی زبانی یہ بات واضح کر سکوں کہ ثانی اثنین کے مصداق سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی ہیں ۔ انشا ءاللہ ۔ 


سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اللہ نے اپنے کلام مجید میں ثانی اثنین سے ذکر فرمایا ہے ۔ اور یہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے خصوصی فضیلت اور لقب ہے ۔ مفسرین یہاں یہاں ثانیکے لفظ سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات مراد لیتے ہیں ۔ یہ اس کلمہ کا ایک مفہوم ہے لیکن ایک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ثانی اثنین کا لفظ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ یعنی دو شخصوں میں سے دوسرے شخص سمیت کافروں نے نکال دیا ۔ اس صورت میں ثانی سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مراد لینا درست ہے ۔ ذیل میں ایسے قرائن پیش کیے جاتے ہیں کہ جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام اپنے کلام اور تکلم میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ثانی اثنین کے لقب سے یاد فرماتے تھے ۔

اس کی چند ایک مثالیں ۔ ان مقامات سے ظاہر اور ثابت ہو گا کہ ثانی اثنین کا لقب صحابہ کرام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے حق میں صحیح تصور فرماتے تھے

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کلام


حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیعت کرنے کے موقعہ پر ایک کلام کیا تھا ۔ اس میں آں موصوف نے آپ کے صفات شمار کئے

ان ابابکر صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ثانی اثنین و انہ اولی المسلمین بامورکم فقوموا فبایعو ۔ ۔ ۔ الخ

درج ذیل مقامات پر محدثین اور اہل سیرت نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خطبہ کو نقل کیا ہے ملاحظہ ہو

مصنف لعبدالرزاق ص 438-437 باب بداء مرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
بخاری شریف ۔ ص 1702 ج 2 کتاب الاحکام باب الاستخلاف طبع نور محمد
المصنف لابن شیبہ ص 566 ج 14 باب ماجاء فی خلافۃ ابی بکر
سیرت ابن ہشام ۔ ص 661-600 ج 2 تحت خطبہ عمر قبل ابی بکر عند البیعت عامہ


حضرت ابو عبیدہ کا قول


حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پاک کے بعد بیعت کے معاملہ میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بیعت خلافت کے لئے آمادہ کرنا چاہا تو حضرت ابوعبیدہ نے فرمایا :

۔ ۔ ۔ اتبا یعنی وفیکم الصدیق و ثانی اثنین ۔ یعنی تم میرے ساتھ بیعت کرنا چاہتے ہو حالانکہ تم میں الصدیق اور ثانی اثنین موجود ہیں

طبقات ابن سعد ص 128 ج 3 ۔ کنزالعمال لعلی متوی الہندی ص 140 ج 3 طبع اول دکن
حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہما کا قول


تاریخ ابن جریر الطبری ص 209 ج 3 میں طبری نے نقل کیا ہے کہ جس وقت مہاجرین اور انصار میں خلافت کے معاملہ میں گفتگو ہوئی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ میں معذرت چاہی تو اس وقت حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما دونوں نے فرمایا : اللہ کی قسم اس معاملے کا آپ کو چھوڑ کر ہم ( کسی دوسرے کو) والی نہیں بنانا چاہتے کیوں کہ آپ افضل المہاجرین ہیں اور ثانی اثنین ہیں جبکہ دونوں حضرات غار میں تھے اور نماز پر بھی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور قائمقام ہیں ۔ حالنکہ نماز مسلمانوں کے دین میں افضل چیز ہے ۔پس کس کے لئے مناسب ہے کہ وہ آپ سے مقدم ہو سکے ؟ یعنہ آپ سے مقدم ہونا کسی کے لائق نہیں ۔ ۔ ۔

شیعہ علماء کی طرف سے تائید


شیعہ علماء میں ابن ابی الحدید نے اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ طبع قدیم میں بحث ہذا میں حضرت عمر اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے

وہ لکھتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔فقال عمر و ابو عبیدہ ما ینبغی لاحد من الناس ان یکون فوقک انت صاحب الغار ثانی اثنین وامرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم با الصلوۃ۔ فانت احق النسا بھذالامر

یعنی حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خطاب کرتے ہوے فرمایا کہ اس وقت کوئی شخص آپ پر فائق نہیں ہے ۔ آپ صاحب غار ہیں اور ثانی اثنین ہیں ۔ اور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا ۔ پس آپ خلافت کے معاملہ میں سب لوگوں سے زیادہ حقدار اور مستحق ہیں


حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا قول


کنزالعُمال میں بحوالہ خیثمہ بن سلیمان روایت ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ عن حمران قال عثمان ابن عفان ان ابابکر الصدیق احق النا س بہا یعنی الخلافۃ انہ صدیق و ثانی اثنین وصاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تحقیق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلافت کے معاملہ میں زیادہ حقدار ہیں ۔ وہ صدیق ہیں ثانی اثنین ہیں اور وہ صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں

(کنزالعمال لعلی متقی الہندی ص 140 بحوالہ خیثمہ فی فضائل الصحابہ روایت نمبر 2331 ۔ کتاب الخلافۃ۔ طبع اول دکن)

حضرت علی اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما کا قول

جب خلافت و نیابت کے معاملہ میں گفتگو ہوئی تو ان دونوں حضرات نے فرمایا
۔ ۔ ۔ انا نری ان ابا بکر احق الناس بہا ۔ انہ لصاحب الغار و ثانی اثنین ۔ ۔ یعنی حضرت علی اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما مسئلہ خلافت کی بحث میں فرماتے ہیں کہ ہم تمام لوگوں میں سے خلافت کا زیادہ حقدار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جانتے ہیں ۔ کیوں کہ وہ صاحب غار اور ثانی اثنین ہیں
السنن الکبریٰ للبیہقی ص 18 ۔ الاعتقاد علی مذہب السلف للبیہقی ص 179 طبع مصر

حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ کا قول

مسند امام احمد میں یہ واقعہ درج ہے کہ ایک بار ربیعہ بن کعب الاسلمی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کا ایک نخلہ ( کھجور) کے متعلق وقتی طور پر تنازع پیش آیا تھا ۔ ربیعہ کے قبیلے کے لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق کچھ شکوہ کرنے لگے تو ربیعہ نے ان کو فہمائش کرتے ہؤے کہا
۔ ۔ ۔ ۔ اتدرون ماھذا ؟ ھذا ابوبکر الصدیق ھذا ثانی اثنین ھذا ذو شیبہ المسلمین ۔ ۔ ۔الخ

یعنی ربیعہ نے کہا کیا تم جانتے کہ ان کا کیا مقام ہے ؟
یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ یہ ثانی اثنین ہیں ۔ یہ مسلمانوں کے شیخ اور بزرگ ہیں ۔ ۔الخ
مسند امام احمد ص 58-59 ج رابع تحت مسندات ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اشعار

روایات کی کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان بن ثابت کو فرمایا : کہ تو نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی کچھ اشعار کہے ہیں تو کہو تا کہ ہم بھی سن لیں ۔ تو حسان کہنے لگے

وثانی اثنین فی الغار ا لمنیف
وقد طاف العدو بہ اذ صعد الجبلاء
وکان حب رسول اللہ قد علموا
من البریہ لم یعدل بہ زجلا

( دیوان حسان ص 240 طبع مصر ۔ ازالہ لشاہ ولی اللہ ص 99 جلد اول تحت مسند حسان بن ثابت)

ان اشعار کا مفہوم یہ ہے کہ ۔ بلند غار میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دو شخصوں میں سے دوسرے تھے اور جب یہ پہاڑ پر چڑھے تو دشمن نے اس غار کا چکر لگایا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے محبوب ہیں ۔ اور لوگوں نے یقین کر لیا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو ان کے برابر نہیں قرار دیا ۔ ۔

مختصر یہ کہ صحابہ کرام اپنی گفتگو اور کلام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ثانی اثنین کے لقب سے ذکر کرتے تھے یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ثانی درجہ میں ہیں ۔ اور کلمہ ثانی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی مراد ہیں

قاعدہ :


قاعدہ ہے کہ باب تفسیر میں اقوال‌صحابہ کرام حجت قرار دئیے جاتے ہیں ۔ فلہذا ثانی اثنین کے مفہوم کی وضاحت صحابہ کرام کے مندرجہ بالا اقوال حجت شرعی کے درجہ میں ہیں ۔ اس لئیے یہ بات بالکل درست ہے کہ اس مقام ثانی سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں اور یہ ان کا لقب درست ہے اور یہ اُن کی صفت صحیح ہے ۔ اور صحابہ کرام اس چیز کا اعتراف کرتے تھے اور اس میں خلافت صدیق کی طرف اشارہ پاتے تھے



جاری ہے

Thursday, 3 November 2011

آیت اولی الامر کی تفسیر حصہ اول


آیت اولی الامر کی تفسیر 
از مولانا عبدالشکور لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ 

آیت اولی الامر سورہ نساء رکوع ساتواں

ترجمہ : اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اولی الامر ( یعنی صاحبان حکومت کی) جو تم میں سے ہوں پھر اگر تم ( یعنی رعیت اور صاحبان حکومت) ٓپس میں اختلاف کرو سکی بات میں تو اسکو رجوع کرو اللہ اور اس کے رسول کی طرف اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ اور روز آخرت پر ۔ یہ بہتر ہے اور بہت خوب ہے باعتبار انجام کی۔


تراجم علمائے اہلسنت و شیعہ

۱ :. . حضرت شیخ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اسکا ترجمہ لکھتے ہیں ’’ اے مومناں فرمانبرداری کنید خداراو فرمان برداری پیغامبر راو ’’فرمان روایان‘‘

از جنس خویش پس اگر اختلاف کنید در چیزے پس رجوع کنید اور بسوئے خدا و پی غامبر اگر اعتقاد کنید بخدا روز آخر ایں بہتر است ونیکو تر باعتبار عاقبت‘‘

۲:.... حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں ’’ اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اورجو ’’اختیار والے ‘‘ ہیں تم میں سے ۔ پھر اگر جھگڑپڑو کسی چیز میں تو اسکو رجوع کرو اللہ اور رسول کی طرف اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور پچھلے دن پر یہ خوب ہے اوربہتر تحقیق کرنا ۔‘‘

یہ دونوں ترجمے علمائے اہلسنت کے تھے اب دو ترجمے علمائے شیعہ کے بھی ملاحضہ ہوں :

۳:... شیعہ مولوی فرمان علی جن کا ترجمہ قرآن شیعوں کو اتنا پسند آیا کہ اس کاترجمہ انگریزی میں بھی کیا گیا اس آیت کا ترجمہ یوں لکھتے ہیں ’’ اے ایمان دارو خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں سے ’’ صاحبان حکومت‘‘ ہوں انکی اطاعت کرو اور اگر تم کسی بات پر جھگڑ ا کرو پس اگر تم خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس امر میں خدا ور رسول کی طرف رجوع کرو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اور انجام کی راہ سے بہت اچھا ہے ۔


۴:... شیعہ مولوی مقبول احمد دہلوی اپنے مشہور ترجمہ قرٓن میں لکھتے ہیں ’’ اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول اور ’’ ان والیان امر ‘‘ کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں پھر اگر کسی معاملہ میں تم میں آپس میں جھگڑا ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو بشرطیکہ تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو یہی سب سے بہتر اور عمدہ تاویل ہی۔


آیت کی صحیح تفسیر


اس آیت کا مطلب بالکل واضح ہے صاف بات ہے کہ حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اللہ و رسول اور ان اولوالامر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہوں یعنی مسلمان ہوں اور یہ بھی فرمایا کہ اولوالامر اور رعیت میں اگر کوئی اختلاف پیدا ہو جائے تو اس اختلاف کا تصفیہ اللہ اور رسول یعنی قرآن و سنت سے کرانا چاہیئے اور تصفیہ کی اس صورت کو اس قدر ضروری قرار دیا کہ فرمایا اگر تمہا را ایمان اللہ پر اور قیامت پر ہے تو ضرور تم ایسا ہی کرو گے یہ بھی فرما یا کہ ایسا کرنے میں تمہارے ہر طرح کی بھلائے ہے اور اسکا نتیجہ بہت اچھا نکلے گا ۔

oاس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول کی اطاعت ہر حال میں واجب ہے اور ان سے نزاع کرنا حرام ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت ایک ہی چیز ہے لفظ دو ہیں مگر مصداق ایک ہی ہے چنانچہ اسی سورت میں آگے چل کر فرمایا ’’ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ‘‘ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے یقینا اللہ کی اطاعت کی ۔ ان دونوں اطاعتوں کا متحد ہونا محض اس سبب سے ہے کہ رسول معصوم ہوتے ہیں ان کا خلا ف حکم الٰہی کوئی بات صادر ہی نہیں ہو سکتی ’’ ما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ ‘‘ یعنی رسول ہوائے نفسانی سے کوئی بات نہیں فرماتے ان کی ہر بات وحی الٰہی ہوتی ہے ۔
دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ اولی الامر کی اطاعت ہر حال میں واجب نہیں اگر ان کا کوئی حکم خلاف قرآن وسنت ہو اسکی اطاعت نہ کی جائے گی حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’ لا طاعتہ لمخولق فی معصیۃ الخالق‘‘ یعنہ خالق کی نافرمانی ہوتی ہو تو پھر مخلوق کی اطاعت جائز نہیں اس لیئے اولی الامر اسے نزاع اور نزاع سے فیصلہ کا طریقہ بیان فرما دیا تھا ۔
اب یہاں دو باتیں سمجھ لینی چاہیئں :

اول: .... یہ کہ اولوالامر کے کیا معنی ہیں اور کون کون لوگ اس سے مراد ہو سکتے ہیں


دوم : ..... یہ کہ اولوالامر کی اطاعت کا حکم کیوں دیا گیا خصوصاََ جب کہ الولی الامر معصوم بھی نہیں اور اسکا معصوم نہ ہونا اسی سے ظاہر ہے کہ اس سے نزاع کی اجازت دی گئی۔


امر اول کی توضیح :.... اولوالامر کے معنیٰ ازروئے لغت عرب صاحب حکومت کے ہیں الہٰذا جس شخص کو کسی قسم کی حکومت حاصل ہو اسکو اولولامر کہیں گے ۔ حکومت دو قسم کی ہوتی ہیں ۔ ایک حکومت عامہ جیسے بادشاہ وقت کی حکومت کہ اس کی تمام رعایا کو شامل ہے ۔ دوسری حکومت خاصہ جیسے افسران فوج یا حکام صوبہ یا قاضیوں کی حکومت کہ ان کی اپنی اپنی فوج یا صوبے یا شہر کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے ان سب کو اولوالامر کہتے ہیں ۔ اسی وجہ سے علمائے مفسرین نے اولوالامر کی
تفسیر میں تین قول بیان کیے ہیں

۱:.... یہ کہ اس سے سرداران فوج مراد ہیں ۔ہر فوج کو اپنے سردار کی اطاعت واجب ہی۔

۲:... یہ کہ اس سے خلیفہ وقت مراد ہے اس تفسیر کی بان پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا گیا ہے ۔
۳: .. یہ کہ علماء اور فقہاء مراد ہیں ۔
ان تینوں قولوں میں کوئی اختلاف نہیں تینوں مراد ہو سکتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کی اطاعت اپنے اپنے درجہ میں واجب ہے ۔

تفسیر درمنثور میں ہے :


اخرج البخاری و مسلم و ابو داود و الترمذی و النسائی و ابن جریر و ابن المنذر و ابن ابی حاتم و البیہقی فی الدلائل من طریق سعید بن جبیر عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ اطیعواللہ واطیعوالرسول واولی الامر منک قال نزلت فی عبداللہ بن حذافۃ بن قیس اذ بعثہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سریۃ واخرج ابن جریر عن میمون بن مھرا فی قولہ واولی الامر منکم قال اصحاب السرایا علی عھدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم


ترجمہ :۔ بخاری اور مسلم اور ابودائو اور ترمذی اور نسائی اور ابن جریر اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے دلائل نبوت میں بروایت سعید بن جریر ابن عبا سے اللہ تعالیٰ کے قول ’’ واطیعواللہ واطیعو الرسول واولی الامر منکم ‘‘کے متعلق روایت کیا ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن حذافہ بن قیس کے بارہ میں نازل ہوئی تھی جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو ایک چھوٹے لشکر کا سردار بنا کر بھیجا تھا اور ابن عساکر نے بروایت سدی ابو صالح سے انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ار ابن جریر نے میمون بن مہران سے اللہ تعالیٰ کے قول اولی الامر کے متعلق روایت کیا ہے کہ اس سے مراد وہ افسران فوج ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مقرر تھی۔


ان روایات سے معلوم ہو ا کہ یہ آیت ان سرداران فوج کے بارہ میں نازل ہوئی ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مقرر ہوا کرتے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض مہم پر کسی دوسرے کو سردار فوج بنا کر بھیج دیتے تھے خود تشریف نہ لے جاتے تھے۔ لہٰذا حکم ہوا کہ فوجی لوگ اپنے سرداروں کی کی اطاعت کریں ۔

شان نزول تو یہی ہے مگر چونکہ الفاظ آیت عام ہیں۔اور اصول تفسیر کا قاعدہ کلیہ ہے کہ ’’ العبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوالسبب ‘‘ لہٰذا اب حکم سرداران فوج کے ساتھ خاص نہ رہے گا بلکہ سرداران فوج کا بھی جو شخص سردار ہو یعنی خلیفہ وقت بدرجہ اولیٰ اس حکم میں شامل ہو گا ۔

تفسیر معالم التنزیل میں ہے :
وقال ابوہریرۃ ھم الامراء والولاۃ وقال عکرمۃ اراد باولی الامر ابابکر و عمر۔حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اولی الامر سے مراد ’’ امیر اور والی یعنی خلفاء ہیں ‘‘ عکرمہ کہتے ہیں اولی الامر سے مراد ابو بکر رض اور عمر رض ہیں۔
حضرت ابوبکر رض و عمر رض کے مراد ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ لفظ اولی الامر ان کے لئے مخصوص ہے بلکہ ان کا ذکر محض اس لے کیا گیا کہ لفظ اولی الامر کے اعلیٰ و اکمل مصداق وہ ہیں۔

نیز تفسیر در منثور میں ہے :
اخرج عبد بن حمید و ابن جبیر و ابن ابی حاتم عن عطاء فی قولہ تعالیٰ اطیعواللہ واطیعوالرسول قال اطاعۃ اللہ والرسول اتباع الکتاب والسنۃ واولی الامر منکم قال اولی الفقہ والعلم واخرج ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والحاکم عن ابن اعباس فی قولہ تعالیٰ واولی الامر منکم یعنی اھل الفقہ والدین اول الطاعۃ الذین یعلمون الباس معانی دینھم ویامرونھم بالمعروف وینھون عن المنکر فاوجب اللہ طاعتھم علی العباد واخرج ابن ابی شیبۃ و عبد بن حمید والحکیم الترمذی فی نوادر الاصول وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والحاکم وصححہ عن جابر بن عبداللہ فی قولہ واولی الامر منکم واخرج ابن ابی حاتم شیبۃ و ابن جریر عن ابی العالیہ فی قولہ واولی الامر قال ھم اھل العلم الاتری الی انہ یقول ولو ردوہ الی الرسول واولی الامر منھم لعلمہ الذین یستننبونہ منھم۔

ترجمہ : عبد بن حمید اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے چطاء سے اللہ تعالیٰ کے قول ’’ اطیعواللہ واطیعوالرسول کے متعلق روایت کیا ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت سے مراد کتاب و سنت کی پیروی ہے اور
اولوالامر سے مراد فقہاء اور علماء ہیں ۔ اور ابن جریر اور ابن منذر اور ابن ابی حارتم اور حاکم نے ابن عباس رض سے روایت کی ہے کہ اولی الامر سے فقہاء اور دیندار عبادت گزار لوگ مراد ہیں جو لوگوں کو دین کی باتوں کی تعلیم کرتے ہیں ۔اور انکو امر معروف و نہی منکر کرتے ہیں ۔ اللہ نے انکی اطاعت بندوں پر واجب کی ہے ۔ اور ابن شیبہ اور عبد بن حمید نے اور حکیم ترمذی نے نوادالاصول میں اور ابن جریر اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم اور حاکم نیروایت کی ہے اور حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ بھی اولی الامر سے فقہاء کو مراد لیتے تھے ۔ اور ابن شیبہ اور ابن جریر نے ابولعالیہ سے روایت کیا ہے کہ اولوالامر سے مراد اہل علم ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ دوسری آیت میں فرمایا ہے کہ اگر وہ رسول اور اپنے اولوالامر کی طرف رجوع کرتے تو جولوگ استنباط کرسکتے ہیں وہ بات سمجھ لیتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل استنباط مراد ہیں اور اوہ اہل علم ہی ہو سکتے ہیں۔

مفسرین کے ان اقوال سے معلوم ہوا کہ ہر درجہ کے حاکموں پر لفظ اولی الامر کا اطلاق ہو سکتا ہے ۔ پس کچھ شک نہ رہا کہ خلیفہ وقت جس کو حکومت عامہ حاصل ہے بدرجہ اولیٰ اس لفظ کا مصداق ہے ، بلکہ جب لفظ اولی الامر بولا جائے گا تو اس کے متبادل معنیٰ خلیفہ ہی کے ہونگی۔
امر دوم کی توضیح :.... اولی الامر سے مراد اگر علماء فقہاء لیے جائیں تو ان کی اطاعت کا حکم اس وجہ سے ہے کہ عوام الناس جو کتاب و سنت کے سمجھنے کی لیاقت یا اتنباط مسائل کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ اگر علماء فقہاء سے دین کی تعلیم نہ حاصل کریں یا انکی تعلیم پر عمل نہ کریں تو ظاہر ہے کہ دین سے بے خبر اور بے تعلق ہو جائیں گی۔
اور اگر اولوالامر سے مراد خلیفہ یا سردار فوج ہو اور یہی مراد ظاہر ہے تو ان کی اطاعت کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ نظام امت کا قیام اور امور سیاست کا انصرام اس کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
مشیت الٰہی میں روز اول سے یہ بات مقرر تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اس لیے ہو گی کہ تمام روئے زمین پر اسلام کی شوکت و سطوت کا جھنڈا نصب ہو اور آپ کے متبعین کسی غیر مسلم قوت کے زیر فرمان ہوکر نہ رہیں ۔ بلکہ وہ خود فرمانروا ہوں اور دین الٰہی کے جلال و جبروت کے سامنے تمام ادیان باطلہ کو سرنگوں کر دیں آیت کریمہ ’’ لیظہرۃ علی الدین کلہ ‘‘ اس کی گواہ ہی۔
پس جب یہ بات پہلے مقرر تھی تو ضروری تھا کہ قرآن شریف میں جس طرح عبادات ماشرت و اخلاق کے اصول تعلیم فرمائے گئے ہیں ۔ اسی طرح سیاست و جہانداری کے اصول بھی ارزاد فرمائے جائیں۔ اور سیاست و جہانداری کے اصول میں سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ تمام اقوام کا شیرازہ متحد ہو۔ سب ایک نظام سے منسلک ہوں اور یہ بات بغیر اس کے حاصل نہیں ہو سکتی کہ قوم کا ایک شخص مقتدا اور صاحب حکم ہو اور باقی اشخاص اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں۔سیاست و جہانداری کی اسی اصل عظیم کی تعلیم آیت مذکورہ میں ہے ۔ اس آیت سے پہلے حکام کو تعلیم دی ہے کہ تم عدل و انصاف پر کاربند رہنا ۔ فرمایا ’’ وَ اِذَا حکَمتم بَین الناس ان تحکموا بالعدل ان اللہ نعما یعظکم بہ

‘‘یعنی تم لوگو ں کے درمیان میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔ تحقیق اللہ کیا اچھی نصیحت تم کو کرتا ہی۔
اس کے بعد آیت مبحوثہ میں محکوموں کو حکام کی اطاعت کا حکم دیا ۔ اس طرح حاکم و محکوم دونوں کے فرائض بیان کئی۔
سیاست و جہانداری تو بڑی چیز ہے ایک گھر کا انتظام بھی بغیر اس کے درست نہیں ہو سکتا کہ اس گھر کے جتنے بھی رہنے والے ہوں سب مل کر اپنے میں سے کسی ایک کو بڑا مانیں اور سب اسکی اطاعت کریں۔ تو بھلا
ایسا ضروری مسئلہ قرآن شریف سے کیوں کر فروگزاشت ہو سکتا تھا

دین اسلام ایسا کامل و مکمل دین ہے کی اس نے فلاح دارین کے اصول تعلیم فرمائے ہیں تو کیونکر ممکن تھا کہ تمدن کا ایسا ضروری مسئلہ نہ تعلیم دیا جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ اطاعت اولی الامر کے متعلق احادیث صحیحہ کا بھی ایک بڑا دفتر ہے جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:

احادیث نبویہ متعلق اطاعت اولی الامر

۱:
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من اطاعی فقد اطاع اللہ وم عصانی فقد عصی اللہ ومن یطع الامیر فقد اطاعنی ومن یعص الامیر فقد عصانی وانما الامام جنۃ یقاتل من ورائہ ویتقی بہ فان امر بتقوی اللہ وعدل فان لہ بذلک اجرا وان قال بغیرہ فان علیہ منہ ( متفق علیہ )
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رض سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس شخص نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر(یعنی حاکم) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ امام یعنی خلیفہ جس کی پناہ میں جہاد کیا سکتا ہے پس اگر وہ تقویٰ کا حکم دے اور انصاف کرے تو یقیناََ اسکو ثواب ملے گااور اگر اسکے خلاف کرے تو اس پر وبال ہو گا ( صحیح بخاری و صحیح مسلم)

ف: یہ جو فرمایا کہ امام مثل ایک سپر کے ہے الخ ۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام یعنی خلیفہ کا مقرر کرنا اس کی اطاعت کا واجب ہونا ان سیاسی و تمدنی مقاصد کے لئے ہے اور بس۔
۲:عن ام الحصین قا ل قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان امر علیکم عبد مجدع یقودکم بکتاب اللہ فاسمعوا لہ واطیعوا ( مسلم)
ترجمہ : حضرت ام حصین سے روایت ہے کہ وہ کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم پر کوئی غلام حاکم بنا دیا جائے ۔ جس کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں وہ تم کو کتاب اللہ کو موافق چلائے اس کا حکم سنو اور اطاعت کرو ( صحیح مسلم)
۳ : عن انس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اسمعوا واطیعوا وان استعمل علیکم عبد حبشی کا ن راسہ زبیبۃ ( بخاری)
ترجمہ: حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا حکم سنو اطاعت کرو اگرچہ تم پر کوئی حبشی غلام عامل بنا دیا جائے ۔ اور وہ ایسا بد صورت ہو گویا اس کا سر انگور کے برابر ہو ( بخاری)
ف: معلوم ہوا کہ اگر غلام بھی خلیفہ ہو جائے تو اس کی اطاعت بھی واجب ہے ۔ ہاں مسلمان ہونا ضروری ہے کیونکہ مقصد خلافت کا یہی ہے کہ کتاب اللہ کے مطابق ہماری قیادت کرے ۔ تیسری حدیث میں ’’ استعمل ‘‘ کے لفظ سے معلوم ہوا کہ ہر حاکم کی اطاعت واجب ہے خواہ وہ خلیفہ ہو یا خلیفہ کا مقرر کیا ہوا عامل ۔
۴: عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم السمع والطاعۃ علی المرء المسلم فیما احب وکرہ مالم یومر بمعصیت فاذا امر بمعصیت فلا سمع ولا طاعۃ ( متفق علیہ)
ترجمہ: حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حکم سننا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان پر واجب تمام باتوں میں خواہ اس کو پسند ہوں یا ناپسند ۔ تاوقتیکہ کہیں گناہ کا حکم نہ دیا جائے ۔ مگر جب گناہ کا حکم دیا جائے نہ سننا واجب ہے نہ اطاعت کرنا ( صحیح بخاری و مسلم)

آیت اولی الامر .... کی تفسیر بیان ہو چکی اب اہل انصاف غور کریں کہ اس آیت سے کس طرح حضرات شیعہ اپنا مدعا ثابت کر سکتے ہیں ۔ آیت میں کونسا لفظ ہے جس سے حضرت علی کی خلافت یا عصمت آئمہ ثابت کی جا سکے ۔
بلکہ اگر سچ پوچھو تو یہ آیت حضرات شیعہ کی ایجاد کیے ہوئے امامت و عصمت کا گھروندہ ہی بگاڑ دیتی ہے ۔ کیوںکہ آیت صاف بتا رہی کہ امام مثل رسول واجب الاطاعت اور معصوم نہیں ورنہ امام سے نزع کی ممانعت فرمائی جاتی ۔ جس طرح رسول سے نزاع کی ممانعت یہ نہ فرمایا جاتا کہ امام اگر کسی بات میں نزع ہو جائے اس کا فیصلہ قرآ ن و حدیث سے کرو ۔ یہ بالکل کھلی ہو ئی بات ہے ۔ جس کا اقرار خود آئمہ شیعہ سے بھی منقول ہے ۔
اب دیکھو شیعہ صاحبا ن کیا فرماتے ہیں اور کس طرح آیت قرآنی کی تحریف کرتے ہیں

جاری