-scale=1.0,minimum-scale=1.0,maximum-scale=1.0" : "width=1100"' name='viewport'/> صدائے قلندر: خانقاہ رائے پور اور تردید مرزائیت

Friday 23 September 2011

خانقاہ رائے پور اور تردید مرزائیت

حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے کشکول و تفہیمات الٰہیہ کی پہلی تفہیم میں ہے:
”انبیاء علیہم السلام جن چیزوں کی اہمیت اور خصوصیت سے دعوت دیتے ہیں‘ وہ بنیادی طور پر تین ہی چیزیں ہیں: ایک مبدأ و معاد وغیرہ سے متعلق عقائد کی تصحیح‘ اس شعبہ کو علماء عقائد و اصول نے سنبھال لیا‘ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی کو مشکور فرمائے اور جزائے خیردے‘ دوسرے عبادات و معاملات اور معاشرت وغیرہ‘ انسانی اعمال کی صحیح صورتوں کی تعلیم اور حلال و حرام کا بیان‘ اس شعبہ کی کفالت فقہائے امت نے اپنے ذمہ لے لی ہے اور اس میں انہوں نے امت کی پوری رہنمائی اور رہبری کی ہے‘ تیسرے اخلاص و احسان یعنی ہر عمل خالص لوجہ اللہ اور اس دھیان کے ساتھ کرنا کہ میرا مالک مجھے اور میرے عمل کو دیکھ رہا ہے اور یہ تیسری چیز دین و شریعت کے مقاصد میں سب سے زیادہ دقیق و عمیق ہے اور پورے نظام دینی میں اس کی حیثیت وہ ہے جو جسم میں روح کی اور الفاظ کے مقابلے میں معانی کی اور اس شعبہ کی ذمہ داری صوفیائے کرام رضوان اللہ علیہم نے لے لی ہے‘ وہ خود راہ یاب ہیں اور دوسروں کی رہنمائی کرتے ہیں‘ خود سیراب ہیں اور دوسروں کو سیراب کرتے ہیں‘ وہ بڑے بانصیب اور انتہائی سعادت مند ہیں۔“ (تفیہمات الٰہیہ ص ۱۲‘۱۳) 
حضرت شاہ صاحب نے بالکل سچ فرمایا کہ تصوف دین و شریعت کی روح اور اس کا جوہر ہے‘ اور صوفیائے کرام اس دولت کے حامل و امین ہیں‘ جس طرح جسم کبھی روح سے بے نیاز نہیں رہ سکتا‘ اسی طرح امت اپنے دینی وجود میں کبھی تصوف اور صوفیائے ربانی سے بے نیاز نہیں ہوسکتی۔ 
انہی صوفیائے ربانی کی ایک مشہور و معروف خانقاہ رائے پور تھی‘ جس کی دینی و ملی خدمات کا مختصر تذکرہ پیش خدمت ہے‘ خانقاہ رائے پور اوّلاً حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری کی وجہ سے مشہور و معروف ہوئی‘ جو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے ممتاز خلیفہ تھے‘ بعد ازاں حضرت شاہ عبدالرحیم کی نظر انتخاب حضرت مولانا عبدالقادر پر پڑی‘ جنہوں نے خانقاہ رائے پور میں نہ صرف ذکر و اذکار کی محافل سجائیں بلکہ اس دور میں اٹھنے والے فتنہ یعنی فتنہ قادیانیت کے انسداد سے متعلق بھی اپنی ذمہ داری پوری کی۔

ایک مرتبہ قطب الارشاد حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری کی مجلس میں بھیرہ کے قادیانی عناصر کا تذکرہ چلا۔ حکیم نورالدین‘ حکیم فضل الدین ایڈیٹر ”الفضل“ قادیان ‘ اور مفتی محمد صادق تینوں بھیرہ کے تھے‘ جنہوں نے قادیان کی جعلی نبوت کو پھیلانے کے لئے کام کیا‘ حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری نے فرمایا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب براہین احمدیہ لکھی تو بعض لوگ اسے لے کر یوپی (انڈیا) کے علاقہ میں پہنچے اور ہمارے اکابر سے بھی چاہا کہ اس کتاب کے لکھنے والے کو مجدد مانا جائے‘ (اس زمانہ میں ابھی مرزا قادیانی نے دعویٰ نبوت نہ کیا تھا)‘ چنانچہ وہ اس کتاب کو حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری‘ حضرت مولانا مظہر الدین‘ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور دوسرے حضرات کے پاس لے گئے‘ حضرت گنگوہی نے تو یہ جواب دیا کہ میں یہاں ہوں‘ مجھے حالات معلوم نہیں‘ سہارنپور اور ادھر پنجاب کے علماء سے لکھوالو‘ سہارنپور والوں نے کہا کہ کتاب کی تائید اور تنقید تو ایک بات ہے (جس کا علمی لائن سے تعلق ہے)‘ مگر مجدد ماننا یہ تو دوسری لائن کی بات ہے‘ اس لئے حضرت میاں شاہ عبدالرحیم سہارنپوری رحمة اللہ علیہ (جو حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری کے پیر و مرشد ہیں)‘ کے پاس جاؤ‘ حضرت میاں صاحب ظاہری علوم پڑھے ہوئے نہ تھے‘ انہوں نے فرمایا کہ بھائی علماء سے پوچھو‘ میں نہ اس کتاب کو پڑھ سکتا ہوں نہ یہ میرا کام ہے‘ عرض کیا گیا کہ علماء ہی نے (آپ کے پاس لے جانے کے لئے) فرمایا ہے‘ تو آپ نے جواباً فرمایا کہ بھائی پوچھتے ہو تو سن لو کہ یہ شخص (مرزا قادیانی) تھوڑے دنوں بعد ایسے دعوے کرے گا جو نہ رکھے جائیں گے نہ اٹھائے جائیں گے (ان کی کوئی توجیح بھی نہیں کی جاسکے گی)‘ یہ سن کر وہ کتاب لانے والے افراد جزبز ہونے لگے اور یہ بدگمانی کرنے لگے کہ دیکھو علماء تو علماء درویشوں کو بھی دوسرے لوگوں کا شہرت پانا گراں گزرتا ہے‘ حضرت میاں عبدالرحیم سہارنپوری نے فرمایا: مجھ سے پوچھا ہے تو جو سمجھ میں آیا بتادیا‘ اب ہم تو اس وقت زندہ نہ ہوں گے‘ تم آگے دیکھ لینا۔ اہل اللہ کی بصیرت کا کیا کہنا!

حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری نے فرمایا کہ مولانا نوازش علی سے سنا ہے جو حضرت میاں عبدالرحیم سہارنپوری کی خدمت میں بیس سال رہے کہ ایک مرتبہ حکیم نورالدین (خلیفہ مرزا قادیانی) حضرت میاں صاحب کی خدمت میں آیا‘ جموں کشمیر کا راجہ پیشاب کے عارضہ میں مبتلا تھا‘ بہت علاج ہوئے اور خود حکیم نورالدین نے بھی علاج کیا‘ جب فائدہ نہ ہوا تو راجہ درویشوں اور فقیروں کی طرف متوجہ ہوا اور حکیم نورالدین کو حضرت میاں صاحب کی خدمت میں سہارنپور دعا کروانے کے واسطے بھیجا‘ حکیم نور الدین نے راجہ کی طرف سے حضرت میاں صاحب سے عرض کیا کہ آپ جموں تشریف لے چلیں‘ راجہ کے لئے شفا کی دعا فرمائیں‘ حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ راجہ کا اسی بیماری میں انتقال کرنا لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے‘ مگر تین شرطیں ہیں ‘اگر راجہ پوری کردے تو میں دعا کروں گا جس سے جب تک اس نے زندہ رہنا ہے‘ بیماری کی تکلیف نہ رہے گی اور جب موت آئے گی تو اس وقت بیماری عود کر آئے گی‘ شرائط یہ ہیں کہ:

۱: راجہ مسلمان ہوجائے۔ 

۲: اپنی راجدھانی میں گائے کی قربانی پر لگی پابندی اٹھا دے۔

۳:اذان بلند آواز سے کہنے کی اجازت دیدے۔ 

حکیم نور الدین نے دوبارہ حاضر ہوکر جواب دیا کہ راجہ نے کہا ہے کہ مجھے مسلمان ہونے میں دل سے انکار نہیں‘ مگر ایسا کیا تو میری قوم مجھے ہلاک کردے گی اور گائے کی قربانی پر سے پابندی اٹھانے سے بھی میرا یہی حشر ہوگا‘ البتہ اذان بلند آواز سے کہنے کی میں اجازت دیتا ہوں۔ حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا وہی ہوگا‘ مگر تینوں شرائط مان لے تو انشاء اللہ تعالیٰ مذکورہ بالا طریق پر شفا تاحیات ہوگی۔ حکیم نورالدین نے راجہ کی طرف سے حضرت میاں صاحب سے وہاں چل کر دعا کرنے پر اصرار کیا کہ جو ہونا ہے ہوجائے‘ آپ وہاں جاکر دعا کریں‘ راجہ کے لئے بیماری میں سفر محال نہ ہوتا تووہ خود ضروریہاںآ تیاس لئے اس کو آپ کی زیارت کا بھی شوق ہے‘ اصرار بے حد ہوا تو 
حضرت میاں صاحب نے فرمایا: نہ بھائی‘ جاتے تو نہیں‘ اپنے آدمیوں کو دعا کے لئے آپ کے اصرار پر بھیجے دیتا ہوں۔ تیسری بار حکیم نورالدین پھر حضرت میاں صاحب کی خدمت میں آیا‘ جب جانے لگا تو حضرت میاں صاحب نے حکیم نور الدین کو بلوایا اور فرمایا کہ:
دیکھو دو تین مرتبہ آئے ہو‘ اب میرا حق ہے کہ میں ایک نصیحت کی بات کہوں‘ پنجاب میں کوئی جگہ قادیان ہے؟ عرض کیا: ہے‘ فرمایا: وہاں کا ایک شخص خلاف دین بڑے بڑے دعاوی کرتا چلا جائے گا‘ عرض کیا کہ وہ ایسا ہی کررہا ہے‘ فرمایا کہ لوح محفوظ پر میں آپ (حکیم نورالدین) کو اس شخص کا مددگار لکھا ہوا دیکھتا ہوں‘ ہوگا وہی جو خدا کو منظور ہوگا‘ مگر میری نصیحت یہ ہے کہ اس سے بچنا۔ حکیم نورالدین نے عرض کیا کہ حضرت! ابھی تک تو بچا ہوا ہوں‘ آپ دعا فرما دیں۔ (مجالس حضرت رائے پوری صفحہ ۴۰۷‘۴۰۸)

حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری فتنہ قادیانیت کی سازشوں کو بے نقاب کرنے والی جماعت کے سرکردہ علماء امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری‘ حضرت مولانا محمد علی جالندھری ‘ حضرت قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحمہم اللہ تعالیٰ و دیگر کی سرپرستی فرماتے اور جب یہ حضرات خانقاہ رائے پور حاضر ہوتے تو ان سے عقیدہٴ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانی فتنہ کے سدباب کے سلسلہ میں جماعتی کارگزاری ضرور سنتے۔ ایک واقعہ جو حضرت مولانا محمد علی جالندھری نے حضرت رائے پوری کی خدمت میں عرض کیاوہ حضرت کے ملفوظات میں اس طرح تحریر ہے‘ لکھتے ہیں کہ :

کچھ آدمیوں کی دعوت پر ایک گاؤں میں جو ضلع جالندھر کا تھا‘ میں تبلیغ اسلام اور تردید مرزائیت کے لئے گیا‘ وہاں اسٹیشن پر اترا تو کئی آدمی مجھے لینے آگئے، مگر میرے وہ دوست جنہوں نے مجھے دعوت دی تھی‘ وہ اپنے دوسرے گاؤں سے بروقت نہ پہنچ سکے‘ مجھے اس گاؤں میں ایک ایسے گھر میں ٹھہرایا گیا جس پر مالک مکان کا نام احمدی لکھا ہوا تھا‘ مجھے مغرب کے بعد شبہ ہوگیا کہ یہ مرزائیوں کی طرف سے یہاں ٹھہرانے میں میرے ساتھ کوئی پر خطر شرارت نہ ہو‘ اس لئے عشاء کے لئے مسجد کو جانے کو تھا کہ مسجد کے نمازیوں سے حالات دریافت کروں گا‘ اتنے میں میرے مدعو کرنے والے دوست آگئے اور دیر لگنے کی معذرت کی‘ عشاء کے بعد جب تقریر کا موقع آیا تو میزبانوں اور دوسرے مقامی مرزائیوں اور دیگر لوگوں اور مدعو کرنے والے دوستوں میں صلاح و مشوروں کی طوالت رہی اور مرزائیوں کے ساتھ بعض دوسرے لوگ جو مسلمان ہی تھے‘ تردید مرزائیت پر تقریر روکنے میں شریک تھے۔ صبح کی نماز کے بعد میں ذرا سو گیا کہ پھر جمعہ کی وجہ سے دوپہر کو سونا نہ مل سکے گا‘ میں لیٹے لیٹے ان کی اس سلسلے میں باہمی لڑائی سنتا رہا‘ دو آدمی اور بھی مرزائیت کے سلسلے میں جھگڑنے کے لئے آئے‘ وہ اس خیال سے چلے گئے کہ مولوی صاحب سو رہے ہیں‘ ورنہ کافی مسائل دریافت کرتے‘ ان کے جانے کے بعد میں سوگیا‘ خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک بہت خوبصورت بزرگ آسمان سے سیدھے زمین پر نازل ہوئے‘ میں نے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں؟ اس بزرگ نے فرمایا کہ: عیسیٰ ابن مریم ہوں‘ میں نے عرض کیا کہ آپ کے نازل ہونے کا وقت تو ابھی دور ہے‘ آپ پہلے ہی کیوں تشریف لے آئے ہیں؟ انہوں نے غصے کے لہجے میں فرمایا کہ جب تم لوگ میری حیات ثابت نہ کرو تو میں خود نہ آؤں تو کیا کروں؟ میں نے عرض کیا: حضرت! ناراض نہ ہوں‘ حضرت کی حیات ثابت کرنا تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے‘ ضرور ثابت کروں گا‘ چنانچہ میں نے ارادہ کرلیا اور مجھے مدعو کرنے والوں پر جو یہاں کے مرزائیوں کے رشتہ دار بھی تھے‘ واضح کردیا کہ اگر یہاں کے مسلمان مجھے مرزائیت کی تردید کی اجازت نہ دیں گے تو میں بازار میں ہندوؤں سے جلسہ کی جگہ لے کر تقریر کروں گا‘ چنانچہ جمعہ کے بعد جامع مسجد میں ہی مرزائیت کی تردید کی۔“ (ملفوظات حضرت رائے پوری ص۴۱۸‘۴۱۹)

حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری کے متعلق حضرت مولانا عبدالقار رائے پوری فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ موقع دیکھ کر عرض کیا کہ حضرت! قادیانی انوار کا دعویٰ کرتے ہیں‘ ان کو نماز وغیرہ میں بہت حالات اور کیفیات پیش آتی ہیں تو اس کا کیا سبب ہے؟ حضرت سنبھل کر بیٹھ گئے اور جوش میں فرمایا: 
مولوی صاحب! سنو: ”ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الہدیٰ و یتبع غیر سبیل المومنین نولہ ما تولیٰ“ حضرت اس کی کچھ تشریح فرمانا چاہتے تھے‘ میں نے عرض کیا کہ حضرت بس میں سمجھ گیا‘ اس کے بعد پھر اس مسئلہ میں کبھی کوئی کھٹک نہیں ہوئی۔ (سوانح حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری ص ۶۳)

حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری رحمة اللہ علیہ نے قادیانیت کا آغاز اور اس کے سب دور دیکھے تھے‘ خود مرزا قادیانی‘ حکیم نورالدین اور اس تحریک کے دیگر ذمہ داروں سے بخوبی واقف تھے‘ آپ اس قادیانی تحریک کے حقیقی مقاصد اور اس کے اندرونی حالات سے بخوبی آگاہ تھے اور اس کو اسلام کی بیخ کنی اور تخریب کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ تحریک تحفظ ختم نبوت اور احراری رہنماؤں اور علماء میں درحقیقت آپ ہی کا جذبہ اور آپ ہی کی روح کام کررہی تھی‘ آپ اس سلسلہ کی ہر کوشش کو وقت کا اہم فریضہ اور دین کی اہم خدمت سمجھتے تھے اور ہر طرح اس کی ہمت افزائی اور سرپرستی فرماتے اور دل و جان سے اس کی خدمت و تقویت کو ضروری سمجھتے تھے‘ ان کی کوششوں کے تذکرہ سے آپ کے اندر شگفتگی اور تازگی پیدا ہوجاتی تھی اور وہ آپ کی روح کی غذا بن گئی تھی۔ مولانا محمد علی جالندھری فرماتے ہیں:

”مرزائیت کی نسبت جس قدر متفکر رہتے آپ کو معلوم ہی ہے‘ جب میں حاضر ہوتا فرماتے مرزائیوں کا کیا حال ہے؟ اگر کوئی خوشی کی بات بتائی جاتی‘ اکثر فرماتے: الحمدللہ! اگر ہنسی والی بات ہوتی تو ایسا ہنستے کہ تمام بدن متحرک ہوجاتا‘ 

ایک مرتبہ حاضر ہوا تو ایک نوٹ نکال کر عطا فرمایا کہ ختم نبوت کے کام کیلئے امداد میری طرف سے‘ پھر مجلس میں حاضرین کو توجہ دلائی‘ سب نے امداد کی‘ حضرت مولانا فضل احمد صاحب نے دس روپے کا نوٹ نکال کر دیا‘ فرمایا: پانچ روپے رکھ لو ‘ میں پانچ کا نوٹ واپس کرنے لگا تو حضرت نے فرمایا: واپس کیوں لیتے ہو‘ یہ بھی دے دو‘ انہوں نے وہ بھی دے دیا۔ حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری کا سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے جو قلبی تعلق تھا وہ کسی سے مخفی نہ تھا‘ بخاری صاحب کے متعلق بڑے بلند کلمات فرماتے اور ان سے اور ان کی وجہ سے ان کے خاندان سے بڑی محبت و شفقت کا برتاؤ کرتے تھے۔

 ایک مرتبہ فرمایا کہ تم بخاری صاحب کو یوں ہی نہ سمجھو کہ صرف لیڈر ہی نہیں‘ انہوں نے ابتدا میں بہت ذکر کیا ہے اور فرمایا کہ یقین تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا نصیب فرمایا ہے کہ باید و شاید۔ یہاں حالات و کیفیات کیا چیز ہے؟ اصل تو یقین ہی ہے‘ اللہ تعالیٰ جس کو عطا فرمائے… یہ محبت اور خصوصیت ان کے اخلاص اور خود فراموشی کی ایک جھلک ہے۔ (سوانح حضرت رائے پوری)

قادیانیت کی تردید اور اس کا مقابلہ کرنے والوں میں سے جو لوگ نمایاں حصہ لیتے اور جنہوں نے رات دن ایک کر رکھا تھا‘ ان سے حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری کو نہایت محبت تھی اور ان کی قدر فرماتے تھے اور ان سے اپنی محبت کا اظہار فرماتے۔ مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے بعد مولانا محمد علی جالندھری اس میں پیش پیش تھے۔ حضرت رائے پوری ان حضرات سے بڑی محبت و شفقت فرماتے تھے اور ان کا بڑا اکرام کرتے تھے۔ مولانا محمد علی جالندھری اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: 

”ایک مرتبہ صبح آٹھ بجے کے قریب لائل پور (فیصل آباد) حاضر ہوا‘ زمین پر دھوپ میں تشریف فرما تھے‘ آگے ہوکر فرش پر بیٹھنے کا حکم دیا‘ میں تھوڑا آگے ہوا تو بالکل برابر بٹھاکر کمر پر ہاتھ پھیر کر فرمایا: میرا چاند آیا“۔

حضرت مولانا محمد علی جالندھری  فرماتے ہیں، میری موجودگی میں جب حضرت کی خدمت میں دودھ پیش کیا جاتا تو فرماتے: مولوی صاحب! کو پلاؤ میں پی کر کیا کروں گا؟ یہ تو کام کرتے ہیں‘ خدام اصرار کرکے پلاتے اور کہتے کہ دودھ مولوی صاحب کو بھی پلادیں گے پھر بھی پورا نہ پیتے بلکہ چھوڑ کر فرماتے کہ مولوی صاحب کو پلادو‘ اس طرح بارہا حضرت کا تبرک ملا۔ حضرت مولانا محمد صاحب انوری تحریر فرماتے ہیں:

” آخر عمر میں حضرت اقدس شاہ عبدالقادر رائے پوری) کو ردِ مرزائیت کی طرف بڑی توجہ ہوگئی تھی‘ مولانا محمد حیات صاحب (فاتح قادیان) کو جنہیں (قادیانیوں اور لاہوریوں کی کتابیں ا زبر تھیں) بلاکر مباحث سنتے تھے اور مولانا لال حسین اختر کو بلا بھیجتے تھے‘ ‘
حضرت رائے پوری کے سوانح نگار مولانا سید ابوالحسن علی ندوی تحریر فرماتے ہیں:

”پاکستان کے دوران قیام میں دو نئی باتوں کا اضافہ ہوجاتا‘ ایک تو یہ کہ پاکستان پہنچ کر تحریک قادیانیت کے خطرات اور اس کے دور رس اثرات کا احساس (جو کبھی فراموش و نظر انداز نہیں ہوتا تھا‘ تازہ ہوجاتا اور طبع مبارک پوری قوت و ہمت کے ساتھ اس کے مقابلہ‘ تردید اور ملک کی اس سے حفاظت کی ضرورت کی طرف متوجہ ہوجاتی اور یہ مسئلہ مجالس اور گفتگو کا سب سے بڑا موضوع بن جاتا‘ علماء و زعماء احرار میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کے مقابلہ کی خصوصی توفیق عطا فرمائی ہے اور حضرت نے ان کو اس جہاد اکبر پر خود مامور فرمایا ہے) آجائیں تو ہر گفتگو ختم ہوکر بے اختیار یہی موضوع چھڑ جاتا‘ خصوصاً مولانا محمد علی جالندھری مولانا لال حسین اختر‘ اور قاضی احسان احمد شجاع آبادی کی تشریف آوری تو گویا دل کا ساز چھیڑ دیتی اور اس موضوع کے سوا کوئی دوسرا موضوع سخن نہ رہتا‘ ان حضرات کی کارگزاری سے ان کی ہمت افزائی اور تحسین فرماتے اور نئی تحقیقات و معلومات دریافت فرماتے۔ مولانا محمد حیات صاحب تشریف لاتے تو گویا ردِقادیانیت کی کتاب کھل جاتی‘ ہمہ تن گوش اور سراپا ذوق ہوکر ان کی نادر تحقیقات اور زندگی کے تجربات سنتے اور کسی طرح ان کی گفتگو سے سیری نہ ہوتی‘ حضرت کو اسی محفل میں کھل کھلا کر ہنستے اور لطف و مسرت کا اظہار کرتے دیکھا گیا‘ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری وقتاً فوقتاً مجلس کو اپنے لطائف اورقادیانیت پر تبصرہ سے زعفران زار اور باغ و بہار بنادیتے۔“(سوانح حضرت رائے پوری)

۱۹۵۳ء میں ختم نبوت کی تحریک شروع ہوئی‘ حضرت رائے پوری ہمہ تن اس کی طرف متوجہ رہے اور اس کی فکر اور اس کا اثر پورے طور پر آپ کی طبیعت‘ قویٰ فکریہ اور اعضاء جوارح پر مستولی ہوگیا‘ محمد افضل صاحب سلطان فانڈری والے کہتے ہیں کہ:

”تحریک کے زمانہ میں آپ ایک مرتبہ اپنے وطن ڈھڈیاں تشریف لائے ہوئے تھے‘ پنجاب کے ایک مشہور عالم کہیں قرب و جوار میں تشریف لائے تھے‘ حضرت کی موجودگی کی اطلاع پاکر زیارت کے لئے ڈھڈیاں آئے‘ آپ کی نگاہ جب ان پر پڑی تو آپ بڑے ذوق و شوق کے ساتھ ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہوگئے‘ اس وقت لاہور تحریک کا مرکز تھا اور یہاں گاؤں ہونے کی وجہ سے دیر میں خبریں پہنچتی تھیں‘ آپ کو خیال تھا کہ (یہ عالم دین) دورہ کرتے ہوئے آرہے ہیں‘ ان کو تازہ حالات کا علم ہوگا‘ آپ نے بڑے اشتیاق کے ساتھ ان سے تحریک کی رفتار اور لاہور کے حالات سے متعلق دریافت فرمایا‘ انہوں نے لا علمی کا اظہار کیا جس سے بے توجہی اور عدم دلچسپی کا اظہار ہوتا تھا‘ حضرت بہت مایوس اور پژمردہ ہوئے کہ یہ شہر سے آرہے ہیں‘ کچھ تازہ حال سنائیں گے مگر یہ تو بالکل ناواقف اور بے تعلق نکلے۔“ (سوانح حضرت رائے پوری)

اس واقعہ سے حضرت رائے پوری کی عقیدہ ختم نبوت‘ تحفظ ختم نبوت اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے علماء کے ساتھ والہانہ محبت کا اظہار ہوتا ہے۔


No comments:

Post a Comment