محرم کوفضلیت کس لئے حاصل ہوئی؟
کسی وقت، کسی دن یا مہینہ کو عظمت وفضلیت حاصل ہونے کی اصل وجہ اﷲ تعالی کی خاص تجلیات، انوار و برکات اور رحمتوں میں متوجہ اورظاہر ہوناہے، (لیکن بعض اہم واقعات کا اس وقت میں واقع ہوجانا بھی دوسرے درجہ میں فضلیت کا باعث ہو جاتا ہے جیسا کہ رمضان میں قرآن مجید کا نازل ہونا اور شب قدر وغیرہ کا واقع ہونا وغیرہ) اور فضلیت حاصل کرنے کا طریقہ(اصولی یا جزوی طریقہ پر) وحی کے ذریعہ سے ہی معلوم ہوسکتا ہے، اپنی طرف سے کسی دن یا تاریخ میں خاص فضلیت کی بنیاد اپنی طرف سے کسی اور چیز کو قرار دے دینا یا فضلیت حاصل کرنے کاکوئی خاص طریقہ اپنی طرف سے متعین کر لینا يہ تمام چیزیں ناجائز، گناہ اور شریعت پر زیادتی ہیں۔ لہٰذا جو لوگ يہ سمجھتے ہیں کہ محرم کے مہینے یا دس محرم کے دن کی فضلیت حضرت حسینؓ کی شہادت کی وجہ سے حاصل ہو ئی وہ لوگ غلطی میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ اس مہینہ کی فضلیت تو کربلا کے واقعہ سے بہت پہلے آسمان وزمین کی پیدائش سے ہی چلی آرہی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس وقت کربلا کے واقعہ کا نام ونشان بھی نہیں تھا۔ اسی طرح دس محرم کے دن کی فضلیت بھی بہت پہلے سے چلی آرہی ہے۔ يہاں تک کہ يہودونصاریٰ اور قریش مکہ بھی اس دن کی عظمت و فضلیت کے قائل تھے۔ حضور ﷺنے دس محرم کے روزے کے فضائل بیان فرمائے اور ظاہر ہے کہ اسو قت تک کربلا کا واقعہ پیش نہیں آیا تھا،البتہ يہ کہا جائے گا کہ خود حضرت حسینؓ کی شہادت اس مہینے اور اس دن میں اسلئے واقع ہوئی کہ يہ مہینہ اور دن فضلیت کا تھا ، اﷲ تعالیٰ نے اس مقدس مہینے کے اس مبارک دن کواپنے مقبول بندے حضرت حسینؓ کی شہادت کے واسطے منتخب فرما دیا غرضیکہ اس دن کو حضرت حسینؓ کی شہادت کی وجہ سے کوئی فضلیت حاصل نہیں ہوئی بلکہ خود حضرت حسینؓ کو دن شہید ہونے سے فضلیت حاصل ہوئی۔
بعض نا واقف لوگ ایسے بھی ہیں محرم کے مہینے کو رنج وغم کا مہینہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مہینہ میں کربلا کا سانحہ پیش آیا تھا جس میں حضرت حسین ؓاور دوسری عظیم ہستیوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا تھا لہٰذا يہ مہینہ غم کا ہے اور اسی وجہ سے يہ لوگ اس مہینے میں خوشی کے کام (شادی بیاہ وغیرہ) انجام دينے سے پرہیز کرتے ہیں اور بعض لوگ خوشی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہوئے مختلف قسم کے سوگ کرتے ہیں (مثلاً کالا لباس پہننا، عورتوں کا زیب وزینت اور بناﺅ سنگھار چھوڑ دینا، میاں بیوی کے خصوصی تعلقات سے رکے رہنا، مرثيے پڑھنا، نوحہ ، ماتم کرنا وغیرہ وغیرہ) اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو يہ سمجھ لینا چاہیے کہ يہ خیال بالکل غلط ہے کہ يہ مہینہ غمی کا ہے کیونکہ يہ مہینہ تو بہت محترم اور فضلیت بلکہ عبادت والا مہینہ ہے اور دس محرم کے دن، تاریخ اسلام کے بہت بڑے عظیم اور خوشگوار واقعات رونما ہوئے ہیں اور دوسری بات يہ ہے کہ غمی کا واقعہ پیش آنے سے وہ مہینہ یا دن غم کےلئے مخصوص نہیں ہو جاتا کہ اس میں ہمیشہ غم کیاجاتا رہے اور صدییاں گزرنے کے باوجود اس کو غم کا مہینہ بنائے رکھنا تو بہت بڑی حماقت ہے ۔۔
کیا محرم نحوست کا مہینہ ہے ؟؟؟
بعض لوگ اس مہینہ کو نحوست کا مہینہ سمجھتے ہیں۔زمانہ جاہلیت میں لوگ بعض دنوں بعض تاریخوں اوربعض جانوروں یا انسانوں میں نحوست سمجھتے تھے خاص کر عورت، گھوڑے اور مکان میں نحوست کا زیادہ اعتقاد رکھتے تھے اور آج کل بعض مہینوں (مثلاً محرم ،صفر وغیرہ) اور بعض دنوں، تاریخوں اور جگہوں میں نحوست سمجھی جاتی ہے خاص طور پر جس تاریخ یا جس جگہ میں کوئی حادثہ ، ہلاکت یا کوئی نقصان اورغمی کا واقعہ پیش آجائے اس کو منحوس سمجھاجاتا ہے ،اور واقعہ کربلا کے محرم کے مہینہ میں پیش آجانے کی وجہ سے اسی بنیاد پر محرم کے مہینہ کو بہت سے لوگ منحوس خیال کرتے ہیں يہاں تک کہ جو بچہ محرم کے مہینہ میں پیدا ہوجائے اس کو بھی منحوس خیال کیا جاتا ہے ۔ جبکہ اسلام کے اصولوں اور رسول اﷲ ﷺ کی احادیث سے ثابت ہے کہ کوئی زمانہ یا دن تاریخ اپنی ذات میں منحوس نہیں ہے،غمی کا واقعہ پیش آنے سے زمانہ منحوس نہیں بن جاتا ، اور زمانہ تو اﷲ تعالیٰ کی مخلوق ہے اس کی طرف نحوست یا برائی منسوب کرنا گناہ ہے احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ ايک حدیث قدسی میں ہے :۔
نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ اﷲ تعالی فرماتے ہیں کہ بنی آدم مجھے ایذاء دیتا ہے ( یعنی میری شان کے خلاف بات کہتا ہے اور وہ اس طرح) کہ وہ زمانہ و برا بھلا کہتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہوں (یعنی زمانہ ميرے تابع اور ماتحت ہے) میرے قبضہ قدرت میں تمام حالات اور زمانے ہیں میں ہی رات ودن کو پلٹتا(کم زیادہ کرتا) ہوں ۔
(بخاری، مسلم، ابو داود، موطا امام مالک، مشکوة ص13)
فائدہ:
زمانہ بذات خودکوئی چیز نہیں وہ تو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آیا ہے اوراسی کے حکم سے چلتا ہے، نحوست اگر ہے تو انسان کی بد اعمالیوں یا اپنے خیالات کی بنیاد پر ہے ۔ اول محرم کا مہینہ خود فضلیت والا مہینہ ہےاوراس میں کوئی نحوست نہیں ہے دوسرے حضر حسین ؓ کی شہادت کی وجہ سے اس مہینہ کو غمی یا نحوست کا مہینہ سمجھنے سے يہ لازم آتا ہے کہ نعوذ باﷲ شہادت کوئی بری یا منحوس چیز ہے جبکہ شرعی اعتبار سے شہادت ايک عظیم سعادت والا عمل ہے جو ہرکس وناکس کو بآسانی میسر نہیں آتا، اور شہادت ایسی عظیم سعادت اور دولت ہے جس کی تمنا خود اپنے لئے محمد مصطفےٰﷺ نے بھی کی ہے اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی ہے اور شہید کے لئے بڑے اجروانعام ، اعزاز و اکرام اور بےشمار نعمتوں کی خوشخبری سنائی ہے ۔
شہادت کے فضائل
آیت: ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات، بل احیاءولکن لا تشعرون (البقرہ)
ترجمہ: اور جو لوگ اس کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کی نسبت یوں بھی مت کہو کہ وہ (معمولی مردوں کی طرح) مردے ہیں بلکہ وہ تو (ايک ممتار حیات کے ساتھ) زندہ ہے لیکن تم (ان) حواس سے (اس حیات کا) ادارک نہیں کر سکتے۔
آیت: ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اﷲ امواتا، بل احیاءعند ربھم یرزقون۔ فرحین بما اتا ہم اﷲ من فضلہ۔(آل عمران)
ترجمہ: اور جو اﷲ کے راستے میں شہید ہو جائیں ان کو مردے مت خیال کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے مقرب ہیں ان کو رزق ملتا ہے وہ اﷲ کے فضل میں سے دئيے ہوئے پر خوش ہوتے ہیں۔
ان آیات میں اﷲ تعالی نے شہیدوں کی کئی فضلتیں ذکر فرمائی ہيں۔ ايک يہ کہ شہیدوں کو شہادت کے بعد برزخ میں ہمیشہ کی امتیازی زندگی عطا ہوتی ہے تم ان کو عام مردوں کی طرح مردہ نہ خیا ل کرو دوسری فضلیت يہ ذکر ہوئی کہ شہید اپنے رب کے مقرب ہیں ان کو خصوصی قرب حاصل ہوتا ہے۔تیسری فضلیت يہ ذکر ہوئی کہ شہیدوں کو رزق عطا ہوتا ہے اس پر خوش ہوتے ہیں يہ روحانی رزق يہ یعنی جسمانی و روحانی دونوں قسم کا رزق ملتے ہیں۔ یاد رہے شہید کو شہادت کے بعد جو زندگی عطا ہوتی ہے يہ صرف روح کی زندگی نہیں ہے بلکہ روح کا تعلق جسم کے ساتھ بھی خاص درجہ کا دوسروں سے امتیازی ہوتا ہے ورنہ تو ان کو مردہ کہنے کی ممانعت کو کائی مطلب نہیں کیونکہ روح تو تمام مردوں ہی کی زندہ ہے۔
آیت: ولئن قتلتم فی سبیل اﷲ اومتم لمغفرة من اﷲ ورحمة خیر مما یجمعون (آلعمران)
ترجمہ: اور اگر تم اﷲ کے رساتے میں شہید ہو گئے یا طبعی موت کا شکار ہوئے بہر صورت اﷲ تعالی کی طرف سے حاصل ہونے والی مغفرت اور رحمت (جو اﷲ کے راستے میں حاصل ہوتی ہے) وہ ان چیزوں سے بہتر ہے جو لوگ جمع کرتے ہیں۔
اس آیت میں شہیدوں کو مغفرت اور رحمت حاصل ہونے کی خوشخبری ہے اور اس کا ثبوت ہے کہ دنیا کی مال ودولت اور دوسری چیزوں سے بہتر نعمتیں ان کو حاصل ہوتی ہیں۔
آیت: والذین ھاجروا سبیل اﷲ ثم قتلوا اوماتو الیرزقنہم اﷲ رزقا حسنا، وان اﷲ لھو خیر الرازقین۔ لیدخلنھم مدخلا یرضونہ (الحج)
ترجمہ: اور جنہوں نے اﷲ کے راستے میں ہجرت کی پھر شہید ہوگئے یا طبعی موت کا شکار ہوئے اﷲ تعالیٰ نے ان کو بہترین رزق عطا فرمائے گا اور بیشک اﷲ بہترین رزق دينے والے ہیں۔ اور ان کو ایسی جگہ داخل کرےگا جس کو وہ خود پسند کریں گے۔
اس آیت میں شہید سے دو چیزوں کا وعدہ ہوا ہے ايک بہترین رزق کا دوسرا اپنی پسند کی جگہ یعنی جنت میں داخلہ کا يہ دونوں بہت بڑے اعزاز ہیں۔
آیت: ومن یطع اﷲ والرسول فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیھم من النبین والصدیقین والشھداءوالصالحین(نسائ)
ترجمہ: اور جو اﷲاور رسول کی اطاعت کرے گا تو ایسے آدمی ان لوگوں کے ساتھ ہوں کے جن پر اﷲ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء، صدیقین، شہدااور صالحین۔
اس آیت میں اﷲ تعالی نے شہيدوں کی يہ فضلیت بیان فرمائی ہے کہ وہ اﷲ تعالی کے انعام یافتہ لوگوں میں سے ہیں، اور يہ کہ انبیا ءصدیقین کے بعد سب سے بڑھ کر شہیدوں کا مقام و مرتبہ ہے۔
حدیث: لوددت انی اعزوفی سبیل اﷲ فاقتل ثم اغزو فاقتل ثم اغرو فاقتل (بخاری فی الجہاد، مسلم فی الا مارة، نسائی فی الجھاد، ابن ماجہ فی الجہاد، مسند احمد ، دارمی فی الجہادو موطا امام مالک فی الجہاد)
ترجمہ: حضور ﷺ نے فرمایامیںپسند کرتا ہوں کہ میں اﷲ کے راستے میں جہاد کروں اور شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کی جاؤں پھر شہید کیا جاؤں۔
حدیث: ما احد یدخل یحب ان یرجع الی الدنیا، ولہ ما علی الارض من شیئی الا الشہیدیتمنی ان یرجع الی الدنیا فیقتل عشر مرات لما یری من الکرامة (البخاری فی الجہاد، مسلم فی الامارة، ترمذی فی الجہاد، نسائی فی الجہاد ومسند احمد)
ترجمہ: کوئی شخص جنت میں داخل ہونے کے بعد يہ تمنا نہیں کرے گا کہ اس دنیا میں لوٹایا جائے یا دنیا کی کوئی چیز دی جائے سوائے شہید کے کہ وہ تمنا کرےگا کہ وہ دنیا میں لوٹایا جائے اور دس مرتبہ شہید کیا جائے، يہ تمنا وہ (شہید) اپنی تعظیم(اور مقام) ديکھنے کی وجہ سے کرے گا۔
حدیث: من سال اﷲ الشہادة بصدق بلغہ اﷲ منازل الشہدآ ءو ان ما ت علی فراشہ۔(مسلم فی الا مارة ترمذی فی الجہاد، نسائی فی الجہاد، ابو ادؤد فی الصلوة، ابن ماجہ فی الجہاد، دارمی فی الجہاد)
ترجمہ: جس نے سچے دل کے ساتھ اﷲتعالی سے شہادة مانگی اﷲ تعالی اسے شہیدوں کے مقام تک پہنچا دے گا اگرچہ وہ بستر پر مرے ۔
اس کے علاوہ شہید کے بارے میں فضائل بھی احادیث میں آئے ہیں مثلاً:
(1)شہید کے قرض کے علاوہ تمام گناہ بخشش ديئے جاتے ہیں(مسلم)
(2)شہید پر فرشتوں کے پروں کے سايہ ہوتا ہے (بخاری ومسلم)
(3)شہادت پر جنت میں داخلہ کی ضمانت(ایضاً)
(4)شہید سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں سے ہے(ترمذی)
(5)شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں میں داخل کر دی جاتی ہیں وہ جنت کی نہروں پر اترتے ہیں جنت کے میوے کھات ہیں، عرش کے سائے کے نيچے سونے کی قندیلوں پر بيٹھتے ہیں(صحیح مسلم، ابوداؤد و مستدرک)
(6)قبر کے فتنے اور قیامت کے دن کی بے ہوشی سے نجات دی جاتی ہے(نسائی )
(7)اپنے گھر والوں میں سے ستر(70) کی شفاعت کا حق عطا کیا جاتا ہے(ابو داود، بیہقی)
(8)شہید کے پہلے قطرے کے ساتھ بخشش کر دی جاتی ہے ،جنت میں اس کا مقام دکھا دیا جاتا ہے قیامت کے دن کی گھبراہٹ سے امن ديدے جاتا ہے، اس کے سر پروقار کا تاج رکھا جاتا ہے جس کا ايک یاقوت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے،72حورعین سے اس کی شادی کر دی جاتی ہیں(مسند احمد، ترمذی، مصنف عبدالرزاق، ابن ماجہ)
(9)خون خشک ہونے سے پہلے حور عین کی زیارت کرادی جاتی ہے (ابن ماجہ، ابن ابی شبیہ، مصنف عبدالرزاق)
يہاں شہادت کے چند فضائل ذکر کيے گئے ہیں ورنہ شہید کہ بارے میں بے شمار فضائل آئے ہیں اور جب محرم الحرام عبادت اور عظمت والا مہینہ ہے تو اس مہینہ میں شہادت کی عظمت اس مہینے کی وجہ سےاور بھی زیادہ ہوجاتی ہے، لہٰذا حضرت حسینؓ کی شہادت کی وجہ سے اس مہینہ کو نحوست یا غم کا مہینہ سمجھنا سراسر غلط ہے۔ اگر کوئی شبہ کرے کہ يہ فضائل تو شہید کے لئے ہیں لیکن ہمارے اعتبار سے اس طرح کی شہادت رنج وغم کا باعث ہے لہٰذا ہمیں اس پر سوگ اور ماتم کرنا چاہيے اس کا جواب آگے آرہا ہے۔
محرم میں سوگ اور ماتم
شرعی اعتبار سے سو گ کرنا صرف چند صورتوں میں عورتوں کے حق میں ثابت ہے اور وہ يہ ہیں:
(1)جس عورت کو اس کے شوہر نے طلاق بائن (ایسی طلاق جس میں نکاح ختم ہوجاتا ہے) دیدی ہو اس پرعدت کے زمانہ میں سوگ کرنا واجب ہے ۔عدت ختم ہونے کے بعد واجب نہیں بلکہ جائز بھی نہیں۔
(2)جس عورت کا خاوند فوت ہوگیا ہو اس پر عدت کے زمانہ میں سوگ کرنا واجب ہے عدت کے بعد واجب نہیں بلکہ جائز بھی ۔
(3)شوہر کے علاوہ کسی قریبی رشتہ دار(باپ بيٹے وغیرہ) کے فوت ہونے پر صرف تین دن تک عورت کو سوگ کرنے کی اجازت ہے واجب اور ضروری نہیں تین دن کے بعد يہ اجازت بھی نہیں۔
اس کے علاوہ اورکسی موقعہ پر عورت کو سوگ کرنے کی اجازت نہیں اورمرد کو تو سوگ کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں اور شرعی سوگ کاطریقہ يہ ہے کہ عورت اتنے عرصہ میں ایسے کپڑے نہ پہننے اور ایسا رنگ ڈھنگ اختیار نہ کرے جس سے مردوں کو کشش اور میلان ہوتا ہو۔ خوشبو ، سرمہ، مہندی اور دوسری زیب و زینت اور بناؤ سنگھار کی چیزیں چھوڑدے۔ اس کے علاوہ اپنی طرف سے سوگ کے طریقے اختیار کرنا جائز نہیں مثلاً غم کے اظہار کےلئے مخصوص رنگوں کے (مثلا کالے) کپڑے پہننا وغیرہ۔
حدیث: حضرت ام سلمہؓ حضور اکرم ﷺ نے نقل کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جس عورت کا شوہر وفات پاگیا وہ عدت گزرنے تک عصفر سے رنگا ہوا اور خوشبو والی مٹی سے رنگا ہوا کپڑا اور خضاب بھی نہ لگائے اور سرمہ نہ لگائے۔ (مشکوة ص289بحوالہ ابوداود، نسائی )
حدیث: حضرت ابو سلمہؓ کی صاحبزادی حضرت زینت ؓ نے بیان فرمایا کہ جب ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کو(ان کے والد) حضرت ابو سفیانؓ کی موت کی خبر پہنچی تو انہوں نے تیسرے دن خوشبو منگائی جو زردرنگ کی تھی اور اپنے بازروں اور رخساروں پر ملی اور فرمایاکہ مجھے اس کی ضرورت نہ تھی (لیکن اس ڈر سے کہ کہیں میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنے والی عورتوں میں شمار نہ ہو جاﺅ میں خوشبو لگائی ) میں نبی کریمﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا ہے کہ ” ایسی عورت کے لئے جو اﷲ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو يہ حلال نہیں ہے (کسی کے فوت ہونے پر) تین دن رات سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کے کہ اس (کی موت ہو جانے) پر چار مہینہ دس دن سوگ کرے ( صحيح مسلم)
فائدہ:
حضر ت حسن وحسینؓ کے نانا جان اور حضرت فاطمہؓ کے والد ماجد حضورﷺ نے تو فرمایا کہ جو عورت اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو اس کےلئے حلال نہیں کہ شوہر کے علاوہ کسی بھی شخص کی وفات پر (خواہ کتنا بڑا بزرگ ہی کیوں نہ ہو) تین دن سے زیادہ سوگ کرے، پھر تعجب کی بات ہے کہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت حسن و حسینؓ سے محبت کے دعوی ہوتے ہوئے 1400 سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی سوگ ہو رہا ہے کہ حضرت حسن و حسین اپنے نانا جان ﷺ کے ارشادات اور احکام کے خلا ف چلنے والوں سے کيسے خوش ہوں گے؟
ذرا سوچئے اور غور کيجئے يہ کیسا سوگ ہے
کہ جس میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت ہو اور اس میں اتنی وعید ہو کہ اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھنے کے عقیدہ کو (جو کہ ایمان کی بنیاد ہے ) اس کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا ہو؟
اس تفصیل کی روسنی میں وہ حضرات اپنا جائزہ لیں جو محرم میں حضرت حسین ؓ کی شہادت کے غم میں مختلف من گھڑت رسمیں اور سوگ کرتے ہیں اور يہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ہم تو حضرت حسینؓ کی یاد میں يہ سوگ کرتے ہیں جبکہ شریعت مطہرہ نےکسی ايسے دن یا مہینہ کے منانے کے اجازت نہیں دی جو اس طرح کے رنج وغم کے اظہار یا رونے دھونے کے مظاہرہ کے لئے مخصوص ہو، بلکہ اسلام میں کسی بڑے سے بڑے آدمی کی موت و حیات یا شخص حالات کو مقصود و بنیاد بنا کر غمی وخوشی کو کوئی دن منانے کا تصور نہیں ہے۔ حضرت حسینؓ کی شہادت کا واقعہ اگرچہ انتہائی المناک ہے مگر لوگوں کے ذہنوں میں يہ غلط بات بیٹھی ہوئی ہے کہ دنیا میں حضرت حسین ؓ کی شہادت اور کوئی سانحہ پیش نہیں آیا حالانکہ دنیا میں اس سے بدرجہا زیادہ مظلومیت کے بے شمار انوہناک واقعات ہیں۔ اور اسلام میں اگر يہ غم کے دن منانے کی رسم چلے تو ايک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ انبیاءکرام ؑ ہیں جن کی پیدائش سے لیکر شہادت اور وفات تک دنیا میں پیش آنے والے مصائب وتکالیف کی ايک لمبی فہرست ہے، قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں سینکڑوں واقعات انبیا ؑ کے مصايب و تکالیف سے متعلق موجود ہیں۔
نوحؑ کا قصہ ہو یا ابراہیم ؑ کا،یعقوبؑ کا ہو یا موسیؑ کا ، یونس ؑ کا ہو یا لوط ؑ کا، ہر ايک واقعہ تکلیفوں کے بے شمار انبار نظر آئیں گے۔انبیاء کے بعد خاتم الانبیائﷺ کی حیا ت طیبہ کو ديکھا جائے تو آپ کی زندگی کاکوئی دن نہیں ہر گھنٹہ اور ہر ساعت ولمحہ دنیا کی خاطر تکلیفوں، امت کے دوروغم اور آخرت کی فکر میں مصروف نظر آئے گا۔ آنحضرت ﷺ کے بعد تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ کرام ؓ وہ ہیں جن میں سے ہر ايک در حقیقت رسول اﷲ ﷺ کا زندہ معجزہ ہے ۔ اور يہ سلسلہ چل پڑے تو پھر صحابہ کرام ؓ کے بعد امت کے اکابر ،اولیاءاﷲ، علما و مشائخؒ پر نظر ڈالی جائے جو کروڑوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہےں۔ ان حضرات کو دین کی خاطر پیش آنے والے مصائب ، تکالیف اور مشقتوں کا ايک طویل باب ہے جن کو سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔اوراگر يہ طے کر لیا جائے کہ سبھی کے یاد گاری دن منائے جائیں تو سال بھر میں ايک دن بھی یاد گار منانے سے خالی نہیں رہے گا بلکہ ہر دن کے ہر گھنٹہ میں کئی کئی یادگاریں منانی پڑیں گی ؟ ان کی یا دگار اصل يہی ہے کہ ان سے عبرت اور سبق حاصل کرکے اپنی آخرت کی تیاری کی جائے ۔