قال الله تعالیٰ: ﴿السابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی الله عنہم ورضوا عنہ واعد لھم جنت تجری تحتھا الانھار خلدین فیھا ابداً ذلک الفوز العظیم﴾ (سورہٴ توبہ:100)
ترجمہ: مہاجرین وانصار میں سے جو سب سے پہلے (ا یمان لانے میں) سبقت کرنے والے ہیں اور پھر جن لوگوں نے احسان واخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کی ہے ، الله تعالیٰ ان سب سے راضی ہو گئے اور وہ سب (بھی) الله تعالیٰ سے راضی ہو گئے اورالله تعالیٰ نے ان سب کے لیے ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ، ان میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، یہی بڑی کامیابی ہے ۔
بلاشبہ صحابہٴ کرام رضی الله عنہم دین اسلام کے ترجمان وعلم بردار، قرآن عظیم کے محافظ وپاسبان ، سنت نبوی ( علی صاحبہا الصلوة والسلام) کے عامل ومبلغ ، بلند سیرت وکردار کے حامل و داعی اور امت مسلمہ کے محسن ومعمار ہیں، یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ میں ان کو بڑا اونچا مقام ومرتبہ حاصل ہے ،
کیونکہ الله تعالیٰ کی خصوصی ہدایت و راہنمائی اور حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مثالی تعلیم وتر بیت نے ان کو مکمل اسلامی سانچہ میں ڈھال کر پوری امت مسلمہ، بلکہ پوری انسانیت کے لیے بہترین نمونہ و آئیڈیل بنا دیا تھا۔
قرآن مجید میں ہے کہ ”اور اسی طرح ہم نے تم ( مومنوں) کو ایک متوازن امت بنایا ہے، تاکہ تم دنیا کے عام لوگوں پر گواہ رہو“۔ (سورہ بقرہ:143)
اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ شریعت کی اصطلاح میں صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے حالت اسلام میں حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا اسے آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی ہو، خواہ ایک لمحہ کے لیے کیوں نہ ہو۔
صحابہٴکرام کی کل تعداد حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے وقت کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزاریا چوالیس ہزار تھی اور جن صحابہٴ کرام سے کتب حدیث میں روایات منقول ہیں ، ان کی تعداد ساڑھے سات ہزار ہے اور ان صحابہٴکرام کا تعارف حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کے قلم گہربار نے کیا خوب کرایا ہے :
” آپ صلی الله علیہ وسلم کے تیار کیے ہوئے افراد میں سے ایک ایک نبوت کا شاہکار ہے اورنوع انسانی کے لیے باعث شرف وافتخار ہے، انسانیت کے مرقع میں، بلکہ اس پوری کائنات میں پیغمبروں کو چھوڑ کر اس سے زیادہ حسین وجمیل ، اس سے زیادہ دلکش و دل آویز تصویر نہیں ملتی ، جو ان کی زندگی میں نظر آتی ہے ،
ان کا پختہ یقین ، ان کا گہرا علم ، ان کا سچا دل، ان کی بے تکلف زندگی، ان کی بے نفسی ، خدا ترسی، ان کی پاکبازی، پاکیزگی، ان کی شفقت و رافت اوران کی شجاعت و جلادت ، ان کا ذوق عبادت اور شوق شہادت ، ان کی سیم و زر سے بے پروائی اوران کی دنیا سے بے رغبتی ، ان کا عدل، ان کا حسن انتظام دنیا کی تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔
مختلف قبائل، مختلف خاندانوں اورمختلف حیثیتوں کے افراد ایک خوش اسلوب، متحدالقلوب خاندان میں تبدیل ہو گئے
اوراسلام کی انقلاب انگیز تعلیم اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی معجزانہ صحبت نے ان کوشِیر و شکر بنادیا۔“( دو متضاد تصویریں)
اور ایک غیر مسلم مغربی فاضل ” کائتانی“ اپنی کتاب” سنین اسلام“ میں صحابہ کرام کو بہترین خراج تحسین پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہے
کہ ” یہ لوگ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اخلاقی وراثت کے سچے نمائندے، مستقبل میں اسلام کے مبلغ اور محمد صلی الله علیہ وسلم نے خدا رسیدہ لوگوں تک جو تعلیمات پہنچائی تھیں ، اس کے امین تھے ،
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مسلسل قربت او ران سے محبت نے ان لوگوں کو فکر وجذبات کے ایک ایسے عالم میں پہنچا دیا تھا ، جس سے اعلیٰ اور متمدن ماحول کسی نے دیکھا نہیں تھا ،
درحقیقت ان لوگوں میں ہر لحاظ سے بہترین تغیر ہوا تھا
اوربعد میں انہوں نے جنگ کے مواقع پر مشکل ترین حالات میں اس بات کی شہادت پیش کی کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کے اصول وافکار کی تخم ریزی ، زرخیز زمین میں کی گئی تھی ، جس سے بہترین صلاحیتوں کے انسان وجود میں آئے ،
یہ لوگ مقدس صحیفہ ( قرآن مجید) کے امین اوراس کے حافظ تھے او رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے جو لفظ یا حکم انہیں پہنچا تھا، اس کے زبردست محافظ تھے۔“
ان صحابہ کرام کے فضائل ومناقب قرآن وحدیث میں بہت کثرت سے بیان ہوئے ہیں ۔ قرآن مجید کی مختلف سورتوں ( بقرہ ، آل عمران، نساء ، مائدہ، اعراف، انفال، توبہ ، حج، مومنون، نور، فرقان، سجدہ ، احزاب، فتح، حدید ، مجادلہ، حشر اور بینہ) میں حضرات صحابہ کرام کی بہت سی امتیازی صفات اورکمالات مختلف انداز واسلوب میں بیان ہوئے ہیں ،
ان میں سے قابل ذکر خصوصیات یہ ہیں کہ صحابہٴ کرام
الله تعالیٰ کے منتخب و مختار بندے ہیں اورحضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد پوری دنیا کے لیے اسوہ ونمونہ ہیں۔ ( سورہ حج:78)
نیز یہ حضرات الله تعالیٰ کے نہایت محبوب اور پسندیدہ بندے ہیں اوربخشے بخشائے ہیں، حتی کہ الله تعالیٰ نے ان کو ﴿رضی الله عنہم ورضوا عنہ﴾ کا پروانہ خوشنودی عطا فرما دیا ہے۔ ( سورہ توبہ: 100)
اور الله تعالیٰ نے دنیا میں ان کی خلافت وحکومت کی بشارت دی ہے (سورہ حج:21)
اور آخرت میں الله تعالیٰ نے ہر صحابی سے ان کے ایمان ، انفاق او رجانی قربانیوں کے نتیجہ میں ”جنت“ کا اہم وعدہ فرمایا ہے ۔ ( سورہ حدید :10)
اسی طرح احادیث مبارکہ میں صحابہٴ کرام کے مناقب بہت تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں احادیث کی تمام کتابوں میں بہت اہتمام کے ساتھ مناقب صحابہ بیان ہوئے ہیں کہ صحابہٴکرام تمام انسانوں سے بہتر ہیں ،
ایک حدیث شریف میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ”سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں ۔“ (بخاری ومسلم)
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تم لوگ تمام روئے زمین کے انسانوں سے بہتر ہو ۔“ (بخاری ومسلم) حضرات صحابہٴ کرام الله تعالیٰ کے منتخب وچنندہ بندے ہیں، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے کہ ”الله تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے علاوہ تمام مخلوق میں سے میرے صحابہ کو چھانٹا ہے اور ان میں سے چار ( ابوبکر ، عمر ،عثمان اور علی) کو ممتاز کیا ہے،ان کو میرے سب صحابہ سے افضل قرار دیا ہے۔“
حضرت عبدالله بن مسعود فرماتے ہیں کہ ” آپ صلی الله علیہ وسلم (کے انتخاب) کے بعد ( الله تعالیٰ نے ) لوگوں کے قلوب پر نظر ڈالی تو کچھ لوگوں کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب اوراپنے دین کے ناصر ومدد گار اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے وزراء اور نائبین کے طور پر منتخب فرمایا۔“ (مؤطا امام محمد)
اسی طرح صحابہٴ کرام دنیا میں پوری امت کے امن وامان کے باعث ہیں ، ایک حدیث میں ہے کہ ” میرے صحابہ میری امت کے امن وامان کا ذریعہ ہیں ، جب میرے سارے صحابہ الله تعالیٰ کو پیار ے ہو جائیں گے تو میری امت پر تمام وہ آفات اورمصائب ٹوٹ پڑیں گے ، جن کی وعیدیں کو دی گئی ہیں۔“ ( مسلم)
صحابہٴکرام اس دنیا میں خیر وبرکت اور فتح ونصرت کے موجب ہیں ، ایک حدیث میں ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مسلمانوں کا لشکر روانہ کیا جائے گا اور ( بوقت روانگی وجہاد) لوگ اس تلاش وجستجو میں ہوں گے کہ کیا اس لشکر میں کوئی صحابی موجود ہیں؟
ایک صحابی اس لشکر میں مل جائیں گے اورانہیں کی برکت سے الله تعالیٰ مسلمانوں کے اس لشکر کو فتح نصیب فرمائیں گے۔“(بخاری ومسلم)
اورصحابہ کرام قیامت کے دن اپنے مدفون علاقہ کے لوگوں کے قائد اور رہنما بن کر اٹھائے جائیں گے ،
ایک حدیث میں ہے کہ ” کوئی صحابی کسی سر زمین وعلاقہ میں نہیں وفات پاتے ہیں مگر وہ روز وقیامت اس علاقہ کے لوگوں کے قائد اور رہنما بن کر اٹھائے جائیں گے۔“ (ترمذی)
صحابہ کرم میں سے ہر ایک صحابی جنت میں جائیں گے اورجہنم کی آگ سے محفوظ رہیں گے ، ایک حدیث میں ہے کہ ”جہنم کی آگ اس مسلمان کو چھو نہیں سکتی ہے ، جس نے مجھے دیکھا ہے یا میرے دیکھنے والوں کو دیکھا ہے۔“ (ترمذی)
قرآن وحدیث میں صحابہٴکرام کے کچھ حقوق وآداب بیان ہوئے ہیں ، ان میں سے قابل ذکر اہم حق یہ ہے کہ ان کے شایانِ شان ان کی تعظیم وتکریم کی جائے، کیوں کہ صحابہ کرام کے اکرام کرنے کا حکم آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کو بالکل واضح انداز میں دیا ہے ،
آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” میرے صحابہ کا اکرام کرو، کیونکہ صحابہ تم تمام میں سب سے زیادہ بہتر ہیں۔“ (نسائی)
صحابہ کے اکرام کا تقاضا ہے کہ ان کے تذکرہ کے وقت ان کا پورا پورا پاس ولحاظ رکھا جائے ، پوری رعایت برتی جائے اور تحریر وتقریر کے وقت ان کے بارے میں بڑے احتیاط سے کام لیا جائے ، کیونکہ صحابہٴ کرام کے پاس و لحاظ کرنے میں ہم مسلمانوں کا ہی فائدہ ہے ،
روز قیامت حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت نصیب ہو گی اورحوض کوثر تک پہنچنا ممکن ہو سکے گا ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے کہ ”جو شخص صحابہ کے بارے میں میری رعایت کرے گا ، میں قیامت کے دن اس کا محافظ ہوں گا۔“
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”جو میرے صحابہ کے بارے میں رعایت رکھے گا وہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ سکے گا اورجو ان کے بارے میں میری رعایت نہ کرے گا وہ میرے پاس حوض کوثر تک نہیں پہنچ سکے گا اورمجھے دور ہی سے دیکھے گا۔ (حکایاتِ صحابہ)
صحابہٴکرام کی تعظیم کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ان سے محبت اورتعلق رکھا جائے، کیونکہ ان سے محبت وتعلق رضائے الہٰی کا ذریعہ ہے اوران سے عداوت وبغض رضائے الہٰی سے محرومی کا باعث ہے اوردنیا وآخرت میں بڑے نقصان وخسارہ اور رسوائی وعذاب کا موجب ہے ،
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بہت ہی جامع انداز میں ہم مومنوں کو مؤثر تنبیہ فرمائی ہے کہ ” الله تعالیٰ سے میرے صحابہ کے بارے میں ڈرو، الله تعالیٰ سے میرے صحابہ کے سلسلہ میں ڈرو ، میرے بعد ان کو ملامت کا نشانہ مت بناؤ ، جو شخص ان سے محبت رکھتاہے، میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھتا ہے اورجوان سے بغض رکھتا ہے وہ میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے ،
جو شخص ان کو اذیت وتکلیف دی اس نے مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھ کو اذیت دی اس نے الله تعالیٰ کو اذیت دی اور جو شخص الله تعالیٰ کو اذیت دیتاہے ، بہت ممکن ہے کہ الله تعالیٰ ایسے شخص کو ( دنیا وآخرت میں )سزا اورعذاب میں مبتلا کر دے ۔(ترمذی)
ایک دوسری حدیث میں بہت ہی بلیغ وموثر اسلوب میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” میرے صحابہ کو برامت کہو ، اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تب بھی وہ ان کے ایک مد ( ایک کلو وزن کے برابر ایک پیمانہ) یا نصف مد (جو) خرچ کرنے کے برابر بھی ثواب کا مستحق نہ ہو گا۔“ (بخاری ومسلم)
یقینا صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنا الله تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام مومنوں کی لعنت وملامت کا موجب ہے ، ایک حدیث میں ہے کہ ”جو شخص حضرات صحابہٴ کرام کو گالیاں دے ، اس پر الله تعالیٰ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے ، نہ اس کا فرض مقبول ہے او رنہ نفل۔“ (حکایاتِ صحابہ)
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے گستاخ پر لعنت بھیجنے کا صریح حکم دیا ہے کہ “ جب تم لوگ صحابہ کرام کو گالی دیتے ہوئے ( منافق) لوگوں کو دیکھو تو کہو کہ تمہاری بد گوئی پر الله تعالیٰ کی لعنت ہو ،( ترمذی)
یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ صحابہٴ کرام کو گالی دینا حرام اورگناہ کبیرہ میں سے ہے ۔اس لیے تمام مومنوں کو چاہیے کہ صحابہ کرام کی تنقیص وتنقید سے بچیں ، صرف ان کی تعریف وتوصیف کریں، کیونکہ ان کی تعریف ایمان کی علامت ہے اوران کی تنقیص (بے عزتی ) نفاق کی پہچان ہے۔
حضرت ایوب سختیانی نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ ” جو صحابہ کی بے ادبی کرتا ہے وہ بدعتی ، منافق اورسنت کا مخالف ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ اس کا کوئی عمل قبول نہ ہو، یہاں تک کہ ان سب کو محبوب رکھے اوران کی طرف سے دل صاف ہو ۔“ (حکایات صحابہ)
اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ صحابہٴکرام کی شان عالی میں گستاخی کرنے والوں سے دوری اختیار کی جائے اور ان سے ہر گز کوئی تعلق نہ رکھا جائے،
چنانچہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنی امت کو زور دار انداز میں متنبہ فرمایا ہے کہ ”بلاشبہ الله تعالیٰ نے ( تمام بندوں میں ) مجھے منتخب فرمایا ہے او رمیرے لیے اصحاب، انصار اوررشتہ داروں کو منتخب فرمایا ہے ، عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو میرے صحابہ کو بُرا کہیں گے اور ان کی تنقیص ( بے ادبی) کریں گے، پس تم ان کے ساتھ میل ملاپ نہ کرنا ، نہ ان کے ساتھ کھانا پینا اور نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنا۔ “( مرقاة)
صحابہٴکرام کا دوسرا اہم ترین حق یہ ہے کہ ان کے اعمال وافعال میں اوران کے اخلاق میں ان کی اتباع وپیروی کی جائے، کیونکہ الله تعالیٰ نے سابقین اولین صحابہٴ کرام کی اتباع واقتدا پر ہم تمام مومنوں کو اپنی خوشنودی کی بشارت دی ہے۔ (سورہ توبہ:100)
اوران کی زندگی کو ہمارے لیے اسوہ ونمونہ قرار دیا ہے
اوران کے عمل کو مثالی قرار دیا ہے۔ ( سورہ حج:78)
اسی طرح احادیث مبارکہ میں ان کی اتباع وپیروی کی تاکید وترغیب بہت اہتمام سے بیان ہوئی ہے ،
ایک حدیث میں ہے کہ ” میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ، جس کی اتباع کرو گے ہدایت پاؤ گے ۔“
محققین اہل سنت والجماعت نے سورہ توبہ (آیت :100) سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اصحابِ نبی صلی الله علیہ وسلم مقتدایان امت ہیں اورتمام صالحین ان کے تابع ہیں۔ (تفسیر ماجدی)
چنانچہ حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے بعد صحابہٴکرام کے نقش قدم پر چلنا دنیا وآخرت میں کامیابی وکامرانی کا موجب ہے
ایک طویل حدیث میں ہے کہ ” میری امت تہتر(73) فرقوں میں تقسیم ہو گی، ایک فرقہ کے علاوہ سب فرقے جہنم میں جائیں گے۔
حضرات صحابہٴ کرام نے پوچھا یا رسول الله ! جنت میں جانے والا فرقہ کون سا ہو گا ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ جو فرقہ اس راستہ پر جما رہا جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔“ (ترمذی)
اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے بعض اوقات بعض خاص صحابہٴ کرام کی اتباع وپیروی کرنے کا حکم عالی فرمایا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ” میں تم لوگوں میں اپنے قیام کی مقدار نہیں جانتا، پس میرے بعد دو صحابہٴ کرام کی اقتدا کرنا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اورحضرت عمر کی طرف اشارہ فرمایا۔“ (ترمذی)
اورایک دوسری حدیث میں چاروں خلفائے راشدین کی سنت پر گامزن ہونے کی مؤثر ترغیب دی ہے کہ ” میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت تم تمام پر واجب ہے اور اس کو اپنی ڈاڑھوں (دانتوں) سے مضبوط پکڑ لو۔“ (ابوداؤد)
مذکورہ بالا دوحقوق کے علاوہ صحابہ کرام کے اوربھی حقوق وآداب ہیں ان میں سے سب سے زیادہ قابل ذکر حق ” دفاع صحابہ“ ہے ، موجودہ حالات میں اس حق کی ادائیگی بہت ضروری ہے ، اس حق سے پہلوتہی باعث لعنت ہے،
چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ” جب فتنے یا بدعت ظاہر ہونے لگیں اورمیرے صحابہ کو برا کہا جانے لگے تو عالم کو چاہیے کہ اپنے علم کو کام میں لا کر صحابہٴ کرام کا دفاع کرے اور جوشخص حضرات صحابہ کا دفاع نہیں کرے گا تو اس پر الله تعالیٰ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اورتمام لوگوں کی لعنت ہو اورالله تعالیٰ نہ اس کے فرض قبول فرمائیں گے اور نہ ہی نفل۔“ ( مرقاة)
بہرکیف حضرت قاضی عیاض نے اپنی مشہور کتاب ” شفاء“ میں صحابہٴ کرام کے اہم حقوق بیان کرتے ہوئے کیا خوب تحریر فرمایا ہے کہ ” ان حضرات کو برائی سے یاد نہ کرے، بلکہ ان کی خوبیاں اوران کے فضائل بیان کیاکرے اور عیب کی باتوں سے سکوت کرے،
جیسا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” جب میرے صحابہ کا ذکر ( براذکر) ہو تو سکوت کیا کرو۔“
یقینا صحابہ کرام تاریخ ساز، عہد آفریں شخصیات کا مجموعہ ہیں اوریہ الله تعالیٰ کی نعمت عظمی کے پر تو، حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تربیت کا ثمرہ اوراسلام کی صداقت کی دلیل وحجت ہیں اور یہ حضرات بلاشبہ حضرت مسیح علیہ السلام کی زبان میں” زمین کانمک اور پہاڑی کا چراغ“ تھے،
جن سے ان کی اپنی ہم عصر دنیا نے رشد وہدایت کا نور حاصل کیا اور آج کی تاریخ میں بھی ان کی بلند سیرت وکردار کی شعاعوں سے ہم اپنی زندگیاں منور کر سکتے ہیں اوران کی مثالی زندگی سے اپنی دنیا وآخرت دونوں سنوار سکتے ہیں اور دونوں جگہ کام یاب وکامراں ہو سکتے ہیں ،الله تعالیٰ ہم تمام مومنوں کو ان کے نقش قدم پر خلوص واحسان کے ساتھ چلنے کی توفیق ارزانی فرمادے اور ان کی محبت وعظمت ہمارے دلوں میں راسخ فرما دے ۔ آمین
﴿ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین آمنوا ربنا انک رؤف رحیم﴾(حشر:10)
No comments:
Post a Comment