-scale=1.0,minimum-scale=1.0,maximum-scale=1.0" : "width=1100"' name='viewport'/> صدائے قلندر: مسلمان کی جان کی اہمیت

Wednesday 2 November 2011

مسلمان کی جان کی اہمیت



قومیّت اور اس کے روح فرسا نتائج


پچھلے چند دنوں میں خاص طور پر خونِ ناحق کی ارزانی وفراوانی اور جان ومال کے محافظوں کے ہاتھوں جان ومال کی تباہ کاری وبربادی کے جو درد ناک وخون چکاں واقعات پیش آئے ہیں اور ان کا سلسلہ اب تک بھی ختم نہیں ہوا ہے، یہ تاریخِ پاکستان کے سیاہ ترین اوراق ہیں۔ جس طرح بھائی بھائی سے دست وگریباں ہے، بھائی بھائی کے ہاتھ قتل ہورہا ہے، بھائی بھائی کے مکان ودکان کو آگ لگارہا ہے، سامان کو لوٹ رہا ہے، یہ تاریخِ پاکستان کا انتہائی دردناک دور ہے۔ نہ بھائی سے بھائی کی جان محفوظ ہے، نہ آبرو محفوظ ہے، نہ مال محفوظ ہے، انتہائی کرب انگیز صورتِ حال ہے۔ مسلمان کے خون کی یہ ارزانی، مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے گھروں،دکانوں اور مارکیٹوں کی یہ تباہی وبربادی تاریخِ پاکستان کے الم انگیز اور شرمناک واقعات ہیں، بلکہ پاکستانی قوم کی پیشانی کا سیاہ داغ ہیں۔ مہاجروں اور سندھیوں میں سفاکی کے یہ ہولناک منظر ہلاکو اور چنگیزی بربریت کی یاد تازہ کرتے ہیں، بلکہ ان خداناآشنا وحشیوں کو بھی شرماتے ہیں۔ انا لله وانا الیہ راجعون۔

اردو سندھی لسانی تنازع کے عنوان سے ابھرنے والی ملعون ”قومیت“ کے نتائج انتہائی حسرت ناک ہیں، کاش حکومت ذرا غور وتدبر سے کام لیتی اور اس نازک ترین موقع پر اس قضیہ کو ابھرنے نہ دیتی اور موزوں وقت کا انتظار کرلیتی تو شاید یہ دردناک صورت پیش نہ آتی۔ اگرچہ یہ تو ظاہر ہی ہے کہ یہ نزاع واختلاف ان واقعات ومحرکات کی محض ظاہری صورت ہے، ورنہ پسِ پردہ کوئی اور مخفی طاقت ہے جو ان واقعات کو اچھال رہی ہے، لیکن حیرت تو اس پر ہے کہ اس طاقت کی تشخیص کے باوجود آخر کیوں اس کو زہر پھیلانے کا موقع دیا جارہا ہے؟ زہر بھی وہ زہر جس سے خود صدرِ مملکت اور برسرِ اقتدار پارٹی بھی نہیں بچ سکتی۔ خیال تھا کہ مشرقی پاکستان کے واقعات کا اعادہ مغربی پاکستان میں نہ ہوگا اور مشرقی پاکستان کے واقعات سے مغربی پاکستان کو عبرت ہوگی، لیکن افسوس کہ عبرت تو کیا ہوتی، ان کی تقلید کی جارہی ہے، ان کو مثال اور نمونہ بنایا جارہا ہے۔

دراصل اسلامی اخوت کی نعمت سے جب مسلمان قوم محروم ہوجاتی ہے تو لسانی، قومی اور وطنی عصبیتوں کی لعنت میں گرفتار ہوجاتی ہے اور عالم گیر اسلامی ملت اور قوم چھوٹے چھوٹے دیشوں اور قوموں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

پاکستان کے پیٹ سے ”بنگلہ دیش“ تو جنم لے ہی چکا ہے اور اگر ان قومی ولسانی لعنتوں کو ختم نہ کیا گیا تو بقیہ مملکت کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں اور ”بنگلہ دیش“ کے بعد ”سندھودیش“ جنم لے گا اور پھر نہ معلوم اور کون کون؟ اور اس ملعون عصبیت کا سیلاب کہاں جاکر تھمے گا؟بلاشبہ یہ جو کچھ ہورہا ہے ہماری طویل غفلت کی سزا ہے، بلکہ غلط اور غیر اسلامی نظامِ زندگی کو اپنانے کا نتیجہ ہے۔


[COLOR="rgb(255, 0, 255)"]اسلامی اخوت قرآن عظیم قرآن کریم کی روشنی[/COLOR]

۱:۔”إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوْا بَیْنَ اَٴخَوَیْکُمْ“۔ (الحجرات:۱۰)
ترجمہ:۔”ا س کے سوا نہیں کہ اہلِ ایمان تو (آپس میں) بھائی بھائی ہیں، پس (اگر کوئی نزاع ہوجائے تو) اپنے بھائیوں کے درمیان صلح صفائی کرادو“۔

۲:۔”فَاتَّقُوْا اللهَ وَاَٴصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ“۔ (الانفال:۱)
ترجمہ:۔”سو ڈرو اللہ سے اور صلح کرو آپس میں“۔

۳:۔”وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیْعاً وَّلاَتَفَرَّقُوْا“ (آل عمران:۱۰۳)
ترجمہ:۔”اور تھام لو اللہ کی رسی کو سب مل کر اور الگ الگ (قوموں میں) نہ بٹو“۔

اسلامی اخوت حدیث کی روشنی میں


۴:۔”المسلم أخو المسلم لایظلمہ ولایسلمہ ومن کان فی حاجة أخیہ کان الله فی حاجتہ، ومن فرّج عن مسلم کربة فرج الله بہا کربة من کرب یوم القیامة ومن ستر مسلماً سترہ الله یوم القیامة“۔ (صحیح مسلم،ج:۲،ص:۳۲۰)
ترجمہ:۔”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کا ساتھ چھوڑتا ہے اور جو کوئی اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگے گا، اللہ اس کی حاجتوں کو پورا کرے گا اور جو کوئی کسی مسلمان کی مصیبت دور کرے گا، اللہ اس کی مصیبت قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے دور کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کا پردہ رکھا، اللہ قیامت کے دن اس کا پردہ رکھے گا“۔

۵:۔”المسلم أخو المسلم لایخذلہ ولایکذبہ ولایظلمہ“۔(ترمذی،ج:۲،ص:۱۴)
ترجمہ:۔”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس کا ساتھ چھوڑتا ہے، نہ اس کو جھٹلاتا ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے“۔

۶:۔”المؤمن للمؤمن کالبنیان یشد بعضہ بعضاً“۔ (بخاری،ج:۲،ص:۸۹۰)
ترجمہ:۔”مسلمان مسلمان کے لئے عمارت (کی اینٹوں) کی طرح ہے، ایک دوسرے کو مضبوط رکھتا ہے“۔

۷:۔”من مشی فی حاجة أخیہ کان خیراً لہ من اعتکاف عشر سنین“۔ (طبرانی)
ترجمہ:۔”جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے چلے گا (جد وجہد کرے گا) یہ اس کے حق میں دس سال کے اعتکاف سے بہتر ہے“۔

۸:۔”المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ“۔ (بخاری،ج:۱،ص:۶)
ترجمہ:۔”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں“۔

۹:۔”مثل المؤمنین فی تواددہم وتراحمہم وتعاطفہم کمثل جسد ان اشتکی عضو منہ تداعی لہ سائر الجسد بالسہر والحمّٰی“۔ (صحیح مسلم،ج:۲،ص۳۲۱)
ترجمہ:۔”مسلمانوں کی مثال (صفت) آپس میں دوستی ،باہمی ترحم اور آپس میں شفقت کے لحاظ سے ایک جسم (اور بدن) کے مانند ہے، اگر اس (بدن) کا ایک عضو کسی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو بدن کے تمام اعضاء بخار اور بے خوابی میں اس کا ساتھ دیتے ہیں“۔

۱۰:۔”ألا أخبرکم بأفضل من درجة الصیام والصلاة والصدقة؟ قالوا: بلیٰ! قال: صلاح ذات البین فان فساد ذات البین ہی الحالقة‘ ‘(ابوداؤد،ج:۲،ص۳۳۱)
ترجمہ:۔”کیا میں تم کو ایسا عمل نہ بتلاؤں جو روزے ، نماز اور صدقہ کے درجہ سے بھی افضل ہو؟
صحابہ کرام نے عرض کیا: ضرور بتلایئے۔ آپ ا نے ارشاد فرمایا: وہ عمل باہمی تعلقات کی درستی ہے، اس لئے کہ بلاشبہ آپس کے تعلقات کی خرابی ہی تو (تمام خوبیوں اور برکتوں کو) مٹادینے والی ہے“۔

ایسے بے شمار جواہرات ہیں، جن میں سے بطور مثال یہ چند پیش کئے گئے ہیں، جن سے اسلامی اخوت کے ایمانی رشتہ کی اہمیت اور ضرورت قومی اور اجتماعی زندگی کے بقا اور تحفظ میں واضح ہوتی ہے، بشرطیکہ کوئی عقل وہوش کے کانوں سے سنے اور دل سے سبق حاصل کرے، نیز عیاں ہوجائے کہ ایک مسلمان کا مسلمان کے ساتھ تعلق کیسا ہونا چاہئے؟ اور مسلمان کے مسلمان کے ذمے کیا حقوق ہیں؟ اور مسلمان کی امداد واعانت کے کیا کیا درجات ہیں؟۔
ان آسمانی ہدایات وارشادات پر غور کریں اور جو کچھ ہورہا ہے اور جس دردناک طریق پر مسلم خون کی ارزانی ہور ہی ہے، اس کو دل کی آنکھوں سے دیکھیں، یقین نہیں آسکتا کہ جو قوم زبانی ہی سہی، مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، وہ ان وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کیسے کرسکتی ہے؟ درحقیقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دلوں سے اسلام کی روح نکل چکی ہے، حق تعالیٰ کے خوف سے دل خالی ہو گئے ہیں، قیامت پر ایمان نہیں رہا ہے، ورنہ تو مذکورہ بالا آیات واحادیث ِ نبویہ دلوں کو لرزادینے کے لئے بہت کافی ووافی ہیں۔

قتلِ مسلم پر وعیدیں


۱…رحمتِ عالم نے ارشاد فرمایا ہے:
”لزوال الدنیا اہون علی الله من قتل رجل مسلم“ (نسائی ، ترمذی)
ترجمہ:۔”ایک مسلمان کا قتل حق تعالیٰ کے نزدیک تمام کائنات کے تباہ ہوجانے سے بھاری ہے“۔

۲:۔ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:
[COLOR="rgb(46, 139, 87)"]”قتل المؤمن اعظم عند الله من زوال الدنیا[/COLOR]“۔
ترجمہ:۔”ایک مومن کا قتل اللہ کے نزدیک تمام دنیا کے زوال سے بڑھ کرہے“۔
۳:۔ایک اور حدیث میں جو ترمذی نے بروایت ابوسعید خدری  وابوہریرہ نقل کی ہے:
”اگر تمام روئے زمین وآسمان کے باشندے کسی ایک مسلمان کے قتل کرنے میں شریک ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا“۔
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:
”اگر تمام انس وجن ایک مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں، تو سب کے سب جہنم میں جائیں گے“۔

۴:[COLOR="rgb(46, 139, 87)"]۔ایک اور حدیث میں جو ابن ماجہ وغیرہ میں آئی ہے، ارشاد فرمایا:
”جو شخص کسی مسلمان کے قتل کرنے کے بارے میں ایک آدھ لفظ بھی زبان سے کہے گا تو قیامت کے روز اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا کہ یہ شخص حق تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے (یعنی محروم ہے)“۔ العیاذ بالله۔[/COLOR]

۵:۔صحیح بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں جن سات چیزوں کو امت کی تباہی کا ذریعہ بتلایاگیا ہے، ان میں سے ایک ”مسلمان کا خونِ ناحق “ ہے۔

۶:۔ایک اور حدیث میں آیاہے کہ:
”مسلمان کی جان ومال حق تعالیٰ کے نزدیک بیت اللہ شریف سے بھی زیادہ قابلِ احترام ہے“۔


۷:۔ ایک اور حدیث میں آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ:
ایک قاتل کو کسی مسلمان کے قتل پر قیامت میں ایک ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا۔ (یعنی ہر مرتبہ قتل کے بعد زندہ کیا جائے گا، پھر قتل کیا جائے گا)“۔

۸:۔ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایاہے:
اگر قاتل کو مسلمان کے قتل سے روکا نہ گیا تو تمام امت عذاب میں مبتلا ہوگی (یہی ہو رہا ہے)“۔

اس قسم کے اور بے شمار ارشاداتِ نبویہ موجود ہیں، ان کو ٹھنڈے دل سے پڑھئے اور پھر آج کل جو سرزمینِ سندھ میں ہورہا ہے، اس کا جائزہ لیجئے، یقین سا ہوتا جاتا ہے کہ خاکم بدہن اس قوم کی تباہی کا وقت آگیا ہے۔ یہ دردناک صورتحال مسلمانوں کے جہل کا نتیجہ ہے یا بے دینی کا، خود کررہے ہیں یا کرایا جارہا ہے۔
قدیم سندھی جدید سندھیوں سے کہہ رہے ہیں کہ:” سندھ سے نکل جاؤ“۔ یا جدید قدیم سے کہہ رہے ہیں کہ:” تمہارا وجود ناقابلِ برداشت ہے، تم سندھ کو چھوڑدو“۔
بدقسمتی سب سے بڑی یہ ہے کہ حکومت اصلاحِ احوال میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ درحقیقت مسلمان قوم کو من حیث القوم خدا فراموشی کبھی راس نہیں آسکتی، افراد اس لعنت میں گرفتار ہوں تو معاملہ قابلِ برداشت ہوتا ہے، لیکن جب پوری قوم اس تباہ کن معصیت، یعنی خدا فراموشی میں مبتلا ہوجائے تو نجات کیسے ہو؟!
ایک طرف تو یہ مصیبتِ عظمیٰ نازل ہے، دوسری طرف چھپے ہوئے دشمنانِ اسلام اور اس ملک کے اصلی غدار، بے ضمیر، ملحد ودہریئے مارِ آستین بنے ہوئے ہیں، وہ سندھ کی علیحدگی اور ”جئے سندھ“ نعرہ بلند کررہے ہیں اور” سندھودیش“ کے شیطانی راگ الاپ رہے ہیں، بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں یہ سب سے دردناک اور تباہ کن دور ہے۔
سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ملک تباہی کے کنارے آلگا ہے، لیکن دلوں کی قسادت وغفلت کی کوئی انتہاء نہیں، اب بھی عبرت نہیں ہوتی، آج بھی اگر پوری قوم محکوم اور حاکم، پبلک اور پولیس وفوج، سب صدقِ دل سے اپنی بدکرداریوں سے توبہ کرلیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے جرائم کی معافی مانگ لیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیں اور اس خدافراموش وخود فراموش زندگی کو یک قلم ترک کردیں اور ہر شخص اپنے دائرہٴ اقتدار میں ایمانداری سے اصلاحِ احوال کا عزم کرلے اور اپنی زندگی خداترسی کی زندگی بنالے تو”اِنَّ رَحْمَةَ اللهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ“۔(اعراف:۵۶) یعنی ”بے شک اللہ کی رحمت مخلص نیکوکاروں سے قریب ہے“۔
بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ضرور نازل ہوگی، مملکت بھی محفوظ ہوجائے گی اور باشندگانِ مملکت بھی آرام کی نیند سوئیں گے۔

جب یہ بات یقینی ہے کہ اپنے اعمال کی سزا امت کو مل رہی ہے، یعنی مرض کی تشخیص ہوگئی ہے تو تشخیصِ مرض کے بعد تو علاج بہت آسان ہوجاتا ہے، قرآنِ حکیم نے اس قسم کے امراض کے لئے جو تیر بہدف نسخہ تجویز فرمایاہے، وہ استغفار ہے، انابت الی اللہ اور اپنے اعمال پر ندامت ہے، صدقِ دل سے توبہ ہے، اس ملک میں صحیح معاشرہ کا قیام ہے، اس کے لئے اسلامی قانون جلد سے جلد نافذ کیا جائے، شراب اور شراب خانے فوراً بند کئے جائیں، شرعی سزائیں جاری کی جائیں، مختصر یہ کہ غیر اسلامی زندگی کو فوراً ختم کردیا جائے ، یعنی حق تعالیٰ کے قہر وغضب کو دعوت دینے والی زندگی کو پہلی فرصت میں ترک کردیا جائے، اللہ تعالیٰ کی رحمت وفضل وکرم کو دعوت دینے والی حیاتِ طیبہ کو قائم ورائج کیا جائے، پھر دیکھئے چند دنوں میں انقلاب آجائے گا، اسلامی اخوت کے مظاہرے ہونے لگیں گے، قلوب میں سکینت واطمینان پیدا ہوجائے گا، جان ، مال، آبرو سب محفوظ ہوجائیں گی۔

۱۹۶۵ء میں حق تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ کا یہ نمونہ بھی اہلِ پاکستان کو دکھلادیا ہے، چند دنوں میں پوری قوم نے فسق وفجور کی زندگی سے تائب ہوکر صالحین کی زندگی اختیار کر لی تھی، مسجدوں اور گھروں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے فضائیں گونجنے لگی تھیں، پورے ملک کا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔
دیکھا آپ نے کہ کیسے اللہ تعالیٰ کی تدبیر کا ظہور ہوا اور کیسے لطیفہٴ غیبیہ کا اظہار ہوا؟، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرٰی أٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِّن السَّمآءِ وَالأَرْضِ“۔ (الاعراف:۹۶)
ترجمہ:۔”اور اگر بستیوں والے (صدقِ دل سے) ایمان لے آتے اور نافرمانی ترک کردیتے تو ہم یقیناً ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں نازل کردیتے“۔
یہ آسمانی نسخہ اور قرآنی علاج ہے، تاریخِ عالم کا آزمایا ہوا نسخہ اور علاج ہے،لیکن اگر خدانخواستہ یہی خدا فراموشی اور خود فراموشی کی زندگی قائم رہی، یہی لیل ونہار رہے تو اس کے دردناک عواقب ونتائج سہنے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے:”وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِیْلاً“۔ اور تم سنتِ الٰہیہ میں تبدیلی ہرگز نہیں پاؤگے۔
حق تعالیٰ رحم فرمائیں اور امتِ پاکستانیہ کو توبہ وانابت کی توفیق نصیب فرمائیں او رقہرِ الٰہی سے نجات اور سعادت ورضاء ِ الٰہی کے آثار ظاہر فرمائیں اور موجودہ وآئندہ شقاوت وبربادی وتباہی سے امت کو بچائیں۔

بحرمة سید المرسلین وامام المتقین وخاتم النبیین المبعوث رحمة للعالمین علیہ صلوات الله والملائکة والناس اجمعین۔

2 comments:

  1. کاش کہ یہ ہماری سمجھ میں آ جائے ۔

    جزاک اللہ

    ReplyDelete
  2. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    سب سے پہلے تو آپ کو میں اپنے بلاگ پر خوش آمدید کہتا ہوں ۔ ۔ ۔ اور آپ نے ٹھیک کہا ہے کہ ہمیں یہ بات سمجھ میں آجائے تو کیا بات ہے ۔ ۔ ۔ سارے جھگڑے ختم ہو جائیں ۔ ۔۔

    ReplyDelete