جنگ جمل کے موقع پر اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اونٹ پر سوار تھیں، اونٹ کا رنگ سفید تھا۔۔۔ سفید رنگ حسن والا ہوتا ہے۔ اونٹ ’’مہرہ‘‘ نسل کا تھا، اس کا نام ’’عسکر‘‘ تھا۔ یمن کے گورنر ’’یعلیٰ بن امیہ‘‘ نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں یہ اونٹ اور کئی ہزار اشرفیاں بھیجی تھیں۔ سبائیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں کھڑے ہو کر اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے لشکر پر تیر برسائے اور ادھر سے اس طرف چلے۔ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے ارد گرد ’’بنو ضبہ‘‘ کے لوگ تھے جوحارث بن زبیر الازدی کے یہ شعر پڑھ رہے تھے کہ :
یَا اُمَّنَا یَا خَیْرَ اُمِّ نَعْلَم( اے ہماری اماں، اے ہماری دانست میں ہماری معلومات کے مطابق سب سے بہتر ماں!)
أَمَا تَرَیْنَ کَمْ شَجَاعٍ یُکْلَم(کیا آپ نہیں دیکھتیں کہ کتنے بہادر زخمی ہو گئے ہیں)
وَ تَجْتَلِیْ ہَامَّتَہ وَالْمِعْصَم(اور آپ اُن کی کھوپڑیاں اور کلائیاں (کٹی ہوئی) دیکھتی ہیں)
انہوں نے اماں کے اردگرد اپنی لاشوں کے ڈھیر لگا دیے، اماں کے اردگرد بنو ضبہ کی ستر لاشیں تھیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ایک سبائی خبیث تھا، اس کا نام ’’أَعْیَنْ بِنْ ضَبِیْعَۃ الْمجاشعی‘‘ تھا۔ اس نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہودج کا پردہ اٹھا کر اندر جھانکا۔۔۔استغفر اللہ
ان ظالموں نے لوٹ لی حرمت رسول کی
محشر میں کوئی جواب ان کو سجھایا نہ جائے گا
اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’اِلَیْکَ! لَعَنَکَ اللّٰہُ‘‘ تجھ پر اللہ کی لعنت ہو باز آ جا(ہٹ جا)
پھر بھی باز نہ آیا، اور بھونکنے لگا: ’’سنا تھا کہ نبی کی گھر والی بڑی گوری چٹی ہے آج بھی ویسی ہی نظر آ رہی ہے‘‘
اس خبیث نے پھر جھانکا اور بکواس کی: ’’مَا أَرَی اِلَّا حُمَیْرَاءَ‘‘ بڑی گوری چٹی کو دیکھا۔
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے منہ سے یہ جملے نکلے:
’’ہَتَکَ اللّٰہُ سِتْرکَ، وَقَطَعَ یَدَکَ، وأَبْدٰی عَوْرَتَکَ‘‘
’’اللہ تیرا پردہ چاک کرے، تیرے ہاتھ کٹ جائیں، اوراللہ تجھے ننگا کر کے پھینک دے۔ ‘‘
دو دن بعد یا تیسرے دن بصرہ والوں نے دیکھا:اس کے ہاتھ کٹے ہوئے تھے اور ننگی لاش پڑی ہوئی تھی۔
(البدایہ والنہایہ، جلد:۷، صفحہ:۲۴۵)
سن لو! سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بے حرمتی کرنے والوں کو اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا، نقد بدلہ اللہ نے چُکا دیا۔ میرا عقیدہ ہے کہ جو سبِّ صحابہ کرے گا مرنے کے بعد اس کا منہ قبلہ کی طرف نہیں رہے گا اور قبر میں شکل خنزیر کی ہو جائے گی۔
علاّمہ ابن حجر مکّی رحمۃ اللہ علیہ ۱۰ھ کے مجدّد ہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کرنے والے ایک بدبخت کے انجام کی تفصیل لکھتے ہیں:
ابن منیر گورنر حلب جب مر گیا تو حلب کے نوجوانوں نے اس کے متعلق ایک فیصلہ کیا کہ اس کی قبر کو اکھیڑو اور لاش کا حلیہ دیکھو کہ کیا ہے؟ کیوں کہ ہم نے یہ عقیدہ اپنے علما سے سنا ہواہے کہ جو شخص ابوبکر و عمر اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالی دیتا ہے اللہ تعالیٰ قبر میں اس کی شکل خنزیر کی بنا دیتے ہیں۔ العیاذ باللہ۔ ابن منیر ان دونوں بزرگوں کو گالیاں دیا کرتا تھا۔وہ اس کی قبر کے پاس آئے ، انہوں نے قبر اکھیڑی، دیکھا تو اس کی شکل خنزیر کی بنی ہوئی تھی اور منہ قبلہ سے مڑا ہوا تھا۔ انہوں نے اس کو باہر نکالا اور قبر کے کنارے پر اس کو لٹکا دیا۔ تین دن لٹکا رہا۔ لوگ آتے اور دیکھتے کہ ابن منیر کی شکل خنزیر کی سی ہو گئی ہے۔ جب نمائش ہو گئی تو پھر اس کی لاش کو جلایا اور خاک قبر میں ڈال دی۔
استغفر اللہ العظیم من کل ذنب و من ہذا الذنب الاکبر
(الزواجر عن اختلاف الکبائر، علاّمہ ابن حجر مکّی رحمۃ اللہ علیہ، حصہ دوم۔ صفحہ:۲۲۰)
(اقتباس: خطاب جمعہ، مسجد معاویہ عثمان آباد۔ ملتان)
افادات: جانشین امیرشریعت سید ابوذر بخاری رحمتہ اللہ علیہ
No comments:
Post a Comment