-scale=1.0,minimum-scale=1.0,maximum-scale=1.0" : "width=1100"' name='viewport'/> صدائے قلندر: آیت اولی الامر کی تفسیر حصہ اول

Thursday 3 November 2011

آیت اولی الامر کی تفسیر حصہ اول


آیت اولی الامر کی تفسیر 
از مولانا عبدالشکور لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ 

آیت اولی الامر سورہ نساء رکوع ساتواں

ترجمہ : اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اولی الامر ( یعنی صاحبان حکومت کی) جو تم میں سے ہوں پھر اگر تم ( یعنی رعیت اور صاحبان حکومت) ٓپس میں اختلاف کرو سکی بات میں تو اسکو رجوع کرو اللہ اور اس کے رسول کی طرف اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ اور روز آخرت پر ۔ یہ بہتر ہے اور بہت خوب ہے باعتبار انجام کی۔


تراجم علمائے اہلسنت و شیعہ

۱ :. . حضرت شیخ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اسکا ترجمہ لکھتے ہیں ’’ اے مومناں فرمانبرداری کنید خداراو فرمان برداری پیغامبر راو ’’فرمان روایان‘‘

از جنس خویش پس اگر اختلاف کنید در چیزے پس رجوع کنید اور بسوئے خدا و پی غامبر اگر اعتقاد کنید بخدا روز آخر ایں بہتر است ونیکو تر باعتبار عاقبت‘‘

۲:.... حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں ’’ اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اورجو ’’اختیار والے ‘‘ ہیں تم میں سے ۔ پھر اگر جھگڑپڑو کسی چیز میں تو اسکو رجوع کرو اللہ اور رسول کی طرف اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور پچھلے دن پر یہ خوب ہے اوربہتر تحقیق کرنا ۔‘‘

یہ دونوں ترجمے علمائے اہلسنت کے تھے اب دو ترجمے علمائے شیعہ کے بھی ملاحضہ ہوں :

۳:... شیعہ مولوی فرمان علی جن کا ترجمہ قرآن شیعوں کو اتنا پسند آیا کہ اس کاترجمہ انگریزی میں بھی کیا گیا اس آیت کا ترجمہ یوں لکھتے ہیں ’’ اے ایمان دارو خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں سے ’’ صاحبان حکومت‘‘ ہوں انکی اطاعت کرو اور اگر تم کسی بات پر جھگڑ ا کرو پس اگر تم خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس امر میں خدا ور رسول کی طرف رجوع کرو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اور انجام کی راہ سے بہت اچھا ہے ۔


۴:... شیعہ مولوی مقبول احمد دہلوی اپنے مشہور ترجمہ قرٓن میں لکھتے ہیں ’’ اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول اور ’’ ان والیان امر ‘‘ کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں پھر اگر کسی معاملہ میں تم میں آپس میں جھگڑا ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو بشرطیکہ تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو یہی سب سے بہتر اور عمدہ تاویل ہی۔


آیت کی صحیح تفسیر


اس آیت کا مطلب بالکل واضح ہے صاف بات ہے کہ حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اللہ و رسول اور ان اولوالامر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہوں یعنی مسلمان ہوں اور یہ بھی فرمایا کہ اولوالامر اور رعیت میں اگر کوئی اختلاف پیدا ہو جائے تو اس اختلاف کا تصفیہ اللہ اور رسول یعنی قرآن و سنت سے کرانا چاہیئے اور تصفیہ کی اس صورت کو اس قدر ضروری قرار دیا کہ فرمایا اگر تمہا را ایمان اللہ پر اور قیامت پر ہے تو ضرور تم ایسا ہی کرو گے یہ بھی فرما یا کہ ایسا کرنے میں تمہارے ہر طرح کی بھلائے ہے اور اسکا نتیجہ بہت اچھا نکلے گا ۔

oاس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول کی اطاعت ہر حال میں واجب ہے اور ان سے نزاع کرنا حرام ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت ایک ہی چیز ہے لفظ دو ہیں مگر مصداق ایک ہی ہے چنانچہ اسی سورت میں آگے چل کر فرمایا ’’ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ‘‘ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے یقینا اللہ کی اطاعت کی ۔ ان دونوں اطاعتوں کا متحد ہونا محض اس سبب سے ہے کہ رسول معصوم ہوتے ہیں ان کا خلا ف حکم الٰہی کوئی بات صادر ہی نہیں ہو سکتی ’’ ما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ ‘‘ یعنی رسول ہوائے نفسانی سے کوئی بات نہیں فرماتے ان کی ہر بات وحی الٰہی ہوتی ہے ۔
دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ اولی الامر کی اطاعت ہر حال میں واجب نہیں اگر ان کا کوئی حکم خلاف قرآن وسنت ہو اسکی اطاعت نہ کی جائے گی حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’ لا طاعتہ لمخولق فی معصیۃ الخالق‘‘ یعنہ خالق کی نافرمانی ہوتی ہو تو پھر مخلوق کی اطاعت جائز نہیں اس لیئے اولی الامر اسے نزاع اور نزاع سے فیصلہ کا طریقہ بیان فرما دیا تھا ۔
اب یہاں دو باتیں سمجھ لینی چاہیئں :

اول: .... یہ کہ اولوالامر کے کیا معنی ہیں اور کون کون لوگ اس سے مراد ہو سکتے ہیں


دوم : ..... یہ کہ اولوالامر کی اطاعت کا حکم کیوں دیا گیا خصوصاََ جب کہ الولی الامر معصوم بھی نہیں اور اسکا معصوم نہ ہونا اسی سے ظاہر ہے کہ اس سے نزاع کی اجازت دی گئی۔


امر اول کی توضیح :.... اولوالامر کے معنیٰ ازروئے لغت عرب صاحب حکومت کے ہیں الہٰذا جس شخص کو کسی قسم کی حکومت حاصل ہو اسکو اولولامر کہیں گے ۔ حکومت دو قسم کی ہوتی ہیں ۔ ایک حکومت عامہ جیسے بادشاہ وقت کی حکومت کہ اس کی تمام رعایا کو شامل ہے ۔ دوسری حکومت خاصہ جیسے افسران فوج یا حکام صوبہ یا قاضیوں کی حکومت کہ ان کی اپنی اپنی فوج یا صوبے یا شہر کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے ان سب کو اولوالامر کہتے ہیں ۔ اسی وجہ سے علمائے مفسرین نے اولوالامر کی
تفسیر میں تین قول بیان کیے ہیں

۱:.... یہ کہ اس سے سرداران فوج مراد ہیں ۔ہر فوج کو اپنے سردار کی اطاعت واجب ہی۔

۲:... یہ کہ اس سے خلیفہ وقت مراد ہے اس تفسیر کی بان پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا گیا ہے ۔
۳: .. یہ کہ علماء اور فقہاء مراد ہیں ۔
ان تینوں قولوں میں کوئی اختلاف نہیں تینوں مراد ہو سکتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کی اطاعت اپنے اپنے درجہ میں واجب ہے ۔

تفسیر درمنثور میں ہے :


اخرج البخاری و مسلم و ابو داود و الترمذی و النسائی و ابن جریر و ابن المنذر و ابن ابی حاتم و البیہقی فی الدلائل من طریق سعید بن جبیر عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ اطیعواللہ واطیعوالرسول واولی الامر منک قال نزلت فی عبداللہ بن حذافۃ بن قیس اذ بعثہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سریۃ واخرج ابن جریر عن میمون بن مھرا فی قولہ واولی الامر منکم قال اصحاب السرایا علی عھدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم


ترجمہ :۔ بخاری اور مسلم اور ابودائو اور ترمذی اور نسائی اور ابن جریر اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے دلائل نبوت میں بروایت سعید بن جریر ابن عبا سے اللہ تعالیٰ کے قول ’’ واطیعواللہ واطیعو الرسول واولی الامر منکم ‘‘کے متعلق روایت کیا ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن حذافہ بن قیس کے بارہ میں نازل ہوئی تھی جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو ایک چھوٹے لشکر کا سردار بنا کر بھیجا تھا اور ابن عساکر نے بروایت سدی ابو صالح سے انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ار ابن جریر نے میمون بن مہران سے اللہ تعالیٰ کے قول اولی الامر کے متعلق روایت کیا ہے کہ اس سے مراد وہ افسران فوج ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مقرر تھی۔


ان روایات سے معلوم ہو ا کہ یہ آیت ان سرداران فوج کے بارہ میں نازل ہوئی ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مقرر ہوا کرتے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض مہم پر کسی دوسرے کو سردار فوج بنا کر بھیج دیتے تھے خود تشریف نہ لے جاتے تھے۔ لہٰذا حکم ہوا کہ فوجی لوگ اپنے سرداروں کی کی اطاعت کریں ۔

شان نزول تو یہی ہے مگر چونکہ الفاظ آیت عام ہیں۔اور اصول تفسیر کا قاعدہ کلیہ ہے کہ ’’ العبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوالسبب ‘‘ لہٰذا اب حکم سرداران فوج کے ساتھ خاص نہ رہے گا بلکہ سرداران فوج کا بھی جو شخص سردار ہو یعنی خلیفہ وقت بدرجہ اولیٰ اس حکم میں شامل ہو گا ۔

تفسیر معالم التنزیل میں ہے :
وقال ابوہریرۃ ھم الامراء والولاۃ وقال عکرمۃ اراد باولی الامر ابابکر و عمر۔حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اولی الامر سے مراد ’’ امیر اور والی یعنی خلفاء ہیں ‘‘ عکرمہ کہتے ہیں اولی الامر سے مراد ابو بکر رض اور عمر رض ہیں۔
حضرت ابوبکر رض و عمر رض کے مراد ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ لفظ اولی الامر ان کے لئے مخصوص ہے بلکہ ان کا ذکر محض اس لے کیا گیا کہ لفظ اولی الامر کے اعلیٰ و اکمل مصداق وہ ہیں۔

نیز تفسیر در منثور میں ہے :
اخرج عبد بن حمید و ابن جبیر و ابن ابی حاتم عن عطاء فی قولہ تعالیٰ اطیعواللہ واطیعوالرسول قال اطاعۃ اللہ والرسول اتباع الکتاب والسنۃ واولی الامر منکم قال اولی الفقہ والعلم واخرج ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والحاکم عن ابن اعباس فی قولہ تعالیٰ واولی الامر منکم یعنی اھل الفقہ والدین اول الطاعۃ الذین یعلمون الباس معانی دینھم ویامرونھم بالمعروف وینھون عن المنکر فاوجب اللہ طاعتھم علی العباد واخرج ابن ابی شیبۃ و عبد بن حمید والحکیم الترمذی فی نوادر الاصول وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والحاکم وصححہ عن جابر بن عبداللہ فی قولہ واولی الامر منکم واخرج ابن ابی حاتم شیبۃ و ابن جریر عن ابی العالیہ فی قولہ واولی الامر قال ھم اھل العلم الاتری الی انہ یقول ولو ردوہ الی الرسول واولی الامر منھم لعلمہ الذین یستننبونہ منھم۔

ترجمہ : عبد بن حمید اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے چطاء سے اللہ تعالیٰ کے قول ’’ اطیعواللہ واطیعوالرسول کے متعلق روایت کیا ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت سے مراد کتاب و سنت کی پیروی ہے اور
اولوالامر سے مراد فقہاء اور علماء ہیں ۔ اور ابن جریر اور ابن منذر اور ابن ابی حارتم اور حاکم نے ابن عباس رض سے روایت کی ہے کہ اولی الامر سے فقہاء اور دیندار عبادت گزار لوگ مراد ہیں جو لوگوں کو دین کی باتوں کی تعلیم کرتے ہیں ۔اور انکو امر معروف و نہی منکر کرتے ہیں ۔ اللہ نے انکی اطاعت بندوں پر واجب کی ہے ۔ اور ابن شیبہ اور عبد بن حمید نے اور حکیم ترمذی نے نوادالاصول میں اور ابن جریر اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم اور حاکم نیروایت کی ہے اور حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ بھی اولی الامر سے فقہاء کو مراد لیتے تھے ۔ اور ابن شیبہ اور ابن جریر نے ابولعالیہ سے روایت کیا ہے کہ اولوالامر سے مراد اہل علم ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ دوسری آیت میں فرمایا ہے کہ اگر وہ رسول اور اپنے اولوالامر کی طرف رجوع کرتے تو جولوگ استنباط کرسکتے ہیں وہ بات سمجھ لیتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل استنباط مراد ہیں اور اوہ اہل علم ہی ہو سکتے ہیں۔

مفسرین کے ان اقوال سے معلوم ہوا کہ ہر درجہ کے حاکموں پر لفظ اولی الامر کا اطلاق ہو سکتا ہے ۔ پس کچھ شک نہ رہا کہ خلیفہ وقت جس کو حکومت عامہ حاصل ہے بدرجہ اولیٰ اس لفظ کا مصداق ہے ، بلکہ جب لفظ اولی الامر بولا جائے گا تو اس کے متبادل معنیٰ خلیفہ ہی کے ہونگی۔
امر دوم کی توضیح :.... اولی الامر سے مراد اگر علماء فقہاء لیے جائیں تو ان کی اطاعت کا حکم اس وجہ سے ہے کہ عوام الناس جو کتاب و سنت کے سمجھنے کی لیاقت یا اتنباط مسائل کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ اگر علماء فقہاء سے دین کی تعلیم نہ حاصل کریں یا انکی تعلیم پر عمل نہ کریں تو ظاہر ہے کہ دین سے بے خبر اور بے تعلق ہو جائیں گی۔
اور اگر اولوالامر سے مراد خلیفہ یا سردار فوج ہو اور یہی مراد ظاہر ہے تو ان کی اطاعت کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ نظام امت کا قیام اور امور سیاست کا انصرام اس کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
مشیت الٰہی میں روز اول سے یہ بات مقرر تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اس لیے ہو گی کہ تمام روئے زمین پر اسلام کی شوکت و سطوت کا جھنڈا نصب ہو اور آپ کے متبعین کسی غیر مسلم قوت کے زیر فرمان ہوکر نہ رہیں ۔ بلکہ وہ خود فرمانروا ہوں اور دین الٰہی کے جلال و جبروت کے سامنے تمام ادیان باطلہ کو سرنگوں کر دیں آیت کریمہ ’’ لیظہرۃ علی الدین کلہ ‘‘ اس کی گواہ ہی۔
پس جب یہ بات پہلے مقرر تھی تو ضروری تھا کہ قرآن شریف میں جس طرح عبادات ماشرت و اخلاق کے اصول تعلیم فرمائے گئے ہیں ۔ اسی طرح سیاست و جہانداری کے اصول بھی ارزاد فرمائے جائیں۔ اور سیاست و جہانداری کے اصول میں سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ تمام اقوام کا شیرازہ متحد ہو۔ سب ایک نظام سے منسلک ہوں اور یہ بات بغیر اس کے حاصل نہیں ہو سکتی کہ قوم کا ایک شخص مقتدا اور صاحب حکم ہو اور باقی اشخاص اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں۔سیاست و جہانداری کی اسی اصل عظیم کی تعلیم آیت مذکورہ میں ہے ۔ اس آیت سے پہلے حکام کو تعلیم دی ہے کہ تم عدل و انصاف پر کاربند رہنا ۔ فرمایا ’’ وَ اِذَا حکَمتم بَین الناس ان تحکموا بالعدل ان اللہ نعما یعظکم بہ

‘‘یعنی تم لوگو ں کے درمیان میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔ تحقیق اللہ کیا اچھی نصیحت تم کو کرتا ہی۔
اس کے بعد آیت مبحوثہ میں محکوموں کو حکام کی اطاعت کا حکم دیا ۔ اس طرح حاکم و محکوم دونوں کے فرائض بیان کئی۔
سیاست و جہانداری تو بڑی چیز ہے ایک گھر کا انتظام بھی بغیر اس کے درست نہیں ہو سکتا کہ اس گھر کے جتنے بھی رہنے والے ہوں سب مل کر اپنے میں سے کسی ایک کو بڑا مانیں اور سب اسکی اطاعت کریں۔ تو بھلا
ایسا ضروری مسئلہ قرآن شریف سے کیوں کر فروگزاشت ہو سکتا تھا

دین اسلام ایسا کامل و مکمل دین ہے کی اس نے فلاح دارین کے اصول تعلیم فرمائے ہیں تو کیونکر ممکن تھا کہ تمدن کا ایسا ضروری مسئلہ نہ تعلیم دیا جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ اطاعت اولی الامر کے متعلق احادیث صحیحہ کا بھی ایک بڑا دفتر ہے جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:

احادیث نبویہ متعلق اطاعت اولی الامر

۱:
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من اطاعی فقد اطاع اللہ وم عصانی فقد عصی اللہ ومن یطع الامیر فقد اطاعنی ومن یعص الامیر فقد عصانی وانما الامام جنۃ یقاتل من ورائہ ویتقی بہ فان امر بتقوی اللہ وعدل فان لہ بذلک اجرا وان قال بغیرہ فان علیہ منہ ( متفق علیہ )
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رض سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس شخص نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر(یعنی حاکم) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ امام یعنی خلیفہ جس کی پناہ میں جہاد کیا سکتا ہے پس اگر وہ تقویٰ کا حکم دے اور انصاف کرے تو یقیناََ اسکو ثواب ملے گااور اگر اسکے خلاف کرے تو اس پر وبال ہو گا ( صحیح بخاری و صحیح مسلم)

ف: یہ جو فرمایا کہ امام مثل ایک سپر کے ہے الخ ۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام یعنی خلیفہ کا مقرر کرنا اس کی اطاعت کا واجب ہونا ان سیاسی و تمدنی مقاصد کے لئے ہے اور بس۔
۲:عن ام الحصین قا ل قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان امر علیکم عبد مجدع یقودکم بکتاب اللہ فاسمعوا لہ واطیعوا ( مسلم)
ترجمہ : حضرت ام حصین سے روایت ہے کہ وہ کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم پر کوئی غلام حاکم بنا دیا جائے ۔ جس کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں وہ تم کو کتاب اللہ کو موافق چلائے اس کا حکم سنو اور اطاعت کرو ( صحیح مسلم)
۳ : عن انس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اسمعوا واطیعوا وان استعمل علیکم عبد حبشی کا ن راسہ زبیبۃ ( بخاری)
ترجمہ: حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا حکم سنو اطاعت کرو اگرچہ تم پر کوئی حبشی غلام عامل بنا دیا جائے ۔ اور وہ ایسا بد صورت ہو گویا اس کا سر انگور کے برابر ہو ( بخاری)
ف: معلوم ہوا کہ اگر غلام بھی خلیفہ ہو جائے تو اس کی اطاعت بھی واجب ہے ۔ ہاں مسلمان ہونا ضروری ہے کیونکہ مقصد خلافت کا یہی ہے کہ کتاب اللہ کے مطابق ہماری قیادت کرے ۔ تیسری حدیث میں ’’ استعمل ‘‘ کے لفظ سے معلوم ہوا کہ ہر حاکم کی اطاعت واجب ہے خواہ وہ خلیفہ ہو یا خلیفہ کا مقرر کیا ہوا عامل ۔
۴: عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم السمع والطاعۃ علی المرء المسلم فیما احب وکرہ مالم یومر بمعصیت فاذا امر بمعصیت فلا سمع ولا طاعۃ ( متفق علیہ)
ترجمہ: حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حکم سننا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان پر واجب تمام باتوں میں خواہ اس کو پسند ہوں یا ناپسند ۔ تاوقتیکہ کہیں گناہ کا حکم نہ دیا جائے ۔ مگر جب گناہ کا حکم دیا جائے نہ سننا واجب ہے نہ اطاعت کرنا ( صحیح بخاری و مسلم)

آیت اولی الامر .... کی تفسیر بیان ہو چکی اب اہل انصاف غور کریں کہ اس آیت سے کس طرح حضرات شیعہ اپنا مدعا ثابت کر سکتے ہیں ۔ آیت میں کونسا لفظ ہے جس سے حضرت علی کی خلافت یا عصمت آئمہ ثابت کی جا سکے ۔
بلکہ اگر سچ پوچھو تو یہ آیت حضرات شیعہ کی ایجاد کیے ہوئے امامت و عصمت کا گھروندہ ہی بگاڑ دیتی ہے ۔ کیوںکہ آیت صاف بتا رہی کہ امام مثل رسول واجب الاطاعت اور معصوم نہیں ورنہ امام سے نزع کی ممانعت فرمائی جاتی ۔ جس طرح رسول سے نزاع کی ممانعت یہ نہ فرمایا جاتا کہ امام اگر کسی بات میں نزع ہو جائے اس کا فیصلہ قرآ ن و حدیث سے کرو ۔ یہ بالکل کھلی ہو ئی بات ہے ۔ جس کا اقرار خود آئمہ شیعہ سے بھی منقول ہے ۔
اب دیکھو شیعہ صاحبا ن کیا فرماتے ہیں اور کس طرح آیت قرآنی کی تحریف کرتے ہیں

جاری

1 comment:

  1. اللہ جزائے خير دے ۔ اور آپ کی محنت قبول فرمائے

    ايک درخواست ہے کہ مندرجہ ذيل آپشن فعال کر ديجئے تاکہ ميرے سميت سب لوگ تبصرہ کر سکيں
    Name/URL

    ميرا ربط يہ ہے
    http://www.theajmals.com

    ReplyDelete