-scale=1.0,minimum-scale=1.0,maximum-scale=1.0" : "width=1100"' name='viewport'/> صدائے قلندر: October 2011

Saturday, 29 October 2011

دین پر دُنیا کو ترجیح نہ دیجیے

مولانا عبد اللہ خالد

دعوائے مسلمانی کے باوجود ہم مسلمانوں نے اپنی زندگی کے ہر عمل اور ہرقدم کو بے دھڑک رسم ورواج اور ”زمانے کی ضروریات“ کے مطابق ڈھالنے کی روش اختیار کر رکھی ہے جس کی بنا پرہمارے لیے مذہب ثانوی اور” زمانے کا تقاضا “اولین حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

نتیجہ؟ ”رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی “ کے مصداق مسلمانی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود ہماری زندگی میں شاید ہی کوئی عمل ہو جس میں اسلامی تعلیمات کی جھلک نظر آتی ہو۔ مگر زعم اس بات کا کہ ہم جدی پشتی مسلمان ہیں، حد یہ ہے کہ خاص دینی اعمال بھی اب اسلامی تعلیمات کی روشنی سے خالی ہیں اور ان میں بھی تاریکی ہی تاریکی ہے ہمارے خاص دینی اعمال جیسے نماز، روزہ، حج اور قربانی وغیرہ اُس روح سے خالی ہیں جس کا تقاضا اسلام ہم سے کرتا ہے ۔ اور بے روح، بدن یقینا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہمارے اعمال بھی بے روح ہو چکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں ، وظائف کرتے ہیں ، روزہ رکھتے ہیں ، زکوٰة دیتے ہیں ، حج بھی کرتے ہیں اور قربانی بھی کرتے ہیں مگر ہماری روزانہ کی زندگی پر اس کے اثرات نظر نہیں آتے۔

وجہ…؟ صرف یہ ہے کہ ہم نے دینی اعمال کو بھی اپنی دنیا سازی کا مقصد اور ہدف بنا ڈالا ہے۔ ہمیں دین کی وہ تمام باتیں اچھی لگتی ہیں جن سے ہماری دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے مگر ایسے اعمال جن سے بہ ظاہر ہمارے دُنیا وی فوائد واہداف کو کوئی گزند پہنچنے کا خطرہ ہو ، ہمارے لیے قابل توجہ وقابل عمل نہیں ہوتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے لیے قابل ترجیح دنیا کی زندگی ہے ، نہ کہ دین اور آخرت!

اور ہمارے موجودہ شدید ترین سیاسی اور معاشی مسائل کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے دنیا کی محبت کو دین اور آخرت کی محبت پر مقدم کر رکھا ہے ، ایک حدیث نبوی صلی الله علیہ وسلم سے ہمیں واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ جب مسلمان پر دنیا کی محبت غالب آجائے گی تو دُنیا بھر کے کافر مل کر اس پر ٹوٹ پڑیں گے۔

آئیے… ! قربانی کے اس دن ہم عہد کریں کہ اپنی دنیا کی محبت کو دین کی محبت پر قربان کرتے ہیں، اور آج سے ہم دین کو اپنی دنیا پر ترجیح دیں گے۔

Friday, 21 October 2011

قذافی کا پاکستان قوم پر ایک احسان



ڈاکٹر عبدالقدیر نے بھٹو سے بات کی کہ اگر ھم
واقعی یہ مہم ﴿ایٹمی پاور﴾ سر کرنا چاہتے ہین تو ابتدائی طور پر پہلے سو ملین ڈالر کا بندوست کریں جو اس عظیم پروجیکٹ کےلیے ایک سیڈ منی ھوگی ۔۔ یہ اس زمانے بھٹو نے الطاف عباسی کو کرنل قذافی کے پاس یہ پغام دے کر پھیجا کہ اگر ہمیں ١۰۰ ملین ڈالر نہ ملے اور ھم نے بھارت کے جواب میں ایٹم بم نہ بنا سکے تو پاکستان صفحہ ہستی سے مٹ جاے گا ۔۔چنانچہ کرنل قذافی نہ صرف اتنی بڑی رقم دینے پر آمادہ ھو گے بلکہ انہوں نے لیبیا کی انقلابی کمان کو نسل کے ممبرڈاکٹر سالم بن عامر کو یہ رقم دے کر الطاف عباسی کے ہمراہ ہالینڈ پھیجا الطاف عباسی کے بقول اگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لے اگر قذافی پیسے نہ دیتا تو پاکستان اج اٹمی طاقت نہ ہوتا


اور یہ وہی قذافی تھا جوشاہ فیصل اور بھٹو کے شانہ بشانہ ایک ایسی خلافت کے قیام میں پیش پیش تھا۔جس کا خواب ہر مسلمان نے دیکھا تھا*۔اور ہر مسلمان اس کی تکمیل کا آرزو مند تھا۔جی ہاں آج وہی قذافی شاہ فیصل کے قتل اور بھٹو کی پھانسی کے بعد اسلام کے دوشمنوں کی سازش کا نشانہ بنا.


Wednesday, 12 October 2011

صدائے قلندر: آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

صدائے قلندر: آنکھیں بھیگ جاتی ہیں: نجانے کیوں آج اُن کی یاد نے آنکھوں کو اشکبار کردیا۔ان بھیگی ہوئی آنکھوں میں اُ ن کے لہو میں بھیگے ہوئے چہرے دکھائی دے رہے ہیں۔ کبھی وہ خود...

آنکھیں بھیگ جاتی ہیں



نجانے کیوں آج اُن کی یاد نے آنکھوں کو اشکبار کردیا۔ان بھیگی ہوئی آنکھوں میں اُ ن کے لہو میں بھیگے ہوئے چہرے دکھائی دے رہے ہیں۔
کبھی وہ خود نظر آنے لگتا ہے اور کبھی اس کے دیوانے نظر آنے لگتے ہیں 
اور کبھی وہ سیاہ غلاف میں لپٹی ہوئی محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی بیٹیاں نظر آنے لگتی ہیں کہ جن کی حیاء اور پاکیزگی پر خود حیاء بھی ناز کرتی تھی ۔
وہ سب ایک ایسی منزل کے مسافر تھے  کہ جس کی راہ میں کانٹے ہی کانٹے تھے وہ عشق کی ایسی راہ  پہ چل نکلے تھے کہ جو صرف  اورصرف دار تک ہی جاتی تھی۔
وہ محبت میں ایسے فنا ہوگئے تھے کہ اُن کو دنیا کی چمک دمک محض  دھوکہ ہعلوم ہوتی تھی۔اصل اور حقیقی مئومن کی پہچان بھی تو یہ ہی ہے  کہ جب وہ محبت الٰہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہو جاتا ہے تو دنیا کی چمک دمک اس کے آگے کوڑا کرکٹ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔آج میرا دل چاہتا ہے ک میں اُن وفا کے مجسموں سے کچھ باتیں کروں  اُن شریعت کے پروانوں سے کچھ کہوں اپنی غفلت کی اُن سے معافی مانگوں۔اے شریعت  یا شہادت کا نعرہ لگانے والو ہم  تم سے 
بہت پیچھے ہیں۔تم نے جو کہا کر دکھایا مگر ہم باتیں ہی کرتے رہ گئی۔اور ہاں ہم کریں بھی تو کیا  کریں؟
ہم مجبور ہیں۔حالات ہمارے ساتھ نہیں ہیں ۔اور یہ بھی تو دیکھو  ہمارا گھر ہے ماں باپ بہن بھائی  ۔۔۔یہ سب ہم کیسے چھو
 سکتے ہیں
اے مساجد کے لئے قربانی دینے والو۔ ہم تم سے بہت شرمندہ ہیں ۔۔۔۔
اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔
دریں اثنا ء کہیں دور سے ۔۔یا شاید دل کے کسی کونے سی۔۔۔نہیں شاید اسلام کے نام پہ بننے والے ملک کے کسی قبرستان سی
آواز آتی ہے ۔۔۔۔کہ اے پاکستان میں بسنے والو۔۔۔۔حالات کبھی ساتھ ساتھ نہیں دیتی۔۔حالات تو محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  بھی نہیں تھی۔انہوں نے  مکہ مکرمہ طائف و احد  ۔۔۔میں اپنا  خون اور پسینہ بہا  کر حالات کو سدھارا ہی۔۔ اگر تم بہت مجبور ہو  تو دیکھو تاجدارِ مدینہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت  خون بہانے والی ہم نے ادا کر دی ہے ۔اب پسینہ تم بہا کر  حالات کو سدھار لو اسی میں کامیابی ہے اب حالات تمہارے سپرد ہیں۔ہم نے اپنے لہو سے ابتداء ِ انقلاب کر دی ہیاب دیکھنا ہماری محنت ضائع نہ ہونے  دینا۔ہم تم سے خون نہیں مانگتے صرف اتنا کہتے ہیں کہ ہم نے جو نفاذ شریعت کا نعرہ لگایا  تھا ہماری 
ایک جان تھی سو ہم  نے وہ بھی لٹا دی ہے اب تمہاری باری ہی

نہیں نہیں۔۔ گھبراؤ مت ہمیں پتہ ہے کہ تم بہت مجبور  ہو ۔۔بس اتنا کرو۔۔اپنے اپنے گھروں میں شریعت نافذ کردو ۔یہ قرض ہے  ہمارے خون کا تمہارے اوپر اب یہ اتارنا  تمہارا  فرض ہی۔

اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔۔۔۔

اور  ان بھیگی ہوئی آنکھوں  میں ۔۔لہو  رنگ ۔۔ایک ہستا ہوا چہرہ  نظر آنے لگتا ہی۔اور کہتا ہے۔۔۔سیفی ۔۔میرے قاتل سے کہہ دو کہ ہم مر کے بھی زندہ ہیں
۔۔آ دیکھ ہمارے رب نے ہمیں اپنی رحمت کی بانہوں میں لے رکھا ہے۔۔دیکھ سکتے ہو تو دیکھو ۔۔ہم اپنے رب کے ہاں  خوش ہیں۔۔
بہت خوش۔۔۔۔

اورآنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔۔۔
اب یہ کسی دکھ میں نہیں بلکہ شہداء لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی استقامت اور شہادت کو سلام کرت ہیں ۔۔اپنے آنسوؤں کے 
ساتھ۔۔۔

جب تک دیپ نہ جلیں شہیدوں کے لہو سی
سنا ہے کہ جنت میں چراغاں نہیں ہوتا


Saturday, 1 October 2011

توہینِ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا انجام

جنگ جمل کے موقع پر اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اونٹ پر سوار تھیں، اونٹ کا رنگ سفید تھا۔۔۔ سفید رنگ حسن والا ہوتا ہے۔ اونٹ ’’مہرہ‘‘ نسل کا تھا، اس کا نام ’’عسکر‘‘ تھا۔ یمن کے گورنر ’’یعلیٰ بن امیہ‘‘ نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں یہ اونٹ اور کئی ہزار اشرفیاں بھیجی تھیں۔ سبائیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں کھڑے ہو کر اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے لشکر پر تیر برسائے اور ادھر سے اس طرف چلے۔ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے ارد گرد ’’بنو ضبہ‘‘ کے لوگ تھے جوحارث بن زبیر الازدی کے یہ شعر پڑھ رہے تھے کہ :
یَا اُمَّنَا یَا خَیْرَ اُمِّ نَعْلَم( اے ہماری اماں، اے ہماری دانست میں ہماری معلومات کے مطابق سب سے بہتر ماں!)
أَمَا تَرَیْنَ کَمْ شَجَاعٍ یُکْلَم(کیا آپ نہیں دیکھتیں کہ کتنے بہادر زخمی ہو گئے ہیں)
وَ تَجْتَلِیْ ہَامَّتَہ وَالْمِعْصَم(اور آپ اُن کی کھوپڑیاں اور کلائیاں (کٹی ہوئی) دیکھتی ہیں)
انہوں نے اماں کے اردگرد اپنی لاشوں کے ڈھیر لگا دیے، اماں کے اردگرد بنو ضبہ کی ستر لاشیں تھیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ایک سبائی خبیث تھا، اس کا نام ’’أَعْیَنْ بِنْ ضَبِیْعَۃ الْمجاشعی‘‘ تھا۔ اس نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہودج کا پردہ اٹھا کر اندر جھانکا۔۔۔استغفر اللہ
ان ظالموں نے لوٹ لی حرمت رسول کی
محشر میں کوئی جواب ان کو سجھایا نہ جائے گا
اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’اِلَیْکَ! لَعَنَکَ اللّٰہُ‘‘ تجھ پر اللہ کی لعنت ہو باز آ جا(ہٹ جا)
پھر بھی باز نہ آیا، اور بھونکنے لگا: ’’سنا تھا کہ نبی کی گھر والی بڑی گوری چٹی ہے آج بھی ویسی ہی نظر آ رہی ہے‘‘
اس خبیث نے پھر جھانکا اور بکواس کی: ’’مَا أَرَی اِلَّا حُمَیْرَاءَ‘‘ بڑی گوری چٹی کو دیکھا۔
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے منہ سے یہ جملے نکلے:
’’ہَتَکَ اللّٰہُ سِتْرکَ، وَقَطَعَ یَدَکَ، وأَبْدٰی عَوْرَتَکَ‘‘
’’اللہ تیرا پردہ چاک کرے، تیرے ہاتھ کٹ جائیں، اوراللہ تجھے ننگا کر کے پھینک دے۔ ‘‘
دو دن بعد یا تیسرے دن بصرہ والوں نے دیکھا:اس کے ہاتھ کٹے ہوئے تھے اور ننگی لاش پڑی ہوئی تھی۔
(البدایہ والنہایہ، جلد:۷، صفحہ:۲۴۵)
سن لو! سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بے حرمتی کرنے والوں کو اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا، نقد بدلہ اللہ نے چُکا دیا۔ میرا عقیدہ ہے کہ جو سبِّ صحابہ کرے گا مرنے کے بعد اس کا منہ قبلہ کی طرف نہیں رہے گا اور قبر میں شکل خنزیر کی ہو جائے گی۔
علاّمہ ابن حجر مکّی رحمۃ اللہ علیہ ۱۰ھ کے مجدّد ہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کرنے والے ایک بدبخت کے انجام کی تفصیل لکھتے ہیں:
ابن منیر گورنر حلب جب مر گیا تو حلب کے نوجوانوں نے اس کے متعلق ایک فیصلہ کیا کہ اس کی قبر کو اکھیڑو اور لاش کا حلیہ دیکھو کہ کیا ہے؟ کیوں کہ ہم نے یہ عقیدہ اپنے علما سے سنا ہواہے کہ جو شخص ابوبکر و عمر اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالی دیتا ہے اللہ تعالیٰ قبر میں اس کی شکل خنزیر کی بنا دیتے ہیں۔ العیاذ باللہ۔ ابن منیر ان دونوں بزرگوں کو گالیاں دیا کرتا تھا۔وہ اس کی قبر کے پاس آئے ، انہوں نے قبر اکھیڑی، دیکھا تو اس کی شکل خنزیر کی بنی ہوئی تھی اور منہ قبلہ سے مڑا ہوا تھا۔ انہوں نے اس کو باہر نکالا اور قبر کے کنارے پر اس کو لٹکا دیا۔ تین دن لٹکا رہا۔ لوگ آتے اور دیکھتے کہ ابن منیر کی شکل خنزیر کی سی ہو گئی ہے۔ جب نمائش ہو گئی تو پھر اس کی لاش کو جلایا اور خاک قبر میں ڈال دی۔
استغفر اللہ العظیم من کل ذنب و من ہذا الذنب الاکبر
(الزواجر عن اختلاف الکبائر، علاّمہ ابن حجر مکّی رحمۃ اللہ علیہ، حصہ دوم۔ صفحہ:۲۲۰)
(اقتباس: خطاب جمعہ، مسجد معاویہ عثمان آباد۔ ملتان)

افادات: جانشین امیرشریعت سید ابوذر بخاری رحمتہ اللہ علیہ

’’ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی ‘‘

گاؤں کا چودھری مر گیا جنازے سے واپسی پر میراثی کے بیٹے نے پوچھا ’’ابا جی، اب کون چودھری بنے گا‘‘؟میراثی نے کہا ’’اب چودھری کا بیٹا یا چودھری کا بھائی چودھری بنے گا۔‘‘ میراثی کے بیٹے نے کہا ’’اگر وہ دونوں بھی مر جائیں تو پھر کون چودھری بنے گا‘‘؟ میراثی نے کہا ’’بیٹا سن اور غور سے سن، ابھی تو نادان ہے۔ اگر چودھریوں کا سارا خاندان اور تمام دور و نزدیک رشتے دار بھی مر جائیں تو تب بھی تجے یا تیرے باپ کو چودھری کوئی نہیں بنائے گا۔‘‘

ایک وقت تھا کہ صدیوں پر مشتمل بد رنگ حکمران جن کی حکومت میں سورج کو غروب ہونے کی اجازت نہ تھی، بد رنگ بدیسی ہمارے آقا تھے۔ ہمارے بڑوں نے اعلان کیا’’ بٹ کے رہے گا ہندوستان بن کے رہے گا پاکستان، پاکستان کا معنی کیا، لا الہ الا اللہ ۔۔۔ نعروں کی یہ گونج جب مالک الملک تک پہنچی تو اس نے مدد کا وعدہ کر لیا۔ ہمارے بڑوں نے لاکھوں جانوں اور لاکھوں کروڑوں کے مال جائیداد کی قربانیاں دیں۔۔۔ ’’پاکستان بن گیا‘‘۔۔۔ نہ جانے گورے بد رنگ آقا کو جاتے جاتے کیا سوجھی کہ نہایت چالاکی سے اپنی کالی روحانی اولاد کو ہمارے سروں پر سوار کر گیا۔ کھوٹے سکوں سے بانی پاکستان کی جیبیں بھر گیا۔ برطانوی بھگوڑوں کی امریکی اولاد کو ان کھوٹے سکوں نے رائج الوقت اصلی کرنسی بن کر اپنا نیا آقا تسلیم کر لیا۔۔۔

قرآن عظیم الشان نے ازلی ابدی اعلان میں کہہ دیا تھا ’’یہود اور نصاریٰ ہرگز تمہارے دوست نہیں بن سکتے، ہاں تم ہی ان کے سو فیصد غلاو بے دام اور پیروکار ہونے کا اعلان اور کردار پیش کرو تو اور بات ہے۔‘‘ ۱۹۵۰ء سے تا حال یہ نام نہاد آزاد قوم اپنے کالے انگریز آقاؤں کے سامنے ہاتھوں میں ہتھکڑیوں اور پاؤں میں بیڑیوں کے ساتھ پیش ہے،

بے وقار آزادی ہم غریب لوگوں کی

سر پہ تاج رکھا ہے بیڑیاں ہیں پاؤں میں

منت خوشامد کرتے ہیں، عزت جان، مال، اسلام کے بیٹے، بیٹیاں پیش کرتے ہیں، ناک سے لکیریں نکالتے ہیں مگر جان بخشی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ گورے بد رنگ آقاؤں کے نمائندہ کالے سنگدل آقا راضی ہی نہیں ہوتے۔ اور اگر کبھی اُن کی طرف سے دل خوش کن اعلان ہو بھی جائے تو وائسرائے فوراً اسلام آباد آ دھمکتے اور اپنے کالے نمائندوں کے کان کھینچ کر یا مرغا بنا کر نیا مسلم کش ٹارگٹ دے جاتے ہیں۔ کالے آقا فرماتے ہیں، بش مسلم کش (اور اس کا غلام پرویز مُش) چلے گئے۔ فکر مت کرو، اب حسین کا بیٹا اوبامہ پالیسی میں تبدیلی لا کر مسلم امت کو ریلیف دے گا۔ کروڑں الّو باٹے اس انتظار میں بغلیں بجاتے ہیں کہ ہاں کالے مسلمان، حسین کا بیٹااوباما گورے امریکہ کا حکمران بن سکتا ہے تو اپنے اعلان کے مطابق وہ امن پالیسی بھیلائے گا۔ وطنِ عزیز کے نادان بیٹے اس امید پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ واقعی اب حسین اوبامہ کے تخت شاہی پر براجمان ہونے پر زنجیر عدل کھینچنے سے پہلے ہی اللہ کی زمین پر عدل اور امن کی بہاریں ہوں گی اور ہم غلام پاکستانی اب جوڈیشل لاک اپ سے آزادی پا لیں گے۔

اوبامہ حسین مصر جیسے عظیم مسلم ملک میں کانفرنس سے خطاب کرتا اور قرآنی آیات کو اپنے خطاب کا تاج بناتا، اسلام کو امن کا مذہب تسلیم کرنے اور اہل اسلام کو امن دینے کا اعلان کرتا ہے مگر۔۔۔ مگر تخت نشینی سے اب تک سیکڑوں ڈرون طیارے حملوں کو تیز تر کرتا جاتا ہے۔ ہفتے دس دن بعد پاکستان کے لیے اپنے وائسرائے کو نگرانی کے لیے بھیجتا ہے۔ مشرقی سرحدوں سے پاکستانی افواج کو ہٹا کر ایف 16، ایف 17، مارٹر گولے، توپوں اور ٹینکوں سے مسلح زمینی اور آسمانی شاہی فوجوں کو افغان پاکستان سرحدی قبائلی اور پشتون پٹی پر ’’بزن‘‘ کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہی لوگ پولیو کے قطروں سے انکار اور جہاد پر اصرار کے مجرم ہیں۔ حکم اتنا سخت اور تاکیدی ہے کہ محترم سالار اعظم خود طیارے پر سوار ہو کر بمباری کی نگرانی کے لیے مالا کنڈ اور سوات تشریف لے جاتے ہیں۔ اصغر خان نے انگریز کمانڈر کے حکم پر بمباری کرنے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ نیچے آبادی میں عورتیں اور بچے بھی ہیں، اس کا عذر قبول کیا گیا تھا؟

صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عطیہ تلوار کو مقابل کافرعورت پر استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ عورت کا احترام اور عورت پر تلوار، تلوار دینے والے عظیم رسول کی توہین ہے۔۔۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر چند مسلمان مردوں، عورتوں کے مکہ مکرمہ میں موجودگی اور لڑائی میں اُن کو نقصان کو خطرہ تھا۔ اس وجہ سے عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے محبوب صحابہ رضی اللہ عنہم کو جہاد کی اجازت نہ ملی( سورۃ الفتح، القرآن) یہ کیسے مسلمان حکمران ہیں، جن کو سوات مالاکنڈ، شمالی، جنوبی وزیرستان، بلوچستان اور دیگر قبائلی و قانونی علاقوں میں نہ عورتیں نظر آتی ہیں، نہ بچے نظر آتے ہیں، نہ بے گناہ ضعیف عمر مسلمان نظر آتے ہیں۔ بس حکمرانوں کو وائسرائے کا حکم اور وڈیروں اور زرداروں کا حکم نظر آتا ہے۔یہ اللہ اور رسول کا حکم تو نظر انداز کر سکتے ہیں مگر امریکی وائسرائے کا حکم نظر انداز کرنے کی جرأت نہیں۔لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِق(مخلوق کی اطاعت میں خالق کی نافرمانی نہ کرو) اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے فراستِ مومن والے خلیفہ راشد ’’چھے اہم افراد‘‘ کو مشورہ کا پابند اور خلافت کا اہل قرار دے سکتے ہیں تو یہاں فرد واحد کا حکم کیوں چلتا ہے؟ پارلیمنٹ آخر کس مرض کی دوا ہے؟ کیا ہم اہل پاکستان اس میراثی کے بیٹے سے بھی زیادہ نا سمجھ بنے رہیں گے کہ چلو یہ حکمران چلا گیا تو حالات سنور جائیں گے۔ بش مسلم کش اور دشمن رسول پرویز مُش چلا گیا، اب ہمیں روٹی کپڑا اور مکان مل جائے گا؟ کیا ہمیں آسمانی اعلان پر غور کرنے کی توفیق نہیں ہو گی؟وَ لَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَ لَا النَّصاریٰ حَتّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ۔

یہود و نصاریٰ تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے حتیٰ کہ تم ان کے دین کی پیروی کرو۔(البقرہ، آیت:۱۲۰)

یہ قرآن ناشناسی، خدا فراموشی اور اللہ سے کیے گئے وعدے سے انحراف کی سزا ہے کہ

ابھی تک پاؤس سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی

دن آ جاتا ہے آزادی کا ، آزادی نہیں آتی