مولانا عبد اللہ خالد
دعوائے مسلمانی کے باوجود ہم مسلمانوں نے اپنی زندگی کے ہر عمل اور ہرقدم کو بے دھڑک رسم ورواج اور ”زمانے کی ضروریات“ کے مطابق ڈھالنے کی روش اختیار کر رکھی ہے جس کی بنا پرہمارے لیے مذہب ثانوی اور” زمانے کا تقاضا “اولین حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
نتیجہ؟ ”رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی “ کے مصداق مسلمانی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود ہماری زندگی میں شاید ہی کوئی عمل ہو جس میں اسلامی تعلیمات کی جھلک نظر آتی ہو۔ مگر زعم اس بات کا کہ ہم جدی پشتی مسلمان ہیں، حد یہ ہے کہ خاص دینی اعمال بھی اب اسلامی تعلیمات کی روشنی سے خالی ہیں اور ان میں بھی تاریکی ہی تاریکی ہے ہمارے خاص دینی اعمال جیسے نماز، روزہ، حج اور قربانی وغیرہ اُس روح سے خالی ہیں جس کا تقاضا اسلام ہم سے کرتا ہے ۔ اور بے روح، بدن یقینا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہمارے اعمال بھی بے روح ہو چکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں ، وظائف کرتے ہیں ، روزہ رکھتے ہیں ، زکوٰة دیتے ہیں ، حج بھی کرتے ہیں اور قربانی بھی کرتے ہیں مگر ہماری روزانہ کی زندگی پر اس کے اثرات نظر نہیں آتے۔
وجہ…؟ صرف یہ ہے کہ ہم نے دینی اعمال کو بھی اپنی دنیا سازی کا مقصد اور ہدف بنا ڈالا ہے۔ ہمیں دین کی وہ تمام باتیں اچھی لگتی ہیں جن سے ہماری دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے مگر ایسے اعمال جن سے بہ ظاہر ہمارے دُنیا وی فوائد واہداف کو کوئی گزند پہنچنے کا خطرہ ہو ، ہمارے لیے قابل توجہ وقابل عمل نہیں ہوتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے لیے قابل ترجیح دنیا کی زندگی ہے ، نہ کہ دین اور آخرت!
اور ہمارے موجودہ شدید ترین سیاسی اور معاشی مسائل کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے دنیا کی محبت کو دین اور آخرت کی محبت پر مقدم کر رکھا ہے ، ایک حدیث نبوی صلی الله علیہ وسلم سے ہمیں واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ جب مسلمان پر دنیا کی محبت غالب آجائے گی تو دُنیا بھر کے کافر مل کر اس پر ٹوٹ پڑیں گے۔
آئیے… ! قربانی کے اس دن ہم عہد کریں کہ اپنی دنیا کی محبت کو دین کی محبت پر قربان کرتے ہیں، اور آج سے ہم دین کو اپنی دنیا پر ترجیح دیں گے۔
نتیجہ؟ ”رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی “ کے مصداق مسلمانی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود ہماری زندگی میں شاید ہی کوئی عمل ہو جس میں اسلامی تعلیمات کی جھلک نظر آتی ہو۔ مگر زعم اس بات کا کہ ہم جدی پشتی مسلمان ہیں، حد یہ ہے کہ خاص دینی اعمال بھی اب اسلامی تعلیمات کی روشنی سے خالی ہیں اور ان میں بھی تاریکی ہی تاریکی ہے ہمارے خاص دینی اعمال جیسے نماز، روزہ، حج اور قربانی وغیرہ اُس روح سے خالی ہیں جس کا تقاضا اسلام ہم سے کرتا ہے ۔ اور بے روح، بدن یقینا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہمارے اعمال بھی بے روح ہو چکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں ، وظائف کرتے ہیں ، روزہ رکھتے ہیں ، زکوٰة دیتے ہیں ، حج بھی کرتے ہیں اور قربانی بھی کرتے ہیں مگر ہماری روزانہ کی زندگی پر اس کے اثرات نظر نہیں آتے۔
وجہ…؟ صرف یہ ہے کہ ہم نے دینی اعمال کو بھی اپنی دنیا سازی کا مقصد اور ہدف بنا ڈالا ہے۔ ہمیں دین کی وہ تمام باتیں اچھی لگتی ہیں جن سے ہماری دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے مگر ایسے اعمال جن سے بہ ظاہر ہمارے دُنیا وی فوائد واہداف کو کوئی گزند پہنچنے کا خطرہ ہو ، ہمارے لیے قابل توجہ وقابل عمل نہیں ہوتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے لیے قابل ترجیح دنیا کی زندگی ہے ، نہ کہ دین اور آخرت!
اور ہمارے موجودہ شدید ترین سیاسی اور معاشی مسائل کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے دنیا کی محبت کو دین اور آخرت کی محبت پر مقدم کر رکھا ہے ، ایک حدیث نبوی صلی الله علیہ وسلم سے ہمیں واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ جب مسلمان پر دنیا کی محبت غالب آجائے گی تو دُنیا بھر کے کافر مل کر اس پر ٹوٹ پڑیں گے۔
آئیے… ! قربانی کے اس دن ہم عہد کریں کہ اپنی دنیا کی محبت کو دین کی محبت پر قربان کرتے ہیں، اور آج سے ہم دین کو اپنی دنیا پر ترجیح دیں گے۔