-scale=1.0,minimum-scale=1.0,maximum-scale=1.0" : "width=1100"' name='viewport'/> صدائے قلندر: 2011

Wednesday, 30 November 2011

محرم کی بدعات اور رسوم


محرم کوفضلیت کس لئے حاصل ہوئی؟
کسی وقت، کسی دن یا مہینہ کو عظمت وفضلیت حاصل ہونے کی اصل وجہ اﷲ تعالی کی خاص تجلیات، انوار و برکات اور رحمتوں میں متوجہ اورظاہر ہوناہے، (لیکن بعض اہم واقعات کا اس وقت میں واقع ہوجانا بھی دوسرے درجہ میں فضلیت کا باعث ہو جاتا ہے جیسا کہ رمضان میں قرآن مجید کا نازل ہونا اور شب قدر وغیرہ کا واقع ہونا وغیرہ) اور فضلیت حاصل کرنے کا طریقہ(اصولی یا جزوی طریقہ پر) وحی کے ذریعہ سے ہی معلوم ہوسکتا ہے، اپنی طرف سے کسی دن یا تاریخ میں خاص فضلیت کی بنیاد اپنی طرف سے کسی اور چیز کو قرار دے دینا یا فضلیت حاصل کرنے کاکوئی خاص طریقہ اپنی طرف سے متعین کر لینا يہ تمام چیزیں ناجائز، گناہ اور شریعت پر زیادتی ہیں۔ لہٰذا جو لوگ يہ سمجھتے ہیں کہ محرم کے مہینے یا دس محرم کے دن کی فضلیت حضرت حسینؓ کی شہادت کی وجہ سے حاصل ہو ئی وہ لوگ غلطی میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ اس مہینہ کی فضلیت تو کربلا کے واقعہ سے بہت پہلے آسمان وزمین کی پیدائش سے ہی چلی آرہی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس وقت کربلا کے واقعہ کا نام ونشان بھی نہیں تھا۔ اسی طرح دس محرم کے دن کی فضلیت بھی بہت پہلے سے چلی آرہی ہے۔ يہاں تک کہ يہودونصاریٰ اور قریش مکہ بھی اس دن کی عظمت و فضلیت کے قائل تھے۔ حضور ﷺنے دس محرم کے روزے کے فضائل بیان فرمائے اور ظاہر ہے کہ اسو قت تک کربلا کا واقعہ پیش نہیں آیا تھا،البتہ يہ کہا جائے گا کہ خود حضرت حسینؓ کی شہادت اس مہینے اور اس دن میں اسلئے واقع ہوئی کہ يہ مہینہ اور دن فضلیت کا تھا ، اﷲ تعالیٰ نے اس مقدس مہینے کے اس مبارک دن کواپنے مقبول بندے حضرت حسینؓ کی شہادت کے واسطے منتخب فرما دیا غرضیکہ اس دن کو حضرت حسینؓ کی شہادت کی وجہ سے کوئی فضلیت حاصل نہیں ہوئی بلکہ خود حضرت حسینؓ کو دن شہید ہونے سے فضلیت حاصل ہوئی۔
کیا محرم غم کا مہینہ ہے؟
بعض نا واقف لوگ ایسے بھی ہیں محرم کے مہینے کو رنج وغم کا مہینہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مہینہ میں کربلا کا سانحہ پیش آیا تھا جس میں حضرت حسین ؓاور دوسری عظیم ہستیوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا تھا لہٰذا يہ مہینہ غم کا ہے اور اسی وجہ سے يہ لوگ اس مہینے میں خوشی کے کام (شادی بیاہ وغیرہ) انجام دينے سے پرہیز کرتے ہیں اور بعض لوگ خوشی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہوئے مختلف قسم کے سوگ کرتے ہیں (مثلاً کالا لباس پہننا، عورتوں کا زیب وزینت اور بنا سنگھار چھوڑ دینا، میاں بیوی کے خصوصی تعلقات سے رکے رہنا، مرثيے پڑھنا، نوحہ ، ماتم کرنا وغیرہ وغیرہ) اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو يہ سمجھ لینا چاہیے کہ يہ خیال بالکل غلط ہے کہ يہ مہینہ غمی کا ہے کیونکہ يہ مہینہ تو بہت محترم اور فضلیت بلکہ عبادت والا مہینہ ہے اور دس محرم کے دن، تاریخ اسلام کے بہت بڑے عظیم اور خوشگوار واقعات رونما ہوئے ہیں اور دوسری بات يہ ہے کہ غمی کا واقعہ پیش آنے سے وہ مہینہ یا دن غم کےلئے مخصوص نہیں ہو جاتا کہ اس میں ہمیشہ غم کیاجاتا رہے اور صدییاں گزرنے کے باوجود اس کو غم کا مہینہ بنائے رکھنا تو بہت بڑی حماقت ہے ۔۔
کیا محرم نحوست کا مہینہ ہے ؟؟؟
بعض لوگ اس مہینہ کو نحوست کا مہینہ سمجھتے ہیں۔زمانہ جاہلیت میں لوگ بعض دنوں بعض تاریخوں اوربعض جانوروں یا انسانوں میں نحوست سمجھتے تھے خاص کر عورت، گھوڑے اور مکان میں نحوست کا زیادہ اعتقاد رکھتے تھے اور آج کل بعض مہینوں (مثلاً محرم ،صفر وغیرہ) اور بعض دنوں، تاریخوں اور جگہوں میں نحوست سمجھی جاتی ہے خاص طور پر جس تاریخ یا جس جگہ میں کوئی حادثہ ، ہلاکت یا کوئی نقصان اورغمی کا واقعہ پیش آجائے اس کو منحوس سمجھاجاتا ہے ،اور واقعہ کربلا کے محرم کے مہینہ میں پیش آجانے کی وجہ سے اسی بنیاد پر محرم کے مہینہ کو بہت سے لوگ منحوس خیال کرتے ہیں يہاں تک کہ جو بچہ محرم کے مہینہ میں پیدا ہوجائے اس کو بھی منحوس خیال کیا جاتا ہے ۔ جبکہ اسلام کے اصولوں اور رسول اﷲ ﷺ کی احادیث سے ثابت ہے کہ کوئی زمانہ یا دن تاریخ اپنی ذات میں منحوس نہیں ہے،غمی کا واقعہ پیش آنے سے زمانہ منحوس نہیں بن جاتا ، اور زمانہ تو اﷲ تعالیٰ کی مخلوق ہے اس کی طرف نحوست یا برائی منسوب کرنا گناہ ہے احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ ايک حدیث قدسی میں ہے :۔
نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ اﷲ تعالی فرماتے ہیں کہ بنی آدم مجھے ایذاء دیتا ہے ( یعنی میری شان کے خلاف بات کہتا ہے اور وہ اس طرح) کہ وہ زمانہ و برا بھلا کہتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہوں (یعنی زمانہ ميرے تابع اور ماتحت ہے) میرے قبضہ قدرت میں تمام حالات اور زمانے ہیں میں ہی رات ودن کو پلٹتا(کم زیادہ کرتا) ہوں ۔
(بخاری، مسلم، ابو داود، موطا امام مالک، مشکوة ص13)
فائدہ:
زمانہ بذات خودکوئی چیز نہیں وہ تو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آیا ہے اوراسی کے حکم سے چلتا ہے، نحوست اگر ہے تو انسان کی بد اعمالیوں یا اپنے خیالات کی بنیاد پر ہے ۔ اول محرم کا مہینہ خود فضلیت والا مہینہ ہےاوراس میں کوئی نحوست نہیں ہے دوسرے حضر حسین ؓ کی شہادت کی وجہ سے اس مہینہ کو غمی یا نحوست کا مہینہ سمجھنے سے يہ لازم آتا ہے کہ نعوذ باﷲ شہادت کوئی بری یا منحوس چیز ہے جبکہ شرعی اعتبار سے شہادت ايک عظیم سعادت والا عمل ہے جو ہرکس وناکس کو بآسانی میسر نہیں آتا، اور شہادت ایسی عظیم سعادت اور دولت ہے جس کی تمنا خود اپنے لئے محمد مصطفےٰﷺ نے بھی کی ہے اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی ہے اور شہید کے لئے بڑے اجروانعام ، اعزاز و اکرام اور بےشمار نعمتوں کی خوشخبری سنائی ہے ۔
شہادت کے فضائل
آیت: ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات، بل احیاءولکن لا تشعرون (البقرہ)
ترجمہ: اور جو لوگ اس کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کی نسبت یوں بھی مت کہو کہ وہ (معمولی مردوں کی طرح) مردے ہیں بلکہ وہ تو (ايک ممتار حیات کے ساتھ) زندہ ہے لیکن تم (ان) حواس سے (اس حیات کا) ادارک نہیں کر سکتے۔
آیت: ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اﷲ امواتا، بل احیاءعند ربھم یرزقون۔ فرحین بما اتا ہم اﷲ من فضلہ۔(آل عمران)
ترجمہ: اور جو اﷲ کے راستے میں شہید ہو جائیں ان کو مردے مت خیال کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے مقرب ہیں ان کو رزق ملتا ہے وہ اﷲ کے فضل میں سے دئيے ہوئے پر خوش ہوتے ہیں۔
ان آیات میں اﷲ تعالی نے شہیدوں کی کئی فضلتیں ذکر فرمائی ہيں۔ ايک يہ کہ شہیدوں کو شہادت کے بعد برزخ میں ہمیشہ کی امتیازی زندگی عطا ہوتی ہے تم ان کو عام مردوں کی طرح مردہ نہ خیا ل کرو دوسری فضلیت يہ ذکر ہوئی کہ شہید اپنے رب کے مقرب ہیں ان کو خصوصی قرب حاصل ہوتا ہے۔تیسری فضلیت يہ ذکر ہوئی کہ شہیدوں کو رزق عطا ہوتا ہے اس پر خوش ہوتے ہیں يہ روحانی رزق يہ یعنی جسمانی و روحانی دونوں قسم کا رزق ملتے ہیں۔ یاد رہے شہید کو شہادت کے بعد جو زندگی عطا ہوتی ہے يہ صرف روح کی زندگی نہیں ہے بلکہ روح کا تعلق جسم کے ساتھ بھی خاص درجہ کا دوسروں سے امتیازی ہوتا ہے ورنہ تو ان کو مردہ کہنے کی ممانعت کو کائی مطلب نہیں کیونکہ روح تو تمام مردوں ہی کی زندہ ہے۔
آیت: ولئن قتلتم فی سبیل اﷲ اومتم لمغفرة من اﷲ ورحمة خیر مما یجمعون (آلعمران)
ترجمہ: اور اگر تم اﷲ کے رساتے میں شہید ہو گئے یا طبعی موت کا شکار ہوئے بہر صورت اﷲ تعالی کی طرف سے حاصل ہونے والی مغفرت اور رحمت (جو اﷲ کے راستے میں حاصل ہوتی ہے) وہ ان چیزوں سے بہتر ہے جو لوگ جمع کرتے ہیں۔
اس آیت میں شہیدوں کو مغفرت اور رحمت حاصل ہونے کی خوشخبری ہے اور اس کا ثبوت ہے کہ دنیا کی مال ودولت اور دوسری چیزوں سے بہتر نعمتیں ان کو حاصل ہوتی ہیں۔
آیت: والذین ھاجروا سبیل اﷲ ثم قتلوا اوماتو الیرزقنہم اﷲ رزقا حسنا، وان اﷲ لھو خیر الرازقین۔ لیدخلنھم مدخلا یرضونہ (الحج)
ترجمہ: اور جنہوں نے اﷲ کے راستے میں ہجرت کی پھر شہید ہوگئے یا طبعی موت کا شکار ہوئے اﷲ تعالیٰ نے ان کو بہترین رزق عطا فرمائے گا اور بیشک اﷲ بہترین رزق دينے والے ہیں۔ اور ان کو ایسی جگہ داخل کرےگا جس کو وہ خود پسند کریں گے۔
اس آیت میں شہید سے دو چیزوں کا وعدہ ہوا ہے ايک بہترین رزق کا دوسرا اپنی پسند کی جگہ یعنی جنت میں داخلہ کا يہ دونوں بہت بڑے اعزاز ہیں۔
آیت: ومن یطع اﷲ والرسول فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیھم من النبین والصدیقین والشھداءوالصالحین(نسائ)
ترجمہ: اور جو اﷲاور رسول کی اطاعت کرے گا تو ایسے آدمی ان لوگوں کے ساتھ ہوں کے جن پر اﷲ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء، صدیقین، شہدااور صالحین۔
اس آیت میں اﷲ تعالی نے شہيدوں کی يہ فضلیت بیان فرمائی ہے کہ وہ اﷲ تعالی کے انعام یافتہ لوگوں میں سے ہیں، اور يہ کہ انبیا ءصدیقین کے بعد سب سے بڑھ کر شہیدوں کا مقام و مرتبہ ہے۔
حدیث: لوددت انی اعزوفی سبیل اﷲ فاقتل ثم اغزو فاقتل ثم اغرو فاقتل (بخاری فی الجہاد، مسلم فی الا مارة، نسائی فی الجھاد، ابن ماجہ فی الجہاد، مسند احمد ، دارمی فی الجہادو موطا امام مالک فی الجہاد)
ترجمہ: حضور ﷺ نے فرمایامیںپسند کرتا ہوں کہ میں اﷲ کے راستے میں جہاد کروں اور شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کی جاؤں پھر شہید کیا جاؤں۔
حدیث: ما احد یدخل یحب ان یرجع الی الدنیا، ولہ ما علی الارض من شیئی الا الشہیدیتمنی ان یرجع الی الدنیا فیقتل عشر مرات لما یری من الکرامة (البخاری فی الجہاد، مسلم فی الامارة، ترمذی فی الجہاد، نسائی فی الجہاد ومسند احمد)
ترجمہ: کوئی شخص جنت میں داخل ہونے کے بعد يہ تمنا نہیں کرے گا کہ اس دنیا میں لوٹایا جائے یا دنیا کی کوئی چیز دی جائے سوائے شہید کے کہ وہ تمنا کرےگا کہ وہ دنیا میں لوٹایا جائے اور دس مرتبہ شہید کیا جائے، يہ تمنا وہ (شہید) اپنی تعظیم(اور مقام) ديکھنے کی وجہ سے کرے گا۔
حدیث: من سال اﷲ الشہادة بصدق بلغہ اﷲ منازل الشہدآ ءو ان ما ت علی فراشہ۔(مسلم فی الا مارة ترمذی فی الجہاد، نسائی فی الجہاد، ابو ادؤد فی الصلوة، ابن ماجہ فی الجہاد، دارمی فی الجہاد)
ترجمہ: جس نے سچے دل کے ساتھ اﷲتعالی سے شہادة مانگی اﷲ تعالی اسے شہیدوں کے مقام تک پہنچا دے گا اگرچہ وہ بستر پر مرے ۔
اس کے علاوہ شہید کے بارے میں فضائل بھی احادیث میں آئے ہیں مثلاً:
(1)شہید کے قرض کے علاوہ تمام گناہ بخشش ديئے جاتے ہیں(مسلم)
(2)شہید پر فرشتوں کے پروں کے سايہ ہوتا ہے (بخاری ومسلم)
(3)شہادت پر جنت میں داخلہ کی ضمانت(ایضاً)
(4)شہید سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں سے ہے(ترمذی)
(5)شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں میں داخل کر دی جاتی ہیں وہ جنت کی نہروں پر اترتے ہیں جنت کے میوے کھات ہیں، عرش کے سائے کے نيچے سونے کی قندیلوں پر بيٹھتے ہیں(صحیح مسلم، ابوداؤد و مستدرک)
(6)قبر کے فتنے اور قیامت کے دن کی بے ہوشی سے نجات دی جاتی ہے(نسائی )
(7)اپنے گھر والوں میں سے ستر(70) کی شفاعت کا حق عطا کیا جاتا ہے(ابو داود، بیہقی)
(8)شہید کے پہلے قطرے کے ساتھ بخشش کر دی جاتی ہے ،جنت میں اس کا مقام دکھا دیا جاتا ہے قیامت کے دن کی گھبراہٹ سے امن ديدے جاتا ہے، اس کے سر پروقار کا تاج رکھا جاتا ہے جس کا ايک یاقوت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے،72حورعین سے اس کی شادی کر دی جاتی ہیں(مسند احمد، ترمذی، مصنف عبدالرزاق، ابن ماجہ)
(9)خون خشک ہونے سے پہلے حور عین کی زیارت کرادی جاتی ہے (ابن ماجہ، ابن ابی شبیہ، مصنف عبدالرزاق)
يہاں شہادت کے چند فضائل ذکر کيے گئے ہیں ورنہ شہید کہ بارے میں بے شمار فضائل آئے ہیں اور جب محرم الحرام عبادت اور عظمت والا مہینہ ہے تو اس مہینہ میں شہادت کی عظمت اس مہینے کی وجہ سےاور بھی زیادہ ہوجاتی ہے، لہٰذا حضرت حسینؓ کی شہادت کی وجہ سے اس مہینہ کو نحوست یا غم کا مہینہ سمجھنا سراسر غلط ہے۔ اگر کوئی شبہ کرے کہ يہ فضائل تو شہید کے لئے ہیں لیکن ہمارے اعتبار سے اس طرح کی شہادت رنج وغم کا باعث ہے لہٰذا ہمیں اس پر سوگ اور ماتم کرنا چاہيے اس کا جواب آگے آرہا ہے۔
محرم میں سوگ اور ماتم
شرعی اعتبار سے سو گ کرنا صرف چند صورتوں میں عورتوں کے حق میں ثابت ہے اور وہ يہ ہیں:
(1)جس عورت کو اس کے شوہر نے طلاق بائن (ایسی طلاق جس میں نکاح ختم ہوجاتا ہے) دیدی ہو اس پرعدت کے زمانہ میں سوگ کرنا واجب ہے ۔عدت ختم ہونے کے بعد واجب نہیں بلکہ جائز بھی نہیں۔
(2)جس عورت کا خاوند فوت ہوگیا ہو اس پر عدت کے زمانہ میں سوگ کرنا واجب ہے عدت کے بعد واجب نہیں بلکہ جائز بھی ۔
(3)شوہر کے علاوہ کسی قریبی رشتہ دار(باپ بيٹے وغیرہ) کے فوت ہونے پر صرف تین دن تک عورت کو سوگ کرنے کی اجازت ہے واجب اور ضروری نہیں تین دن کے بعد يہ اجازت بھی نہیں۔
اس کے علاوہ اورکسی موقعہ پر عورت کو سوگ کرنے کی اجازت نہیں اورمرد کو تو سوگ کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں اور شرعی سوگ کاطریقہ يہ ہے کہ عورت اتنے عرصہ میں ایسے کپڑے نہ پہننے اور ایسا رنگ ڈھنگ اختیار نہ کرے جس سے مردوں کو کشش اور میلان ہوتا ہو۔ خوشبو ، سرمہ، مہندی اور دوسری زیب و زینت اور بناؤ سنگھار کی چیزیں چھوڑدے۔ اس کے علاوہ اپنی طرف سے سوگ کے طریقے اختیار کرنا جائز نہیں مثلاً غم کے اظہار کےلئے مخصوص رنگوں کے (مثلا کالے) کپڑے پہننا وغیرہ۔
حدیث: حضرت ام سلمہؓ حضور اکرم ﷺ نے نقل کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جس عورت کا شوہر وفات پاگیا وہ عدت گزرنے تک عصفر سے رنگا ہوا اور خوشبو والی مٹی سے رنگا ہوا کپڑا اور خضاب بھی نہ لگائے اور سرمہ نہ لگائے۔ (مشکوة ص289بحوالہ ابوداود، نسائی )
حدیث: حضرت ابو سلمہؓ کی صاحبزادی حضرت زینت ؓ نے بیان فرمایا کہ جب ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کو(ان کے والد) حضرت ابو سفیانؓ کی موت کی خبر پہنچی تو انہوں نے تیسرے دن خوشبو منگائی جو زردرنگ کی تھی اور اپنے بازروں اور رخساروں پر ملی اور فرمایاکہ مجھے اس کی ضرورت نہ تھی (لیکن اس ڈر سے کہ کہیں میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنے والی عورتوں میں شمار نہ ہو جا میں خوشبو لگائی ) میں نبی کریمﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا ہے کہ ” ایسی عورت کے لئے جو اﷲ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو يہ حلال نہیں ہے (کسی کے فوت ہونے پر) تین دن رات سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کے کہ اس (کی موت ہو جانے) پر چار مہینہ دس دن سوگ کرے ( صحيح مسلم)
فائدہ:
حضر ت حسن وحسینؓ کے نانا جان اور حضرت فاطمہؓ کے والد ماجد حضورﷺ نے تو فرمایا کہ جو عورت اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو اس کےلئے حلال نہیں کہ شوہر کے علاوہ کسی بھی شخص کی وفات پر (خواہ کتنا بڑا بزرگ ہی کیوں نہ ہو) تین دن سے زیادہ سوگ کرے، پھر تعجب کی بات ہے کہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت حسن و حسینؓ سے محبت کے دعوی ہوتے ہوئے 1400 سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی سوگ ہو رہا ہے کہ حضرت حسن و حسین اپنے نانا جان ﷺ کے ارشادات اور احکام کے خلا ف چلنے والوں سے کيسے خوش ہوں گے؟
ذرا سوچئے اور غور کيجئے يہ کیسا سوگ ہے
کہ جس میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت ہو اور اس میں اتنی وعید ہو کہ اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھنے کے عقیدہ کو (جو کہ ایمان کی بنیاد ہے ) اس کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا ہو؟
اس تفصیل کی روسنی میں وہ حضرات اپنا جائزہ لیں جو محرم میں حضرت حسین ؓ کی شہادت کے غم میں مختلف من گھڑت رسمیں اور سوگ کرتے ہیں اور يہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ہم تو حضرت حسینؓ کی یاد میں يہ سوگ کرتے ہیں جبکہ شریعت مطہرہ نےکسی ايسے دن یا مہینہ کے منانے کے اجازت نہیں دی جو اس طرح کے رنج وغم کے اظہار یا رونے دھونے کے مظاہرہ کے لئے مخصوص ہو، بلکہ اسلام میں کسی بڑے سے بڑے آدمی کی موت و حیات یا شخص حالات کو مقصود و بنیاد بنا کر غمی وخوشی کو کوئی دن منانے کا تصور نہیں ہے۔ حضرت حسینؓ کی شہادت کا واقعہ اگرچہ انتہائی المناک ہے مگر لوگوں کے ذہنوں میں يہ غلط بات بیٹھی ہوئی ہے کہ دنیا میں حضرت حسین ؓ کی شہادت اور کوئی سانحہ پیش نہیں آیا حالانکہ دنیا میں اس سے بدرجہا زیادہ مظلومیت کے بے شمار انوہناک واقعات ہیں۔ اور اسلام میں اگر يہ غم کے دن منانے کی رسم چلے تو ايک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ انبیاءکرام ؑ ہیں جن کی پیدائش سے لیکر شہادت اور وفات تک دنیا میں پیش آنے والے مصائب وتکالیف کی ايک لمبی فہرست ہے، قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں سینکڑوں واقعات انبیا ؑ کے مصايب و تکالیف سے متعلق موجود ہیں۔
نوحؑ کا قصہ ہو یا ابراہیم ؑ کا،یعقوبؑ کا ہو یا موسیؑ کا ، یونس ؑ کا ہو یا لوط ؑ کا، ہر ايک واقعہ تکلیفوں کے بے شمار انبار نظر آئیں گے۔انبیاء کے بعد خاتم الانبیائﷺ کی حیا ت طیبہ کو ديکھا جائے تو آپ کی زندگی کاکوئی دن نہیں ہر گھنٹہ اور ہر ساعت ولمحہ دنیا کی خاطر تکلیفوں، امت کے دوروغم اور آخرت کی فکر میں مصروف نظر آئے گا۔ آنحضرت ﷺ کے بعد تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ کرام ؓ وہ ہیں جن میں سے ہر ايک در حقیقت رسول اﷲ ﷺ کا زندہ معجزہ ہے ۔ اور يہ سلسلہ چل پڑے تو پھر صحابہ کرام ؓ کے بعد امت کے اکابر ،اولیاءاﷲ، علما و مشائخؒ پر نظر ڈالی جائے جو کروڑوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہےں۔ ان حضرات کو دین کی خاطر پیش آنے والے مصائب ، تکالیف اور مشقتوں کا ايک طویل باب ہے جن کو سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔اوراگر يہ طے کر لیا جائے کہ سبھی کے یاد گاری دن منائے جائیں تو سال بھر میں ايک دن بھی یاد گار منانے سے خالی نہیں رہے گا بلکہ ہر دن کے ہر گھنٹہ میں کئی کئی یادگاریں منانی پڑیں گی ؟ ان کی یا دگار اصل يہی ہے کہ ان سے عبرت اور سبق حاصل کرکے اپنی آخرت کی تیاری کی جائے ۔

صحابہ سے حسنِ ظن - حنفی موقف



حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف میں ایک کتاب "الفقہ الاکبر" کو بھی شمار کیا جاتا ہے۔
اس کتاب میں آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :
نتولاهم جميعا ولا نذكر الصحابة
ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں آخری الفاظ یوں ہیں :
ولا نذكر أحداً من اصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم إلالخير
ہم سب صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی کا ذکر بھلائی کے علاوہ نہیں کرتے۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس کی شرح میں مزید لکھتے ہیں :
یعنی گو کہ بعض صحابہ سے صورۃ شر صادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بنا پر ایسا ہوا اور ان کا شر سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ، ان سے حسن ظن کا یہی تقاضا ہے۔
بحوالہ : شرح الفقہ الاکبر ، ص:71
الفقہ الاکبر کے ایک اور شارح علامہ ابوالمنتہی احمد بن محمد المغنی ساوی لکھتے ہیں :
اہل السنۃ و الجماعۃ کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ان کی اسی طرح تعریف کی جائے جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔
بحوالہ : شرح الفقہ الاکبر ، مطبوعہ مجموعۃ الرسائل السبعۃ حیدرآباد دکن - 1948ء
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدہ و عمل کے ترجمان امام ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب "العقیدہ الطحاویۃ" میں لکھا ہے :
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں، ان میں سے نہ کسی ایک کی محبت میں افراط کا شکار ہیں اور نہ ہی کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔ اور جو ان سے بغض رکھتا ہے اور خیر کے علاوہ ان کا ذکر کرتا ہے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں اور ہم ان کا ذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں۔ ان سے محبت دین و ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر و نفاق اور سرکشی ہے۔
بحوالہ : شرح العقیدہ الطحاویۃ ، ص:467


صحابہ سے حسن ظن

Saturday, 26 November 2011

اور دل ہے کہ اداس بہت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نیٹو کا حملہ 24 مسلمان پاکستانی فوجی شہید ۔ ۔ ۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اٰمین
پاکستان کی سر زمین پر ایک عرصہ سے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ۔ ۔ کچھ غیروں کا ستم کچھ اپنوں کا کرم ۔ ۔ ۔ ۔ 

کل شام کو جب یہ خبر سنی یقین مانئیے دل بجھ سا گیا  ۔ ۔ ۔ ۔ یوں لگا جیسے کسی نے دل کو مٹھی میں جکڑ لیا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ میرے خدا یہ کیا معاملہ ہے ۔ ۔ ۔ آج مسلمان کا خون اتنا سستا کیوں ہو گیا ہے ۔ ۔ ۔ کبھی ڈرون آتے ہیں اور معصوم وبے گناہ مسلمانوں کو شہید کرتے ہیں اور کبھی یہ امریکی بے غیرت آتے ہیں ہمارے ملک کی خود مختاری کو تہس نہس کرتے چلے جاتے ہیں ۔ ۔  
اپنے ملک سے محبت کسے نہیں ہوتی اگرچہ جو بندہ یہاں اسلام یا جہاد کی بات کرے اسے دہشت گرد کا لقب مل جاتا ہے ۔ ۔ ۔ میں بھی یہاں اسلام چاہتا ہوں کفار سے جہاد کا حامی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر پاکستا ن کے ہر زخم پر میں تڑپ کے رہ جاتا ہوں ۔ ۔ ۔  میں کبھی پاکستان کا پرچم نیچا نہیں دیکھنا چاہتا مجھے یہ پرچم اونچا فضا میں لہراتا بہت ہی پیارا لگتا ہے ۔ ۔ ۔
مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کل شام سے یوں لگ رہا ہے کہ میرا یہ پرچم گر گیا ہے ۔ ۔ ۔ میری دھرتی تڑپ رہی ہے ۔ ۔ ۔ کہ میرے محافظ کہاں گئے ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
ایسے میں میرے موبائل سے جنید جمشید کی آواز ابھرتی ہے ۔ ۔  طارق بن زیاد کی دعا ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ طارق بن زیاد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اپنے شاندار ماضی کی حسین یادوں میں کھو جاتا ہوں ۔ ۔ ۔  جہاں مجھے جرات اور بہادری اور غیرت نظر آتی ہے ۔ ۔  ۔ ۔ ۔  میں سوچ میں پڑگیا ہم کیا سے کیا ہو گئے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ بہادر سے بزدل ۔ ۔ ۔۔ ۔ غیرت مند سے بے غیرت ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں ہوا یہ سب ۔ ۔ ۔ کیسے ہوا یہ سب ۔ ۔ 
تصور پرواز کرتا ہوا  ۔ ۔ ۔ اپنے آقا و مولا محمد رسول اللہ صل: کے روضہ انور 
پر جا پنہچا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے خودی میں ہاتھوں نے حلقہ بنا لیا  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آنکھیں برسنے لگیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  پلکیں قدمین شریفین کے بوسے لینے لگیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس تصور میں ہی ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  آنکھیں برسنے لگیں ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔  ساون کی جھڑی لگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
عرض کی کہ آقا صل: ۔ ۔ ۔ آپ کے غلام بہت پریشان ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ہم غلاموں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیٹیاں لٹ گئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسجدیں گرا دی گئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمان کاٹ دئیے گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلامی ممالک تباہ ہو گئے ۔ ۔ 
یہ سب کیوں ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔آقا صل:  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہم بہت پریشان ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کا رب ہم سے ناراض ہو گیا ۔ ۔ ۔  ۔ ۔  ہم ذلتوں میں گر گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آواز  آئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان ذلتوں کا انتخاب تم نے خود کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس غلام کو پسند تم نے خود کیا ہے ۔ ۔  مسلمان کے خون کو بے قیمت تم نے خود کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ 
میں نے تو تمہیں بتایا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عزت کی راہ دکھائی تھی ۔ ۔ ۔ غیرت کی زندگی بتائی تھی ۔ ۔  ۔ ۔ مگر تم روگردانی کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غیروں کی بات کو مانا مجھے چھوڑ دیا  ۔ ۔ ۔ ۔   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہا تھا   ۔ ۔ ۔ ۔ کہ 2 چیزوں کو اپنے اندر نہ آنے دینا ۔ ۔ حب الدنیا و کراہیۃ الموت ۔ ۔ ۔  دنیا کی محبت اور موت کی نفرت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں کہ یہ دونوں تمہیں غیرت کی زندگی سے دور کردین گی ۔ ۔ ۔
غیرت کی زندگی کیا ہے  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آواز آئی جہاد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہاں غیرت کی زندگی جہا د ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم دنیا سے محبت اور موت سے نفرت کروگے تو وَھَن جیسے مرض کا شکار ہو جاوگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تم غیرت کی راہ یعنی جہاد کو چھوڑ دو گے ۔  ۔ ۔ ۔ پھر کیا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ذلت تمہارا مقدر بن جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

میں تصور کی دنیا سے نکلا ۔ ۔ ۔ ۔  کیوں کہ میں سمجھ گیا تھا  ۔ ۔ ۔ ۔ کہ یہ ذلت ہمارا مقدر کیوں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ 

اور دل ہے کہ اداس بہت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  










Wednesday, 23 November 2011

ثانی اثنین کون ( حصہ سوم و آخری)


قارئین کرام !

حصہ دوم میں آپ شیعہ کابرین کے بیانات پڑھ رہے تھے اس کا کچھ حصہ اور ملاحظہ فرمائیں ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد اس مضمون کا تتمہ ہو گا ۔ ۔ ان شاء اللہ

امام حس عسکری کے شاگرد اور کلینی کے استاد شیعہ کے مشہور مفسر شیخ علی بن ابراہیم القم نے اپنی تفسیر قُمی میں آیت غار کے تحت امام جعفر صادق کی ایک روایت ذکر کی ہے کہ
لام کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الغار قال لابی بکر کا ن انظر الی سفینہ جعفر واصحابہ تقوم فی البحر وانظر الی الانصار مختبین فی افنیتھم فقال ابوبکر تراھم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ قال نعم ۔ قال فارنیھم فمسح علی عینیہ فراھم فقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انت الصدیق ۔ ۔ ۔ الخ
یعنی جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم غار میں تشریف فرما تھے تو آپ نے ابوبکر کو فرمایا : گویا کہ میں جعفر بن ابی طالب اور اس کے ساتھیوں کی کشتی کو سمندر میں کھڑے دیکھ رہا ہوں اور انصار کی طرف نظر کر رہا ہوں جو اپنے مکانوں کے صحنوں میں چھپے بیٹھے ہیں ۔ تو ابوبکررض نے عرض کی یا رسول اللہ آپ ان کو دیکھ رہے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں دیکھ رہا ہوں ۔ اس کے بعد ابو بکر رض نے کہا کہ مجھے بھی یہ منظر دکھائیں ، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رض کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا پس ابو بکر رض نے ان کو دیکھ لیا ۔ تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اے ابوبکر تم صدیق ہو ( تم نبوت کے معجزات کی تصدیق کرنے والے ہو)

تفسیر قمی تحت آیت غار پ 10 سورۃ توبہ طبع قدیم ایران


اس روایت سے مندرجہ ذیل چیزیں معلوم ہوئیں

(1) حضرت ابوبکر رض کو غار ثور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل ہے
(2) معجزہ نبوی کی حضرت ابوبکر صدیق نے تصدیق کی
(3) اس موقعہ پر حضرت ابوبکر کو صیق کا لقب زبان نبوت سے حاصل ہوا

تنبیہ



ایک بات یہاں قابل ذکر ہے کہ تفسیر قمی کی مندرجہ بالا روایت کو تفسیر قمی کی حالیہ طبع ( طبع جدید ایران) سے طابعین اور ناشرین نے خارج کر دیا ہے ۔ اس کی وجہ اور کوئی نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ اس میں فضیلت صدیق اور آپ کا ثانی اثنین ہونا بطریق اتم ثابت ہوتا ہے
(2) دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ سفینہ والی روایت جو آیت غار کے تحت ان کے آئمہ سے مروی ہےوہ شیعہ کے متعدد مصنفین نے ذکر کی ہے ۔ ان میں یہاں صرف 2 حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں
(الف) روضہ کافی ص 123 ۔ طبع قدیم نولکشو لکھنئو
(ب) تفسیر صافی لمحمد بن مرتضیٰ ملقب بہ فیض کا شانی سورۃ توبہ تحت آیت غار ص 702
ان مقامات میں حضرت جعفر کی سفینہ والی روایت ان کے آئمہ سے مفصل منقول ہے جو حضرات تسلی کرنا چاہیں ان کی طرف رجوع کرلیں

قارئین کرام !

اس تمام بحث سے ثابت ہوتا ہے ثانی اثنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کا لقب ہے ۔ اور ہجرت میں آپ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔
اور صحابہ کرام کے جو اقوال میں نے یہاں نقل کیے ہیں وہ بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ ثانی اثنین کا مصداق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں نہ کہ کوئی اور ۔ ۔

باقی بغض ، حسد ، عناد اور نا ماننے کا علاج نہ تو میرے بس میں ہے اور نہ ہی آپ کے ۔ ۔

دعاؤں کی درخواست کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں

والسلام علیکم
خاکپائے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ سیفی خان ۔ ۔ ۔ ۔

Monday, 21 November 2011

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عملی تفسیر!

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جس دور میں قرآنی تفسیر کی خدمت کے لئے اٹھایا گیا تھا آپ کو معلوم ہے کہ وہ ”عملی دور“ تھا، اور حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اپنے وقت میں اس دور کے امام تھے۔ اس لئے تلاش کرنے والوں کو ان کی عملی زندگی میں ڈوب کر ”تفسیری سرمایہ“ تلاش کرنا چاہئے، اس نقطہٴ نظر سے اگر غور کیا جائے گا تو یہ واقعہ کھل کر سامنے آئے گا کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے سیکڑوں آیات قرآنیہ کی عملی تشریح فرمائی، اور بے شمار اشکالات کو اپنے ”طرز عمل“ سے حل فرمایا۔ وصال نبوی کے موقع پر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی بے خودی اور بے چینی، سیرت کا معروف واقعہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے قوی عزم حضرات ” از خود رفتہ“ ہوکر اعلان کررہے تھے کہ جو شخص کہے گا کہ آنحضرت ا کا وصال ہوگیا ہے، اس کی گردن اڑا دوں گا۔
اس موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آیت:
” وَ مَا مُحَمَّدٌ إلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الْرُّسُل، أفَإن مَّاتَ أوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی أعْقَابِکُمْ“
کی منبر نبوی پر تلاوت فرمائی اور اس کی تشریح فرماتے ہوئے اعلان فرمایا:
”الا من کان یعبد محمدا ا فإن محمدا ا قد مات۔ ومن کان یعبد اللہ فإن اللہ حی لا یموت۔“ (بخاری ج:۱ ص:۵۱۷)
ترجمہ:…” سنو جو شخص محمد ا کی عبادت کرتا تھا (اسے معلوم ہونا چاہئے کہ) آنحضرت ا انتقال فرماچکے ہیں، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا (اس کا معبود) اللہ تعالیٰ زندہ ہیں کبھی نہ مریں گے۔“
اس واقعہ کا تذکرہ عام طور پر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی ثابت قدمی، قوت قلبی اور حسن تدبر کے ذیل میں کیا جاتا ہے، لیکن حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہی کا بیان جو کتابوں میں نقل کیا گیا ہے، یعنی وہ فرمایا کرتے تھے کہ خدا کی قسم ہمیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی ہے۔ اس فاروقی بیان کو سامنے رکھ کر اگر دعویٰ کیا جائے کہ آنحضرت ا کے بعد یہ پہلی آیت تھی جس کا مفہوم ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے ”عملی اندازتشریح“ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے واضح کیا گیا تھا تو کیا یہ دعویٰ بے جا ہوگا؟ بہرحال اس کی مزید مثالیں ذکر کرنے کی گنجائش نہیں، اس نکتہ کو سامنے رکھ کر ”صدیقی سیرت“کا مطالعہ کرنے والوں کو اچھی خاصی مقدار میں صدیقی تفسیر کے جواہر پارے ملیں گے:
”اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَیٰ السَّمْعَ وَ ھُوَ شَھِیْدٌ “۔ (ق:۳۷)
ترجمہ:…”اس میں اس شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جس کے پاس (فہیم) دل ہو یا وہ (کم از کم دل سے ) متوجہ ہوکر (بات کی طرف) کان ہی لگا دیتا ہو۔“ (ترجمہ حضرت تھانوی)

متأخرین صحابہ کے علوم میں بہت بڑا حصہ صدیقی علوم کا تھا:

یہاں اس نکتہ کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے جس پر حکیم الامت لسان الحکمت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے تنبیہ فرمائی ہے، یعنی حضرات شیخین کے علوم صرف اسی قدر نہیں کہ جو اُن کے نام سے کتابوں میں نقل کئے گئے ہیں بلکہ ان کا بیشتر حصہ وہ ہے جو متأخرین صحابہ نے ان سے اخذ کیا ہے اور نقل کرنے والے ان متأخرین ہی کے نام سے ان کو نقل کرتے ہیں، اس کو ایک توضیحی مثال سے سمجھئے: مثلاً ایک نادر روزگار استاذ کے سیکڑوں شاگرد ہوں، جنہوں نے تمام علوم کا استفادہ اپنے استاذ محترم سے کیا ہو، پھر ان تمام تلامذہ نے تصنیف و تالیف کے ذریعہ سے ان تمام علوم کو مدون کردیا ہو، تو اس صورت میں یہ تمام تصنیفات شاگردوں ہی کی طرف بظاہر منسوب کی جاتی ہیں، لیکن حقیقت شناس جانتے ہیں کہ یہ تمام، استاذ محترم ہی کے علوم ہیں جو شاگردوں کی زبان قلم سے ظاہر ہورہے ہیں۔ اسی طرح یہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر کو ان صحابہٴ کرام کے لئے بمنزلہٴ استاذ تصور کرو، جن کو تأخر اسلام یا صغر سنی کی وجہ سے آنحضرت اسے استفادہ کا موقع کم میسر آیا، لیکن اکابر صحابہ بالخصوص حضرات شیخین کی صحبت اور تعلیم و تربیت کی وجہ سے ان کو اپنے وقت کی امامت نصیب ہوئی۔ ان حضرات کے تفسیری اور حدیثی علوم دراصل حضرات شیخین ہی کے علوم ہیں، اگرچہ نقل و روایت کے اعتبار سے نسبت خود ان کی طرف نہ کی جائے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت ابن عباس، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم اور ان کے ہمعصر صحابہ سے جو روایاتِ تفسیر و حدیث،کتابوں میں منقول ہیں وہ درحقیقت حضرات شیخین سے مستفاد ہیں۔

شاہ صاحب رحمہ اللہ کے الفاظ میں اس نکتہ کو ملاحظہ فرمائیے:


”نہ پنداری !کہ شیخین ہمیں قدر روایت کردہ اندکہ در کتب مسانید بایشاں نسبت کردہ می شود، بلکہ بسیارے از احادیث مرفوعہ کہ در مسانید بکثیرین از صحابہ مذکور است بحقیقت روایت شیخین است کہ عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن عباس و ابوہریرہ آن را ارسال نمودہ اند،و بہ آں حضرت ا رفع کردہ واھل مسانید ظاہر آں را اعتبار کردہ در مسانید ایشاناں درج نمودہ اند، چنانکہ بر شخصے کہ متتبع جزئیات و کلیات علم حدیث مخفی نخواہد بود۔“ (قرة العینین ص:۵۵ طبع مجتبائی)
ترجمہ:…” یہ نہ سمجھا جائے کہ شیخین کی روایات صرف اسی قدر ہیں جو کتب مسانید میں ان کی طرف نسبت کی گئی ہیں، بلکہ بہت سی احادیث مرفوعہ ایسی ہیں کہ مکثرین صحابہ کی مسانید میں ذکر کی گئی ہیں، لیکن درحقیقت وہ شیخین رضی اللہ عنہما کی روایات ہیں جن کو عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ (رضی اللہ عنہم) نے ارسال کرتے ہوئے آنحضرت ا سے مرفوعاً نقل کیا ہے، اور اصحاب مسانید نے ان روایات کے ظاہر کا اعتبار کرتے ہوئے ان حضرات کی مسانید میں درج کردیا ہے۔ چنانچہ جو شخص علم حدیث کی جزئیات و کلیات کا تتبع کرے گا، اس پر یہ نکتہ مخفی نہ رہے گا۔“
تفسیری کلیات صدیقی سیرت کی روشنی میں


مندرجہ بالا وجوہ اور حضرت صدیق کی بے حد مصروفیت کے علاوہ یہ امر بھی خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ آنحضرت ا کے بعد تابعین کی بلا واسطہ تربیت کا موقع ان کو بہت کم ملا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان سے روایت کرنے والوں میں، صحابہ بلکہ اکابر صحابہ کے نام زیادہ اور تابعین کے نام کم ملتے ہیں۔
چنانچہ علامہ شیخ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”و سبب ذٰلک مع تقدم صحبتہ و ملازمتہ للنبیا انہ تقدمت وفاتہ قبل الانتشار الاحادیث و اعتناء التابعین بسماعھا و تحصیلھما و حفظھما۔“
ترجمہ:…” آپ کی روایات میں کمی کا باعث، باوجودیکہ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ کے ساتھ دیرینہ رفاقت اور ملازمت حاصل تھی، یہ ہے کہ احادیث کے پھیلنے اور تابعین کے حفظ و تحصیل میں مشغول ہونے سے قبل ہی ان کا وصال ہوگیا۔“
اسی کے ساتھ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی طبعی افتاد کا بھی دخل تھا، مطلب یہ کہ ان کی سیرت کے مطالعہ کرنے سے آدمی جو سب سے پہلے تأثر لیتا ہے، وہ یہی ہے کہ ان پر خشیت کی نسبت غالب تھی، دین کے ہر معاملہ میں ہر پہلو سے احتیاط در احتیاط ان کی طبیعت ثانیہ تھی، کسی کام کے کرنے یا کسی بات کے کہنے سے پہلے وہ پوری طرح جائزہ لیا کرتے تھے کہ خدانخواستہ اس میں، سبب بعید کے طور پر ہی سہی، کوئی شر کا پہلو تو نہیں پایا جاتا؟ مجدد قرن ثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کا یہ فقرہ کس قدر حکیمانہ ہے؟ وہ فرمایا کرتے تھے:
”مَنْ عَدَّ کَلامَہُ مِنْ عَمَلِہِ، قَلَّ کَلامُہ“ (تاریخ الخلفأ)
ترجمہ:…” جو شخص اپنے کلام کو بھی عمل میں شمار کرے گا ، اس کی باتیں کم ہوں گی۔“
حضرت صدیق کی خدا ترسی اور خوف محاسبہ کی کیفیت کتنی بلند تھی! کتابوں میں جو کچھ اس سلسلہ میں نقل کیا گیا ہے آج کل کے چھچھورے مزاج کے انسانوں کے لئے اس کا تصور بھی دشوار ہے۔
اس واقعہ کا تذکرہ تقریباً سب ہی سیرت نگاروں نے کیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ اپنی زبان پکڑ کر کھینچ رہے ہیں، عرض کیا کہ ” کیا قصہ ہے؟“ جواب میں ”صدیقی زبان“ جس پر صدق و تصدیق کے سوا شاید دوسرا لفظ کبھی نہ آیا ہوگا، کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جارہا تھا:
”ھذہ اوردتنی الموارد“۔ (نسائی بحوالہٴ تاریخ الخلفأ)
ترجمہ: ”اسی نے مجھے بہت سی گھاٹیوں میں لا اتارا ہے۔“
اس سرتاج صدیقین کو کبھی کبھی یہ تمنا کرتے سنا اور دیکھا جاتا:
”لعددت انی شعرة فی جنب مؤمن“۔
ترجمہ: ”میری یہ تمنا رہتی ہے کہ میں کسی موٴمن کے پہلو کا بال ہوتا۔“
ان کی خدمت میں اگر ایک حادثہ عرض کیا جاتا، جس کا صریح حکم نہ کتاب اللہ میں موجود ہوتا اور نہ سنت نبوی میں اس کی تصریح ہوتی، تو وہی رئیس المجتہدین، کہ ابو حنیفہ و شافعی (رحمہما اللہ) کی فقاہت جن کی دریوزہ گر تھی، ابن سینا اور ابن رشد کا فلسفہ جن کے گھر کا دربان تھا، فضیل اور جنید کا تقویٰ جن کا خانہ زاد تھا، انہیں کو بار بار فرماتے ہوئے سنا جاتا:
”اجتھد رأیا فإن یکن صوابا فمن اللہ و إن یکن خطاء فمنی و استغفر اللہ۔“(ابن سعد)
ترجمہ:…” میں اس معاملہ میں کتاب و سنت کی روشنی میں اجتہاد کروں گا، اگر درست ہوا تو اللہ کی جانب سے، اور غلط ہوا تو میری طرف سے، اور میں اللہ سے معافی کی التجا ٴ کرتا ہوں۔“
کہاں تک نقل کرتا جاؤں؟ جن کے احتیاط اور تثبیت کا یہ عالم ہو، ان کے لئے اللہ کی کتاب میں لب کشائی کیا آسان کام ہوگا؟ قرآن کی شرح و تفسیر تو خیر بعد کی بات ہے، قرآن کی تدوین سے بڑھ کر اور ضروری عمل، اور اس سے بڑی سعادت عظمیٰ کا کام کیا ہوسکتا ہے! لیکن ”صدیقی احتیاط“ اس معاملہ میں بھی کس طرح دامن گیر رہی؟ اس کی خبر سب ہی کو ہے۔ اگر ”حکمت ازلیہ“ نے صدیقی احتیاط کے ساتھ فاروقی فراست کا حسین امتزاج نہ کردیا ہوتا تو نہیں کہا جاسکتا کہ صورت حال کیا ہوتی؟
علوم اسلامیہ کے ارتقائی مزاج سے ناآشنا اور اردو تراجم پڑھ پڑھ کر چہاردہ صد سالہ امت کے علی الرغم ”قرآنی بصیرت“ کی ”غلط پنداری“ کے مریضوں کے لئے کیا اس واقعہ میں عبرت کا کوئی سامان نہیں؟ جس دور میں خود قرآن کی جمع و ترتیب ہی پر بمشکل آمادگی ظاہر ہوتی ہے، انہیں سوچنا چاہئے کہ وہ تدوین حدیث کا دور ہوسکتا ہے؟ جن اصحاب بصیرت کو ابھی تک قرآن کے یکجا کردینے میں تأمل ہو، اگر وہ حدیث کا کوئی مجموعہ مرتب نہ کریں، یا کئے ہوئے کو غایت احتیاط کی بنا پر تلف کردیں، ان کے اس طرز عمل سے کیا حدیث کا ناقابل قدر ہونا کوئی عقل مند تسلیم کرسکتا ہے؟ اور کیا تدوین قرآن کی بھی قریب قریب وہی نوعیت نہیں ہوجاتی جو تدوین حدیث کی ہے؟ اندریں صورت کیا انکار حدیث سے انکار قرآن ہی کا راستہ تیار نہیں ہوتا؟
الیس منکم رجل رشید۔ نعوذ باللہ من الزیغ ومن ان نُضِلَّ او نُضَلَّ۔
بخاری شریف میں کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
”یمامہ میں قرا ٴ صحابہ رضی اللہ عنہم کے شہید ہوجانے پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے پیغام بھیج کر بلایا، میں حاضر ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے، حضرت ابوبکر فرمانے لگے: عمر میرے پاس آئے اور کہا: ” جنگ یمامہ میں بکثرت قرا ٴ قرآن شہید ہوگئے ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر دوسرے مواقع میں بھی قرآن کے حافظ اسی طرح شہید ہوتے رہے، تو قرآن کا بہت سا حصہ ان کے ساتھ ہی نہ جاتا رہے۔ میری رائے ہے کہ آپ قرآن کی یکجا تدوین کا حکم دیں“۔ میں نے (ابوبکر رضی اللہ عنہ نے) عمر سے کہا :
”کیف تفعل شیئاً لم یفعلہ رسول اللہ ا“
ترجمہ:…”تم ایسا کام کیسے کرسکتے ہوجو آنحضرت ا نے نہیں کیا۔“
اس کے جواب میں عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بخدا یہ کام سراپا خیر ہے (منشا ٴ نبی کے خلاف نہیں)“ پس عمر رضی اللہ عنہ بار بار مجھ سے اس مسئلہ میں گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی اس کے لئے شرح صدر نصیب فرمایا اور مجھے بھی اسی میں خیر نظر آنے لگی، جس طرح عمر کی رائے تھی…“ الی آخر القصہ۔
الغرض حضرت ابوبکر ہر معاملہ میں کامل حزم اور نہایت احتیاط کے ساتھ منشا ٴ خداوندی کے پورا کرنے کی سعی فرماتے، لیکن باایں ہمہ اپنی ذات کے لئے یا اپنے نفس پر ایک لمحہ کے لئے بھی اعتماد نہ فرماتے، گویا نفس کے بارے میں ان کا نظریہ ٹھیک وہی نظریہ تھا جسے قرآن کریم نے یوسف صدیق علیہ السلام کی زبانی نقل کیا ہے :
”وَمَا اُبَرِّیٴُ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارُةٌ م بِالسُّوْءِ“ (یوسف:۵۳)
ترجمہ:…” میں اپنے نفس کو بری نہیں کہتا، اس میں کیا شک ہے کہ نفس کا کام برائی ہی کا مشورہ دینا ہے۔

اس لئے تفسیر قرآن کے معاملہ میں بھی ان کا یہی احتیاطی جذبہ ممکن ہے کہ تعلیل کا باعث ہوا ہو؟ تاہم جتنا ذخیرہ بھی تفسیری روایات کا ان سے منقول ہے، اگر گہری بصیرت کو کام میں لایا جائے تو جزئیاتی حیثیت سے اگرچہ قلیل ہے، لیکن کلیاتی رنگ میں وہ بیش بہا ہے۔

حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے تفسیری اصول


شرح اس اجمال کی یہ ہے کہ علم تفسیر کے جزئیات اگرچہ درجہٴ شمار سے خارج ہیں، لیکن یہ تمام جزئیات چند کلیات کی طرف راجع ہیں جن کو علم تفسیر کے اصول موضوعہ کہنا چاہئے۔ حضرت صدیق سے جو چند تفسیری روایات نقل کی گئی ہیں ان میں علم تفسیر کے ان ہی اہم اصول کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، کاش ان ”صدیقی اصول“ کے ساتھ اس ”صدیقی ذوق“ کو اگر ملحوظ رکھا جاتا تو کم از کم تفسیر قرآن کے سلسلہ میں وہ جرأتیں ظاہر نہ ہوتیں جو مدت سے غیر ذمہ دار طبقات کی طرف سے ظاہر ہورہی ہیں۔

تفسیر بالرائے سے اجتناب


پہلا تفسیری اصول یہی ہے کہ قرآن کی شرح و تفسیر کرنے والا اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی اہلیت رکھتا ہو کہ کسی مقام پر بھی وہ اپنی خواہش اور ہوا کے ساتھ کتاب اللہ کو ملوث کرنے کی جرأت نہ کرے، کسی بھی آیت پر بحث کرتے ہوئے وہ حق تعالیٰ کی مراد واضح کرنے کے بجائے اپنے ذاتی رجحانات و اوہام کی ترجمانی شروع نہ کردے، اس میں کم از کم اتنی اہلیت اور امانت موجود ہو کہ قرآن جو کچھ سمجھانا چاہتا ہے اسے بیان کرنے کی جگہ ”جہاں تک میں سمجھا ہوں“ کی منطق استعمال نہ کرنے لگے، قرآن کی جس آیت پر وہ کلام کرنا چاہتا ہے، اسے معلوم ہو کہ مجھ سے پہلے اس کا کیا مفہوم لیا گیاہے؟ لغت عرب سے اس کے کیا معنی متعین ہوتے ہیں؟ اس کے سیاق و سباق سے کیا مطلب واضح ہوتا ہے؟ قرآن مجید میں یہ مضمون کس کس جگہ آیا ہے؟ اور اسے کن کن عنوانات سے بیان فرمایا گیاہے؟ اس آیت کا جو مفہوم میں نے سمجھا ہے وہ کسی شرعی قاعدہ سے تو نہیں ٹکراتا؟ اس سے کسی نص کی تکذیب تو نہیں ہوجاتی؟ الغرض جب تک کسی آیت کے اطراف و جوانب، شریعت کے قواعد و ضوابط اور امت کے عقائد و اجماعات پر اس کی نظر نہ ہو ، محض ظن و تخمین اور ہوا و ہوس سے کسی آیت کو خود ساختہ معنی پہناکر نامہٴ عمل سیاہ کرتے چلے جانا، قرآنی خدمت نہیں بلکہ ”دروغ بافی“ ہے۔

کون نہیں جانتا کہ اگر کسی وقت صدر مملکت کی ترجمانی کے فرائض پر کسی کو مأمور کردیا جائے، تو اس پر کس قدر نازک ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے؟ اس کو زبان و لغت پر کتنا عبور درکار ہوگا؟اسے ”شاہی محاورات“ پر کتنی گہری نظر رکھنی ہوگی؟ اسے فصاحت و بلاغت کی کن کن نزاکتوں کا لحاظ رکھناہوگا؟ اسے صدر مملکت کے ذاتی احساسات و رجحانات، لب و لہجہ، طرز خطاب کو کس حد تک نبھانا ہوگا؟ پھر ذرا سی غلط بیانی اور ”الٹی تعبیر“ پر کتنا خطرہ درپیش ہوگا؟ اگر ایک معمولی حاکم کی ترجمانی میں ان امور کا لحاظ رکھنا باتفاق عقلأ مسلم ہے، تو سوچنا چاہئے کہ ”شہنشاہ مطلق“ اور احکم الحاکمین کی ترجمانی کن کن نزاکتوں کی حامل ہوگی؟ اگر آپ غور کریں گے تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد میں اسی اصول کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے جس کو سورہٴ عبس کی تفسیر میں تقریباً سب ہی مفسرین نے ذکر کیا ہے یعنی اس سورت میں” ابًا “ کا لفظ جو آیا ہے۔ پوچھنے والوں نے حضرت صدیق  سے اس کے معنی دریافت کئے، سننے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیس سالہ شاگرد سے سن رہے تھے:
”ای سماء تظلنی و ای ارض تقلنی ان قلت فی کتاب اللہ ما لا اعلم۔“
(تفسیر ابن کثیر ج:۱ ص:۵)
ترجمہ:…” مجھے کون سا آسمان سایہ دے گا؟ اور مجھے کون سی زمین اٹھائے گی؟ اگر میں اللہ کی کتاب میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں۔“
میں اسی کو حضرت صدیق کے ”پہلے تفسیر اصول“ سے تعبیر کررہا ہوں جس کا حاصل یہی ہے کہ کتاب اللہ کی تفسیر کے لئے جس قدر ذرائع علم درکار ہیں، جب تک ان کی اہلیت پیدا نہ کرلی جائے اس وقت تک قرآن کی کسی آیت کے معنی اور مفہوم کو متعین کرنے کی جرأت کرنا”تفسیر بالرائے“بلکہ اصطلاح نبوت میں ”قول بالرائے“ ہے جو مطلقاً حرام اور مستوجب وعید ہے۔ آنحضرت ا کا مشہور ارشاد ہے:
”من قال فی القرآن برأیہ او بما لا یعلم فلیتبوأ مقعدہ من النار۔“
ترجمہ:…” جس نے قرآن میں بدون علم کے یا محض رائے سے کوئی بات کہی، اسے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنانا چاہئے۔

کیا آج بھی اس وعید نبوی اور ذوق صدیقی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے؟ آج ہر بدعتی اپنی بدعت کے لئے، ہر ملحد اپنے الحاد کے لئے، ہر زندیق اپنی ہرزہ سرائی کے لئے،ہر بازی گر اپنی شعبدہ بازی کے لئے، اللہ کی اسی پاک کتاب کو استعمال کرتاہے۔ کسی کو بھول کر بھی خیال نہیں آتا کہ ان تمام خرافات کو کتاب اللہ کی طرف منسوب کرنا بھی کوئی جرم ہوسکتا ہے؟ حضرت ابن عمر فرمایا کرتے تھے:” تعلمنا الایمان ثم تعلمنا القرآن“۔یعنی ”ہم نے پہلے ایمان سیکھا تھا پھر قرآن سیکھا تھا۔“ آج ایمان اور قرآن سیکھنے کی زحمت گوارا کئے بغیر گھر گھر ”قرآنی مبصر“ پیدا ہورہے ہیں۔

حافظ سیوطی رحمہ اللہ دسویں صدی میں ان نام نہاد قرآنی مبصرین کا ماتم کررہے ہیں:
”والمبتدع لیس لہ قصد الا تحریف الآیات و تسویتھا علی مذھبہ الفاسد۔ بحیث انہ متی لاح شاردة من بعید اقتنصھا او وجد موضعا لہ فیہ ادنی مجال سارع الیہ…و الملحد فلا تسأل عن کفرہ و الحادہ فی آیات اللہ تعالیٰ و افتراء ہ علی اللہ ما لم یقلہ “۔ (الاتقان: النوع الثمانون ص:۱۹۰)
ترجمہ:…” اہل بدعت کی تمام تر ہمت اس پر لگی ہوئی ہے کہ آیات کی تحریف کی جائے اور ان کو اپنے فاسد مذہب پر منطبق کیا جائے، اسے جہاں کہیں دور سے بھی کوئی بکھری ہوئی چیز نظر آجاتی ہے، اسے فوراً اچک لیتا ہے، یا کہیں اسے ذرا سی گنجائش بھی ملتی ہے، اس کی طرف لپک جاتا ہے۔ رہا ملحد سو اس کے کفر، آیات اللہ میں کجروی، اور اللہ پر افترأ پردازی کا حال تو ناگفتہ بہ ہے۔“

آج کون ہے جو اس امام کے مزار پر جاکر اطلاع کرے کہ آپ کے بعد کی چار صدیوں نے ”انسانی مزاج“ میں کتنی تبدیلی کرڈالی ہے۔ چودھویں صدی کے اہل بدعت کی غباوت نے کتاب اللہ کی کس قدر آیات کو تحریف کا تختہٴ مشق بنا ڈالا ہے؟ اور اس دور کے ملحدین، کفر و الحاد اور جرأت افترأ علی اللہ میں کن کن حدود کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں؟ قرآن حکیم نے،کتاب اللہ کے محکمات سے بے رخی کرتے ہوئے متشابہات کی پیروی کرنے والوں اور ان کو غلط معنی پہناکر فتنہ جوئی کرنے والوں کے ”قلبی زیغ“ اور ”ذ ہنی کجی“ کی اطلاع دی تھی۔ دور حاضر کے مغرب زدہ زائغین قرآن کو اول سے آخر تک مسخ کردینے والے اور سیزدہ سالہ اسلام کو منہدم کر کے اس کے کھنڈرات پر الحاد و زندقہ کی بنیادیں استوار کرلینے کے سودائے خام میں مبتلا ہیں۔
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔
بہرحال حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد میں جو اوپر نقل کرچکا ہوں، اسی قسم کی بے باکیوں کی پیش بندی فرمائی گئی ہے، یعنی جب تک پوری تحقیق قرآن کی کسی آیت کے متعلق آدمی کو نہ ہو اس وقت تک اس کے لئے جائز نہیں کہ اللہ کی کتاب پر ظن و تخمین کا غلاف چڑھائے۔ حضرت صدیق  سے دوسری روایت جو اسی مضمون کی منقول ہے وہ اس سے واضح تر ہے، یعنی ان سے کسی آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو فرمایا:
”ای ارض تسعنی او ای سماء تظلنی اذا قلت فی کتاب اللہ ما لم یرد اللہ۔“
ترجمہ:…” مجھے کون سی زمین پناہ دے گی؟ یا کون سا آسمان سایہ دے گا؟ جب کہ میں کتاب اللہ میں ایسی بات کہہ ڈالوں جو اللہ کی مراد نہیں۔“

اس روایت میں ” مالم یرد اللہ “ کا لفظ کس قدر علم سے بھرا ہوا، احتیاط میں ڈوبا ہوا، اور عظمت خداوندی سے لبریز ہے۔ مطلب یہ کہ آیت کے ظاہری مفہوم کو بیان کرسکتا ہوں ، لیکن جب تک قرائن و دلائل سے قطعاً ثابت نہیں ہوجاتا کہ جو کچھ میں سمجھا ہوں وہی اللہ کی مراد بھی ہے، آیت کے معنی میں لب کشائی کیسے کروں؟ اگر خدانخواستہ میرے بیان کردہ معنی ”اللہ کی مراد“ کے خلاف ہوئے تو شہنشاہ مطلق کی غلط ترجمانی کی سزا سے بچنے کے لئے آسمان و زمین کا کون سا گوشہ پناہ دے گا؟ ”عجب سلامتی“ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو نصیب ہوئی تھی، اسی آیت کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی قسم کا ارشاد نقل کیا گیا ہے۔ شیخ ابن کثیر ان دونوں حضرات کی روایات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”یہ تمام روایتیں اس پر محمول ہیں کہ یہ دونوں حضرات کیفیت ” اَبَّ “ کا علم قطعی دریافت کرنا چاہتے تھے، ورنہ اتنی سی بات کہ” اَبَّ “ زمین کی سبزی کا نام ہے بالکل ظاہر ہے مجہول نہیں۔“ (ابن کثیر ج :۱ ص:۵)

امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں:

”قولہ تعالیٰ فاکھة و أبًا، الأبُ المرعی المتھیٴ للرعی والجز من قولھم اب لکذا ای تھیا ابا وابابة و ابابا ، واب إلی وطنہ اذا نزع إلی وطنہ نزوعا تھیاء الخ“ (مفردات القرآن ص:۵)
گویا اسی ”ظاہر لایجھل“ کی پوری کیفیت چونکہ واضح نہیں، اس لئے شیخین اس لفظ کی شرح میں ایک حرف کی جرأت نہیں کرتے۔
یہ بحث پوری نہیں ہوئی، سورہٴ نسا ٴ کی آیت میراث میں لفظ کلالہ جو واقع ہوا ہے، کتب تفسیر میں امام بیہقی وغیرہ کے حوالہ سے نقل کیا گیا ہے کہ ”حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے اس کا مفہوم دریافت کیا گیا، اس کے جواب میں علوم نبوت کے حافظ، اسرار کتاب اللہ کے امین، آنحضرت اکے یار غار و مزار سے کس قدر صداقت آمیز فقرہ سن رہے تھے:
” اقول فیھا برای فان یکن صوابا فمن اللہ و ان یکن خطاء فمنی و من الشیطان و اللہ و رسولہ بریئان منہ۔الکلالة من لا ولد لہ ولا والد۔“ (تفسیر ابن کثیر ج:۱ ص:۴۶)
ترجمہ:…” میں اس میں رائے سے ایک بات کہتا ہوں، اگر درست ہوئی تو اللہ کی جانب سے ہوگی، اور اگر غلط ہوئی تو میری جانب سے اور القا ٴ شیطان کی وجہ سے ہوگی۔ اس صورت میں اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہوں گے۔ (کلالہ) سے مراد وہ شخص ہے جس کانہ بیٹا ہو نہ باپ۔“
کلالہ سے مراد اس آیت میں وہ شخص ہے جس کے نہ اصول ہوں نہ فروع۔
شیخ ابن کثیر فرماتے ہیں:
”یہی تفسیر عمر،علی، ابن مسعود، ابن عباس، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ شعبی، نخعی ، قتادہ، جابر بن زید اور حکم کا یہی قول ہے، اہل مدینہ ، اہل کوفہ ، اہل بصرہ اسی کے قائل ہیں۔ فقہا ٴ سبعہ، ائمہٴ اربعہ اور جمہور سلف و خلف کا بلکہ تمام سلف و خلف کا یہی قول ہے، بہت سے اکابر نے اس پر پوری امت کا اتفاق نقل کیا ہے۔” و ورد فیہ حدیث مرفوع “ (تفسیر ابن کثیر  ج: ۱ ص:۴۶۰)
یہ تفسیر جس پر بقول ابن کثیر جمیع سلف و خلف کا اتفاق ہے ظاہر ہے کہ اس میں کسی دوسرے معنی کا احتمال اجماع امت کے بعد کب باقی رہ جاتاہے؟
لیکن اسی کو جب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، تو احتیاط و حزم کے سارے سامان جمع کر لیتے ہیں۔ اس لئے کہ انہوں نے جہاں آنحضرت ا سے (بقول ابن عمر) ایمان اور قرآن سیکھا تھا، وہیں کتاب اللہ کی عظمت اور اس کی ترجمانی کی نازک ذمہ داری بھی سیکھی تھی۔ یہ روایت جس کا حوالہ اوپر عرض کیا گیا ہے، اس کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب تک اسے سامنے نہ لایا جائے، یہ بحث تشنہ رہے گی۔ یعنی روایت کرنے والوں نے اس صدیقی طرز عمل کے بعد جو ”فاروقی اسوہ“ نقل کیا ہے وہ مستقل ”تفسیری اصول“ ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
” فلما ولی عمر قال : انی لاستحیی ان اخالف ابابکر فی رأی رأہ۔“ (تفسیر ابن کثیر ج:۱ ص:۴۰)
ترجمہ:…” پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو فرمایا: بخدا مجھے حیا آتی ہے کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی (اس تفسیری) رائے کے خلاف کروں۔“
سلف کی تفسیر کے خلاف اختراعی نظریات قرآن سے ثابت کرنے والے اور ”میں یہ سمجھا ہوں“ کے مراقی خبط میں مبتلا ہونے والوں کے لئے تازیانہٴ عبرت ہے، جس کے لئے زبان وحی سے ” ان اللہ جعل الحق علی لسان عمر و قلبہ“ صادر ہوا۔
ڈیڑھ درجن سے زیادہ آیات میں آسمانی وحی نے جس کی نہ صرف مضمون میں بلکہ بعض مرتبہ الفاظ میں بھی موافقت کی تھی، ان کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلاف کرنے سے حیا آتی ہے۔آج صحابہٴ کرام ، تابعین ، ائمہ اور مفسرین ، الغرض چہاردہ سالہ امت بلکہ (خاکم بدہن) خود امت کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت قرآن پڑھ پڑھ کر کرنے والوں کے متعلق سوچتا ہوں کہ ان کی شرم و حیا سے گردن کیوں نہیں جھکتی۔
صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم پر تبرا، ائمہ پر استہزا ٴ، پوری امت پر تمسخر کرنے والے ”قرآنی مبصرین“ میں مادہٴ حیا پیدا ہی نہیں کیا گیا، یا وہ اسے کسی دوسرے کام میں لاتے ہیں۔ (ماہنامہ دارالعلوم دیوبند مارچ ۱۹۶۵ء)


ثانی اثنین کا مصداق کون ( حصہ دوم)

لفظ ِ ثانی اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ


قارئین کرام ! حصہ اول میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے ثانی فی الغار کا مسئل ذکر کیا گیا ہے ۔ اب ہم اس چیز کی وضاحت پیش کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ثانویت(ثانی ہونے کی) کی خصوصیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سے دیگر مقامات میں بھی حاصل ہوئی مثلاً

 ثانی فی الاسلام  ، قبول اسلام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ       عنہا کے بعد دوسرے شخص ہیں

 ثانی فی الہجرہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ہجرت کرنے میں آپ رض دوسرے درجہ میں ہیں

 ثانی فی عریش ِبدر ، مقامِ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار کیے جانے والے عریش میں آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں بیٹھنے والے دوسرے شخص ہیں( عریش ” چھاتہ “ کو کہتے ہیں )

 ثانی فی الامامہ باالصلوۃ ، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں نماز کی امامت کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دوسرے درجہ میں ہیں

 ثانی فی مقبرہ النبی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر میں دفن ہونے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دوسرا درجہ ہے

 ثانی فی دخول الجنۃ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق جنت میں داخل ہونے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دوسرے شخص ہونگے

سفر ہجرت اور آیت غار کے متعلق شیعہ اکابر کے بیانات


سابقہ سطور میں میں نے ثانی اثنین کے مصداق کے حوالہ سے چند چیزیں ذکر کی ہیں ۔ جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سفر ہجرت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ حضرت ابوبکر صدیق بن ابو قحافہ رضی اللہ عنہ ہی تھے ۔اس کے بعد اسی سفر ہجرت اور آیت غار کے متعلق شیعہ اکابر کے بیانات ذکر کیے جارہے ہیں جن میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس مبارک سفر میں معیت اور مصاحبت پائی جاتی ہے ۔ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک سفر ہونا ثابت ہو تا ہے ۔ اور اسلام کا یہ مبارک سفر بڑی اہمیت کا حامل ہے
۔
اس سلسلہ میں چند ایک حوالہ جات شیعہ حضرات کی کتب سے پیش کیے جاتے ہیں تا کہ اصل واقعہ کی صحت کے ثبوت میں کوئی اشتباہ نہ رہے
اور فریقین کے بیانات کے ذریعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عظمت کا مسئلہ ازرُؤئے قرآن پختہ ہو جائے

شیعہ کے مشہور قدیم مفسر شیخ ابوعلی الفضل بن حسن الطبری اپنی تفسیر مجمع البیان میں آیت غار کے تحت بیان کرتے ہیں

الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ ۔ معناہ ان لم تنصرو الی علی القتال قتال العدو فقد فعل اللہ بہ النصر اذا خرجہ الذین کفروا من مکہ فخرج یرید المدینہ ثانی اثنین یعنہ کان ھو ابوبکر اذھما فی الغار ولیس معھما ثالث ای وھو احد اثنین ومعناہ فقد نصرہ اللہ منفردا من کل شیء من ابی بکر والغار ۔ ۔ ۔ الخ
اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کے قتال پر اگر تم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ کرو گے تو اللہ نے اپنے نبی کی مدد کی ۔ جبکہ کفار نے نبی کو مکہ سے نکالا اور آپ مدینے کا ارادہ کر کے نکل پڑے ۔ ثانی اثنین یعنی پیغمبر اورحضرت ابوبکر تھے ۔ جبکہ دونوں غار میں تھے ۔ ان دونوں کے ساتھ تیسرا نہیں تھا ۔ معنیٰ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کی مدد کی درآں حالیکہ وہ سوائے ابوبکر کے سب سے منفرد تھے ۔ اور جبل میں ایک بڑا شگاف تھا ۔ اس سے مراد غار ثور ہے جو کے مکہ کے پہاڑ میں ہے ۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہ رہے تھے کہ غم نہ کھا نہ خوف کر اللہ ہمارے ساتھ ہے

تفسیر مجمع البیان الطبرسی ص 504 تحت آیت غار پ10 طبع قدیم ایران

شیعہ کے شیخ الطائفہ ابو جعفر الطوسی اپنی تفسیر امالی میں حضرت انس بن مالک کی روایت نقل کرتے ہیں
قال لما توجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی الغار ومعہ ابوبکر ۔ ۔ الخ

یعنی انس بن مالک کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار کی طرف متوجہ ہوؤئے تو ان کے ساتھ ابوبکر تھے ۔ اس پر نبی اکرم نے حضرت علی کو حکم دیا کہ ان کے بستر پر سو جائیں اور آپ کی چادر اوڑھ لیں
امالی للشیخ الطوسی ص 61 ج 2 طبع نجف اشرف

شیخ طوسی واقعہ ہجرت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آگے چل کر لکھتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر چلے گئے تو ہند (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب تھے عنی حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے پہلے شوہر سے فرزند)اور حضرت ابوبکر کے پاس جا پہنچے ۔ اور انہیں اٹھایا اور وہ دونوں آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے حتیٰ کہ یہ سہ حضرات غار تک جا پہنچے اس کے بعد ہند مکہ کی طرف واپس آگیا ۔ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسکو واپسی کا حکم دیا ۔ اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر غار میں داخل ہو گئے
امالی للشیخ الطوسی ص 81 ج 2 طبع نجف اشرف 

(جاری ہے)