-scale=1.0,minimum-scale=1.0,maximum-scale=1.0" : "width=1100"' name='viewport'/> صدائے قلندر: September 2011

Sunday, 25 September 2011

علامہ علی شیر حیدری شہید


امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اصحاب و ازواجِ رسول علیہم الرضوان کے مقام ومنصب اور ناموس کے تحفظ کے لیے جاں نثاروں اور فدا کاروں کا ایک قافلۂ سخت جاں ترتیب دیا تھا۔ علی شیر اُسی قافلۂ حق، سپاہِ صحابہ کا پانچواں سپہ سالار تھا۔
میری اُن سے چند ہی ملاقاتیں ہیں جو یادگار بھی ہیں اور ناقابلِ فراموش بھی۔ میں نے اپنی چالیس سالہ تحریکی زندگی کے سفر میں کئی رہنماؤں کو دیکھا اور سنا۔ اُن میں سے بعض شخصیتوں کے دوہرے رُخ نے بہت مایوس کیا۔ خود ساختہ تقدس اور تصنع کے پردوں میں زیادہ دیر چھپا نہیں جا سکتا۔ لیکن جن شخصیتوں کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے اور زبان دل کی رفیق ہوتی ہے اُن کا نقشِ اوّل، نقشِ لافانی ہوتا ہے۔ علامہ علی شیر حیدری شہید انھی میں سے ایک تھے۔
وہ خالصتاً علمی مزاج رکھنے والے ایک عالم با عمل، درویش خدا مست، منفرد خطیب، جری اور بہادر اور ناموسِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دفاع کے لیے بے جگری سے لڑنے والے ایک عظیم مجاہد تھے۔ وہ سپاہی بھی تھے اور سپہ سالار بھی۔ قائد و رہنما بھی تھے اور پیکرِ ایثار کارکن بھی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا۔
میں نے جب انھیں پہلی مرتبہ دیکھا تو اُن کا تعارف نہیں تھا۔ وہ اپنے کارکنوں میں یوں گھلے ملے ہوئے تھے کہ پہچانے نہیں جاتے تھے۔ جب وہ کارکنوں سے ہم کلام ہوئے اور سب اُن کی طرف متوجہ ہوئے تو وہ پہچانے گئے۔ یہ ایک نجی محفل تھی۔ وہ بول رہے تھے، سوالات کے جوابات نہایت تحمل سے دے رہے تھے اور علم کی روشنی سے ماحول بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ محویت کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص ہمہ تن گوش تھا۔
دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ ابنِ امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عیادت کے لیے دارِ بنی ہاشم ملتان تشریف لائے۔ یہ جون ۱۹۹۹ء کی ایک شام تھی۔ حضرت شاہ جی شدید علیل تھے اور یہ اُن کا مرض الوفات تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نمازِ مغرب کے بعد وہ تشریف لائے۔ حضرت شاہ جی پاؤں لٹکائے چارپائی پر بیٹھے تھے کہ اچانک حسین و جمیل اور وجیہہ شکل و صورت کا ایک جوانِ رعنا زمین پر ہی اُن کے قدموں میں آ کر بیٹھ گیا۔
اپنے دونوں ہاتھ شاہ جی کے گھٹنوں پر رکھے اور نظر اُن کے چہرے پر جماتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔’’فقیر علی شیر حیدری‘‘۔۔۔ شاہ جی نے اُن کے ہاتھوں کو پکڑ کر اٹھانے کی بہت کوشش کی کہ وہ چارپائی پر تشریف رکھیں مگر علی شیر کہہ رہے تھے:
’’شاہ جی! آپ ہمارے مخدوم ہیں میری جگہ آپ کے قدموں میں ہے۔ آپ کے والد حضرت امیر شریعت آپ کے بڑے بھائی حضرت ابوذر بخاری  اور آپ سے ہم نے دفاع و مدحِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا سبق سیکھا۔ میرے پیش رو مولانا حق نواز شہید، مولانا ایثار القاسمی شہید، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی شہید اور مولانا اعظم طارق شہید(تب مولانا اعظم طارق حیات تھے) سب آپ کے خاندان کے مدّاح تھے۔ میں بھی سادات کا محب اور خانوادہ امیر شریعت کا خوشہ چین ہوں۔ اُسی راہِ حق کا مسافر اور شہادت کا طلبگار ہوں جس پر چلتے ہوئے میرے رفقاء صحابہ کی آبرو پر قربان ہو گئے۔‘‘
علی شیر کی آنکھوں میں حُبِ رسول اور حُبِ ازواج و اصحابِ رسول علیہم الرضوان کی ایمانی چمک تھی۔ سرخ و سفید چہرہ نور ایمان سے روشن تھا، لبوں پر دلنواز تبسم اور کشادہ پیشانی پر شب کی خلوتوں میں سجدہ ہائے اخلاص کے نشانات تھے۔ وہ دیر تک شاہ جی کے چہرے کو دیکھتے رہے پھر اُن کی آنکھوں سے محبت و خلوص کے چشمے رواں ہو گئے۔ وہ شاہ جی کی گرتی ہوئی صحت کو دیکھ کر بہت غم زدہ ہوئے اور پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا۔ شاہ جی نے اُنھیں اٹھایا اور اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ پھر گفتگو شروع ہو گئی۔
* مقام و منصبِ صحابہ رضی اللہ عنہم، قرآن و حدیث میں
* مُشاجراتِ صحابہ میں اہل سنت کا مؤقف و مسلک
* قرآن و حدیث کے مقابلے میں تاریخ کو مستند قرار دینے کی سازش
* قرآن و حدیث کو چھوڑ کر تاریخ کی مکذوبہ روایات کی بنیاد پر صحابہ پر تنقید
* قصہ گو اور کہانی باز واعظوں کی جہالتوں سے عامۃ المسلمین کے نقصانات
ایسے کئی عنوانات اور موضوعات تھے جن پر گفتگو ہوتی رہی۔ علی شیر سوالات کرتے اور شاہ جی جوابات دیتے۔ اس وقت علامہ ابنِ تیمیہ کی ایک کتاب (’’مختصر فتاویٰ‘‘) شاہ جی کے سرہانے رکھی تھی۔ اس میں سے مختلف مقامات شاہ جی نے علامہ علی شیر کو دکھائے۔ بعض صفحات علامہ شہید نے فوٹو کاپی بھی کرائے۔

مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور حوصلہ بھی ملا کہ تصنع، تقدس اور شخصیت سازی کے اس مکروہ ماحول میں علی شیر جیسا عالم بھی ہے جو قصہ گوئی اور کہانی سازی سے کوسوں دور ہے۔ وہ علم و تحقیق کے میدان کا شناور ہے۔ علم نے اُسے حلم سے آشنا کر دیا۔ حوصلے و صبر سے ہمکنار کر دیا اور جہد و ایثار میں بے پناہ کر دیا۔ وہ شاہ جی سے مل کر رخصت ہونے لگے تو شاہ جی کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کے موتی برسنے لگے۔ جو رخساروں سے لڑھکتے ہوئے اُن کے دامن میں جمع ہو رہے تھیہو رہے تھے۔ یہی وہ خلوص ہے جسے محبت کی جمع پونجی کہا جاتا ہے۔




ہر سال ستمبر  میں لاہور میں سپاہ صحابہ کی عظیم الشان کانفرنس ہوا کرتی تھی۔ متعدد بار مجھے بھی وہاں خطاب کی سعادت ملی۔ ایک مرتبہ اسی کانفرنس میں حاضر ہوا تو نعرے گونج رہے تھے ’’آیا آیا شیر آیا‘‘ میں سوچ رہا تھا کہ

کس شیر کی آمد ہے کہ رَن کانپ رہا ہے
اور چند لمحوں بعد علی شیر آ گیا۔ پھر شیر دھاڑا، خوب گرجا اور برسا۔ اس نے اپنے سوز دروں اور شعلہ بیانی سے دشمنانِ صحابہ کے خرمنِ باطل کو پھونک ڈالا اور اُن پناہ گاہوں کو خاکستر کر دیا جہاں سبائی منافق چھپ کر سازشیں کرتے۔
علامہ علی شیر حیدری سے آخری ملاقات ایک سفر میں اس وقت ہوئی جب وھاڑی سے ملتان آتے ہوئے سڑک کے کنارے ایک پٹرول پمپ پر ہم رُکے تو سامنے کھڑی ایک گاڑی سے نکل کر وہ میری طرف بڑھے۔ حلیہ کچھ ایسا تھا کہ میں پہلی نظر میں پہچان نہ سکا، پولیس اُن کے تعاقب میں تھی اور انھیں بہر صورت اپنی منزل پہ پہنچنا تھا۔ بعض لوگ ایسے ہیں کہ معانقہ کریں تو دوسرے کا سینہ خالی کر دیتے ہیں لیکن علی شیر نے جس خلوص سے معانقہ و مصافحہ کیا میرے دل و دماغ کو اُنس و محبت سے بھر دیا۔
۱۷اگست ۲۰۰۹ء کو علی شیر بھی قافلۂ شہداء سے جا ملا۔وہ عظمتِ صحابہ کے گیت گاتا ، ناموسِ صحابہ کے ترانے سناتا اور کردارِ صحابہ کے علم لہراتا خون میں نہا کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگیا ۔
آہ! کیا انسان تھا۔ جو اماں عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کی عزت و عصمت پر قربان ہو گیا۔ سچے بیٹے ماؤں کی حرمت پر یوں ہی فدا ہوتے ہیں۔ تاریخ اُن کی فداکاری اور وفاداری پر ہمیشہ ناز کرے گی۔علی شیر کی حق گوئی اور فدا کاری پرامہات المؤمنین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ارواح کتنی خوش ہوئی ہوں گی ۔صحابہ کی پاکیزہ ارواح نے علامہ علی شیرشہیدکا استقبال کیا ہوگا ۔وہ قبر میں بھی پُرسکون نیند سورہے ہوں گے اور قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحق بنیں گے ۔
مجھے یقین ہے کہ خلفاء راشدین، امہات المؤمنین، بناتِ طاہرات اور تمام صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے روحانی بیٹے علی شیرشہید کی مغفرت کی سفارش کریں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے اِس صالح بندے کو جنت کے انعامات سے نوازیں گے۔ (ان شاء اللہ)
اللہ تعالیٰ نژادِ نو کو اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ دفاع و مدحِ صحابہ کے مشن کے علم برداروں کو علامہ علی شیر حیدری شہید رحمۃ اللہ علیہ کا سوزِ دروں ، عزم و ہمت، استقلال و استقامت، صبر و وفا اور شوقِ جہدِ مبین عطاء فرمائے (آمین)
ب شکریہ  ۔ ۔ ۔ ۔  تقیب ختم نبوت  ۔ ۔ ۔سید محمد کفیل بخاری

Friday, 23 September 2011

خانقاہ رائے پور اور تردید مرزائیت

حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے کشکول و تفہیمات الٰہیہ کی پہلی تفہیم میں ہے:
”انبیاء علیہم السلام جن چیزوں کی اہمیت اور خصوصیت سے دعوت دیتے ہیں‘ وہ بنیادی طور پر تین ہی چیزیں ہیں: ایک مبدأ و معاد وغیرہ سے متعلق عقائد کی تصحیح‘ اس شعبہ کو علماء عقائد و اصول نے سنبھال لیا‘ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی کو مشکور فرمائے اور جزائے خیردے‘ دوسرے عبادات و معاملات اور معاشرت وغیرہ‘ انسانی اعمال کی صحیح صورتوں کی تعلیم اور حلال و حرام کا بیان‘ اس شعبہ کی کفالت فقہائے امت نے اپنے ذمہ لے لی ہے اور اس میں انہوں نے امت کی پوری رہنمائی اور رہبری کی ہے‘ تیسرے اخلاص و احسان یعنی ہر عمل خالص لوجہ اللہ اور اس دھیان کے ساتھ کرنا کہ میرا مالک مجھے اور میرے عمل کو دیکھ رہا ہے اور یہ تیسری چیز دین و شریعت کے مقاصد میں سب سے زیادہ دقیق و عمیق ہے اور پورے نظام دینی میں اس کی حیثیت وہ ہے جو جسم میں روح کی اور الفاظ کے مقابلے میں معانی کی اور اس شعبہ کی ذمہ داری صوفیائے کرام رضوان اللہ علیہم نے لے لی ہے‘ وہ خود راہ یاب ہیں اور دوسروں کی رہنمائی کرتے ہیں‘ خود سیراب ہیں اور دوسروں کو سیراب کرتے ہیں‘ وہ بڑے بانصیب اور انتہائی سعادت مند ہیں۔“ (تفیہمات الٰہیہ ص ۱۲‘۱۳) 
حضرت شاہ صاحب نے بالکل سچ فرمایا کہ تصوف دین و شریعت کی روح اور اس کا جوہر ہے‘ اور صوفیائے کرام اس دولت کے حامل و امین ہیں‘ جس طرح جسم کبھی روح سے بے نیاز نہیں رہ سکتا‘ اسی طرح امت اپنے دینی وجود میں کبھی تصوف اور صوفیائے ربانی سے بے نیاز نہیں ہوسکتی۔ 
انہی صوفیائے ربانی کی ایک مشہور و معروف خانقاہ رائے پور تھی‘ جس کی دینی و ملی خدمات کا مختصر تذکرہ پیش خدمت ہے‘ خانقاہ رائے پور اوّلاً حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری کی وجہ سے مشہور و معروف ہوئی‘ جو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے ممتاز خلیفہ تھے‘ بعد ازاں حضرت شاہ عبدالرحیم کی نظر انتخاب حضرت مولانا عبدالقادر پر پڑی‘ جنہوں نے خانقاہ رائے پور میں نہ صرف ذکر و اذکار کی محافل سجائیں بلکہ اس دور میں اٹھنے والے فتنہ یعنی فتنہ قادیانیت کے انسداد سے متعلق بھی اپنی ذمہ داری پوری کی۔

ایک مرتبہ قطب الارشاد حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری کی مجلس میں بھیرہ کے قادیانی عناصر کا تذکرہ چلا۔ حکیم نورالدین‘ حکیم فضل الدین ایڈیٹر ”الفضل“ قادیان ‘ اور مفتی محمد صادق تینوں بھیرہ کے تھے‘ جنہوں نے قادیان کی جعلی نبوت کو پھیلانے کے لئے کام کیا‘ حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری نے فرمایا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب براہین احمدیہ لکھی تو بعض لوگ اسے لے کر یوپی (انڈیا) کے علاقہ میں پہنچے اور ہمارے اکابر سے بھی چاہا کہ اس کتاب کے لکھنے والے کو مجدد مانا جائے‘ (اس زمانہ میں ابھی مرزا قادیانی نے دعویٰ نبوت نہ کیا تھا)‘ چنانچہ وہ اس کتاب کو حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری‘ حضرت مولانا مظہر الدین‘ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور دوسرے حضرات کے پاس لے گئے‘ حضرت گنگوہی نے تو یہ جواب دیا کہ میں یہاں ہوں‘ مجھے حالات معلوم نہیں‘ سہارنپور اور ادھر پنجاب کے علماء سے لکھوالو‘ سہارنپور والوں نے کہا کہ کتاب کی تائید اور تنقید تو ایک بات ہے (جس کا علمی لائن سے تعلق ہے)‘ مگر مجدد ماننا یہ تو دوسری لائن کی بات ہے‘ اس لئے حضرت میاں شاہ عبدالرحیم سہارنپوری رحمة اللہ علیہ (جو حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری کے پیر و مرشد ہیں)‘ کے پاس جاؤ‘ حضرت میاں صاحب ظاہری علوم پڑھے ہوئے نہ تھے‘ انہوں نے فرمایا کہ بھائی علماء سے پوچھو‘ میں نہ اس کتاب کو پڑھ سکتا ہوں نہ یہ میرا کام ہے‘ عرض کیا گیا کہ علماء ہی نے (آپ کے پاس لے جانے کے لئے) فرمایا ہے‘ تو آپ نے جواباً فرمایا کہ بھائی پوچھتے ہو تو سن لو کہ یہ شخص (مرزا قادیانی) تھوڑے دنوں بعد ایسے دعوے کرے گا جو نہ رکھے جائیں گے نہ اٹھائے جائیں گے (ان کی کوئی توجیح بھی نہیں کی جاسکے گی)‘ یہ سن کر وہ کتاب لانے والے افراد جزبز ہونے لگے اور یہ بدگمانی کرنے لگے کہ دیکھو علماء تو علماء درویشوں کو بھی دوسرے لوگوں کا شہرت پانا گراں گزرتا ہے‘ حضرت میاں عبدالرحیم سہارنپوری نے فرمایا: مجھ سے پوچھا ہے تو جو سمجھ میں آیا بتادیا‘ اب ہم تو اس وقت زندہ نہ ہوں گے‘ تم آگے دیکھ لینا۔ اہل اللہ کی بصیرت کا کیا کہنا!

حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری نے فرمایا کہ مولانا نوازش علی سے سنا ہے جو حضرت میاں عبدالرحیم سہارنپوری کی خدمت میں بیس سال رہے کہ ایک مرتبہ حکیم نورالدین (خلیفہ مرزا قادیانی) حضرت میاں صاحب کی خدمت میں آیا‘ جموں کشمیر کا راجہ پیشاب کے عارضہ میں مبتلا تھا‘ بہت علاج ہوئے اور خود حکیم نورالدین نے بھی علاج کیا‘ جب فائدہ نہ ہوا تو راجہ درویشوں اور فقیروں کی طرف متوجہ ہوا اور حکیم نورالدین کو حضرت میاں صاحب کی خدمت میں سہارنپور دعا کروانے کے واسطے بھیجا‘ حکیم نور الدین نے راجہ کی طرف سے حضرت میاں صاحب سے عرض کیا کہ آپ جموں تشریف لے چلیں‘ راجہ کے لئے شفا کی دعا فرمائیں‘ حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ راجہ کا اسی بیماری میں انتقال کرنا لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے‘ مگر تین شرطیں ہیں ‘اگر راجہ پوری کردے تو میں دعا کروں گا جس سے جب تک اس نے زندہ رہنا ہے‘ بیماری کی تکلیف نہ رہے گی اور جب موت آئے گی تو اس وقت بیماری عود کر آئے گی‘ شرائط یہ ہیں کہ:

۱: راجہ مسلمان ہوجائے۔ 

۲: اپنی راجدھانی میں گائے کی قربانی پر لگی پابندی اٹھا دے۔

۳:اذان بلند آواز سے کہنے کی اجازت دیدے۔ 

حکیم نور الدین نے دوبارہ حاضر ہوکر جواب دیا کہ راجہ نے کہا ہے کہ مجھے مسلمان ہونے میں دل سے انکار نہیں‘ مگر ایسا کیا تو میری قوم مجھے ہلاک کردے گی اور گائے کی قربانی پر سے پابندی اٹھانے سے بھی میرا یہی حشر ہوگا‘ البتہ اذان بلند آواز سے کہنے کی میں اجازت دیتا ہوں۔ حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا وہی ہوگا‘ مگر تینوں شرائط مان لے تو انشاء اللہ تعالیٰ مذکورہ بالا طریق پر شفا تاحیات ہوگی۔ حکیم نورالدین نے راجہ کی طرف سے حضرت میاں صاحب سے وہاں چل کر دعا کرنے پر اصرار کیا کہ جو ہونا ہے ہوجائے‘ آپ وہاں جاکر دعا کریں‘ راجہ کے لئے بیماری میں سفر محال نہ ہوتا تووہ خود ضروریہاںآ تیاس لئے اس کو آپ کی زیارت کا بھی شوق ہے‘ اصرار بے حد ہوا تو 
حضرت میاں صاحب نے فرمایا: نہ بھائی‘ جاتے تو نہیں‘ اپنے آدمیوں کو دعا کے لئے آپ کے اصرار پر بھیجے دیتا ہوں۔ تیسری بار حکیم نورالدین پھر حضرت میاں صاحب کی خدمت میں آیا‘ جب جانے لگا تو حضرت میاں صاحب نے حکیم نور الدین کو بلوایا اور فرمایا کہ:
دیکھو دو تین مرتبہ آئے ہو‘ اب میرا حق ہے کہ میں ایک نصیحت کی بات کہوں‘ پنجاب میں کوئی جگہ قادیان ہے؟ عرض کیا: ہے‘ فرمایا: وہاں کا ایک شخص خلاف دین بڑے بڑے دعاوی کرتا چلا جائے گا‘ عرض کیا کہ وہ ایسا ہی کررہا ہے‘ فرمایا کہ لوح محفوظ پر میں آپ (حکیم نورالدین) کو اس شخص کا مددگار لکھا ہوا دیکھتا ہوں‘ ہوگا وہی جو خدا کو منظور ہوگا‘ مگر میری نصیحت یہ ہے کہ اس سے بچنا۔ حکیم نورالدین نے عرض کیا کہ حضرت! ابھی تک تو بچا ہوا ہوں‘ آپ دعا فرما دیں۔ (مجالس حضرت رائے پوری صفحہ ۴۰۷‘۴۰۸)

حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری فتنہ قادیانیت کی سازشوں کو بے نقاب کرنے والی جماعت کے سرکردہ علماء امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری‘ حضرت مولانا محمد علی جالندھری ‘ حضرت قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحمہم اللہ تعالیٰ و دیگر کی سرپرستی فرماتے اور جب یہ حضرات خانقاہ رائے پور حاضر ہوتے تو ان سے عقیدہٴ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانی فتنہ کے سدباب کے سلسلہ میں جماعتی کارگزاری ضرور سنتے۔ ایک واقعہ جو حضرت مولانا محمد علی جالندھری نے حضرت رائے پوری کی خدمت میں عرض کیاوہ حضرت کے ملفوظات میں اس طرح تحریر ہے‘ لکھتے ہیں کہ :

کچھ آدمیوں کی دعوت پر ایک گاؤں میں جو ضلع جالندھر کا تھا‘ میں تبلیغ اسلام اور تردید مرزائیت کے لئے گیا‘ وہاں اسٹیشن پر اترا تو کئی آدمی مجھے لینے آگئے، مگر میرے وہ دوست جنہوں نے مجھے دعوت دی تھی‘ وہ اپنے دوسرے گاؤں سے بروقت نہ پہنچ سکے‘ مجھے اس گاؤں میں ایک ایسے گھر میں ٹھہرایا گیا جس پر مالک مکان کا نام احمدی لکھا ہوا تھا‘ مجھے مغرب کے بعد شبہ ہوگیا کہ یہ مرزائیوں کی طرف سے یہاں ٹھہرانے میں میرے ساتھ کوئی پر خطر شرارت نہ ہو‘ اس لئے عشاء کے لئے مسجد کو جانے کو تھا کہ مسجد کے نمازیوں سے حالات دریافت کروں گا‘ اتنے میں میرے مدعو کرنے والے دوست آگئے اور دیر لگنے کی معذرت کی‘ عشاء کے بعد جب تقریر کا موقع آیا تو میزبانوں اور دوسرے مقامی مرزائیوں اور دیگر لوگوں اور مدعو کرنے والے دوستوں میں صلاح و مشوروں کی طوالت رہی اور مرزائیوں کے ساتھ بعض دوسرے لوگ جو مسلمان ہی تھے‘ تردید مرزائیت پر تقریر روکنے میں شریک تھے۔ صبح کی نماز کے بعد میں ذرا سو گیا کہ پھر جمعہ کی وجہ سے دوپہر کو سونا نہ مل سکے گا‘ میں لیٹے لیٹے ان کی اس سلسلے میں باہمی لڑائی سنتا رہا‘ دو آدمی اور بھی مرزائیت کے سلسلے میں جھگڑنے کے لئے آئے‘ وہ اس خیال سے چلے گئے کہ مولوی صاحب سو رہے ہیں‘ ورنہ کافی مسائل دریافت کرتے‘ ان کے جانے کے بعد میں سوگیا‘ خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک بہت خوبصورت بزرگ آسمان سے سیدھے زمین پر نازل ہوئے‘ میں نے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں؟ اس بزرگ نے فرمایا کہ: عیسیٰ ابن مریم ہوں‘ میں نے عرض کیا کہ آپ کے نازل ہونے کا وقت تو ابھی دور ہے‘ آپ پہلے ہی کیوں تشریف لے آئے ہیں؟ انہوں نے غصے کے لہجے میں فرمایا کہ جب تم لوگ میری حیات ثابت نہ کرو تو میں خود نہ آؤں تو کیا کروں؟ میں نے عرض کیا: حضرت! ناراض نہ ہوں‘ حضرت کی حیات ثابت کرنا تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے‘ ضرور ثابت کروں گا‘ چنانچہ میں نے ارادہ کرلیا اور مجھے مدعو کرنے والوں پر جو یہاں کے مرزائیوں کے رشتہ دار بھی تھے‘ واضح کردیا کہ اگر یہاں کے مسلمان مجھے مرزائیت کی تردید کی اجازت نہ دیں گے تو میں بازار میں ہندوؤں سے جلسہ کی جگہ لے کر تقریر کروں گا‘ چنانچہ جمعہ کے بعد جامع مسجد میں ہی مرزائیت کی تردید کی۔“ (ملفوظات حضرت رائے پوری ص۴۱۸‘۴۱۹)

حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری کے متعلق حضرت مولانا عبدالقار رائے پوری فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ موقع دیکھ کر عرض کیا کہ حضرت! قادیانی انوار کا دعویٰ کرتے ہیں‘ ان کو نماز وغیرہ میں بہت حالات اور کیفیات پیش آتی ہیں تو اس کا کیا سبب ہے؟ حضرت سنبھل کر بیٹھ گئے اور جوش میں فرمایا: 
مولوی صاحب! سنو: ”ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الہدیٰ و یتبع غیر سبیل المومنین نولہ ما تولیٰ“ حضرت اس کی کچھ تشریح فرمانا چاہتے تھے‘ میں نے عرض کیا کہ حضرت بس میں سمجھ گیا‘ اس کے بعد پھر اس مسئلہ میں کبھی کوئی کھٹک نہیں ہوئی۔ (سوانح حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری ص ۶۳)

حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری رحمة اللہ علیہ نے قادیانیت کا آغاز اور اس کے سب دور دیکھے تھے‘ خود مرزا قادیانی‘ حکیم نورالدین اور اس تحریک کے دیگر ذمہ داروں سے بخوبی واقف تھے‘ آپ اس قادیانی تحریک کے حقیقی مقاصد اور اس کے اندرونی حالات سے بخوبی آگاہ تھے اور اس کو اسلام کی بیخ کنی اور تخریب کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ تحریک تحفظ ختم نبوت اور احراری رہنماؤں اور علماء میں درحقیقت آپ ہی کا جذبہ اور آپ ہی کی روح کام کررہی تھی‘ آپ اس سلسلہ کی ہر کوشش کو وقت کا اہم فریضہ اور دین کی اہم خدمت سمجھتے تھے اور ہر طرح اس کی ہمت افزائی اور سرپرستی فرماتے اور دل و جان سے اس کی خدمت و تقویت کو ضروری سمجھتے تھے‘ ان کی کوششوں کے تذکرہ سے آپ کے اندر شگفتگی اور تازگی پیدا ہوجاتی تھی اور وہ آپ کی روح کی غذا بن گئی تھی۔ مولانا محمد علی جالندھری فرماتے ہیں:

”مرزائیت کی نسبت جس قدر متفکر رہتے آپ کو معلوم ہی ہے‘ جب میں حاضر ہوتا فرماتے مرزائیوں کا کیا حال ہے؟ اگر کوئی خوشی کی بات بتائی جاتی‘ اکثر فرماتے: الحمدللہ! اگر ہنسی والی بات ہوتی تو ایسا ہنستے کہ تمام بدن متحرک ہوجاتا‘ 

ایک مرتبہ حاضر ہوا تو ایک نوٹ نکال کر عطا فرمایا کہ ختم نبوت کے کام کیلئے امداد میری طرف سے‘ پھر مجلس میں حاضرین کو توجہ دلائی‘ سب نے امداد کی‘ حضرت مولانا فضل احمد صاحب نے دس روپے کا نوٹ نکال کر دیا‘ فرمایا: پانچ روپے رکھ لو ‘ میں پانچ کا نوٹ واپس کرنے لگا تو حضرت نے فرمایا: واپس کیوں لیتے ہو‘ یہ بھی دے دو‘ انہوں نے وہ بھی دے دیا۔ حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری کا سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے جو قلبی تعلق تھا وہ کسی سے مخفی نہ تھا‘ بخاری صاحب کے متعلق بڑے بلند کلمات فرماتے اور ان سے اور ان کی وجہ سے ان کے خاندان سے بڑی محبت و شفقت کا برتاؤ کرتے تھے۔

 ایک مرتبہ فرمایا کہ تم بخاری صاحب کو یوں ہی نہ سمجھو کہ صرف لیڈر ہی نہیں‘ انہوں نے ابتدا میں بہت ذکر کیا ہے اور فرمایا کہ یقین تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا نصیب فرمایا ہے کہ باید و شاید۔ یہاں حالات و کیفیات کیا چیز ہے؟ اصل تو یقین ہی ہے‘ اللہ تعالیٰ جس کو عطا فرمائے… یہ محبت اور خصوصیت ان کے اخلاص اور خود فراموشی کی ایک جھلک ہے۔ (سوانح حضرت رائے پوری)

قادیانیت کی تردید اور اس کا مقابلہ کرنے والوں میں سے جو لوگ نمایاں حصہ لیتے اور جنہوں نے رات دن ایک کر رکھا تھا‘ ان سے حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری کو نہایت محبت تھی اور ان کی قدر فرماتے تھے اور ان سے اپنی محبت کا اظہار فرماتے۔ مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے بعد مولانا محمد علی جالندھری اس میں پیش پیش تھے۔ حضرت رائے پوری ان حضرات سے بڑی محبت و شفقت فرماتے تھے اور ان کا بڑا اکرام کرتے تھے۔ مولانا محمد علی جالندھری اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: 

”ایک مرتبہ صبح آٹھ بجے کے قریب لائل پور (فیصل آباد) حاضر ہوا‘ زمین پر دھوپ میں تشریف فرما تھے‘ آگے ہوکر فرش پر بیٹھنے کا حکم دیا‘ میں تھوڑا آگے ہوا تو بالکل برابر بٹھاکر کمر پر ہاتھ پھیر کر فرمایا: میرا چاند آیا“۔

حضرت مولانا محمد علی جالندھری  فرماتے ہیں، میری موجودگی میں جب حضرت کی خدمت میں دودھ پیش کیا جاتا تو فرماتے: مولوی صاحب! کو پلاؤ میں پی کر کیا کروں گا؟ یہ تو کام کرتے ہیں‘ خدام اصرار کرکے پلاتے اور کہتے کہ دودھ مولوی صاحب کو بھی پلادیں گے پھر بھی پورا نہ پیتے بلکہ چھوڑ کر فرماتے کہ مولوی صاحب کو پلادو‘ اس طرح بارہا حضرت کا تبرک ملا۔ حضرت مولانا محمد صاحب انوری تحریر فرماتے ہیں:

” آخر عمر میں حضرت اقدس شاہ عبدالقادر رائے پوری) کو ردِ مرزائیت کی طرف بڑی توجہ ہوگئی تھی‘ مولانا محمد حیات صاحب (فاتح قادیان) کو جنہیں (قادیانیوں اور لاہوریوں کی کتابیں ا زبر تھیں) بلاکر مباحث سنتے تھے اور مولانا لال حسین اختر کو بلا بھیجتے تھے‘ ‘
حضرت رائے پوری کے سوانح نگار مولانا سید ابوالحسن علی ندوی تحریر فرماتے ہیں:

”پاکستان کے دوران قیام میں دو نئی باتوں کا اضافہ ہوجاتا‘ ایک تو یہ کہ پاکستان پہنچ کر تحریک قادیانیت کے خطرات اور اس کے دور رس اثرات کا احساس (جو کبھی فراموش و نظر انداز نہیں ہوتا تھا‘ تازہ ہوجاتا اور طبع مبارک پوری قوت و ہمت کے ساتھ اس کے مقابلہ‘ تردید اور ملک کی اس سے حفاظت کی ضرورت کی طرف متوجہ ہوجاتی اور یہ مسئلہ مجالس اور گفتگو کا سب سے بڑا موضوع بن جاتا‘ علماء و زعماء احرار میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کے مقابلہ کی خصوصی توفیق عطا فرمائی ہے اور حضرت نے ان کو اس جہاد اکبر پر خود مامور فرمایا ہے) آجائیں تو ہر گفتگو ختم ہوکر بے اختیار یہی موضوع چھڑ جاتا‘ خصوصاً مولانا محمد علی جالندھری مولانا لال حسین اختر‘ اور قاضی احسان احمد شجاع آبادی کی تشریف آوری تو گویا دل کا ساز چھیڑ دیتی اور اس موضوع کے سوا کوئی دوسرا موضوع سخن نہ رہتا‘ ان حضرات کی کارگزاری سے ان کی ہمت افزائی اور تحسین فرماتے اور نئی تحقیقات و معلومات دریافت فرماتے۔ مولانا محمد حیات صاحب تشریف لاتے تو گویا ردِقادیانیت کی کتاب کھل جاتی‘ ہمہ تن گوش اور سراپا ذوق ہوکر ان کی نادر تحقیقات اور زندگی کے تجربات سنتے اور کسی طرح ان کی گفتگو سے سیری نہ ہوتی‘ حضرت کو اسی محفل میں کھل کھلا کر ہنستے اور لطف و مسرت کا اظہار کرتے دیکھا گیا‘ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری وقتاً فوقتاً مجلس کو اپنے لطائف اورقادیانیت پر تبصرہ سے زعفران زار اور باغ و بہار بنادیتے۔“(سوانح حضرت رائے پوری)

۱۹۵۳ء میں ختم نبوت کی تحریک شروع ہوئی‘ حضرت رائے پوری ہمہ تن اس کی طرف متوجہ رہے اور اس کی فکر اور اس کا اثر پورے طور پر آپ کی طبیعت‘ قویٰ فکریہ اور اعضاء جوارح پر مستولی ہوگیا‘ محمد افضل صاحب سلطان فانڈری والے کہتے ہیں کہ:

”تحریک کے زمانہ میں آپ ایک مرتبہ اپنے وطن ڈھڈیاں تشریف لائے ہوئے تھے‘ پنجاب کے ایک مشہور عالم کہیں قرب و جوار میں تشریف لائے تھے‘ حضرت کی موجودگی کی اطلاع پاکر زیارت کے لئے ڈھڈیاں آئے‘ آپ کی نگاہ جب ان پر پڑی تو آپ بڑے ذوق و شوق کے ساتھ ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہوگئے‘ اس وقت لاہور تحریک کا مرکز تھا اور یہاں گاؤں ہونے کی وجہ سے دیر میں خبریں پہنچتی تھیں‘ آپ کو خیال تھا کہ (یہ عالم دین) دورہ کرتے ہوئے آرہے ہیں‘ ان کو تازہ حالات کا علم ہوگا‘ آپ نے بڑے اشتیاق کے ساتھ ان سے تحریک کی رفتار اور لاہور کے حالات سے متعلق دریافت فرمایا‘ انہوں نے لا علمی کا اظہار کیا جس سے بے توجہی اور عدم دلچسپی کا اظہار ہوتا تھا‘ حضرت بہت مایوس اور پژمردہ ہوئے کہ یہ شہر سے آرہے ہیں‘ کچھ تازہ حال سنائیں گے مگر یہ تو بالکل ناواقف اور بے تعلق نکلے۔“ (سوانح حضرت رائے پوری)

اس واقعہ سے حضرت رائے پوری کی عقیدہ ختم نبوت‘ تحفظ ختم نبوت اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے علماء کے ساتھ والہانہ محبت کا اظہار ہوتا ہے۔


Sunday, 18 September 2011

ہم ایسے گداگر ہیں

ہم ایسے گداگر ہیں کہ خیرات سے پہلے
اُٹھ کر چلے آئیں گے ملاقات سے پہلے

یہ جیت کا نشّہ بھی عجب چیز ہے یارو
وہ جشن مناتا ہے مری مات سے پہلے

اِک شخص نظر آئے گا مایوس و پریشاں
دیکھو گے اِدھر جب بھی عنایات سے پہلے

پَل پَل یہ صدا گونجتی ہے وادیٔ دل میں
لوٹ آؤ مرے دشت میں آفات سے پہلے

میں آج بھی اِک عالمِ وجدان میں گُم ہوں
یہ حال نہ تھا شہرِ طلسمات سے پہلے

لَو اپنے چراغوں کی ذرا اور بڑھا دو
احساسِ جُدائی کی سِیہ رات سے پہلے

ہم نے غمِ دنیا! کبھی سوچا ہی نہیں تھا
جاناں! ترے بخشے ہوئے صدمات سے پہلے

Saturday, 17 September 2011

حسن انتخاب

حمد باری تعالیٰ

ترے ماسوا سے ہم کو جو اچانک چھڑا گئی ہے
ہمیں لگ رہا ہے الفت تری راس آگئی ہے

تو ہی لاج رکھ رہا ہے مری خوش گمانیوں کی
مری رائیگاں نہ اب تک کوئی اِک دعا گئی ہے

وہ کرم بھی تھا ترا ہی، یہ عطا بھی ہے تری ہی
تجھے یاد آگئے ہیں، تری یاد آگئی ہے

نہ قبائے دل کی قیمت مری پوچھ مجھ سے تائب
ابھی خونِ آرزو سے جو نہا نہا گئی ہے

جناب خالد اقبال تائب

حمد باری تعالیٰ




وہ جو درد سہہ رہے ہیں تو دوا بھی پارہے ہیں
تری راہ کے مسافر ترے گھر کر جارہے ہیں

ہے ترے کرم سے پالا ہے قدم قدم اجالا
دیئے ان کی چشم تر میں کئی جھلملا رہے ہیں

یہ عنایتیں مبارک‘ یہ مسافتیں مبارک
تری دھن میں جارہے ہیں ترے گیت گارہے ہیں

وہ طلب میں ہیں خدا کی‘ ہے خدا طلب میں ان کی
وہی لوگ جارہے ہیں جنہیں وہ بلا رہے ہیں

ترے اسم کا کرشمہ کہ ہے ساتھ ہی مسمیٰ
ترا نام لے رہے ہیں ترا قرب پارہے ہیں

وہ خوشی میں بہتے آنسو جو ہیں غمگسار و دل جُو
وہ جو چُھپ نہیں رہے ہیں انہیں وہ چُھپا رہے ہیں

جناب خالد اقبال تائب

مسجد اقصیٰ (تعارف اور مختصر تاریخ)

مسجد اقصیٰ (تعارف اور مختصر تاریخ)

مسجد اقصیٰ کا محل وقوع
مسجد اقصیٰ شام کے علاقے (یعنی موجودہ فلسطین) میں واقع ہے اور اس کو
 القدس بھی کہا جاتاہے، القدس یروشلم کا عربی نام ہے۔ اسلام سے قبل اس کا نام ایک رومی بادشاہ ہیرڈوس نے ایلیا رکھا تھا اور یہ بحر روم سے ۵۲ کلو میٹر ، بحر احمر سے ۲۵۰ کلو میٹر اور بحر مردار سے ۲۲ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ بحر روم سے اس کی اونچائی ۷۵۰ میٹر اور بحر مردار کی سطح سے اس کی بلندی ۱۱۵۰ میٹر ہے۔ سب سے پہلے یہاں یبوسین آکر آباد ہوئے، ایک روایت ہے کہ اس شہر کو ”سام بن نوح“ نے آکر آباد کیا۔ سب سے پہلے ۱۰۱۳ قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کو فتح کیا۔ 
(خطط الشام ج:۵،ص:۲۵۲، القدس دراسةً وتاریخیةً)

مسجد اقصیٰ کی تاریخی حیثیت

ایک روایت ہے کہ زمین پر پہلی مسجد، مسجد ِاقصیٰ ہے، لیکن محدثین اور اکثر مفسرین کے نزدیک پہلی مسجد، مسجد بیت الحرام ہے، جس کو فرشتوں نے تعمیر کیا ہے: جیساکہ بخاری شریف میں حضرت ابوذر رض: سے روایت ہے، جس میں یہ صراحت ہے کہ مسجد بیت الحرام کی تعمیر اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر میں چالیس سال کا عرصہ ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مسجد بیت الحرام کو ابن آدم کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا۔ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت الحرام کے اور حضرت سلیمان علیہ السلام مسجد اقصیٰ کے مجدد ہیں، نہ کہ مؤسس۔ اور مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے، جس میں معراجِ نبوی کا تذکرہ ہے۔ (الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل ص:۸-۱۰)

مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ادوار اس بارے میں مختلف روایات ہیں کہ مسجد اقصیٰ کا مؤسّسِ اول کون ہے:پہلا قول یہ ہے کہ سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے تعمیرکی۔ تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت سام بن نوح سب سے پہلے تعمیر کرنے والے ہیں اور چوتھا قول یہ ہے کہ حضرت داؤد وسلیمان علیہما السلام پہلے تعمیر کرنے والے ہیں۔ 

علامہ احمد بن عبد الواحد المقدسی فرماتے ہیں کہ ان سب روایتوں میں اس طرح تطبیق ہوسکتی ہے کہ سب سے پہلے فرشتوں نے ، پھر حضرت آدم علیہ السلام نے، پھر حضرت سام بن نوح نے اور پھر حضرت داؤد وسلیمان علیہما السلام نے بالترتیب 
تعمیر کیا ہو۔(حوالہ سابقہ)

مسجد اقصیٰ پر آنے والے حوادثات




مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے بعد اس پر مختلف قسم کے حوادثات آئے، جس کی وجہ سے دوبارہ اس کی تجدید اور تأسیس کی ضرورت پڑتی رہی،لیکن تاریخ کی کتابوں میں چھ حوادثات کا ذکر ہے، جن میں باہر سے القدس پر حملہ ہوا، مسجد کو دو مرتبہ نقصان پہنچا۔ ان دو واقعوں کا ذکر قرآن پاک کی سورہٴ اسراء کے شروع میں ہے۔

پہلا واقعہ جس میں مسجد کی تعمیر کو نقصان پہنچا، وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے ۴۱۵ برس بعد ۵۸۸ ق-م میں پیش آیا،

 جب اہل فارس کے بادشاہ بخت نصر نے اس پر حملہ کیا اور پورے شہر کو آگ لگادی، جس میں مسجد کی عمارت منہدم ہوگئی، پھر شاہ ایران کے تعاون سے دوبارہ اس کی تعمیر ہوئی۔ دوسرا واقعہ ۶۳ ق-م میں ہوا، جس میں دوبارہ رومی قابض ہوگئے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کے چالیس سال بعد ۷۰ء میں طیطلس نامی بادشاہ نے اس شہر کو بالکل تباہ کردیا، اس میں بھی مسجد کو نقصان پہنچا۔ ۱۳۵ء میں رومی بادشاہ ہیرڈوس نے اس شہر کو دوبارہ بسایا اور اس کا نام ایلیاء رکھا۔ ۶۱۴ء میں دوبارہ اہل فارس نے قبضہ کرلیا، لیکن مسجد اقصیٰ ۷۰ء سے حضرت عمررض: کے زمانے تک ویران رہی۔ (تفسیر حقانی، ج:۵،ص:۶۴/۷۱، خطط الشام ،ج: ۵،ص:۲۵۲)

              مسجد ِاقصیٰ کا اسلامی دور                                  

حضرت عمر  کے دور خلافت میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رض: نے ۱۶ھ میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا اور ان کے سامنے اپنا پیغام رکھا، نہ ماننے کی صورت میں قتل اور صلح کی صورت میں جزیہ اور خراج کا حکم سنایا، تو وہ ایک شرط پر صلح کے لئے تیار ہوگئے کہ خلیفہٴ وقت صلح کے لئے خود تشریف لائیں۔ حضرت ابوعبیدہ نے حضرت عمررض: کو خط لکھ کر ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو حضرت عمر، حضرت علی کے مشورہ سے بیت المقدس جانے پر راضی ہوگئے، یوں ۱۷ھ میں حضرت عمر کے دور خلافت میں مسجد اقصیٰ اسلام کے سائے میں آگئی۔ حضرت عمر نے مسجد کو صاف کروایا اور وہاں پر مسجد تعمیر کرالی، جس کو مسجد عمر رض: کہتے ہیں۔ (البدایہ والنہایہ،ج: ۱۲،ص:۳۴۴تا ۳۴۸/الروختین فی اخبار الدولتین،ج: ۳،ص:۲۰۶-۲۶۰)

اسلامی دور میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر وترقی

۱۷ھ میں فتح کے کافی عرصہ بعد اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے ۶۵ھ میں اس کی تعمیر اور مرمت کا آغاز کیا اور ولید بن عبد الملک نے مصر کے سات سال کا خراج اس کی تعمیر کے لئے وقف کردیا تھا۔ ۱۳۰ھ اور ۱۵۸ھ کے زلزلوں میں اس کی عمارت کو نقصان پہنچا تو ۱۶۹ھ میں مہدی کے دور حکومت میں دوبارہ اس کی تعمیر نو کی گئی۔ ۴۰۷ھ کے زلزلے میں قبّہ کی دیوار یں منہدم ہوگئیں تو ۴۱۳ھ میں ظاہر فاطمی نے اس کی دوبارہ تعمیر کی اور افرنگی بادشاہوں نے مسلمان بادشاہوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ۴۹۲ھ میں بیت المقدس پر حملہ کردیا اور حضرت عمر کے برخلاف اس بادشاہ نے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور مسجد کی بے حرمتی کی اور مسجد میں گھوڑوں کے لئے اصطبل بنایا، جس کو ”اصطبل سلیمان“ کہا جاتا تھا اور مال متاع لوٹ لیا تھا۔ ۹۱ سال تک مسجد اقصیٰ ان کے قبضہ میں رہی۔ پھر سلطان نور الدین زنگی کے فتوحات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کے جانشین سلطان الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب نے ۵۵۳ھ میں دوبارہ قبضہ کرلیا اور مسجد کی صفائی کروا کر اس کی مرمت کی۔ (معجم البلدان،ج: ۵،ص:۱۶۸،خطط الشام، ج:۵،ص:۲۵۳،۲۵۲)
اس کے بعد مسلمان بادشاہ اس کی مرمت اور تزیین میں حصہ لیتے رہے: ۶۵۵ھ میں ملک معظم نے، ۶۶۸ھ میں ظاہر بیبرس نے، ۷۸۶ھ میں منصور قلادوں نے، ۷۶۹ھ میں ملک اشرق نے، ۷۸۹ھ میں ظاہر برثوق اور ظاہرجقمق العلانی نے، ۸۷۷ھ میں الاشرف ابو النصر نے تجدید کی۔

خلافت عثمانیہ کے خلفاء بھی حصہ لیتے رہے، خاص طور پر سلیمان القانونی نے ۹۴۹ھ میں تجدید کی۔ اس کے بعد عثمانی خلفاء نے اس کی طرف خاص توجہ نہ دی، بہرحال پھر بھی ۱۲۳۲ھ، ۱۲۵۶ھ، ۱۲۹۱ھ اور اس کے بعد بھی تزیین وآرائش کا کام جاری رہا اور موجودہ تعمیر ترک سلاطین کے دور میں سلطان عبد الحمید( ۱۸۵۳ء) اور سلطان عبد العزیز (۱۸۷۴ء) کے دور حکومت کی تعمیر کردہ ہے۔ (خطط الشام،ج: ۵،ص:۲۵۲،۲۵۱- القدس دراسةً تاریخیةً)

مسجد ِاقصیٰ کی مساحت
مسجد اقصیٰ کا اطلاق اس پورے احاطے پر ہوتا ہے، جس کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا ہے اور اس پر مسجداقصیٰ کا اطلاق کیا ہے۔ اس اعتبار سے اور ہردورمیں گز اور میٹر کے اختلاف کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کے طول وعرض میں مؤرخین کے مختلف اقوال ہیں۔ ”احسن التقاسیم“ اور ”مختصر کتاب البلدان“ میں ہے کہ مسجد کی لمبائی ایک ہزار گز اور چوڑائی ۷۰۰ گز ہے۔ (احسن التقاسیم، ۱۴۷)

”معجم البلدان“ میں ہے کہ اس کی لمبائی اس کی چوڑائی سے زیادہ ہے۔ ناصر خسرو نے اپنے سفرنامے میں جو ۴۳۸ھ میں ہوا، اس میں لکھا ہے کہ مسجد بیت المقدس کی لمبائی ۷۵۴ گز اور چوڑائی ۴۵۵ گز ہے، یہ خراسان وغیرہ کے گز کے حساب سے ہے۔ابن جبیر نے اپنے سفرنامہ میں جو ۵۷۸ھ- ۵۸۱ھ میں ہوا، اس میں لکھا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی ۷۸۰ گز لمبائی اور ۴۵۰ گز چوڑائی ہے اور حدود حرم کے اندرونی ہال کا طول ۶۰۰ گز اور عرض ۷۰۰ گز ہے، نہایت عمدہ اور خوبصورت نقش ونگار کیا ہوا ہے۔ تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسجد اقصیٰ روز اول سے جن حدود پر قائم ہوئی، آج بھی انہیں حدود پر قائم ہے۔ کبھی چار دیواری کے اندر پورے احاطے کو مسجد اقصیٰ کہا جاتا ہے اور کبھی صرف اس خاص حصہ کو مسجد اقصیٰ کہا جاتا ہے۔ (القدس دراسةً تاریخیةً)

مسجد اقصیٰ کے متعلق فضائل

مسجد اقصیٰ کے فضائل احادیث میں آئے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ:
”رسول اللہا نے فرمایا کہ تین مسجدوں کے علاوہ (کسی دوسری جگہ کے لئے) تم اپنے کجاووں کو نہ باندھو (یعنی سفر نہ کرو): مسجد حرام، مسجد رسول (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد اقصیٰ “۔ (بخاری ج:اص:۱۰۸) 
اور ایک روایت میں ہے کہ:
 مسجد اقصیٰ میں ایک نماز بیس ہزار نمازوں کے برابر (اجر وثواب رکھتی) ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ:
جو شخص بیت المقدس میں نماز پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرمائیں گے“۔ (فضائل بیت المقدس، ص:۱۰۷)
مسجد اقصیٰ کی حدود میں دیگر بھی ایسی چیزیں موجود ہیں، جو مسلمانوں کے لئے باعث فخر ہیں، جن میں سے حدود حرم میں
واقع قبے، مینارے اور مدرسے ہیں، جن کو مسلمان بادشاہ مختلف ادوار میں تعمیر کرواتے رہے، ان میں سے چندمشہور قبّوں کے نام یہ ہیں: قبة المعراج، قبة السلسلة، قبة النحویة، قبة الصخرة۔(خطط الشام، ۵/۲۵۷) ان سب میں سے زیادہ مقدس قبة الصخرة ہے، جس کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا جاتا ہے۔ 

قبة الصخرة           

قبہ گنبد کو اور الصخرة چٹان کو کہتے ہیں، یہ قبہ ایک چٹان پر واقع ہے۔ ناصر خسرونے اپنے سفرنامہ میں اس کے اوصاف بیان کئے ہیں کہ یہ قبة الصخرة ایک چبوترہ میں واقع ہے اور صخرہ قبہ کے وسط میں ہے اور قبة الصخرة مثمّن الاضلاع (آٹھ پہلوؤں والا) ہے، آٹھ پہلوؤں میں سے ہر پہلو ۳۳ گز کا ہے اور چاروں طرف دروازے ہیں اور قبہ کا اندرونی احاطہ ۵۳ میٹر ہے، سیڑھیوں سے چڑھ کر اوپر کی طرف پہنچتے ہیں، سیڑھیوں کے اختتام پر دروازے ہیں اور قبہ کا اندرونی حصہ تین حصوں پر مشتمل ہے: پہلے میں چٹان، دوسرے میں ستون اور تیسرا حصہ دروازے کے ساتھ متصل ہے۔
قبہ میں اندر کی طرف ستون کی دوقطاریں ہیں۔ پہلی قطار چٹان کے اردگرد ہے، اس میں چار بڑے مربّعة الاضلاع (چار پہلووٴں والے) اور دو گول چھوٹے ستون ہیں۔ دوسری قطار ذرا فاصلہ پر ہے، اس میں آٹھ بڑے مسدّسة الاضلاع (چھ پہلووٴں والے) اور(۱۶) سولہ چھوٹے ستون ہیں اور ان ستونوں پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے۔ 

سب سے پہلے اس کی تعمیر خلیفہ عبد الملک بن مروان نے کی ہے یا تاریخ یعقوبی کے مصنف نے یہ ایک بات نقل کی ہے کہ جب خلیفہ عبد الملک بن مروان کا حضرت عبد اللہ بن زبیر سے اختلاف ہوا تو حجاز پر حضرت عبد اللہ بن زبیر کا کنٹرول تھا ، خلیفہ نے لوگوں کی توجہ حرمین شریفین سے ہٹانے کے لئے مسجد اقصیٰ میں قبة الصخرة تعمیر کروایا، لیکن یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ تاریخ یعقوبی کا مصنف شیعہ ہے اور وہ اموی خلفاء کو پسند نہیں کرتا، دوسری وجہ یہ ہے کہ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اسی دور میں جامع مسجد دمشق اور دیگر مقدس مقامات پر شاندار، خوبصورت عمارتیں تعمیر کروائیں، یہ بھی ان میں سے ہے۔ (خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۳، تاریخ یعقوبی،ج: ۲ص:۱۸۲ ،القدس)

بہرحال قبة الصخرة اموی دور کا ایک اہم شاہکار تصور کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کی رونق میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ قبة الصخرة کی تعمیر مشہور تابعی ”رجاء بن حیوہ“ اور ”یزید بن سلام“ کی نگرانی میں مکمل ہوئی، جب تعمیر مکمل ہوئی تو ان حضرات نے خلیفہٴ وقت کو لکھا کہ ایک لاکھ دینار بچ گئے ہیں، تو خلیفہ نے ان کو ان کی ایمان داری اور دیانت کا انعام دینا چاہا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس اعزاز میں اور نعمت کے شکرانے کے طور پر اپنی بیویوں کے زیور اس پر لگادیں، چہ جائیکہ اس کے بدلے انعام لیں، تو خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کے سونے کو پگھلا کر طلا کاری کردی جائے۔ یہ ان کے اخلاص کا نتیجہ تھا۔ (فضائل بیت المقدس،ص:۷۳)

الصخرة

یہ قبہ جس چٹان پر واقع ہے، وہ چٹان ایک قدرتی پتھر ہے، جس کی لمبائی ۵۶ فٹ اور چوڑائی ۴۲ فٹ ہے اور نیم دائرے کی غیر منظم شکل ہے۔ ناصر خسرو اپنے سفرنامہ میں لکھتے ہیں کہ اس کا کل احاطہ ۱۰۰ گز ہے اور یہ غیر منظم شکل ہے اور نہ ہی مدوّرة اور نہ ہی مربّعة، یہ عام پہاڑوں کی طرح ہے۔ (القدس دراسةً تاریخیةً)

اس چٹان کے کئی فضائل ہیں ۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ چٹان جنت کی چٹانوں میں سے ہے۔ اکثر مؤرخین کے نزدیک یہ وہی جگہ ہے، جہاں پر اسرافیل علیہ السلام کھڑے ہوکر نفخہٴ اخیرہ پھونکیں گے۔ یہی انبیاء سابقین کا قبلہ رہا ہے اور ۱۶،۱۷ ماہ تک نبی کریم ا بھی اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ یہودیوں کا قبلہ اول ہونے کی وجہ سے عیسائی وہاں پر کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے، جب حضرت عمر نے فتح کیا تو اس کو صاف کروایا۔ (فضائل بیت المقدس،ص:۱۲۳)

غار

اسی چٹان کے نیچے ایک غار ہے، جو مربعہ شکل میں ہے ۔اس غار کی لمبائی ۱۱ فٹ اور زمین سے اونچائی ۳۰ فٹ ہے۔ غار تک پہنچنے کے لئے قبلہ کی طرف گیارہ سیڑھیاں ہیں اور غار کے دروازے کے پاس ایک عمارت ہے جو دوستونوں پر مشتمل ہے اور سنگ مرمر سے اس کی تزیین کی گئی ہے ۔ عمارت کے اندر دو محراب ہیں۔ محراب کے نیچے دوستون انتہائی خوبصورت اور سنگ مرمر سے بنے ہوئے ہیں۔ دائیں طرف والے محراب کے سامنے ایک چبوترہ ہے، جس کو مقامِ خضر کہا جاتا ہے۔ شمال میں واقع چبوترہ کو ”باب الخلیل“ کہا جاتا ہے۔ قبّہ اور غار کا فرش خوبصورت سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے،جس سے اس کی چمک اور خوبصورتی میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ (خطط الشام،ج:۵ص:۲۵۴)

مسجد کا اندرونی حصہ

مسجد کے اندرونی حصے کے مغربی جانب جامع النساء ہے، جس کو فاطمیین نے تعمیر کروایا اور مغربی جانب جامع عمر ہے، جس کو حضرت عمر نے فتح کے بعدتعمیر کرایا تھا اور اسی عمارت کی طرف ایک بڑا خوبصورت ایوان ہے، جس کو” مقامِ عزیر“ کہا جاتا ہے، اسی ایوان کے شمال کی جانب ایک خوبصورت محراب ہے، جس کو” محرابِ زکریا“ کہا جاتا ہے اور اس کی لمبائی اور چوڑائی ۶۰۶ میٹر ہے۔ مغربی جانب ایک لوھے کا جنگلہ ہے، جس میں ایک محراب” محرابِ معاویہ “کے نام سے ہے۔ قبلہ کی جانب ایک بڑا محراب ہے، جس کو محرابِ داؤد کہتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک منبر ہے، یہ منبر سلطان نور الدین زنگی نے مسجد اقصیٰ کے لئے بنوایا تھا، خود انتقال کرگئے ، لیکن ان کے جانشین سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس کو فتح کے بعد حلب سے منگوا کر نصب کیا۔ (خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۵)

دیوارِ براق

یہ دیوار دم کے جنوب مغرب میں ہے، اس کی لمبائی ۴۷ میٹر اور بلندی ۱۷ میٹر ہے۔ روایات میں ہے کہ حضور صل: نے معراج والی رات یہاں اپنی سواری باندھی تھی، اسی مناسبت سے اس کو دیوار براق کہتے ہیں۔
مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے فتح کے بعد حضرت کعب احبار سے پوچھا کہ کہاں نماز پڑھوں؟ انہوں نے فرمایا کہ چٹان کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھیں، تاکہ سارا قدس آپ کے سامنے ہو۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ آپ نے تو یہودیوں سے ملی جلی بات کہی، میں تو وہاں پر نماز پڑھوں گا، جہاں پر رسول اللہ ا نے نماز پڑھی تھی، چنانچہ آپ  قبلہ کی جانب گئے اورفاتحین صحابہ کے ساتھ براق باندھنے کی جگہ کے قریب نماز پڑھی، آپ نے وہاں پر مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ (البدایہ والنہایہ ج:۱۲ص:۳۴۷۔خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۵/ القدس دراسةً تاریخیةً)

مینارے

مسجد اقصیٰ کے شمال اور مغرب کی جانب چار مینارے تھے، یہ چاروں مینارے چاروں دروازوں کے ساتھ تعمیر کئے گئے تھے، ان کو باب المغاربة کا مینارہ، باب السلسلہ کا مینارہ، باب؟ کا مینارہ اور باب الاسباط کا مینارہ کہا جاتا ہے۔ یہ مینارے ممالیک کے دور حکومت ( ۷۶۹ھ تا ۱۳۶۷ھ) میں تعمیر ہوئے۔ (خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۴)

مسجد اقصیٰ میں تعلیم وتعلّم اور علمی شخصیات

مسلمان بادشاہوں نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس میں تعلیم و تعلّم کے لئے بھی سہولتیں فراہم کیں: طلباء کے لئے کمرے اور درسگاہیں تعمیر کیں، ان میں سے جامعة المغاربہ، مدرسہ عثمانیہ، مدرسہ کریمیہ، مدرسہ باسطیہ اور مدرسہ طولونیہ وغیرہ تعمیر کرائے۔ مسجد اقصیٰ کی طرف بہت سی علمی اور مذہبی شخصیات نے سفر کئے، جن میں مشہور نام یہ ہیں:

 حضرت عمر کے دور خلافت میں عبادة بن صامت  متوفی۳۴ھ اور شداد بن اوس  متوفی۵۸ھ وہیں رہے۔ مشہور مفسر مقاتل بن سلیمان المتوفی سنة ۱۵۰ھ اور فقیہ امام عبد الرحمن بن عمرو اوزاعی متوفی ۱۵۷ھ اور عراق کے مشہور عالم امام سفیان ثوری متوفی ۱۶۱ھ اور مصر کے امام لیث بن سعد متوفی ۱۷۵ھ اور فقہ شافعی کے بانی امام محمد بن ادریس شافعی متوفی ۲۰۳ھ اور حجة الاسلام متوفی ۴۸۸ھ ہیں۔

اس کے بعد عیسائیوں کے قبضہ میں جانے کے بعد یہ سلسلہ موقوف ہوگیا تھا ، لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتح کے بعد دوبارہ اس میں تعلیم اور تعلّم کا سلسلہ جاری ہوگیا اور ہندوستان کے مشہور خطیب مولانا محمد علی جوہر کا مزار مدرسہ خاتونیہ کے باہر واقع ہے۔ 
(معجم البلدان،ج: ۵ص:۱۷۲ باعث النفوس الی زیارة القدس والخلیل)

بیت المقدس پر لکھی جانے والی چند کتابیں 

۱-مشیر الغرام الی زیارة القدس والشام: للامام شہاب الدین ابی محمود بن تمیم المقدسی متوفی ۷۶۵ھ
۲-الجامع المستقصیٰ فی فضائل المسجد الاقصیٰ۔ للامام بہاء الدین ابی محمد القاسم ابن ہبة بن عساکر۔
۳-الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل۔ للامام الدین الحنبلی العلیمی المتوفی ۹۲۷ھ
۴-فضائل بیت المقدس، للامام ابی المعالی المشرف بن المرجی بن ابراہیم المقدسی المتوفی ۴۹۲ھ
۵-باعث النفوس الی زیارة القدس المجروس، للشیخ برہان الدین الفراری المعروف بابن القرقاح۔
۶-فضائل بیت المقدس لابن الجوزی۔
۷-بیت المقدس والمسجد الاقصیٰ، دراسةً تاریخیةً، مولفة محمد حسن التراب۔
۸-المسجد الاقصیٰ والصخرة المشرفة، ابراہیم الغنی۔
۹-القدس، جراسة تاریخیة حول المسجد الاقصیٰ والقدس الشریف للدکتور عبد الفتاح حسن ابوعلیہ۔
۱۰- فضائل بیت المقدس، للامام الحافظ ضیاء الدین محمد بن عبد الواحد بن احمد المقدسی الحنبلی المتوفی ۶۴۳ھ۔

[مراجع


۱-بخاری۔
۲-سنن ابن ماجة۔
۳-تفسیر حقانی۔
۴-البدایة والنہایة۔
۵- کتاب الروضتین فی اخبار الدولتین لابی شامة۔
۶-فضائل بیت المقدس للامام ابی المعالی المشرف المرجی المقدس ۴۹۲ھ
۷-فضائل بیت المقدس للامام الحافظ ضیاء الدین محمد بن عبد الواحد بن احمد المقدسی الحنبلی ۶۴۳ھ
۸-القدس:تاریخیة دراسة للدکتور عبد الفتاح حسن ابوعلیہ۔
۹-الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل للامام مجیر الدین الحنبلی ۹۲۷ھ
۱۰-معجم البلدان، یاقوت حموی۔
۱۱- خطط الشام، محمد کر دعلی۔
۱۲-احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم لمحمد الیشاری۔

بشکریہ ماہنامہ بینات کراچی

Friday, 16 September 2011

عدل


عدل کا شمار ان لازمی اوصاف میں ہوتا ہے جس سے جو معاشرہ متصف ہوتو ترقی کرتا ہے اور جس معاشرے میں یہ خوبی عنقا ہو۔ وہ معاشرہ تنزل اور تباہی کی گھاٹیوں میں گرتا چلا جاتا ہے۔ یہ عدل اگر قومی اداروں میں ہو تو انصاف اور فرد کی زندگی  سے اس کا تعلق ہوتو تو ازن کہلاتا ہے۔ چناجنہ قوم اور فرد ہر دو حیثیت میں انصاف اور توازن کی اہمیت مسلمہ ہے اور اس کے بغیر نہ کوئی معاشرہ اور قوم پنپ سکتی ہے اور نہ کوئی فرد زندگی میں کامیابی حاصل کرسکتاہے۔۔ ہمارا معاملہ یہ ہہے کہ قوی سطح پر ہم کئی عشروں سے انصاف کا ماتم کررہے ہیں مگر ہماری انفرادی زندگیوں سے بھی توازن اور میانہ روی غائب ہے۔     
  عدل کے معنی انصاف اور میانہ روی کے ہیں۔ اسلام نے ہر چیز میں عدل و انصاف اور میانہ روی کی تعلیم دی ہے۔ انصاف کا تقاضا شریعت کی نظر میں یہ ہے کہ جس کا جو حق بنتا ہے اسے دیا جائے اور کسی پرظلم نہ کیا جائے۔ میانہ روی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے تمام معاملات میں توازن اور اعتدال کو اختیار کرے اور کسی جذباتی یا ذاتی غرض یا خواہش کی بناء پر اعتدال کی راہ سے ادھر ادھر نہ ہو۔ 

Tuesday, 13 September 2011

بکھرے موتی

سہیل تستری فرماتے ہیں کہ ہمارے اصول سات چیزیں ہیں

 (3)کتاب الٰہی کو مظبوط پکڑنا (1)سنت نبویہ کا اتباع کرنا،(2)اکل حلال،

(6)مخلوق کوایذاپہنچانے سے بازرہنا،(4)گناہوں سے بچنا ،(5)توبہ کرنا ،

(7)اور جملہ حقوق کااداکرنا 
عمل کی درستگی کیلئے علم ضروری ہے خصوصاًعلم فقہ کو نمازوروزہ وغیرہ عبادات میں سنت وفرض اور واجب ومستحب معلوم کرے اور معاملات میں حرام وحلال اور مکروہ کوجانے پس سالک کیلئے لازم ہے کہ عقائد کی تصحیح کے بعد سب سے پہلے جس قدر ممکن ہومسائل فقہیہ معلوم کرے چنانچہ بعض صوفیاء کا قول ہے کہ عمل بغیر علم کے سقیم وبیمار ہے اور علم بلا عمل کے عقیم وبیکار ہے اور علم مع عمل کے صراط مستقیم وراہ استوارہے
 ابوسلیمان دارانی کاارشاد ہے کہ جس عمل سے دنیا میں حضور قلب وخضوع کی حالت نہ پیداہو وہ آخرت میںبھی نافع نہ ہوگا


 (۴)صوفیا ء کرام نے طلب علم کو تمام اعمال میں افضل قرار دیا ہے کیونکہ عمل کرنا علم ہی پر موقوف ہے اور بسااوقات  بے علم شخص کبھی عقیدے میں غلطی کھاتا اوربدعت کوسنت اور باطل کوحق سمجھتاہی،چنانچہ بتہیرے فرقے داڑھی منڈاتی اور لوہے کے حلقے چوڑیاں یاطوق بناکر پہنتے ہیں اور دیگر امور قبیحہ کواپناطریقہ بنالیاہے اور اسکو وصول الی اللہ کاذریعہ سمجھے ہوئے ہیں اور کبھی بے علم شخص عمل میں لغزش کھاتا ہے کہ اطاعت اسکی بربادہوجاتی ہے اور بے علمی کے سبب اسکو پتہ بھی نہیں چلتا کہ عمل برباداور محنت ضائع جارہی ہے ۔یہ ظاہرہے کہ حق تعالیٰ درست اور خالص عمل کو قبول فرماتاہے اور کوئی عمل جب تک شریعت کے موافق نہ ہو خالص نہیں ہوسکتا اور خالص اس عمل کا نام ہے جو خاص حق تعالیٰ کے لئے ہو اور ان تمام باتوں کا جاننا علم ہی پر موقوف ہی

سہیل تستری فرماتے ہیںکہ متکبر وغافل اور ضعیف دین والے قاری اور جاہل صوفی کی صحبت سے تیر کی طرح بھاگناچاہیے کہ ان کے پاس بیٹھنا بھی دینی مضرت سے خالی نہیں چاہے 

طریقت کی کسوٹی قرآن وسنت اور اجماع امت ہے کہ جو طریقہ اس معیار پر چسپاںہوکر کھراثابت ہو وہ مقبول ہے ورنہ مردود ومطرود

 بتہیرے طالب اس راستہ (سلوک واحسان )میں بددینوں کااتباع کرکے ہلاک ہو چکے ہیں۔بلکہ سچ پوچھو تو اس راستہ میں اکثر بربادی صرف اسی کی بدولت آتی ہے کہ شیخ کامل کی تلاش پوری نہیں کرتی

پس جو شیخ اجماع امت وکتاب وسنت کے موافق عقائد رکھتا ہو بایں ہمہ طریقت وحقیقت کے علم کا بھی ماہر ہو وہ بے شک شیخ بنانے کا قابل ہے اور مبتدی طالب کو اسکی حقانیت اور مہارت کاحال اسکے مریدوں کے حالات اور ہم عصر ثقہ ودیندار لوگوں کی زبانوں سے دریافت کرنا چاہیے (کہ اسکے مریدوں کے دین کی پختگی اور اتباع شریعت میں کیاحالت ہے اور صلحاء زمانہ اسکے متعلق کیا کہتے ہیں )

سواگر علماء وقت اس پر معترض نہ ہوں بلکہ بعض اہل علم اور سمجھ دار صلحاء اوربوڑھے جوان اہل دانش اس سے فیض بھی حاصل کرتے ہوں ،دینی محبت رکھتے ہوں اور طریقت وحقیقت میں مستندتسلیم کرتے ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ در حقیقت وہ راہ حق کا ماہر ہے (پس اسکا دامن پکڑلینا چاہیی) ۔

Monday, 12 September 2011

صحابہ کرام کے حقوق وآداب




قال الله تعالیٰ: ﴿السابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی الله عنہم ورضوا عنہ واعد لھم جنت تجری تحتھا الانھار خلدین فیھا ابداً ذلک الفوز العظیم﴾ (سورہٴ توبہ:100)
ترجمہ: مہاجرین وانصار میں سے جو سب سے پہلے (ا یمان لانے میں) سبقت کرنے والے ہیں اور پھر جن لوگوں نے احسان واخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کی ہے ، الله تعالیٰ ان سب سے راضی ہو گئے اور وہ سب (بھی) الله تعالیٰ سے راضی ہو گئے اورالله تعالیٰ نے ان سب کے لیے ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ، ان میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، یہی بڑی کامیابی ہے ۔
بلاشبہ صحابہٴ کرام رضی الله عنہم دین اسلام کے ترجمان وعلم بردار، قرآن عظیم کے محافظ وپاسبان ، سنت نبوی ( علی صاحبہا الصلوة والسلام) کے عامل ومبلغ ، بلند سیرت وکردار کے حامل و داعی اور امت مسلمہ کے محسن ومعمار ہیں، یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ میں ان کو بڑا اونچا مقام ومرتبہ حاصل ہے ، 
کیونکہ الله تعالیٰ کی خصوصی ہدایت و راہنمائی اور حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مثالی تعلیم وتر بیت نے ان کو مکمل اسلامی سانچہ میں ڈھال کر پوری امت مسلمہ، بلکہ پوری انسانیت کے لیے بہترین نمونہ و آئیڈیل بنا دیا تھا۔ 
قرآن مجید میں ہے کہ ”اور اسی طرح ہم نے تم ( مومنوں) کو ایک متوازن امت بنایا ہے، تاکہ تم دنیا کے عام لوگوں پر گواہ رہو“۔ (سورہ بقرہ:143) 
اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ شریعت کی اصطلاح میں صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے حالت اسلام میں حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا اسے آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی ہو، خواہ ایک لمحہ کے لیے کیوں نہ ہو۔


صحابہٴکرام کی کل تعداد حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے وقت کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزاریا چوالیس ہزار تھی اور جن صحابہٴ کرام سے کتب حدیث میں روایات منقول ہیں ، ان کی تعداد ساڑھے سات ہزار ہے اور ان صحابہٴکرام کا تعارف حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کے قلم گہربار نے کیا خوب کرایا ہے :
” آپ صلی الله علیہ وسلم کے تیار کیے ہوئے افراد میں سے ایک ایک نبوت کا شاہکار ہے اورنوع انسانی کے لیے باعث شرف وافتخار ہے، انسانیت کے مرقع میں، بلکہ اس پوری کائنات میں پیغمبروں کو چھوڑ کر اس سے زیادہ حسین وجمیل ، اس سے زیادہ دلکش و دل آویز تصویر نہیں ملتی ، جو ان کی زندگی میں نظر آتی ہے ،
ان کا پختہ یقین ، ان کا گہرا علم ، ان کا سچا دل، ان کی بے تکلف زندگی، ان کی بے نفسی ، خدا ترسی، ان کی پاکبازی، پاکیزگی، ان کی شفقت و رافت اوران کی شجاعت و جلادت ، ان کا ذوق عبادت اور شوق شہادت ، ان کی سیم و زر سے بے پروائی اوران کی دنیا سے بے رغبتی ، ان کا عدل، ان کا حسن انتظام دنیا کی تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ 
مختلف قبائل، مختلف خاندانوں اورمختلف حیثیتوں کے افراد ایک خوش اسلوب، متحدالقلوب خاندان میں تبدیل ہو گئے 
اوراسلام کی انقلاب انگیز تعلیم اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی معجزانہ صحبت نے ان کوشِیر و شکر بنادیا۔“( دو متضاد تصویریں)
اور ایک غیر مسلم مغربی فاضل ” کائتانی“ اپنی کتاب” سنین اسلام“ میں صحابہ کرام کو بہترین خراج تحسین پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہے 
کہ ” یہ لوگ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اخلاقی وراثت کے سچے نمائندے، مستقبل میں اسلام کے مبلغ اور محمد صلی الله علیہ وسلم نے خدا رسیدہ لوگوں تک جو تعلیمات پہنچائی تھیں ، اس کے امین تھے ،
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مسلسل قربت او ران سے محبت نے ان لوگوں کو فکر وجذبات کے ایک ایسے عالم میں پہنچا دیا تھا ، جس سے اعلیٰ اور متمدن ماحول کسی نے دیکھا نہیں تھا ، 
درحقیقت ان لوگوں میں ہر لحاظ سے بہترین تغیر ہوا تھا
اوربعد میں انہوں نے جنگ کے مواقع پر مشکل ترین حالات میں اس بات کی شہادت پیش کی کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کے اصول وافکار کی تخم ریزی ، زرخیز زمین میں کی گئی تھی ، جس سے بہترین صلاحیتوں کے انسان وجود میں آئے ،
یہ لوگ مقدس صحیفہ ( قرآن مجید) کے امین اوراس کے حافظ تھے او رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے جو لفظ یا حکم انہیں پہنچا تھا، اس کے زبردست محافظ تھے۔“
ان صحابہ کرام کے فضائل ومناقب قرآن وحدیث میں بہت کثرت سے بیان ہوئے ہیں ۔ قرآن مجید کی مختلف سورتوں ( بقرہ ، آل عمران، نساء ، مائدہ، اعراف، انفال، توبہ ، حج، مومنون، نور، فرقان، سجدہ ، احزاب، فتح، حدید ، مجادلہ، حشر اور بینہ) میں حضرات صحابہ کرام کی بہت سی امتیازی صفات اورکمالات مختلف انداز واسلوب میں بیان ہوئے ہیں ، 


ان میں سے قابل ذکر خصوصیات یہ ہیں کہ صحابہٴ کرام 
الله تعالیٰ کے منتخب و مختار بندے ہیں اورحضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد پوری دنیا کے لیے اسوہ ونمونہ ہیں۔ ( سورہ حج:78) 
نیز یہ حضرات الله تعالیٰ کے نہایت محبوب اور پسندیدہ بندے ہیں اوربخشے بخشائے ہیں، حتی کہ الله تعالیٰ نے ان کو ﴿رضی الله عنہم ورضوا عنہ﴾ کا پروانہ خوشنودی عطا فرما دیا ہے۔ ( سورہ توبہ: 100) 
اور الله تعالیٰ نے دنیا میں ان کی خلافت وحکومت کی بشارت دی ہے (سورہ حج:21) 
اور آخرت میں الله تعالیٰ نے ہر صحابی سے ان کے ایمان ، انفاق او رجانی قربانیوں کے نتیجہ میں ”جنت“ کا اہم وعدہ فرمایا ہے ۔ ( سورہ حدید :10)


اسی طرح احادیث مبارکہ میں صحابہٴ کرام کے مناقب بہت تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں احادیث کی تمام کتابوں میں بہت اہتمام کے ساتھ مناقب صحابہ بیان ہوئے ہیں کہ صحابہٴکرام تمام انسانوں سے بہتر ہیں ، 
ایک حدیث شریف میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ”سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں ۔“ (بخاری ومسلم) 
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تم لوگ تمام روئے زمین کے انسانوں سے بہتر ہو ۔“ (بخاری ومسلم) حضرات صحابہٴ کرام الله تعالیٰ کے منتخب وچنندہ بندے ہیں، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے کہ ”الله تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے علاوہ تمام مخلوق میں سے میرے صحابہ کو چھانٹا ہے اور ان میں سے چار ( ابوبکر ، عمر ،عثمان اور علی) کو ممتاز کیا ہے،ان کو میرے سب صحابہ سے افضل قرار دیا ہے۔“
حضرت عبدالله بن مسعود فرماتے ہیں کہ ” آپ صلی الله علیہ وسلم (کے انتخاب) کے بعد ( الله تعالیٰ نے ) لوگوں کے قلوب پر نظر ڈالی تو کچھ لوگوں کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب اوراپنے دین کے ناصر ومدد گار اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے وزراء اور نائبین کے طور پر منتخب فرمایا۔“ (مؤطا امام محمد)
اسی طرح صحابہٴ کرام دنیا میں پوری امت کے امن وامان کے باعث ہیں ، ایک حدیث میں ہے کہ ” میرے صحابہ میری امت کے امن وامان کا ذریعہ ہیں ، جب میرے سارے صحابہ الله تعالیٰ کو پیار ے ہو جائیں گے تو میری امت پر تمام وہ آفات اورمصائب ٹوٹ پڑیں گے ، جن کی وعیدیں کو دی گئی ہیں۔“ ( مسلم)
صحابہٴکرام اس دنیا میں خیر وبرکت اور فتح ونصرت کے موجب ہیں ، ایک حدیث میں ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مسلمانوں کا لشکر روانہ کیا جائے گا اور ( بوقت روانگی وجہاد) لوگ اس تلاش وجستجو میں ہوں گے کہ کیا اس لشکر میں کوئی صحابی موجود ہیں؟ 
ایک صحابی اس لشکر میں مل جائیں گے اورانہیں کی برکت سے الله تعالیٰ مسلمانوں کے اس لشکر کو فتح نصیب فرمائیں گے۔“(بخاری ومسلم)
اورصحابہ کرام قیامت کے دن اپنے مدفون علاقہ کے لوگوں کے قائد اور رہنما بن کر اٹھائے جائیں گے ، 
ایک حدیث میں ہے کہ ” کوئی صحابی کسی سر زمین وعلاقہ میں نہیں وفات پاتے ہیں مگر وہ روز وقیامت اس علاقہ کے لوگوں کے قائد اور رہنما بن کر اٹھائے جائیں گے۔“ (ترمذی) 
صحابہ کرم میں سے ہر ایک صحابی جنت میں جائیں گے اورجہنم کی آگ سے محفوظ رہیں گے ، ایک حدیث میں ہے کہ ”جہنم کی آگ اس مسلمان کو چھو نہیں سکتی ہے ، جس نے مجھے دیکھا ہے یا میرے دیکھنے والوں کو دیکھا ہے۔“ (ترمذی)
قرآن وحدیث میں صحابہٴکرام کے کچھ حقوق وآداب بیان ہوئے ہیں ، ان میں سے قابل ذکر اہم حق یہ ہے کہ ان کے شایانِ شان ان کی تعظیم وتکریم کی جائے، کیوں کہ صحابہ کرام کے اکرام کرنے کا حکم آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کو بالکل واضح انداز میں دیا ہے ، 
آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” میرے صحابہ کا اکرام کرو، کیونکہ صحابہ تم تمام میں سب سے زیادہ بہتر ہیں۔“ (نسائی) 


صحابہ کے اکرام کا تقاضا ہے کہ ان کے تذکرہ کے وقت ان کا پورا پورا پاس ولحاظ رکھا جائے ، پوری رعایت برتی جائے اور تحریر وتقریر کے وقت ان کے بارے میں بڑے احتیاط سے کام لیا جائے ، کیونکہ صحابہٴ کرام کے پاس و لحاظ کرنے میں ہم مسلمانوں کا ہی فائدہ ہے ، 
روز قیامت حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت نصیب ہو گی اورحوض کوثر تک پہنچنا ممکن ہو سکے گا ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے کہ ”جو شخص صحابہ کے بارے میں میری رعایت کرے گا ، میں قیامت کے دن اس کا محافظ ہوں گا۔“ 


ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”جو میرے صحابہ کے بارے میں رعایت رکھے گا وہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ سکے گا اورجو ان کے بارے میں میری رعایت نہ کرے گا وہ میرے پاس حوض کوثر تک نہیں پہنچ سکے گا اورمجھے دور ہی سے دیکھے گا۔ (حکایاتِ صحابہ)


صحابہٴکرام کی تعظیم کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ان سے محبت اورتعلق رکھا جائے، کیونکہ ان سے محبت وتعلق رضائے الہٰی کا ذریعہ ہے اوران سے عداوت وبغض رضائے الہٰی سے محرومی کا باعث ہے اوردنیا وآخرت میں بڑے نقصان وخسارہ اور رسوائی وعذاب کا موجب ہے ، 
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بہت ہی جامع انداز میں ہم مومنوں کو مؤثر تنبیہ فرمائی ہے کہ ” الله تعالیٰ سے میرے صحابہ کے بارے میں ڈرو، الله تعالیٰ سے میرے صحابہ کے سلسلہ میں ڈرو ، میرے بعد ان کو ملامت کا نشانہ مت بناؤ ، جو شخص ان سے محبت رکھتاہے، میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھتا ہے اورجوان سے بغض رکھتا ہے وہ میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے ،
جو شخص ان کو اذیت وتکلیف دی اس نے مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھ کو اذیت دی اس نے الله تعالیٰ کو اذیت دی اور جو شخص الله تعالیٰ کو اذیت دیتاہے ، بہت ممکن ہے کہ الله تعالیٰ ایسے شخص کو ( دنیا وآخرت میں )سزا اورعذاب میں مبتلا کر دے ۔(ترمذی)
ایک دوسری حدیث میں بہت ہی بلیغ وموثر اسلوب میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” میرے صحابہ کو برامت کہو ، اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تب بھی وہ ان کے ایک مد ( ایک کلو وزن کے برابر ایک پیمانہ) یا نصف مد (جو) خرچ کرنے کے برابر بھی ثواب کا مستحق نہ ہو گا۔“ (بخاری ومسلم) 
یقینا صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنا الله تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام مومنوں کی لعنت وملامت کا موجب ہے ، ایک حدیث میں ہے کہ ”جو شخص حضرات صحابہٴ کرام کو گالیاں دے ، اس پر الله تعالیٰ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے ، نہ اس کا فرض مقبول ہے او رنہ نفل۔“ (حکایاتِ صحابہ) 
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے گستاخ پر لعنت بھیجنے کا صریح حکم دیا ہے کہ “ جب تم لوگ صحابہ کرام کو گالی دیتے ہوئے ( منافق) لوگوں کو دیکھو تو کہو کہ تمہاری بد گوئی پر الله تعالیٰ کی لعنت ہو ،( ترمذی) 


یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ صحابہٴ کرام کو گالی دینا حرام اورگناہ کبیرہ میں سے ہے ۔اس لیے تمام مومنوں کو چاہیے کہ صحابہ کرام کی تنقیص وتنقید سے بچیں ، صرف ان کی تعریف وتوصیف کریں، کیونکہ ان کی تعریف ایمان کی علامت ہے اوران کی تنقیص (بے عزتی ) نفاق کی پہچان ہے۔
حضرت ایوب سختیانی نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ ” جو صحابہ کی بے ادبی کرتا ہے وہ بدعتی ، منافق اورسنت کا مخالف ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ اس کا کوئی عمل قبول نہ ہو، یہاں تک کہ ان سب کو محبوب رکھے اوران کی طرف سے دل صاف ہو ۔“ (حکایات صحابہ)
اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ صحابہٴکرام کی شان عالی میں گستاخی کرنے والوں سے دوری اختیار کی جائے اور ان سے ہر گز کوئی تعلق نہ رکھا جائے، 


چنانچہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنی امت کو زور دار انداز میں متنبہ فرمایا ہے کہ ”بلاشبہ الله تعالیٰ نے ( تمام بندوں میں ) مجھے منتخب فرمایا ہے او رمیرے لیے اصحاب، انصار اوررشتہ داروں کو منتخب فرمایا ہے ، عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو میرے صحابہ کو بُرا کہیں گے اور ان کی تنقیص ( بے ادبی) کریں گے، پس تم ان کے ساتھ میل ملاپ نہ کرنا ، نہ ان کے ساتھ کھانا پینا اور نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنا۔ “( مرقاة)


صحابہٴکرام کا دوسرا اہم ترین حق یہ ہے کہ ان کے اعمال وافعال میں اوران کے اخلاق میں ان کی اتباع وپیروی کی جائے، کیونکہ الله تعالیٰ نے سابقین اولین صحابہٴ کرام کی اتباع واقتدا پر ہم تمام مومنوں کو اپنی خوشنودی کی بشارت دی ہے۔ (سورہ توبہ:100)
اوران کی زندگی کو ہمارے لیے اسوہ ونمونہ قرار دیا ہے 
اوران کے عمل کو مثالی قرار دیا ہے۔ ( سورہ حج:78) 
اسی طرح احادیث مبارکہ میں ان کی اتباع وپیروی کی تاکید وترغیب بہت اہتمام سے بیان ہوئی ہے ،
ایک حدیث میں ہے کہ ” میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ، جس کی اتباع کرو گے ہدایت پاؤ گے ۔“
محققین اہل سنت والجماعت نے سورہ توبہ (آیت :100) سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اصحابِ نبی صلی الله علیہ وسلم مقتدایان امت ہیں اورتمام صالحین ان کے تابع ہیں۔ (تفسیر ماجدی)
چنانچہ حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے بعد صحابہٴکرام کے نقش قدم پر چلنا دنیا وآخرت میں کامیابی وکامرانی کا موجب ہے 
ایک طویل حدیث میں ہے کہ ” میری امت تہتر(73) فرقوں میں تقسیم ہو گی، ایک فرقہ کے علاوہ سب فرقے جہنم میں جائیں گے۔ 
حضرات صحابہٴ کرام نے پوچھا یا رسول الله ! جنت میں جانے والا فرقہ کون سا ہو گا ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ جو فرقہ اس راستہ پر جما رہا جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔“ (ترمذی)
اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے بعض اوقات بعض خاص صحابہٴ کرام کی اتباع وپیروی کرنے کا حکم عالی فرمایا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ” میں تم لوگوں میں اپنے قیام کی مقدار نہیں جانتا، پس میرے بعد دو صحابہٴ کرام کی اقتدا کرنا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اورحضرت عمر کی طرف اشارہ فرمایا۔“ (ترمذی)
اورایک دوسری حدیث میں چاروں خلفائے راشدین کی سنت پر گامزن ہونے کی مؤثر ترغیب دی ہے کہ ” میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت تم تمام پر واجب ہے اور اس کو اپنی ڈاڑھوں (دانتوں) سے مضبوط پکڑ لو۔“ (ابوداؤد)
مذکورہ بالا دوحقوق کے علاوہ صحابہ کرام کے اوربھی حقوق وآداب ہیں ان میں سے سب سے زیادہ قابل ذکر حق ” دفاع صحابہ“ ہے ، موجودہ حالات میں اس حق کی ادائیگی بہت ضروری ہے ، اس حق سے پہلوتہی باعث لعنت ہے، 


چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ” جب فتنے یا بدعت ظاہر ہونے لگیں اورمیرے صحابہ کو برا کہا جانے لگے تو عالم کو چاہیے کہ اپنے علم کو کام میں لا کر صحابہٴ کرام کا دفاع کرے اور جوشخص حضرات صحابہ کا دفاع نہیں کرے گا تو اس پر الله تعالیٰ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اورتمام لوگوں کی لعنت ہو اورالله تعالیٰ نہ اس کے فرض قبول فرمائیں گے اور نہ ہی نفل۔“ ( مرقاة) 
بہرکیف حضرت قاضی عیاض نے اپنی مشہور کتاب ” شفاء“ میں صحابہٴ کرام کے اہم حقوق بیان کرتے ہوئے کیا خوب تحریر فرمایا ہے کہ ” ان حضرات کو برائی سے یاد نہ کرے، بلکہ ان کی خوبیاں اوران کے فضائل بیان کیاکرے اور عیب کی باتوں سے سکوت کرے، 
جیسا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” جب میرے صحابہ کا ذکر ( براذکر) ہو تو سکوت کیا کرو۔“
یقینا صحابہ کرام تاریخ ساز، عہد آفریں شخصیات کا مجموعہ ہیں اوریہ الله تعالیٰ کی نعمت عظمی کے پر تو، حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تربیت کا ثمرہ اوراسلام کی صداقت کی دلیل وحجت ہیں اور یہ حضرات بلاشبہ حضرت مسیح علیہ السلام کی زبان میں” زمین کانمک اور پہاڑی کا چراغ“ تھے، 
جن سے ان کی اپنی ہم عصر دنیا نے رشد وہدایت کا نور حاصل کیا اور آج کی تاریخ میں بھی ان کی بلند سیرت وکردار کی شعاعوں سے ہم اپنی زندگیاں منور کر سکتے ہیں اوران کی مثالی زندگی سے اپنی دنیا وآخرت دونوں سنوار سکتے ہیں اور دونوں جگہ کام یاب وکامراں ہو سکتے ہیں ،الله تعالیٰ ہم تمام مومنوں کو ان کے نقش قدم پر خلوص واحسان کے ساتھ چلنے کی توفیق ارزانی فرمادے اور ان کی محبت وعظمت ہمارے دلوں میں راسخ فرما دے ۔ آمین
﴿ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین آمنوا ربنا انک رؤف رحیم﴾(حشر:10)