-scale=1.0,minimum-scale=1.0,maximum-scale=1.0" : "width=1100"' name='viewport'/> صدائے قلندر: علامہ علی شیر حیدری شہید

Sunday 25 September 2011

علامہ علی شیر حیدری شہید


امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اصحاب و ازواجِ رسول علیہم الرضوان کے مقام ومنصب اور ناموس کے تحفظ کے لیے جاں نثاروں اور فدا کاروں کا ایک قافلۂ سخت جاں ترتیب دیا تھا۔ علی شیر اُسی قافلۂ حق، سپاہِ صحابہ کا پانچواں سپہ سالار تھا۔
میری اُن سے چند ہی ملاقاتیں ہیں جو یادگار بھی ہیں اور ناقابلِ فراموش بھی۔ میں نے اپنی چالیس سالہ تحریکی زندگی کے سفر میں کئی رہنماؤں کو دیکھا اور سنا۔ اُن میں سے بعض شخصیتوں کے دوہرے رُخ نے بہت مایوس کیا۔ خود ساختہ تقدس اور تصنع کے پردوں میں زیادہ دیر چھپا نہیں جا سکتا۔ لیکن جن شخصیتوں کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے اور زبان دل کی رفیق ہوتی ہے اُن کا نقشِ اوّل، نقشِ لافانی ہوتا ہے۔ علامہ علی شیر حیدری شہید انھی میں سے ایک تھے۔
وہ خالصتاً علمی مزاج رکھنے والے ایک عالم با عمل، درویش خدا مست، منفرد خطیب، جری اور بہادر اور ناموسِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دفاع کے لیے بے جگری سے لڑنے والے ایک عظیم مجاہد تھے۔ وہ سپاہی بھی تھے اور سپہ سالار بھی۔ قائد و رہنما بھی تھے اور پیکرِ ایثار کارکن بھی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا۔
میں نے جب انھیں پہلی مرتبہ دیکھا تو اُن کا تعارف نہیں تھا۔ وہ اپنے کارکنوں میں یوں گھلے ملے ہوئے تھے کہ پہچانے نہیں جاتے تھے۔ جب وہ کارکنوں سے ہم کلام ہوئے اور سب اُن کی طرف متوجہ ہوئے تو وہ پہچانے گئے۔ یہ ایک نجی محفل تھی۔ وہ بول رہے تھے، سوالات کے جوابات نہایت تحمل سے دے رہے تھے اور علم کی روشنی سے ماحول بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ محویت کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص ہمہ تن گوش تھا۔
دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ ابنِ امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عیادت کے لیے دارِ بنی ہاشم ملتان تشریف لائے۔ یہ جون ۱۹۹۹ء کی ایک شام تھی۔ حضرت شاہ جی شدید علیل تھے اور یہ اُن کا مرض الوفات تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نمازِ مغرب کے بعد وہ تشریف لائے۔ حضرت شاہ جی پاؤں لٹکائے چارپائی پر بیٹھے تھے کہ اچانک حسین و جمیل اور وجیہہ شکل و صورت کا ایک جوانِ رعنا زمین پر ہی اُن کے قدموں میں آ کر بیٹھ گیا۔
اپنے دونوں ہاتھ شاہ جی کے گھٹنوں پر رکھے اور نظر اُن کے چہرے پر جماتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔’’فقیر علی شیر حیدری‘‘۔۔۔ شاہ جی نے اُن کے ہاتھوں کو پکڑ کر اٹھانے کی بہت کوشش کی کہ وہ چارپائی پر تشریف رکھیں مگر علی شیر کہہ رہے تھے:
’’شاہ جی! آپ ہمارے مخدوم ہیں میری جگہ آپ کے قدموں میں ہے۔ آپ کے والد حضرت امیر شریعت آپ کے بڑے بھائی حضرت ابوذر بخاری  اور آپ سے ہم نے دفاع و مدحِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا سبق سیکھا۔ میرے پیش رو مولانا حق نواز شہید، مولانا ایثار القاسمی شہید، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی شہید اور مولانا اعظم طارق شہید(تب مولانا اعظم طارق حیات تھے) سب آپ کے خاندان کے مدّاح تھے۔ میں بھی سادات کا محب اور خانوادہ امیر شریعت کا خوشہ چین ہوں۔ اُسی راہِ حق کا مسافر اور شہادت کا طلبگار ہوں جس پر چلتے ہوئے میرے رفقاء صحابہ کی آبرو پر قربان ہو گئے۔‘‘
علی شیر کی آنکھوں میں حُبِ رسول اور حُبِ ازواج و اصحابِ رسول علیہم الرضوان کی ایمانی چمک تھی۔ سرخ و سفید چہرہ نور ایمان سے روشن تھا، لبوں پر دلنواز تبسم اور کشادہ پیشانی پر شب کی خلوتوں میں سجدہ ہائے اخلاص کے نشانات تھے۔ وہ دیر تک شاہ جی کے چہرے کو دیکھتے رہے پھر اُن کی آنکھوں سے محبت و خلوص کے چشمے رواں ہو گئے۔ وہ شاہ جی کی گرتی ہوئی صحت کو دیکھ کر بہت غم زدہ ہوئے اور پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا۔ شاہ جی نے اُنھیں اٹھایا اور اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ پھر گفتگو شروع ہو گئی۔
* مقام و منصبِ صحابہ رضی اللہ عنہم، قرآن و حدیث میں
* مُشاجراتِ صحابہ میں اہل سنت کا مؤقف و مسلک
* قرآن و حدیث کے مقابلے میں تاریخ کو مستند قرار دینے کی سازش
* قرآن و حدیث کو چھوڑ کر تاریخ کی مکذوبہ روایات کی بنیاد پر صحابہ پر تنقید
* قصہ گو اور کہانی باز واعظوں کی جہالتوں سے عامۃ المسلمین کے نقصانات
ایسے کئی عنوانات اور موضوعات تھے جن پر گفتگو ہوتی رہی۔ علی شیر سوالات کرتے اور شاہ جی جوابات دیتے۔ اس وقت علامہ ابنِ تیمیہ کی ایک کتاب (’’مختصر فتاویٰ‘‘) شاہ جی کے سرہانے رکھی تھی۔ اس میں سے مختلف مقامات شاہ جی نے علامہ علی شیر کو دکھائے۔ بعض صفحات علامہ شہید نے فوٹو کاپی بھی کرائے۔

مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور حوصلہ بھی ملا کہ تصنع، تقدس اور شخصیت سازی کے اس مکروہ ماحول میں علی شیر جیسا عالم بھی ہے جو قصہ گوئی اور کہانی سازی سے کوسوں دور ہے۔ وہ علم و تحقیق کے میدان کا شناور ہے۔ علم نے اُسے حلم سے آشنا کر دیا۔ حوصلے و صبر سے ہمکنار کر دیا اور جہد و ایثار میں بے پناہ کر دیا۔ وہ شاہ جی سے مل کر رخصت ہونے لگے تو شاہ جی کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کے موتی برسنے لگے۔ جو رخساروں سے لڑھکتے ہوئے اُن کے دامن میں جمع ہو رہے تھیہو رہے تھے۔ یہی وہ خلوص ہے جسے محبت کی جمع پونجی کہا جاتا ہے۔




ہر سال ستمبر  میں لاہور میں سپاہ صحابہ کی عظیم الشان کانفرنس ہوا کرتی تھی۔ متعدد بار مجھے بھی وہاں خطاب کی سعادت ملی۔ ایک مرتبہ اسی کانفرنس میں حاضر ہوا تو نعرے گونج رہے تھے ’’آیا آیا شیر آیا‘‘ میں سوچ رہا تھا کہ

کس شیر کی آمد ہے کہ رَن کانپ رہا ہے
اور چند لمحوں بعد علی شیر آ گیا۔ پھر شیر دھاڑا، خوب گرجا اور برسا۔ اس نے اپنے سوز دروں اور شعلہ بیانی سے دشمنانِ صحابہ کے خرمنِ باطل کو پھونک ڈالا اور اُن پناہ گاہوں کو خاکستر کر دیا جہاں سبائی منافق چھپ کر سازشیں کرتے۔
علامہ علی شیر حیدری سے آخری ملاقات ایک سفر میں اس وقت ہوئی جب وھاڑی سے ملتان آتے ہوئے سڑک کے کنارے ایک پٹرول پمپ پر ہم رُکے تو سامنے کھڑی ایک گاڑی سے نکل کر وہ میری طرف بڑھے۔ حلیہ کچھ ایسا تھا کہ میں پہلی نظر میں پہچان نہ سکا، پولیس اُن کے تعاقب میں تھی اور انھیں بہر صورت اپنی منزل پہ پہنچنا تھا۔ بعض لوگ ایسے ہیں کہ معانقہ کریں تو دوسرے کا سینہ خالی کر دیتے ہیں لیکن علی شیر نے جس خلوص سے معانقہ و مصافحہ کیا میرے دل و دماغ کو اُنس و محبت سے بھر دیا۔
۱۷اگست ۲۰۰۹ء کو علی شیر بھی قافلۂ شہداء سے جا ملا۔وہ عظمتِ صحابہ کے گیت گاتا ، ناموسِ صحابہ کے ترانے سناتا اور کردارِ صحابہ کے علم لہراتا خون میں نہا کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگیا ۔
آہ! کیا انسان تھا۔ جو اماں عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کی عزت و عصمت پر قربان ہو گیا۔ سچے بیٹے ماؤں کی حرمت پر یوں ہی فدا ہوتے ہیں۔ تاریخ اُن کی فداکاری اور وفاداری پر ہمیشہ ناز کرے گی۔علی شیر کی حق گوئی اور فدا کاری پرامہات المؤمنین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ارواح کتنی خوش ہوئی ہوں گی ۔صحابہ کی پاکیزہ ارواح نے علامہ علی شیرشہیدکا استقبال کیا ہوگا ۔وہ قبر میں بھی پُرسکون نیند سورہے ہوں گے اور قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحق بنیں گے ۔
مجھے یقین ہے کہ خلفاء راشدین، امہات المؤمنین، بناتِ طاہرات اور تمام صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے روحانی بیٹے علی شیرشہید کی مغفرت کی سفارش کریں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے اِس صالح بندے کو جنت کے انعامات سے نوازیں گے۔ (ان شاء اللہ)
اللہ تعالیٰ نژادِ نو کو اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ دفاع و مدحِ صحابہ کے مشن کے علم برداروں کو علامہ علی شیر حیدری شہید رحمۃ اللہ علیہ کا سوزِ دروں ، عزم و ہمت، استقلال و استقامت، صبر و وفا اور شوقِ جہدِ مبین عطاء فرمائے (آمین)
ب شکریہ  ۔ ۔ ۔ ۔  تقیب ختم نبوت  ۔ ۔ ۔سید محمد کفیل بخاری

1 comment:

  1. علامہ شہید بلا شبہ ایک عظیم انسان عظیم مجاہد عظیم لیڈر تھے

    ReplyDelete