-scale=1.0,minimum-scale=1.0,maximum-scale=1.0" : "width=1100"' name='viewport'/> صدائے قلندر: بکھرے موتی

Tuesday, 13 September 2011

بکھرے موتی

سہیل تستری فرماتے ہیں کہ ہمارے اصول سات چیزیں ہیں

 (3)کتاب الٰہی کو مظبوط پکڑنا (1)سنت نبویہ کا اتباع کرنا،(2)اکل حلال،

(6)مخلوق کوایذاپہنچانے سے بازرہنا،(4)گناہوں سے بچنا ،(5)توبہ کرنا ،

(7)اور جملہ حقوق کااداکرنا 
عمل کی درستگی کیلئے علم ضروری ہے خصوصاًعلم فقہ کو نمازوروزہ وغیرہ عبادات میں سنت وفرض اور واجب ومستحب معلوم کرے اور معاملات میں حرام وحلال اور مکروہ کوجانے پس سالک کیلئے لازم ہے کہ عقائد کی تصحیح کے بعد سب سے پہلے جس قدر ممکن ہومسائل فقہیہ معلوم کرے چنانچہ بعض صوفیاء کا قول ہے کہ عمل بغیر علم کے سقیم وبیمار ہے اور علم بلا عمل کے عقیم وبیکار ہے اور علم مع عمل کے صراط مستقیم وراہ استوارہے
 ابوسلیمان دارانی کاارشاد ہے کہ جس عمل سے دنیا میں حضور قلب وخضوع کی حالت نہ پیداہو وہ آخرت میںبھی نافع نہ ہوگا


 (۴)صوفیا ء کرام نے طلب علم کو تمام اعمال میں افضل قرار دیا ہے کیونکہ عمل کرنا علم ہی پر موقوف ہے اور بسااوقات  بے علم شخص کبھی عقیدے میں غلطی کھاتا اوربدعت کوسنت اور باطل کوحق سمجھتاہی،چنانچہ بتہیرے فرقے داڑھی منڈاتی اور لوہے کے حلقے چوڑیاں یاطوق بناکر پہنتے ہیں اور دیگر امور قبیحہ کواپناطریقہ بنالیاہے اور اسکو وصول الی اللہ کاذریعہ سمجھے ہوئے ہیں اور کبھی بے علم شخص عمل میں لغزش کھاتا ہے کہ اطاعت اسکی بربادہوجاتی ہے اور بے علمی کے سبب اسکو پتہ بھی نہیں چلتا کہ عمل برباداور محنت ضائع جارہی ہے ۔یہ ظاہرہے کہ حق تعالیٰ درست اور خالص عمل کو قبول فرماتاہے اور کوئی عمل جب تک شریعت کے موافق نہ ہو خالص نہیں ہوسکتا اور خالص اس عمل کا نام ہے جو خاص حق تعالیٰ کے لئے ہو اور ان تمام باتوں کا جاننا علم ہی پر موقوف ہی

سہیل تستری فرماتے ہیںکہ متکبر وغافل اور ضعیف دین والے قاری اور جاہل صوفی کی صحبت سے تیر کی طرح بھاگناچاہیے کہ ان کے پاس بیٹھنا بھی دینی مضرت سے خالی نہیں چاہے 

طریقت کی کسوٹی قرآن وسنت اور اجماع امت ہے کہ جو طریقہ اس معیار پر چسپاںہوکر کھراثابت ہو وہ مقبول ہے ورنہ مردود ومطرود

 بتہیرے طالب اس راستہ (سلوک واحسان )میں بددینوں کااتباع کرکے ہلاک ہو چکے ہیں۔بلکہ سچ پوچھو تو اس راستہ میں اکثر بربادی صرف اسی کی بدولت آتی ہے کہ شیخ کامل کی تلاش پوری نہیں کرتی

پس جو شیخ اجماع امت وکتاب وسنت کے موافق عقائد رکھتا ہو بایں ہمہ طریقت وحقیقت کے علم کا بھی ماہر ہو وہ بے شک شیخ بنانے کا قابل ہے اور مبتدی طالب کو اسکی حقانیت اور مہارت کاحال اسکے مریدوں کے حالات اور ہم عصر ثقہ ودیندار لوگوں کی زبانوں سے دریافت کرنا چاہیے (کہ اسکے مریدوں کے دین کی پختگی اور اتباع شریعت میں کیاحالت ہے اور صلحاء زمانہ اسکے متعلق کیا کہتے ہیں )

سواگر علماء وقت اس پر معترض نہ ہوں بلکہ بعض اہل علم اور سمجھ دار صلحاء اوربوڑھے جوان اہل دانش اس سے فیض بھی حاصل کرتے ہوں ،دینی محبت رکھتے ہوں اور طریقت وحقیقت میں مستندتسلیم کرتے ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ در حقیقت وہ راہ حق کا ماہر ہے (پس اسکا دامن پکڑلینا چاہیی) ۔

No comments:

Post a Comment