امیرشریعت سیّد عطا ء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے باہم تعلقات تاریخ کے سینہ پر ثبت ہیں،لیکن ہمارے مصنفین کی ذاتی پسندوناپسند نے اِن شخصیات کی تعلق داری اوردوستی کے واقعات پر پردہ ڈال رکھا ہے۔وگرنہ اِن حضرات کی آپس کی قربت اِتنی نمایاں تھی کہ جانبدارقلم کاروں کی دیدہ ودانستہ سینہ زوریوں کے باوجودآج بھی اِن کے دوستانہ مراسم لوحِ تاریخ پر جگمگاتے نظر آتے ہیں۔
تاریخی قرائن پتادیتے ہیں کہ اقبال اوربخاری کے مابین شناسائی کا آغاز دسمبر ۱۹۱۹ء میں خلافت کانفرنس ، امرتسر میں ہوا ۔جس میں علامہ اقبال سمیت ہندوستان کے تمام نمایاں سیاسی رہنمابھی شریک تھے۔اِس کانفرنس میں سیّدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کی پہلی سیاسی تقریرکی تھی۔جسے سن کر مولانامحمدعلی جوہر کہہ اُٹھے تھے کہ:’’ بخاری! جب تم لوگوں کو پلاؤ اورقورمہ کھلادیتے ہوتواب تمہارے بعد ہمارے ساگ اورستّو کو کون پوچھے گا۔‘‘جب سیّد بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی ایسی ہی شعلہ بارتقریروں کی بدولت گرفتارہوکر تین سال کے لیے جیل چلے گئے تو خان غازی کابلی کی روایت کے مطابق اقبال نے سیّدبخاری کی گرفتاری پر ’’اسیری ‘‘ کے عنوان سے ایک خوبصورت نظم لکھی تھی ۔جس کے یہ اشعارقابل ذکرہیں:
ہے اسیری اعتبار اَفزاء جو ہو فطرت بلند
قطرۂ نیساں ہے زندانِ صدف سے ارجمند
مشکِ ازفر چیز کیا ہے، اک لہو کی بوند ہے
مشک بن جاتی ہے، ہو کر نافۂ آہو میں بند
ہرکسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت، مگر
کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام وقفس سے بہرہ مند
قطرۂ نیساں ہے زندانِ صدف سے ارجمند
مشکِ ازفر چیز کیا ہے، اک لہو کی بوند ہے
مشک بن جاتی ہے، ہو کر نافۂ آہو میں بند
ہرکسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت، مگر
کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام وقفس سے بہرہ مند
اقبال نے بخاری کی اِسی نظربندی پر ایک بیان میں کہا تھاکہ :’ ’مجھے مجلس خلافت کے اُن ارکان سے ہمدردی ہے جواَپنی مجلس کی تجویزکے مطابق نیک نیتی سے یہ سمجھتے ہوئے گرفتارہوئے کہ وہ ایک پاک مقصد کی خاطر اِیثارکررہے ہیں۔ خاص کر مولاناسیدعطاء اللہ شاہ بخاری اورخواجہ عبدالرحمن غازی ایسے مشہورکارکنوں کے ساتھ ہمدردی ہے۔ہمیں اُن کی بعض رائیوں سے اختلاف بھی ہو،لیکن عقل واِنصاف کا تقاضایہ ہے کہ اُن کی خوبیوں کا بھی اعتراف کیاجائے۔وہ قومیکاموں میں بہت حصہ لیتے ہیں اورضرورت کے وقت بڑااِیثاردکھاتے ہیں۔‘‘(’’گفتار اقبال‘‘،ص ۴۰۔۴۱)گویا اقبال سیاسی اختلاف کے باوجوداُن کی قربانی واِیثار کے معترف تھے۔اقبال ہی کاشعر سیّدبخاری کے حسب حال ہے کہ
ازل سے فطرتِ احرارمیں ہے دوش بدوش
قلندری و قبا پوشی و کلہ داری
قلندری و قبا پوشی و کلہ داری
اقبال نے بخاری کی اِنہی دینی وقومی ا ورملی خدمات کے پیش نظرکیاخوب تاریخی جملہ کہاتھا کہ:
’’ شاہ جی! آپ اسلام کی چلتی پھرتی تلوارہیں۔‘‘( ہفت روزہ ’’ چٹان‘‘ لاہور،۱۹۶۲ء)
مارچ ۱۹۲۵ء کو اَنجمن خدام الدین لاہورکے زیراہتمام ایک جلسہ منعقدہواتھا۔جس میں ہندوستان کے نامورعلماء نے شرکت کی تھی۔رات کو علامہ اقبال نے اپنے گھرمیں ایک ضیافت کااہتمام کیاتھا۔جس میں علامہ محمد انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ ،علامہ شبیر احمدعثمانی رحمۃ اللہ علیہ، مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ اورمولاناسیّد عطا ء اللہ شاہ بخاریؒ بھی مدعوتھے۔ ضیافت سے قبل اوربعدمیں بہت سے علمی اوردینی مسائل زیر بحث آئے ۔ جن میں سود کا مسئلہ بھی شامل تھا۔
(’’بادشاہی مسجد لاہور‘‘ ص:۳۸ ۔ ازڈاکٹر عبداللہ چغتائی)
جب اقبال ۱۹۲۶ء میں پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے لیے میدان میں اترے توفرزندِ اقبال جسٹس(ر)جاوید اقبال کے بقول سید عطا ء اللہ شاہ بخاری نے اقبال کے انتخابی جلسوں میں اُن کی حمایت میں تقریریں کیں۔(’’زندہ رودِ اقبال‘‘ ،ص۴۹۶) اقبال کامیابی سے ہمکنارہوئے تو اُن کی اِس سیاسی کامیابی میں سیّدبخاری کی خطابتی سحرکاری کابھی خاصاعمل دخل شامل تھا۔
جب پنجاب میں قادیانیت کے فتنہ نے زورپکڑا تو علامہ انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے تحفظ ختم نبوت کے لیے خصوصی تگ ودوسے کام لیا اوراستیصالِ قادیانیت کے لیے نہ صرف خودبھی خصوصی جدوجہدفرمائی ،بلکہ اپنے شاگردوں کو بھی اِ س اہم محاذپر کھڑاکیاتھا۔۱۹۳۰ء میں انجمن خدام الدین لاہور کے جلسہ میں علامہ انورشاہ کشمیریؒ نے سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی قادیانیت شکن سرگرمیوں اورمجاہدانہ یلغاروں کے اعتراف میں اُنہیں امیرشریعت نامزدکیااورپانچ سو علماء سمیت سیّدبخاریؒ کی بیعت کی۔ اِس تاریخی موقع پر علامہ اقبال بھی موجودتھے۔
اقبال اوربخاری کے درمیان کا فی معاملات قدرِ مشترک تھے۔مثلاً قرآن فہمی، عالم اسلام کی ناگفتہ بہ حالت پر اِضطراب وبے قراری،انگریزدشمنی ،شعرواَدب کا ذوق وغیرہ۔یہی وجہ تھی کہ ۱۹۳۰ء میں ممتازاِشتراکی مصنف باری علیگ نے روزنامہ ’’زمیندار‘‘ میں ’’ اقبال اوربخاری‘‘ کے عنوان سے ایک پُرمغز مقالہ تحریر کیاتھا۔جس میں انہوں نے دونوں شخصیات کا موازنہ کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان نوجوانوں کو اِن کی قیادت میں اٹھ کھڑے ہونے کا مشورہ بھی دیاتھا۔
۱۹۳۱ء میں سیّد عطا ء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں کشمیری مسلمانوں کی آزادی کے لیے مجلس احراراسلام نے پہلی عوامی تحریک چلائی۔ تحریک کشمیر کے آغازمیں ہی علامہ اقبال نے کشمیری مسلمانوں کی حمایت میں ہونے والے جلسوں کا انتظام مجلس احر اراسلام کے سپردکردیا۔(جس کی تفصیلات روزنامہ ’’انقلاب‘‘لاہورکی فائلوں میں محفوظ ہیں۔)
آزادئ کشمیرکے سلسلہ میں ہی ایک جلسہ اقبال کی صدارت میں لاہورمیں منعقدہوا۔ جس میں سیّد بخاری نے تقریر فرمائی ۔عوام کے اصراراورشاہ جی کی سفارش پر اِقبال نے ناسازئ طبع کے باوجودحسب ذیل ایک شعر بھی سنایاتھا:
لاالہ گوئی بگو اَزرُوئے جاں
لاالہ ضرب است وضرب کاری است
لاالہ ضرب است وضرب کاری است
اُنہی دنوں ’’کشمیر کمیٹی‘‘ کا قیام بھی عمل میں آیاتھا۔ جس میں دیگر مسلمان رہنماؤں کے علاوہ علامہ اقبال بھی شامل تھے،لیکن بدقسمتی سے کمیٹی کی سربراہی کاسہرا آنجہانی مرزابشیرالدین محمود (سربراہ قادیانی جماعت)اپنے سرپر سجانے میں کامیاب ہوگیا۔جس پر مجلس احرارنے ملک گیر شدید احتجاج کیا اورسید عطا ء اللہ شاہ بخاریؒ ، چودھری افضل حقؒ اورمولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ نے بارہا علامہ اقبال سے مذاکرات کیے اوراُن پر واضح کیاکہ کشمیریوں کی حمایت کے پردہ میں قادیانی کشمیرکو قادیانی ریاست بنانے کاناپاک منصوبہ بروئے کارلاناچاہتے ہیں۔ بعد کے حالات نے بھی قادیانیوں کا مکروہ چہرہ واضح کردیا۔احرارکی رہنمائی میں مسلمانوں کے شدید دباؤپر مرزابشیرالدین کشمیرکمیٹی سے مستعفی ہوگیا اورعلامہ اقبال کو نیاصدرمنتخب کرلیاگیا،لیکن علامہ اقبال بھی قادیانیوں کے اصل عزائم سے باخبر ہونے پر کمیٹی سے استعفیٰ دے کرالگ ہوگئے اوریوں اقبال نے سیّد بخاری اوراُن کی جماعت کے اُصولی مؤقف کے درست ہونے کی عملاً تائید کردی۔
اقبال وبخاری کا یہ تعلقِ خاطرآخردم تک قائم رہا۔حتیٰ کہ جب۱۹۳۸ء میں اقبال کا انتقال ہواتو سید بخاری نے مسجد خیرالدین امرتسرمیں ایک تعزیتی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’ اقبال کو نہ انگریز نے سمجھا ،نہ قوم نے ۔اگر انگریزسمجھتاتو اقبال بستر پر نہ مرتے ،بلکہ پھانسی کے تختہ پر لٹکائے جاتے اوراگر قوم سمجھ لیتی تو آج تک غلام نہ رہتی۔‘‘
اقبال وبخاری میں قرآن فہمی کا ذوق بدرجہ اتم موجودتھا۔اقبال نے قرآن مجید کے بحرِ عمیق میں غواصی کی تھی۔اِسی لیے سیّد بخاری فرمایاکرتے تھے کہ ’’ بابو لوگو ! قرآن کی قسمیں نہ کھایاکرو ۔قرآن کو سمجھ کر پڑھاکرو۔دیکھا! اقبال نے قرآن کو ڈوب کر پڑھا تو دانشِ فرنگ پر ہلّہ بول دیا۔‘‘
آج ملک وقوم جن حالات سے گزررہے ہیں۔ایسے میں اقبال جیسے دانشورانہ تدبراوربخاری جیسی مومنانہ بصیرت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔یورپی اوراَمریکی استعمار نے عالم اسلام کو بری طرح اپنی سازشوں سے ضیدِ زبوں کررکھا ہے۔دنیائے اسلام میں انقلابات کروٹیں لے رہے ہیں،لیکن اُن کی قیادتیں تدبروبصیرت سے محروم ہیں اوراُن کے عوام اپنی منزل سے کوسوں دُوربھٹک رہے ہیں۔اللہ امت مسلمہ کو اِقبال وبخاری جیسے عظیم المرتبت رہنما عطاء فرمائے ۔تاکہ ملتِ اسلامیہ کی کشتی ساحلِ مراد سے ہمکنار ہوسکے۔
خاموش ہوگئے ہیں، چمنستاں کے رازدار
سرمایۂ گداز تھی، جن کی نوائے درد
سرمایۂ گداز تھی، جن کی نوائے درد
No comments:
Post a Comment