-scale=1.0,minimum-scale=1.0,maximum-scale=1.0" : "width=1100"' name='viewport'/> صدائے قلندر: ماں

Tuesday 21 August 2012

ماں

ماں

رب سوہنے نے بہت سے رشتے بنائے ہیں اور بہت ہی خوبصورت بنائے ہیں مگر '' ماں '' جیسا رشتہ کوئی اور نہیں ہے
میری امی فروری 2012 میں بیمار ہوئیں ٹیسٹ وغیرہ کرونے سے پتہ چلا کہ وہ کینسر کی مریضہ ہیں ۔ ۔ 1 قیامت تھی جو یہ بات سن کر ٹوٹ پڑی
فروری سے جولائی تک میری ماں نے بہت تکالیف برداشت کیں آپریشن بھی ہوا
مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ دن صحت ٹھیک بھی رہی مگر شفا تو رب سوہنے کے پاس ہے جسے چاہے دے جسے چاہے نہ دے ۔ پھر آہستہ آہستہ صحت گرتی چلی گئی 14 جولائی سے بول چال کھاا پینا بھی بند ہو گیا ۔ ۔ یہ سب کچھ تھا ماں نہ بولتی تھی نہ کچھ کہہ پاتی تھی مگر پھر بھی دل کو سکون تھا کہ ماں پاس تو ہے ناں ۔ ۔ ۔
میں گھر میں سب سے چھوٹا ہوں زیادہ وقت اپنی ماں کے پاس گزرا ہے چارپائی سے لگی ہوئی اماں جان کو دیکھتا دکھ تو ہوتا ماں کی حالت پر مگر ماں کے پاس ہونے کا احساس دکھ ختم کردیتا تھا ۔ ۔ 
پھ 19 جولائی آن پنہچی صبح سے ہی طبیعت کافی خراب تھی ۔ ۔ ۔ شام کو مغرب کے قریب سانس اکھڑنے لگی خواتین سورۃ یٰسین کی تلاوت کر رہی تھیں مغرب کی نماز کے 15 منٹ بعد اماں جان اپنے خالق حقیقی سے جاملیں
بس وہی وقت ہے جب ہمارے سروں سے ٹھنڈی ور گھنے چھاؤں چھن گئی ۔ ۔ 
دل تھا شدت غم سے پھٹآ جا رہا تھا ۔ ۔ ہائے آج ہماری دعائیں چلی گئیں
وہ حفاظتی حصار جو میں‌ہر لمحہ اپنے اردگرد محسوس کیا کرتا تھا آج وہ حصار حتم ہو گیا ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
20
 جولائی کو 9 بجے صبح ماں جی کا جنازہ ہوا ۔ ۔ ۔ 1 بہت بڑا جنازہ ۔ ۔ علماء طلباء کی 1 بہت بڑی تعداد شریک تھی ۔ ۔
میں نے بہت علماء کو روتے ہووئے دیکھا کہ آج ہماری ماں چلی گئی ۔ ۔
اپنی بات نہیں لوگ کہتے ہیں کہ جتنا سکون اس '' ماں '' کا جنازہ پڑھ کر ملا اتنا کبھی زندگی میں نہیں ملا ۔ ۔ ۔
جب قبر میں رکھا تو آسمان پہ بادل چھا گئے اور ٹحنڈی ہوا کے جھونکوں نے میری ماں جی کا استقبال کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پہلی عید ماں کے بغیر ۔ ۔ ۔ سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ بھی نہیں تھا ہمارے پاس ۔ ۔ گھر بار سب اداس تھا اس ایک ہستی کے بغیر ۔ ۔ ۔
ماں کی قبر پہ 2 بار گیا وہاں سکون ملا ۔ ۔ ۔ ۔ 
کسی نے سچ کہا کہ حقیقت میں یتیم وہ ہوتا ہے جس کی ماں نہیں ہوتی

یا اللہ ۔ ۔ میری ماں کے ساتھ اسی طرح پیار محبت اور رحم والا معاملہ کر جس طرح میری ماں میرے ساتھ کیا کرتی تھی
آمین ثم آمین

No comments:

Post a Comment