عدل کا شمار ان لازمی اوصاف میں ہوتا ہے جس سے جو معاشرہ متصف ہوتو ترقی کرتا ہے اور جس معاشرے میں یہ خوبی عنقا ہو۔ وہ معاشرہ تنزل اور تباہی کی گھاٹیوں میں گرتا چلا جاتا ہے۔ یہ عدل اگر قومی اداروں میں ہو تو انصاف اور فرد کی زندگی سے اس کا تعلق ہوتو تو ازن کہلاتا ہے۔ چناجنہ قوم اور فرد ہر دو حیثیت میں انصاف اور توازن کی اہمیت مسلمہ ہے اور اس کے بغیر نہ کوئی معاشرہ اور قوم پنپ سکتی ہے اور نہ کوئی فرد زندگی میں کامیابی حاصل کرسکتاہے۔۔ ہمارا معاملہ یہ ہہے کہ قوی سطح پر ہم کئی عشروں سے انصاف کا ماتم کررہے ہیں مگر ہماری انفرادی زندگیوں سے بھی توازن اور میانہ روی غائب ہے۔
عدل کے معنی انصاف اور میانہ روی کے ہیں۔ اسلام نے ہر چیز میں عدل و انصاف اور میانہ روی کی تعلیم دی ہے۔ انصاف کا تقاضا شریعت کی نظر میں یہ ہے کہ جس کا جو حق بنتا ہے اسے دیا جائے اور کسی پرظلم نہ کیا جائے۔ میانہ روی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے تمام معاملات میں توازن اور اعتدال کو اختیار کرے اور کسی جذباتی یا ذاتی غرض یا خواہش کی بناء پر اعتدال کی راہ سے ادھر ادھر نہ ہو۔
No comments:
Post a Comment