نیٹو کا حملہ 24 مسلمان پاکستانی فوجی شہید ۔ ۔ ۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اٰمین
پاکستان کی سر زمین پر ایک عرصہ سے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ۔ ۔ کچھ غیروں کا ستم کچھ اپنوں کا کرم ۔ ۔ ۔ ۔
کل شام کو جب یہ خبر سنی یقین مانئیے دل بجھ سا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ یوں لگا جیسے کسی نے دل کو مٹھی میں جکڑ لیا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ میرے خدا یہ کیا معاملہ ہے ۔ ۔ ۔ آج مسلمان کا خون اتنا سستا کیوں ہو گیا ہے ۔ ۔ ۔ کبھی ڈرون آتے ہیں اور معصوم وبے گناہ مسلمانوں کو شہید کرتے ہیں اور کبھی یہ امریکی بے غیرت آتے ہیں ہمارے ملک کی خود مختاری کو تہس نہس کرتے چلے جاتے ہیں ۔ ۔
اپنے ملک سے محبت کسے نہیں ہوتی اگرچہ جو بندہ یہاں اسلام یا جہاد کی بات کرے اسے دہشت گرد کا لقب مل جاتا ہے ۔ ۔ ۔ میں بھی یہاں اسلام چاہتا ہوں کفار سے جہاد کا حامی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر پاکستا ن کے ہر زخم پر میں تڑپ کے رہ جاتا ہوں ۔ ۔ ۔ میں کبھی پاکستان کا پرچم نیچا نہیں دیکھنا چاہتا مجھے یہ پرچم اونچا فضا میں لہراتا بہت ہی پیارا لگتا ہے ۔ ۔ ۔
مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کل شام سے یوں لگ رہا ہے کہ میرا یہ پرچم گر گیا ہے ۔ ۔ ۔ میری دھرتی تڑپ رہی ہے ۔ ۔ ۔ کہ میرے محافظ کہاں گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسے میں میرے موبائل سے جنید جمشید کی آواز ابھرتی ہے ۔ ۔ طارق بن زیاد کی دعا ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ طارق بن زیاد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اپنے شاندار ماضی کی حسین یادوں میں کھو جاتا ہوں ۔ ۔ ۔ جہاں مجھے جرات اور بہادری اور غیرت نظر آتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں سوچ میں پڑگیا ہم کیا سے کیا ہو گئے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ بہادر سے بزدل ۔ ۔ ۔۔ ۔ غیرت مند سے بے غیرت ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں ہوا یہ سب ۔ ۔ ۔ کیسے ہوا یہ سب ۔ ۔
تصور پرواز کرتا ہوا ۔ ۔ ۔ اپنے آقا و مولا محمد رسول اللہ صل: کے روضہ انور
پر جا پنہچا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے خودی میں ہاتھوں نے حلقہ بنا لیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آنکھیں برسنے لگیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پلکیں قدمین شریفین کے بوسے لینے لگیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس تصور میں ہی ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آنکھیں برسنے لگیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ساون کی جھڑی لگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عرض کی کہ آقا صل: ۔ ۔ ۔ آپ کے غلام بہت پریشان ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ہم غلاموں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیٹیاں لٹ گئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسجدیں گرا دی گئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمان کاٹ دئیے گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلامی ممالک تباہ ہو گئے ۔ ۔
یہ سب کیوں ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔آقا صل: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم بہت پریشان ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کا رب ہم سے ناراض ہو گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم ذلتوں میں گر گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آواز آئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان ذلتوں کا انتخاب تم نے خود کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس غلام کو پسند تم نے خود کیا ہے ۔ ۔ مسلمان کے خون کو بے قیمت تم نے خود کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
میں نے تو تمہیں بتایا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عزت کی راہ دکھائی تھی ۔ ۔ ۔ غیرت کی زندگی بتائی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ مگر تم روگردانی کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غیروں کی بات کو مانا مجھے چھوڑ دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ کہ 2 چیزوں کو اپنے اندر نہ آنے دینا ۔ ۔ حب الدنیا و کراہیۃ الموت ۔ ۔ ۔ دنیا کی محبت اور موت کی نفرت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں کہ یہ دونوں تمہیں غیرت کی زندگی سے دور کردین گی ۔ ۔ ۔
غیرت کی زندگی کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آواز آئی جہاد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں غیرت کی زندگی جہا د ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم دنیا سے محبت اور موت سے نفرت کروگے تو وَھَن جیسے مرض کا شکار ہو جاوگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم غیرت کی راہ یعنی جہاد کو چھوڑ دو گے ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کیا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ذلت تمہارا مقدر بن جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں تصور کی دنیا سے نکلا ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں کہ میں سمجھ گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ کہ یہ ذلت ہمارا مقدر کیوں ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اور دل ہے کہ اداس بہت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
واقعی میں سیفی بھائی دل تو بہت اداس ہے
ReplyDeleteالسلام علیکم
ReplyDeleteیاسر بھائی آمد کا شکریہ ۔ ۔ ۔ مگر شکوہ بھی ہے کہ آپ کی آمد بہت کم ہوتی ہے ۔ ۔ یہ جو بھی ہے آُ کی رہنمائی سے ہی ممکن ہوا ہے ورنہ مجھے تو کچھ بھی علم نہ تھا ۔ ۔ اب بھی اگر کچھ محسوس کریں تو بتا دیا کریں اور چکر لگاتے رہا کریں ۔ ۔ ۔
شکریہ