-scale=1.0,minimum-scale=1.0,maximum-scale=1.0" : "width=1100"' name='viewport'/> صدائے قلندر: شاہ اسماعیل شہید اکابر اہل علم کی نظر میں

Tuesday 24 January 2012

شاہ اسماعیل شہید اکابر اہل علم کی نظر میں


حجة الاسلام ،فخرالمحدثین حضرت مولانا شاہ محمد اسماعیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ21 ربیع الآخر 1193ھ (اپریل1797ء)کو اپنی ننھیال پھلت ضلع مظفر نگر میں پیدا ہوئے۔آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی محترمہ فاطمہ بتایا گیا ہے۔ وہ مولوی علاﺅ الدین پھلتی کی صاحبزادی تھیں اور آپ کے والد مولانا شاہ عبدالغنی صاحب حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے دوسری بیوی سے سب سے چھوٹے بیٹے اورشاہ عبدالعزیز،شاہ رفیع الدین اورشاہ عبدالقادررحمہم اللہ کے چھوٹے بھائی تھے۔
شاہ اسماعیل شہیدصاحب ایک جید عالم ،دینی مفکر،قاطع بدعت،بلند پایہ مبلغ اور عظیم مجاہد تھے ۔ وہ غیر معمولی علمی وسعت کے مالک ،ذہین وفریس ،دین سے انتہائی محبت رکھنے والے اور متقی وپرہیز گار تھے۔ اسلام کی تبلیغ کے لیے حیرت انگیز شجاعت،قلبی واخلاقی بلندی اور بے پناہ بصیرت کے مالک تھے۔آپ کے ان اعلیٰ اخلاق واوصاف اوربلندپایہ صفات وکمالات کاخودآپ کے یگانہ روزگارچچااورخاتم المحدثین شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی اوردیگراکابراہل علم اورتذکرہ نگاروں نے بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیاہے۔ذیل کی چندعبارات سے اس حقیقت کابخوبی اندازہ ہوسکتاہے۔

شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی کاارشاد:


حضرت شاہ اسماعیل جب اپنے بعض رفقاءکے ساتھ وعظ ونصیحت کے لیے لکھنو ¿ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے ان کی بعض باتوں کواجنبی سمجھا اس پرا یک بزرگ مولوی خیر الدین صاحب نے جناب شاہ عبدالعزیز صاحب کے حضور ایک فتویٰ بھیجا جس کے آخر میں اصلی مقصد بھی تحریر کیا کہ مولانا اسماعیل وغیرہ جس سفر پر نکلے ہیں کیا انہوں نے یہ سفر آپ کی اجازت سے شروع کیا ہے یا اپنے ارادے سے نیز حج کی فرضیت سے متعلق جوموقف انہوں نے پیش کیاہے آپ اس سے متفق ہیں یانہیں؟اس کے جواب میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے یہ الفاظ لکھے:
”دوسرے جواب کا مضمون تاج المفسرین، فخر المحدثین ،سرآمد علمائے محققین، مولوی عبدالحئ صاحب ومولوی اسماعیل صاحب کا لکھا ہوا ہے اور احادیثِ قویہ اور اصول و فقہ کی معتبر کتابوں کے موافق ہے چنانچہ ان کی مہر اور دستخط کے مقابل میں نے بھی اپنی مہر تصدیق ثبت کردی ہے ملاحظہ فرمالیں تاکہ اطمینان کلی ہو جائے۔
ایسی صورت میں کہ عزیزانِ موصوف کی مہر اور دستخط موجود تھے اِس استفتاءکے میرے پاس بھیجنے کی ضرورت نہ تھی اس لئے کہ یہ دونوں علم تفسیر وحدیث وفقہ واصول و منطق میں مجھ سے کم نہیں ،ان کی مہر اور دستخط گویا میری مہر اور دستخط ہیں ،اللہ تبارک وتعالیٰ کی جو عنایت اِن دونوں عزیز فاضلوں کے شاملِ حال ہے ،اس نعمتِ عظمیٰ کا شکر مجھ سے ادا نہیں ہو سکتا، حق تعالیٰ ان کو اس سے بھی بلند مراتب پر فائز فرمائے، ان لوگوں کے حق میں جو اصل شریعت کے واضح کرنے والے ہیں تمام مومنین کا حق تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنا خود ان کے لئے نجات اخروی کا باعث ہے۔ میرے دوست! مولوی عبدالحی اور مولوی اسمعیل کو علمائے ربانی میں شمار کرنا چاہئے،میرے کرم فرما! اگرچہ ان کلمات سے بظاہر اپنی تعریف نکلتی ہے لیکن امرِ حق کا اظہار واقفوں پر واجب ولازم ہے لہٰذا حق کے معاملے میں چشم پوشی مناسب معلوم نہ ہوئی ،دونوں استفتا ءخط کے ساتھ پہنچیں گے ان کے رسید سے مطلع فرمایا جائے اس وقت ضعف کی وجہ سے اتنے ہی پراکتفا کی گئی اور دونوں کے مجمل کلام کی موجودگی میں میری تفصیل کی چنداں ضرورت بھی نہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے معاش ومعاد میں برکت عطا فرمائے“۔
(تاریخ دعوت وعزیمت)

اس کے علاوہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے یہ الفاظ بھی شاہ اسماعیل شہید کی وسعتِ علم اور فراوانی معلومات پر دلالت کناں ہیں،حضرت شاہ عبدالعزیز آپ کی اورحضرت شاہ محمداسحاق کی مساعی ¿ جمیلہ سے خوش ہو کر اللہ کے حضور ہاتھ اٹھاتے اور فرماتے:
”الحمدللّٰہ الذی وہب لی علی الکبر اسمعیل واسحق“(تاریخ دعوت وعزیمت)
مولوی رحمان علی مولف تذکرہ علمائے ہند:
مولوی رحمان علی صاحب جن کی کتاب تذکرہ علمائے ہند،اہل علم کے حالات وواقعات کاایک معروف اوروقیع مجموعہ ہے ،اس میں انہوں نے حضرت شاہ اسماعیل شیہد کی علمی بلندی کے متعلق درج ذیل الفاظ لکھے ہیں:
”ابن مولوی عبدالغنی ،بن مولانا شاہ ولی اللہ درریاضت ورسائی فکر یگانہ روزگار ومشارالیہ علمائے کباربود“
یعنی شاہ عبدالغنی کے یہ فرزند اور شاہ ولی اللہ کے پوتے دیانت اور فہم وفکر میں یگانہ روزگار تھے، حلقہ علمائے کبار میں مشار الیہ تھے۔
نواب صدیق حسن خان مرحوم:
نواب صدیق حسن خان مولانا اسماعیل شہید کی عظیم شخصیت کا اِن الفاظ میں اعتراف کرتے ہیں:
”درعلوم معقول ومنقول یاد پیشینیاں از خاطر می برد۔درعلم فروع واصول ائمہ آں را دور ترمی نشاند درہر علم کہ با او سخن رانی،دانی کہ وے امامِ ایں فن است ودر ہر فن کہ باوے مناظرہ کنی شناسی کہ وے حافظ ایں علم است۔ اصول فقہ برنوک زبان داشت وعلم حساب درانگشتاں ،قرآن وحدیث خودمحفوظ سینہ ¿ اوبودوفقہ ومنقول مشق دیرینہ....تمام عمر خود رادر اعلائے کلمة اللہ واحیاءسنن رسول اللہ وجہاد فی سبیل اللہ وہدایت خلق اللہ گزرا نیدودمے باآرام درجائے ازبلاد اسلام نیا سود“۔
ترجمہ:علوم معقول ومنقول میں پہلوں کی یاد بھلا دیتے تھے۔ فروغ واصول میں ائمہ کو پرے بٹھا دیتے تھے ۔ جس علم میں ان سے بات کرو گے جان لو گے کہ وہ اس فن کے امام ہیں اور جس فن میں ان سے مناظرہ کی نوبت آئے گی پہچان لو گے کہ وہ اس کے حافظ ہیں۔اصول فقہ نوک زبان تھااورقواعد حساب کوچٹکیوں میں حل کردیتے تھے علوم قرآن وحدیث ان کے سینے میں محفوظ تھے اورفقہ ومنقول میں انہیں پوری مشق حاصل تھی .... ساری عمر خدا کے کلمے کی بلندی رسول اللہ ﷺکی سنتوں کے احیاء، خدا کی راہ میں جہاد اور خلق خدا کی ہدایت میں گزار دی، کسی مقام پر ایک لمحے کے لیے بھی آرام نہ فرمایا“

شاعراسلام علامہ اقبال کافرمان:




شاہ محمد اسماعیل کے بعد ہندوستان میں ان کے مرتبے کا کوئی شخص پیدا نہیں ہوا۔ علامہ اقبال مرحوم کا فرمان ہے:
”ہندوستان نے ایک مولوی پیدا کیا اور وہ مولوی شاہ محمد اسمعیل کی ذات تھی“
(Abdullah Butt,Aspects of Shah Ismail Shadeed.)
مولوی عبدالقادررام پوری کااعتراف:
شاہ صاحب کی عظیم المرتبت شخصیت بے شمار اوصاف کی حامل تھی ۔ آپ اعلیٰ مرتبے کے فقیہ ،بہترین مقرر اور عمدہ عادات کے مالک تھے۔ ان کے متعلق علم وعمل میں مولوی عبدالقادر رام پوری نے یوں نقل کیا ہے:
”دادا اور چچاﺅں کی یاد گار مولوی محمد اسماعیل ہیں جو ذہن کی جودت اور قوت توجیہ میں بے مثل ہیں۔ خدااِن کا نگہبان رہے“۔(وقائع عبدالقادر خانی ،علم وعمل )

مولانافضل حق خیرآبادی کا خراج تحسین:



مولانا فضل حق خیر آبادی اختلاف افکار کے باوجود شاہ اسمعیل کے علم وخلوص اور بلندی اخلاق کے انتہائی قائل تھے ۔”امیر الروایات“ میں ہے:
”مولوی عبدالرشید صاحب غازی پوری ،رام پور میں مولوی فضل حق سے پڑھتے تھے۔ یہ( عبدالرشید) ایک مرتبہ کہیں جا رہے تھے اتفاق سے ان کے ایک دوست مل گئے ۔ ان دوست نے ان سے کہا کہ چلو مولوی فضل حق صاحب کے یہاں چلیں تم ان (مولانا اسمعیل صاحب) کے معتقد ہو۔ آج تمہیں تمہارے استاد سے ان پر تبرے سنوائیں گے۔ انہوں نے کہا چلو۔ یہ دونوں وہاں جا کر بیٹھے تو مولوی عبدالرشید صاحب نے کہا حضرت !یہ مجھے یہ کہہ کر لائے ہیں کہ مولوی صاحب سے تمہیں مولوی اسمعیل پر تبرّے سنواﺅں گا ۔ مولوی فضل حق صاحب نے کہا”اچھا!اس غرض سے لائے ہیں،یہ کہہ کر ان پر بہت ناخوش ہوئے اور فرمایا :میں اور مولوی اسمعیل پر تبرّا کروں؟یہ نہیں ہو سکتا اور یہ کہہ کر ان کو اپنی مجلس سے اٹھو ا دیا اور فرمایا کہ میرے یہاں کبھی نہ آنا“۔(امیر الروایات ،ص ۶۲۱)
اسی طرح جب شاہ اسماعیل شہیدکی شہادت کی خبرہندوستان پہنچی تواس وقت مولانافضل حق صاحب نے ان کی عظمت وبلندی اورعلم وعمل کے متعلق جو الفاظ فرمائے وہ بھی اعتراف عظمت اوراظہارحقیقت کااعلی نمونہ ہیں۔فضل حسین بہاری تحریرفرماتے ہیں:
مولانا فضل حق خیر آبادی علم منطق میں اتنی مہارت رکھتے تھے کہ افلاطون اورسقراط وبقراط کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ۔ وہ مولوی شہید کے معاصر اور بعض مسائل کی تعبیر میں ان کے مخالف تھے۔ جب دہلی میں ان کی بالاکوٹ میں شہادت کی خبر ان کے پاس پہنچی تو طلباءکو درس دے رہے تھے اور مولوی غلام یحییٰ ان سے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے شاہ صاحب کی شہادت کی خبر سنتے ہی انہوں نے کتاب بند کردی ۔ سناٹے میں آگئے اور دیر تک خاموش بیٹھے روتے رہے ۔ اس کے بعد ان کے یہ تاریخی الفاظ ہمیشہ کے لیے لوح قرطاس پر نقش ہو گئے:
”اسمعیل کو ہم مولوی نہیں جانتے تھے بلکہ وہ امت محمدیہ کا حکیم تھا۔کوئی شے نہ تھی جس کی اِنِّیّت اور لِمِّیّت اس کے ذہن میں نہ ہو ۔امام رازی نے اگر علم حاصل کیا تو دودچراغ کھا کر اور اسماعیل نے محض اپنی قابلیت اور استعداد خداداد سے“(الحیاة بعد المماة )

حضرت شاہ عبدالغنی محدث دہلوی رحمہ اللہ:



حضرت شاہ عبدالغنی محدث دہلوی کا نام نامی کس صاحب علم سے مخفی ہوگا؟خاندان مجددیہ کے چشم و چراغ ، شاہ ابو سعید مجددی کے صاحبزادے اور خاندان شاہ ولی اللہ کے علمی وارث ہیں ۔ علماء دیوبند کا سلسلہ علمی انہی کے واسطے سے شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی سے جڑتا ہے ۔ انہوں نے حضرت شاہ غلام علی مجددی دہلوی کے حالات میں ایک مختصر رسالہ تحریر کیا ہے اور چوں کہ آپ کے والد حضرت شاہ ابوسعید مجددی ان کے ممتاز ترین خلیفہ تھے اس لئے ان کے خلفاء کے تذکرے میں ان کا تذکرہ کیا ہے ۔ اس تذکرے میں اپنے دادا حضرت شاہ صفی القدر مجددی کے بارے میں لکھتے ہیں:
ان (حضرت شاہ صفی القدر( کی وفات دو شنبہ 29 شعبان 1236 ھجری کو بلدہ لکھنو میں ہوئی ان کی تاریخ وفات ’’فاز رضوان المودود‘‘ ہے ۔ سیداحمد صاحب اور مولوی اسماعیل شہید اور دوسرے عزیزوں نے خود ان کی تجہیز و تکفین کی۔(مقامات مظہری ، ص543(
اس پورے اقتباس سے ان حضرات کے حضرت سیداحمدشہید اور شاہ اسماعیل شہید کے تعلقات کی جو قربت اور اپنائیت واضح ہورہی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہو سکتی ۔

آخر میں بارگاہ الہی سے یہ التجاء ہے کہ:
احب الصالحین و لست منہم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا

1 comment:

  1. اللہ ہمیں بھی دین اسلام کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے


    آمین

    ReplyDelete